مُتفرّقات

٭ مچھلی، پانی اور مولوی، لاؤڈ سپیکر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
٭ درشت مزاجی کو ۔۔"میں تو صاف بات کرتا ہوں"۔۔ میں نہ چھپائیں۔
٭ قابلیت کے بغیر ایمانداری، گولی کے بغیر بندوق ہے۔
٭ عقیدت، عقل کا کینسر ہے.
٭ گمان کو حقیقت اور پھر اس کو ایمان سمجھ لینا، پاگل پن کا اعلی ترین درجہ ہے.
٭ سب سے مہلک سراب، اپنی اہمیت کا احساس ہے.
٭ عبادت بہرحال نہایت ذاتی معاملہ ہے.. محبت کی طرح
٭ حماقت کا دفاع نہیں ہوسکتا صرف پیروی ہوسکتی ہے۔
٭ صرف وہ گرنا اہمیت رکھتا ہے جس کے بعد آپ اٹھ نہ سکیں۔
٭ طیش کو سستا نہ کریں۔
٭ تبلیغ، عمل کا نام ہے، خطبوں کا نہیں۔
٭ مسلسل انتظار میں گزری زندگی ، پرندے کی قفس سے محبّت کا استعارہ بن جاتی ہے۔
٭ چلے جانے والوں اور چھوڑ جانے والوں کی یاد میں دل اس ادھ جلے کوئلے کی طرح ہوجاتا ہے جو ذرا سی ہوا پا کر دھک اٹھے۔۔۔
٭ ممدوح کی شان بیان کرتےہوئے کسی کو گالی دینے کی ضرورت پڑجائے تو یہ گالی اصل میں ممدوح کے لیے ہی ہوتی ہے۔
٭ کم گو کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے۔
٭ پرہیزگاری کے شدید احساس کو فاشزم کہتے ہیں۔
٭ پچھتاوے کا کوئی علاج نہیں۔
٭ اعلی ترین اخلاقی اقدار کا پرچار، دودھاری تلوار ہوتا ہے۔
٭ سکھانے والا ہی سیکھتا ہے۔
٭ ملحدین، زنادقہ، روافض۔۔۔ اگر ان کا مطلب پتہ نہ ہو تو کیسے عمدہ لفظ لگتے ہیں۔
٭ وہ اپنے مُنکر سے جینے کا حق نہیں چھینتا، ہم آپ کیسے چھین سکتے ہیں؟
٭ فوری ردّعمل، ناپختگی کی نشانی ہے۔
٭ فنکار مرد اور خود مختار عورت۔ دونوں جنسِ مخالف کے لیے مرعوب کُن ہوتے ہیں۔
٭ مطلقہ خاتون اور شادی شدہ مرد کا المیہ ایک جیسا ہے۔ دونوں کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔
٭ دنیا، نظریات کی بجائے ضروریات پر چلتی ہے۔
٭ بجٹ اور محبوب کے وعدے ایک سے ہوتے ہیں۔
٭ سانپ کو مارنے کے لیے لاٹھی ٹوٹنے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔
٭ محبّت کرنے والے کو وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی اور نفرت کرنے والا اس کا حقدار نہیں ہوتا۔
٭ نااہلی کا خسارہ ایمانداری بھی پورا نہیں کرسکتی۔
٭ اگر آپ نے زندگی میں صرف نصابی کُتب پڑھی ہیں تو یقین جانیے آپ جاہل ہیں۔