یوٹوپیا

شہر میں ہُو کا عالم تھا۔ سڑکیں خالی اور گنجان آباد شہروں کا مخصوص شور غائب تھا۔ حیرانی کی بات  تھی کہ کاریں، موٹر سائیکلیں، پک اپ ٹرک، گدھا گاڑیاں، تانگے سڑکوں پر بے ترتیبی سے کھڑے نظر آتے تھے جیسے یکدم کسی نے صور پھونک دیا ہو  یا جادو  کے زور سےسب غائب ہوگئے ہوں۔ شاپنگ مالز، بازار، تعلیمی ادارے، اسپتال،  عدالتیں، تھانے کسی بھی جگہ کوئی انسان نظر نہیں آ تاتھا۔ آوارہ جانور ہر طرف مٹر گشت کرتے نظر آتے ۔ ویرانی دیکھ کر اکا دکا جنگلی جانور بھی شہر کے مضافات سے آگئے تھے۔  رات ہونے کو تھی۔ اچانک دور سے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز آئی۔سفید گھوڑے پر سوار ایک شخص نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں چمڑے کا دُرّہ تھا۔ شہر کے مرکزی چوک میں رک کر وہ گھوڑے سے اترا۔ دُرّہ شڑاپ کی آواز کے ساتھ ٹریفک سگنل پر مارا اور کہا، میں نے کہا تھا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اب بھی اگر کوئی کہیں چھپا ہے تو ظاہر ہو کر حساب دے ورنہ اس کا انجام بھی باقی سب جیسا ہوگا۔
یہ یوٹوپیا کے دارالحکومت کا منظر تھا۔ پورے ملک میں یہی حالات تھے۔ گھڑسوار شخص یوٹوپیا کا حکمران دُھر عالم تھا۔ چند سال پہلے اس نے "چند لوگ چور ہیں" کے نعرے پر حکومت سنبھالی۔ دُھر عالم نے یوٹوپیا کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ اس کے حکومت میں آتے ہی ہر طرح کی کرپشن ختم ہوجائے گی جس کی وجہ سے آج تک یوٹوپیا ترقی نہیں کرسکا تھا۔ جرائم کا خاتمہ ہوجائے گا اور وہ الوہی ریاست قائم ہوگی جس کا وعدہ آسمانی کتابوں میں کیا گیا ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد دُھر عالم کو اندازہ ہوگیا  کہ چند لوگ چور نہیں ہیں بلکہ ساری قوم ہی چور ہے۔ اس نے تین سال لوگوں کو سمجھایا کہ چوری چھوڑ دیں اور حکومت کو محصولات ایمانداری سے ادا کریں لیکن قوم بگڑ چکی تھی۔ایک گدھا گاڑی والا بھی  بیس ہزار کا موبائل لے کر گھومتا تھا اور جب اس سے منی ٹریل مانگی جاتی کہ اس کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ گدھے کے لیے چارہ خریدنے کی رسیدیں کدھر ہیں؟ تو وہ اشتعال میں آجاتا اور پورے شہر میں گدھا گاڑیوں کی ہڑتال ہوجاتی۔  حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ دفاع کے لیے بھی مطلوبہ رقم کا انتظام کرنا مشکل ہوگیا۔ اس موقع پر دُھر عالم کو  پتہ چلا کہ اسے یوٹوپیا کے لوگوں کے لیے عذاب بنا کر بھیجا گیا ہے۔
اگلے ہی دن دُھر عالم نے سارے ملک کی بجلی اور گیس بند کردی۔ پٹرول پمپ، ریلوے اسٹیشن، ائیر پورٹس، شپنگ پورٹس ، اسپتال، تعلیمی ادارےسب ختم کردئیے ۔ اس سے خطیر رقم کی بچت ہوئی۔ یوٹوپیا کی آبادی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی۔ ان اقدامات سے آبادی میں فوری کمی ہونی شروع ہوگئی۔ لوگ شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں اور ویرانوں کی طرف جانے لگے۔ جہاں بھی لوگوں کی بڑی تعداد اکٹھی ہوتی؛  دُھر عالم کے حکم پر اس کے ارگرد خاردار تار کی باڑ لگا کر اس میں کرنٹ چھوڑ دیا جاتا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے۔ یوٹوپیا میں ایسے سینکڑوں کیمپ قائم ہوگئے۔ آبادی کم ہونے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ زمین کو قدرتی کھاد میسر آئی جس سے ان کیمپوں کی زمین زرخیز ہوگئی۔لوگ  خوراک کے لیے کھیتی باڑی کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد جن کیمپس کے لوگ  زیادہ اناج پیدا کرنے لگے ان کو حکومتی فارمز پر شفٹ کردیا گیا تاکہ وہ دفاعی اداروں اور ان کے خاندانوں کے لیے اناج پیدا کریں۔
دُھر عالم جب بھی کسی کیمپ کے قریب سے گزرتے تو ادھیڑ عمر خواتین کیلے کے پتے لپیٹے بے اختیار باڑ کی طرف لپکتیں۔ باڑ میں کرنٹ کی پروا کیے بغیر اس کو عبور کرنے کی کوشش کرتیں اور الجھ کر رہ جاتیں۔ آخری سانسیں لیتے ہوئے بھی ان کے لبوں سے"ہینڈسم "ادا ہوتے ہوئے سنا جا سکتا تھا۔
چند سال میں ہی یوٹوپیا کے تمام غیر ملکی قرضے ختم ہوگئے۔ بجلی اور گیس کی ضروریات چونکہ نہایت محدود ہوچکی تھیں لہذا دُھر عالم نے بجلی اور گیس کی برآمد سے خطیر زر مبادلہ کمایا۔ برآمدات نہ ہونے کی برابر رہ گئی تھیں جس سے امپورٹ بل بھی نہ ہونے کی برابر رہ گیا۔ چور عوام کی تعلیم ، صحت، انفراسٹرکچر پر جو پیسہ ضائع ہوتا تھا اب وہ بھی بچت میں شامل ہوگیا۔ یوٹوپیا چند سال میں ہی اقوام عالم کی صف میں ایک ممتا زمقام پر فائز ہوچکا تھا۔زرمبادلہ کے ذخائر اتنے زیادہ ہوچکے تھے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی یوٹوپیا سے قرض لینے لگے۔ پوری دنیا سے چوٹی کے ماہرین یوٹوپیا میں ملازمت کی خواہش کرتے تھے لیکن ان میں سے چند خوش نصیب ہی کامیاب ہوتے تھے۔
آج بھی دُھر عالم رات کے آخری پہر بھیس بدل کر نکلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا چور عوام میں سے کوئی ابھی تک چھپا تو نہیں ہوا۔ یوٹوپیا  کے شہروں میں اب بھی رات کے وقت دُھر عالم کی آواز گونجتی ہے۔۔۔۔۔
کسی کو نہیں چھوڑوں گا!