تیتھوں اُتّے۔۔

مجھے تو جی یہ لکھتے اور بولتے ہوئے کبھی شرم نہیں آئی کہ میرے آباء و اجداد کپڑا بُناکرتے تھے، سادہ الفاظ میں جولاہے تھے، اس سے بھی سادہ الفاظ میں کمّی کمین تھے! ہمارے ایک ساتھی نے لکھا ہے کہ جی ہنر والے لوگوں کو یہ گورے لوگ آرٹسٹ اور فنکار کہتےہیں جبکہ ہم انہیں کمّی کمین کہتے ہیں۔ تو جی فرق بھی دیکھ لیں ناں ان کا اور اپنا۔۔۔ ہم قوموں کے پِنڈ کے کمّی کمین اور وہ چوہدری۔۔۔

میں کالج میں نیا نیا تھا تو ایک دن گپ شپ کرتے ہوئے بات اسی طرف نکل گئی۔ میرا ایک کلاس فیلو جو الیاسے چونٹھیے (چوہدری الیاس جٹ، سابق ایم این اے، بدمعاشی میں اساطیری شہرت) کے گاؤں کا تھا، کہنے لگا کہ ہم چوہدری لوگ ہیں جبکہ تم تو جلاہے ہو، نیچ لوگ، کمّی کمین۔ تم ہماری برابری کیسے کرسکتے ہو۔ وہ جی میرے جانثار تو تپ گئے فورا اور لگے آستینیں چڑھانے کہ تیری اور تیرے الیاسے کی تو ٹوں ٹوں ٹوں۔۔۔ پر میں نے ان کو ٹھنڈا کیا اور اس نسرین باجوے کو کہا کہ باجوہ صاحب! بات تو آپ کی ٹھیک ہے، پر ہم جولاہوں کا بڑا احسان ہے جی ساری انسانیت پر۔ وہ تمسخرانہ انداز سے بولا ۔۔ کیسے۔۔۔؟؟ میں نے کہا کہ بھائی دیکھ۔۔ اگر میرے آباء و اجداد یہ کام نہ سیکھے ہوتے تو آج تمہاری ماں بہنیں پتّے لپیٹ کر بکریوں سے بچتی پھر رہی ہوتیں کہ کہیں ان کے ملبوسات تناول کرکے انہیں آدم و حوّا والی شرمندگی سے دوچار نہ کردیں۔

اس پر جی وہ ایسا چپ ہوا کہ اردو میں لکھیں تو اس کی بولتی بند ہوگئی جبکہ پنجابی میں تو صرف کہہ سکتے ہیں، لکھ نہیں سکتے۔

میرے سگے چچا ہیں جی، شیخ ہوگئے ہیں۔ گھر کی نیم پلیٹ پر بھی شیخ لکھوالیا ہے۔ 'انصاری' کہلواتے اور لکھواتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے کہ لوگ انہیں جولاہا سمجھیں گے۔ جبکہ میرے قریبی عزیز ہیں کراچی میں ۔۔۔ وہ سارے بھی ترقی (یا تنزلی!) کرکے شیخ لگ گئے ہیں۔ میں ان کو کہا کرتا ہوں کہ یار۔۔ اگر ترقی(؟) ہی کرنی ہے اور ذات ہی بدلنی ہے تو شیخ بننے کی کیا تُک ہے؟ بندہ سیّد بنے۔ میں نے سوچا ہوا ہے کہ جب بہت سارا پیسہ کما لینا ہے اور ترقی کرنے پر تُل جانا ہے توانصاری سے پروموٹ ہوکے 'ڈریکٹ" سیّد ہی لگناہے۔

چار پانچ پشت پہلے جالندھر کے گردونواح میں آباد، میرے آباء و اجداد کے ہاتھ میں یہ فن تھا کہ وہ ستر ڈھانپتے تھے لوگوں کا،کپڑا بُن کے، پر پھر بھی ان کےہاتھ چوہدریوں اور پِیروں کے سامنے پھیلے ہی رہتے ہوں گے اور جن ہاتھوں سے غریبوں کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں تب بھی اور اب بھی، ان کو لوگ چوما کرتے تھےتو پھر میں نے بھی ایسا ہی بن جانا ہے، کہ لوگ مجھے نیچ اور کمّی کمین اور جُلاہا نہ سمجھیں بلکہ میرے ہاتھ چومیں کہ جی یہ تو سیّد بادشاہ ہیں!

میں نے اپنے والد سے ایک دفعہ پوچھا تھا جی کہ یہ سیّد طاہر احمد شاہ (سابق ایم پی اے) واقعی سیّد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بھئی! یہ تو بالکل خالص سیّد ہے، ہمارے سامنے بنا ہے۔

ہم برصغیر کے مسلمانوں کے اختیار کی بات ہوتی تو جی سارے مسلمان ہی بالترتیب سیّد اور چوہدری اور خان اور سردار ہوتے۔ اس بات پر تو کسی کا اختیار نہیں کہ جس نطفے سے وہ پیدا ہوتا ہے وہ' کون'،'کہاں' پرگرائے ، پراس بے اختیاری پر فخر بہت ہوتا ہے کہ جی ہمارا نطفہ تو بڑا اعلی ہے اور حسب نسب والا ہے۔

بس یہی چیز رہ گئی ہے عزت اور حسب نسب کا معیار

نطفہ۔۔!