ٹوٹے

وہ ایک دبلا پتلا، پست قامت  شخص تھا۔ اس کے ہونٹ ،  عادی تمباکونوش ہونے کی گواہی دیتے تھے۔ ماتھا کافی وسیع و عریض تھا۔ بچے کچھے بال پیچھے کی طرف بنائے گئے تھے اور اس بناوٹ میں تیل کا وافر استعمال کیا گیا تھا۔جسم کی مناسبت سے سرکافی بڑا تھا۔ سلطان راہی کی کسی فلم میں اگر خلائی مخلوق کو دکھایا جاتا تو اس سے بہتر اداکار ملنا مشکل تھا۔   پہلی نظر میں اس کا تاثر  بیان کرنے کے کے لیے ، چلتا پُرزہ ایک مناسب ترکیب  لگتی تھی۔  اس  نے سگریٹ سلگا کر انگلیوں کے درمیان پھنسایااور  مُٹھّی بندکر کے ایک طویل کش لگایا اور اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ایک فربہ اندام شخص سے مخاطب ہوا۔  "شیخ صاحب، آپ شاداب کالونی کے مین چوک میں جا کر کسی بھی  دکان دار سے پوچھ لیں کہ محمد حسین حرام دا کہاں رہتا ہے، وہ آپ کو میرے گھرتک چھوڑ جائے گا"۔  یہ کہہ کر اس نے داد طلب انداز میں شیخ صاحب کی طرف  دیکھا اور مُٹھّی بند کرکےکش لگانے لگا۔
 ___________________________________________________________________________________________

"اچھا! پھر کیا ہوا"۔ 
"ہونا کیا تھا،  جب ہم میچ شروع ہونے سے پہلے گراونڈ میں اترے اور وارم اپ ہونے کے لیےگراؤنڈ کا  چکر لگایا تو دوسری طرف بیٹھے ہوئے شائقین میں  مجھے دو تین انگریز نظر آئے"۔ عتیق نے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے اپنا بیان جاری رکھا ۔ " میں نے  ان کو  (ہاتھ سے ایک اشارہ کرتے ہوئے) کیا"۔ حماقت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر خباثت بھی نظر آنے لگی تھی۔ "انگریزوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے پاس بلایا۔ میں ان کے پاس گیا تو ایک بڈھے سے انگریز نے پوچھا کہ وٹ یو ڈد ود یور ہینڈ؟ میں نے کہا کہ  اٹ مین ویلکم ویلکم۔ وہ بابا بڑا خوش ہوا اور مجھ سے میرا  اور سکول کا نام پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ تمہارا کوچ کون ہے اور کہاں بیٹھا ہے۔ میں نے نواز صاحب کی نشاندھی کی تو اس نے کہا کہ جب تم اپنے کوچ کے پاس جاؤ تو اسے ہماری طرف متوجہ کرنا"۔  عتیق کے جھاگوں بھرے جملوں سے اپنے منہ بچاتے ہوئے ،رنگیلے نے   اسے ٹہوکا دیا  کہ آگے بھی بک۔  عتیق نے رنگیلے کے رنگ کو اس کے آباؤ اجداد کی خوراک  کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اپنا بیان دوبارہ شروع کیا۔ " میں ، نواز صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں کہا کہ وہ جو سامنے انگریز بیٹھے ہیں، وہ آپ کے بارے پوچھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اپنے کوچ کو ہماری طرف متوجہ کرنا۔ نواز صاحب نے دندیاں نکالیں اور  ان گوروں کی طرف دیکھ کے ہاتھ ہلایا۔ جوابا ان گوروں نے  وہی اشارے کرنے شروع کردئیے جو میں ان کو کررہا تھا۔ نواز صاحب  کی اچانک ایسی حالت ہوگئی  جیسے پی ٹی صاحب کو دیکھ کے ہماری ہوجاتی ہے۔  کہنے لگے، یہ حرامخور، بڑے ذلیل ہیں۔ بدتمیز ناں ہوں تو ۔ وڈے انگریز بنے پھردے نیں۔ٹغے دی کرتوت نئیں۔   مزے کی بات تو یہ کہ پورے میچ کے دوران جب بھی نواز صاحب کی نظر ان گوروں پر پڑتی تو وہ انہیں" ویلکم" کرنے لگتے  اور نواز صاحب انہیں خالص جٹکی گالیاں دینے لگتے"۔ عتیق ان گالیوں کو دہرا کر ان کے علم میں بے ہودہ اضافےکرنے لگا۔ان گالیوں کا مرکزی خیال،  ان گوروں کی خواتین سے اپنے ، اپنے خاندان کے مرحوم بزرگوں ، مویشیوں اور پالتو جانوروں  کے قائم کئے ہوئے تعلقات کی تفاصیل ،جزئیات  اور انکے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا بیان تھا۔