لاری اور لارے

یہ طارق بشیر عرف ٹونی کی کہانی ہے۔  ڈونگا بونگا کے نواح میں پیدا ہونے والے ٹونی  کے ابا محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ خاکی وردی، چمڑے کا بستہ اور سائیکل۔ گلی گلی گھومتے۔ لوگوں میں خوشی اور غم کی خبریں بانٹتے۔  باؤ بشیر کے نام سے جانے جاتے۔ زیادہ تر گھروں میں خط پڑھ کے سنانے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے۔ اچھی خبر ہوتی تو نذرانہ بھی مل جاتا۔ کبھی گڑ، کبھی مکئی، کبھی گندم۔ زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ کم عمری میں شادی بھی ہوگئی۔ ٹونی ان کا پہلا بچہ تھا۔ اس کے بعد پانچ بچے اور پیدا ہوئے جو سب لڑکیاں تھیں۔ فطری طور پر ٹونی بہت لاڈلا تھا۔ لاڈ پیار کی وجہ سے ہی ٹونی تعلیم میں ہمیشہ پیچھے رہا لیکن بچپن سے ہی اسے اچھے سے اچھا پہننے اور کھانے کو ملا۔ باؤ بشیر نے ٹونی کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔
جیسے تیسے کرکے ٹونی میٹرک تک تو پہنچ گیا لیکن وہاں جا کے اٹک گیا۔ تین سال فیل ہونے کے بعد ایک دن اس نے گھر میں اعلان کیا کہ اب وہ پڑھائی نہیں کرے گا بلکہ اپنا بزنس کرے گا۔ باؤ بشیر کی ریٹائرمنٹ بھی آن لگی تھی۔ گریجویٹی کے پیسے ملے تو ٹونی نے ایک چنگ چی خریدا اور مین بازار سے لاری اڈّے تک چلانے لگا۔ ٹونی ایک وجیہہ، خوش شکل اور صحت مند جوان تھا۔ جینز ٹی شرٹ پہن کے جب وہ عینک لگاتا اور الٹی پی کیپ پہن کے چنگ چی سٹارٹ کرتا تو کسی فلم کا ہیرو لگتا ۔
 اس زمانے میں ڈونگے بونگے  سے بہاولنگر تک لاری چلتی تھی جو دن میں دو چکر لگاتی۔ لاری کے ڈرائیورکا نام حاجی رمضان تھا۔ ادھیڑ عمر، مہندی رنگی جماعت کٹ ڈاڑھی، چوخانے کا رومال سر پر بندھا ہوا۔ حاجی نوجوانی سے ہی اس کام میں پڑ گیا تھا۔ دس بارہ سال کنڈکٹری کی۔ پھر استاد مقبول جب بوڑھا ہوگیا تو ایک دن لاری درخت میں دے ماری ۔  مالکوں نے حاجی کو ترقی دے کر ڈرائیور بنا دیا۔حاجی رمضان ڈرائیور بہت زبردست تھا۔ کسی دن دو کی بجائے تین چکر بھی لگا لیتا۔ کبھی چھوٹا موٹا ایکسیڈنٹ بھی نہیں ہوا۔ لاری میں بندے بھی گنجائش سے تین گنا بٹھاتا۔ عیدشبرات پر من مانا کرایہ بھی  وصول کرتا۔ ڈیزل، سپیر پارٹس کی مد میں بھی پیسے بناتا۔  مالک بھی خوش  اور حاجی کو بھی اچھی آمدنی ہوجاتی۔ پہلے حاجی نے اپنا گھر پکا کیا۔ پھر اپنے والدین کو حج کرایا اور خود بھی حج کیا۔ تین چار پلاٹ بھی خریدے۔ بہنوں کی شادیاں بھی کیں۔
لاری جب بہاولنگر سے ڈونگا بونگا پہنچتی تو ٹونی بھی سواری کے انتظار میں وہاں کھڑا ہوتا۔ اس کے دل میں آتا کہ کاش وہ اس لاری کا ڈرائیور ہوتا تو وارے نیارے ہوجاتے۔ سارا دن چنگ چی چلا کے بھی پورا نہیں پڑتا تھا۔ گھر کا خرچہ چلانے کے بعد اتنے پیسے بھی نہ ہوتے کہ دو سگریٹوں کی چرس ہی مہیا ہوجاتی۔ پرائز بانڈ کے نمبرلینے کے لئے بھی ہفتے دو ہفتے پیسے اکٹھے کرنے پڑتے۔ ٹونی کو اپنی وجاہت کا تھوڑا بہت فائدہ ضرور تھا۔ اس کے پاس لیڈیز سواریوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی تھی۔ اکثر ادھیڑ عمر عورتیں اس کو کرائے سے کچھ پیسے زیادہ ہی دے جاتیں۔ ٹونی چرب زبان بھی تھا۔ لیڈیز سواریاں ہوتیں تو لچھے دار باتیں کرتا۔ چنگ چی پر ٹیپ بھی لگوالی تھی۔ کمار سانو کے گانے اس وقت لگاتا جب لیڈیز سواری ہوتی۔ مرد ہوتے تو عطاءاللہ کے گانے چلتے۔
ٹونی اب اٹھتے بیٹھے حاجی رمضان بارے باتیں کرنے لگا  کہ کیسے وہ ڈونگے بونگے کی سواریوں کو لوٹ رہا ہے۔ لاری کے حالات بھی خراب ہیں۔ سیٹیں پھٹی ہوئی  اور لاری میں گنجائش سے تین گنا زیادہ مسافر۔ کرایہ بھی زیادہ وصول کرتا ہے اور  ٹکٹ بھی نہیں دیتا ۔ لیڈیز سواریوں کے سامنے جب وہ لاری کا نقشہ کھینچتا ا ور کہتا کہ اگر وہ لاری کا ڈرائیور بن جائے تو لاری بالکل ڈائیوو بس جیسی بنا دے گا تو خواتین کے چہرے پر یقین اور محبت ہلکورے لے رہی ہوتی۔  ٹونی نے حاجی رمضان کے کنڈکٹر ریاض سے بھی یارانہ گانٹھ لیا۔ ریاض عرف جج بچپن سے ہی حاجی کے ساتھ تھا۔ حاجی رمضان اوپر کی آمدنی میں سے جج کو روپےمیں 10 پیسے دیتا تھا۔ ٹونی نے باتوں باتوں میں ایک دن جج سے کہا کہ اگر وہ لاری کا ڈرائیور بن گیا تو جج کو روپے میں پچاس پیسے دے گا۔ کھانا پینا اور نشہ پانی مفت۔
ٹونی کی باتیں رنگ لانے لگی تھیں۔ لاری میں سفر کرنے والے لوگ حاجی رمضان کے خلاف ہونے لگے۔ آئے دن لاری میں دنگا ہوتا۔ جج اور ٹونی کا یارانہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک دن جج مالکوں سے ملا اور ان کو ساری صورتحال بتائی اور ٹونی کی تعریفیں کرتے ہوئے زمین آسمان ایک کردیا۔ اگلے دن مالکوں نے ٹونی کو بلا لیا۔ مالک ٹونی کی وجاہت، اعتماد اور ڈرائیونگ پلان سے بہت متاثر ہوئے۔ ٹونی نے انہیں بتایا کہ وہ ڈرائیور بن گیا تو چند مہینوں میں ہی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ برسہا برس سے حاجی رمضان ڈرائیوری کررہا ہے لیکن ابھی تک لاری وہی ہے۔ اس کو موقع دیا جائے تو وہ ایک لاری سے چند مہینوں میں ہی دو لاریاں اور خرید لے گا۔ روٹ پر تین لاریاں چلیں گی تو آمدنی میں دس گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔  اگلے ہی دن ٹونی کو مالکوں کا پیغام ملا کہ اس کو ڈرائیور رکھ لیا گیا ہے۔ وہ لاری چلانے کی تیاری کرے۔
23 مارچ  کو ٹونی پہلی دفعہ لاری کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ ڈونگے بونگے سے بہاولنگر جانے والے لوگ لاری میں ٹھنسے ہوئے تھے۔ ٹونی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تو اسے اچانک یاد آیا کہ اسے تو لاری چلانی ہی نہیں آتی۔ ڈرائیور کی ملازمت حاصل کرنے میں وہ اتنا مگن رہا کہ لاری چلانا سیکھ ہی نہ سکا۔ بہرحال اس نے اللہ کا نام لے کر سیلف مارا۔ گئیر لگایا۔ لاری دھچکا کھا کر بند ہوگئی۔ تین چار دفعہ ایسا کرنے کے بعد وہ لاری کو اڈّے سے باہر لے آیا۔ٹونی کسی نہ کسی طرح لاری کو بہاولنگر جانے والی بڑی سڑک تک لے آیا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دل میں سوچا کہ یہ تو کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ ایکسلریٹر پر پاؤں دباتے ہوئے اس نے ٹیپ  چلا دی۔ کمار سانو کی آواز لاری میں گونجنے لگی، "دیکھا ہے پہلی بار۔۔ ساجن کی آنکھوں میں پیار"۔ لیکن وہ سامنے سے آنے والے آئل ٹینکر کو نہ دیکھ سکا۔ لاری قابو سے باہر ہوئی۔ ٹونی نے تیزی سے سٹئیرنگ وہیل گھمایا۔ لاری ٹینکر کی سائڈ سے لگ  کر کچے میں اتری اور الٹ کر درخت میں جا لگی۔
راہگیر جب زخمیوں کو لاری سے نکال رہے تھے تو ریٹائرڈ تھانیدار چوہدری رفاقت جن کی ٹانگ ٹوٹ چکی تھی، کراہتے ہوئے بولے، "جو بھی ہے، ٹونی کم از کم کرپٹ نہیں ہے"۔ ٹونی ڈرائیونگ سیٹ والی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر فرار ہوچکا تھا۔ ڈرائیور کے پیچھے والی زنانہ سیٹ پر بیٹھی  گرلز سکول کی ہیڈ مسٹریس ثمینہ شہزادی جن کے سر سے خون بہہ کر چہرے پر آرہا تھا،  لاری کی کھڑکی سے بمشکل باہر نکلیں اور یہ کہہ کر بے ہوش ہوگئیں، "ہائے اللہ! ٹونی کتنا ہینڈسم ہے!"۔