دلڑی علیل اے

آپ خود کو جتنا مرضی سنگدل بنانے کی کوشش کرلیں، اخبار پڑھنا چھوڑ دیں کہ روزانہ ایک ہی خبر کوئی کب تک پڑھے؟ نیوز چینلز پر تین حرف بھیج دیں کہ فشار خون بلند نہ ہو اوربھوک لگتی رہے۔ کوئی کیلے کے چھلکے سے پھسل کر ٹانگ تڑوالے تو اس پر ہنس ہنس کے دہرے ہونے کا حوصلہ پیدا کرلیں لیکن پھر بھی آپ کے پتھر دل میں یہ سن کر رقت پیدا ہوسکتی ہے کہ ایک یتیم لڑکی جوخاندان کی واحد کفیل ہو، اپنے خاندان کے لئے رزق کا بندوبست کرنے کے بعد، رات گئے، گھر کی عافیت میں واپس جاتے ہوئے اسے، دولت اور رسوخ کے نشے میں چور دو افراد اغوا کرکے ساری رات ہوس کا نشانہ بناتے رہیں اور صبح سڑک پر پھینک دیں۔ یہ ماجرا پڑھ کر میرے جیسے سنگدل کے دل میں بھی جونک لگ سکتی ہے، اس کی آنکھ میں بھی آنسو اور زبان پر بددعا آسکتی ہے۔ اس کے دل میں بھی تمنا جاگ سکتی ہے کہ کاش! میں اپنے ہاتھوں سے ان بے غیرتوں کے ٹکڑے کروں۔آپ یقینا مجھے جذباتیت کا شکار قرار دیں گے، قانون کی پاسداری کا آموختہ یاد دلانے کی کوشش کریں گے، قانون کو ہاتھ میں لینے کے بھیانک مضمرات سے آگاہ کریں گے، معاشرے میں انارکی پھیلنے کے خدشات سے ڈرائیں گے۔ لیکن انارکی اور کس طرح کی ہوتی ہے؟

میں بہت تکلیف میں ہوں اور مجھے بہت دکھ ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کیفیت سے نکلنے کے لئے کیا کروں؟ ظالموں کے لئے بددعائیں کرتے ہمیں باسٹھ سال ہوگئے۔ سنتے تھے کہ مظلوم کی بددعا لگ جاتی ہے لیکن ہماری تو بددعا بھی نہیں لگتی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہی ظالم ہیں!