یار دوست

دوست بڑی کمینی چیزیں ہوتے ہیں نہ ان کے بغیر گزارا ہوتا ہے نہ ان کے ساتھ!

آن لائن دوستیاں اگر جنس مخالف سے نہ ہوں تو خوب پھلتی پھولتی ہیں۔ پھلتی پھولتی تو وہ بھی ہیں لیکن کسی اور سمت میں ۔۔۔ آہو!۔ بلاگنگ شروع کرنے کے بعد طبقہ بلاگراں کے کچھ ارکان سے بڑی بے تکلفیاں ہوئیں جو اب بڑھ کر دوستی تک پہنچ رہی ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں کو ان دوستیوں پر اعتراضات بھی بہت ہیں لیکن جی ہر مزےدار چیز متنازعہ ضرور ہوتی ہے۔ لہذا اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نشتہ!

ذیل کی سطور میں ایسے ہی چند دوستوں کا نام لیے بغیر 'بوجھو تو جانیں' ٹائپ ذکر کیا جائے گا۔ نام نہ لکھنے کو کوئی میری بزدلی پر محمول نہ کرے اگرچہ اصل وجہ یہی ہے! انیس نے بہت پہلے خبردار کردیا تھا کہ آبگینوں کو ٹھیس لگنے سے بچانے کے لئے دوستوں سے سچ مت بولو اور اس کے لیے انہوں نے 'خیال خاطر احباب' جیسی اصطلاح گھڑی تھی، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو جان لیں کہ میرے جیسا صداقت شعار، راست گو، بے باک انسان ایسی خبرداریوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور وہی کہتا ہے ۔۔۔ جو نہیں کہنا چاہیے!

ایک بھائی جان ایسے ہیں، جن کے بلاگ اور ان کی فیس بک وال پر ہمیشہ وہ کچھ لکھا ہوتا ہے کہ چنگا بھلا مٹن کڑاہی کھاتا ہوا بندہ، خودکشی بارے سوچنے لگتا ہے!۔ ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ یار! لک ایٹ دا برائٹ سائڈ۔ یعنی کہ بلب (آج کل انرجی سیور) کی طرف دیکھ۔ تاکہ تیری آنکھوں میں بھی جلن ہو اور تمہیں پتہ چلے کہ تکلیف ہوتی کیا ہے؟ اور مجھے شدید شک ہے کہ یہ ایسی باتیں خوب پیٹ بھر کے کھانا کھانے کے بعد ہاضمہ بہتر کرنے کے لیے کرتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ سب پڑھ کے جو السر ہوجانا ہے، اس کی اسے کوئی پروا نہیں!۔ بندہ بن اوئے۔۔

دوسرے پائین، صرف تب لکھتے ہیں، جب کسی کی واٹ لگانی مقصود ہو۔ ورنہ برفانی ریچھ (ھاھاھاھاھاھا) کی طرح، لمبی نیند سو جاتے ہیں۔ بہت دفعہ کہا ان کو آف دی ریکارڈ کہ اوئے (ان کا لقب لکھنے کو دل تو کررہا ہے، پر، آئی ول پاس) لکھا کر تیرے جیسا لکھنے والے کم ہیں بلکہ ہیں ہی نہیں اور، کوئی اور نہیں ملتا تو میری ہی واٹ لگا لیا کر۔ لیکن پائین ہیں کہ بس۔۔۔آہو۔

ایک اور صاحب ہیں جو فیس بک سٹیٹسوں پر ایسے فقرے چست کرتے ہیں کہ بندہ پھڑک کر رہ جاتا ہے۔ پر جب اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں تو ان میں پروفیسر اشفاق علی خان کی روح حلول کرجاتی ہے۔ 'روسی ٹریکٹر اور بکریوں کا بانجھ پن' جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں اورایسی فلسفیانہ باتیں کہ بندے کا دیوار میں ٹکریں مارنے کو دل کرنے لگتا ہے۔ لکھیں جی، ایسی باتیں بھی لکھیں اور جم جم لکھیں، لیکن کبھی اپنا دوسرا ٹیلنٹ بھی آزمائیں، جس کی روز مشق کرتے ہیں۔ مہربانی ہوگی!

اور جو آخری ہے اس پر مجھے بڑی تپ ہے! آپ پوچھیں گے کیوں؟ اس کی ایک بڑی ٹھوس وجہ ہے۔ جو بندہ پریکٹس میں ہی ساری توانائی لگا دے اور میچ کھیلنے کے لیے ان فٹ ہوجائے، اس کے بارے آپ کا کیا خیال ہے؟ جی! بالکل۔۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ ۔۔۔فیس بک کھاگئی زن و جواں کیسے کیسے۔۔۔۔ سیانے صحیح کہتے تھے، نام کا اثر آخر کار ہوہی جاتا ہے!

کیا بنے گا؟

انہوں نے مخصوص رازدارانہ انداز میں گردن آگے کرکے اور آہستہ سی آواز میں پوچھا، 'جعفر بھائی!۔۔ یار کیا بنے گا؟'۔

میرے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی اور میں نے ان کا کندھا ہولے سے دبا کر کہا، 'پہلے کیا بنا تھا؟'

انہوں نے جواب دیا، 'کچھ نہیں'۔ میں نے کہا تو اب بھی کچھ نہیں بنے گا۔ انہوں نے اس مسخرے پن پر نظروں ہی نظروں میں مجھے سخت سست کہا، دل ہی دل میرا شجرہ 'دانش' کی علامت پرندے سے ملایا اور بزبان اردو مجھ سے کہاکہ حالات بڑے خراب ہیں بھیّا۔ تم ٹی وی نہیں دیکھتے؟

یہ صاحب میرے جاننے والے ہیں۔ ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ 'ڈرائیور کم پی آر او' ہیں۔ کراچی کے رہنے والے ہیں۔ ہفتے میں ایک دو دفعہ ان کا ہمارے دفتر، کام کے سلسلے میں آنا ہوتا ہے اور سلام دعا/گپ شپ ہوجاتی ہے۔ ہردفعہ ملنے پر ان کے ابتدائی جملے ہمیشہ یہی ہوتے ہیں کہ کیا بنے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی خاص چیز یا واقعہ پر پریشان ہوتے ہیں بلکہ ان کی پریشانی اور اس 'کیا بنےگا' ماخذ کسی نہ کسی ٹاک شو کے میزبان کی پچھلی رات کو چھوڑی ہوئی درفنطنی ہوتی ہے!

وہ اس نیوز چینلی ثم ٹاک شو یلغار کے کلاسک شکار ہیں جس نے اچھے بھلے سمجھدار بندوں کی پچھلے چند سالوں سے مت ماری ہوئی ہے۔

بہرحال میں نے 'چیزے' لینے کے لیے ان کو ایک دفعہ پھر اکسایا کہ قبلہ! آخر بولیے (بولیے کی جگہ جو لفظ میں نے سوچا تھا، وہ کہنے سے 'منی' فساد ہونے کا اندیشہ تھا) تو سہی کہ ہوا کیا؟۔ کیا 'بھائی' پھر دلہا بننے پر تیار ہوگئے؟۔ 'بھائی' ان کی چھیڑ ہیں اور ان کے ذکر پر وہ ایسے تپتے ہیں جیسے بھائی اور ان کے ہمنوا، بھتّے کے ذکر پر!

پہلے تو انہوں نے بھائی کی شان میں تئیس بند کا 'قصیدہ' پڑھا جس کی تاب نہ لاکر میرے جیسے بے شرم کے کان بھی لال ہوئے پھر انہوں نے چچ چچ کی آواز نکالتے ہوئے کہا کہ آپ نے وکی لیکس (اور لیکس کا تلفظ انہوں نے جھیل والے لیک سے مستعار لیا!) کے انکشافات نہیں سنے؟۔ میں نے جواب دیا کہ حضور والا، پڑھے تو ہیں، سنے نہیں لیکن ان میں، مجھے انکشاف تو کوئی نظر نہیں آیا۔ اگر کوئی ان کو انکشاف سمجھتا ہے تو یہ میرے لیے اس کی ذہانت کے بارے ایک انکشاف ہے۔

وہ بھنّا کر اٹھے اور الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے مجھے ایسی نظروں سے گھورا جیسے میرے استاد مجھے زمانہ طالب علمی میں گھورا کرتے تھے کہ بچّہ! تو نہیں سدھر سکتا اور تیرا کیا بنے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

باقی قاعدہ

حضرات، خواتین اس لیے نہیں لکھا کہ مدت مدید سے اس بلاگ پر خواتین کی آمد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، ہمارا وچکارلا قاعدہ جو 'ج' تک پہنچ چکا تھا، ہم آج اس کو مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بہت سے احباب نے ہمیں لارے لگائے تھے کہ وہ بھی اس 'کار خیر' میں، ہماری مدد کریں گے لیکن یہ وعدے بھی محبوب اور حکومتی وعدوں کی طرح ایفا نہ ہوسکے۔ ویسے بھی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند چنداں مناسب نہ ہوتا۔

چلیے، قاعدے کی طرف چلتے ہیں۔

چ۔۔۔۔ چینی: یہ جادو کی چیز ہوتی ہے۔ ۱۲۷ روپے من گنے سے بننے والی چینی ۱۳۰ روپے کیلو تک بکتی ہے۔ شنید ہے کہ دوران عمل برائے چینی سازی اس میں زعفران، یورینیم، اریڈیم، پلوٹونیم جیسے قیمتی اجزاء بھی ملائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کی قیمت تھوڑی سی زیادہ ہوجاتی ہے۔ جس پر ناشکرے لوگ ، مہنگائی مہنگائی کا شور مچا کر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں لیکن اسے ایک مہینے کے لیے استعمال کرنا بند نہیں کرتے کیونکہ ۔۔۔ اس ملک خداداد میں سوائے چینی کے کوئی میٹھی چیز جو باقی نہیں رہی۔

ح۔۔۔۔حشر: واعظ حضرات، عوام کالانعام کو اس سے ڈراتے رہتے ہیں۔ خود، البتہ، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں، اور اگر ہے بھی تو ان کے لئے نہیں ہے، انہیں گھگو گھوڑوں کے لئے ہے۔ سرکار بھی اس کی تیاری کے لئے 'طاقت کے سرچشمے' کو مسلسل حشر کی ریہرسل کرواتی رہتی ہے تاکہ آخری سٹیج پر عوام کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔

خ۔۔۔۔خرگوش: یہ ایسے بندے کو کہتے ہیں جس کے کان، کھوتے جیسے ہوں۔ مثلا اظہر محمود، میرا بھانجا ولید وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ یہ لفظ اہل فارس کی تہذیبی روایت، اور ذخیرہ الفاظ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ جس میں 'کھڑکنّوں' کے لیے بھی خرگوش جیسا پیارا لفظ موجود ہے۔

د۔۔۔۔دلال: انگریزی میں اس کو بروکر وغیرہ کہتے ہیں۔ وطن عزیز اس جنس میں خود کفیل سے بھی چھ درجے آگے ہے۔ ہر نوع، سائز اور قیمت کے دلال، اس اسلامی جمہوریہ میں میسر ہیں۔ سیاسی سے صحافتی، عسکری سے معاشی، کھیل کے میدان سے یونیورسٹی کے لان تک ہرجگہ یہ جنس بافراط دستیاب ہے۔ پنجابی میں اس کا مترادف لفظ  اگرنستعلیق حضرات کے سامنے دھرایا جائے تو ان کو کراہت کا احساس ہوتا ہے۔

ڈ۔۔۔۔ڈڈّو: یہ خواجے کا گواہ ہوتا ہے۔ البتہ اس گواہی کی نوعیت ذرا پیچیدہ قسم کی ہوتی ہے۔ یہ ڈڈّو زیادہ تر ٹاک شوز میں اپنے اپنے خواجوں کی گواہیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ آج کل جو ڈڈّو سب سے 'ان' ہے، اس کا خواجہ، سگ پرست نہیں، بلکہ خلق خدا نے اسے ہی سگ کے مرتبے پر فائز کیا ہوا ہے۔

ذ۔۔۔۔ذلالت: یہ ایک حالت ہوتی ہے۔ جو کمزور پر طاقتور مسلط کرتا ہے اور اس کے لیے رنگ برنگے جواز ڈھونڈنے کا کام دانشوروں پر چھوڑدیتا ہے۔ جو ٹیکنی کلر اصطلاحات، تھری ڈی استدلال اور ڈیجیٹل دانش کو بروئے کار لا کر ان ذلیلوں کو اور ذلیل کرنے اور ذلیل ہی رکھنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

ایک اداس شام

پَتّوکِی کے لاری اڈّے سے باہر نکلتے ہی اداسی نے مجھے گھیر لیا۔ شام کے جھٹپٹے میں قریبی چھپّر ہوٹل سے سموسوں کے حیوانی چربی میں تلے جانے کی خوشبو، بسوں کے ڈیزل کی مہک، سڑک سے مٹی کی ٹرالی گزرنے کے بعد اڑنے والے غبار، تانگوں اور کھوتا ریڑھیوں کے 'انجنوں' کے خشک فضلے کے فضا میں تیرتے ذرات نے مل جل ایک طلسمی اور پرفسوں ماحول تخلیق کیاہوا تھا۔ میں مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے دل میں میٹھا میٹھا درد جاگ اٹھا ہو۔ حاجی ثناءاللہ نے میرے کندھے پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تو جیسے میں ہوش میں آگیا۔ اور مجھے یاد آیا کہ یہ درد دل نہیں بلکہ دمے کا پرانا مریض ہونے کی وجہ سے سانس بند ہورہا ہے۔۔۔!

حاجی ثناءاللہ، انجمن قومی تاجران (رجسٹرڈ) پَتّوکِی، کے تاحیات صدر ہیں۔ یہ پَتّوکِی کے روح رواں ہیں، کیونکہ پَتّوکِی کے تینوں پٹرول پمپ ان کی ملکیت ہیں۔ یہ جب چاہیں پَتّوکِی کو بے جان کردیتے ہیں۔ اس کی روح کھینچ لیتے ہیں۔ یہ میرے مدّاح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری تحاریر نے ان کی زندگی میں مشعل راہ کا کام کیا ہے۔ یہ معمولی چوری چکاری کرتے تھے۔ پھر انہوں نے میری تحاریر کا مطالعہ شروع کردیا۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا دھارا ہی بدل گیااور انہوں نے معمولی چوری چکاری کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا اور اب یہ اس عظیم شہر کے قابل فخر سپوت ہیں۔

میں جب تھک جاتا ہوں۔ اپنے معمولات زندگی سے اکتا جاتا ہوں۔ میرا ذہن بنجر ہوجاتا ہے تو میں اپنے جسم اور ذہن کو ڈھیلا چھوڑدیتا ہوں۔ اور جو دس پندرہ دعوت نامے بمعہ ٹکٹ موصول ہوئے ہوتے ہیں ان پر ایک سے دس تک گنتا ہوں۔ جس دعوت نامے پر دس آجائے میں اسی شہر چھٹی گزارنے چلا جاتا ہوں۔ اس دفعہ پَتّوکِی، کی باری آگئی۔ حاجی ثناءاللہ، بہت برسوں سے اصرار کررہے تھے کہ میں ان کو شرف میزبانی بخشوں۔ انہوں نے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا۔ مجھے اس تقریب کی صدارت کرنی تھی۔

لاری اڈّے سے میں اور حاجی صاحب ہونڈا سیونٹی پر ان کے گھر روانہ ہوئے جہاں میری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ حاجی صاحب سیونٹی ایسے چلارہے تھے جیسے سلطان گولڈن کے استاد ہوں۔ میرا سانس خشک ہونے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا (یاشاید سٹریٹ لائٹس بند تھیں)۔ اچانک موٹر سائیکل ایک جھٹکے سے رک گئی۔ میں نے چونک کر دیکھا تو ہم گول گپوں کی ریڑھی کے پاس کھڑے تھے۔ حاجی صاحب نے پَتّوکِی کے مشہور عالم گول گپوں سے میری تواضع کی۔ پَتّوکِی آکر گول گپے نہ کھانا ایسا ہی ہے جیسے دبئی جاکر بھی بندہ۔۔۔۔۔ چلو مٹی پاؤ۔۔۔

رات کے پھیلتے اندھیرے، نیم تاریک بازار، بھونکتے ہوئے آوارہ کتّوں، سڑک کے دونوں اطراف کھلی نالیوں سے آنے والی مہک اور ریڑھی کے پاس کھڑے ہو کرگول گپے کھانے کا ایسا لطف آیاکہ میری ساری ناسٹیلجک فیلنگز بیدار ہوگئیں۔ مجھے لالہ موسی یاد آگیا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ جہاں میں اپنے دوستوں کے ساتھ دو گول گپے کھا کر کھٹّے کے چار پیالے مفت پی جاتا تھا۔ اور دو دو مہینے کھانسی اور اباجی کا جوتا میرا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ میں اداس ہوگیا۔ اداسی کی وجہ ناسٹیلجیا یا بچپن کی یادیں نہیں تھیں بلکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ حاجی صاحب، شیخ ہیں لہذاڈنر پر بھی مونگ کی دال ہی ہوگی۔۔۔!

گول گپوں کے بعد مونگ کی دال کے ڈنر کا خیال کسی بھی شریف انسان بلکہ لکھاری کو بھی اداس بلکہ مرنے کی حد تک رنجیدہ کرسکتا ہے۔

نقاب اور آفتاب

یہ کوئی دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے، اب ”خبرناک“ اور اس سے پہلے ”حسب حال“ کے میزبان آفتاب اقبال نوائے وقت میں حسب حال ہی کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ میں بھی اس کالم کے متاثرین میں شامل تھا اور اکثر صاحب کو بذریعہ برقی خط کالم بارے اپنے تاثرات پہنچایا کرتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے میرے پیغام کا جواب دینے میں تاخیر کی ہو۔ میں نے ان کے کالم کے مشہور اور مستقل کردار ”عزیزی“ کے بارے بھی دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی یہ حقیقی کردار ہے یا گھڑا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ عزیزی واقعی موجود ہے اور ان کا بہت اچھا جاننے والا ہے، نام بتانے پر البتہ وہ راضی نہیں ہوئے تھے۔

اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان پیغامات اور تبادلہ خیالات میں سے بہت سے نکات کو انہوں نے اپنے کالمز کا حصہ بنایا، میری کچھ 'تراکیب' جو میں نے ان پیغامات میں استعمال کی تھیں، وہ بھی انہوں نے استعمال کیں۔ بلکہ ایک دو کالم تو خالصتا میری فرمائش پر بھی لکھے۔

وہ تو ایک دن انہوں نے ٹی وی کی حالت زار پر ایک کالم لکھتے ہوئے اپنے بنائے ہوئے ڈرامے ”نقاب“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹی وی کی تاریخ میں یہ ڈرامہ ٹرینڈ سیٹر تھا۔ اس سے پہلے کوئی تھرلر پاکستان میں نہیں بنایا گیا۔ اس پر میں نے انہیں لکھا کہ جناب! جان دیو۔۔۔ اگر نقاب تھرلر ہے تو مولا جٹ تو پھر ٹرمینیٹر سے بڑی ایکشن فلم ہے۔ بس اسی بات پر صاحب غصہ کھاگئے اور مجھے اس انداز کا پیغام بھیجا جیسے آج کل وہ بے چارے سٹیج کے مسکین فنکاروں کو "دبکے" مارتے ہیں!۔۔۔

انہوں نے لکھا تھا کہ " پاکستان میں پہلی دفعہ ڈرامے میں باڈی بلاسٹ تیکنیک استعمال کی گئی تھی اور یہ پاکستان کا پہلا تھرلر تھا اب یہ مت پوچھنا کہ تھرلر کیا ہوتا ہے"۔۔۔۔۔

یہ پیغام پڑھنے کے بعد میں نے خودسے ایک سوال کیاتھا (جناب بدتمیزوالا سوال نہیں، حالانکہ اصولی طور پر وہی سوال پوچھنا بنتا تھا) اور ایک طعنہ دیا تھا۔ سوال تیکنیک کے متعلق تھا، جو یہاں دہرانے کے لائق نہیں اور طعنہ تھا ۔۔۔

ہور چوپو۔۔۔۔

الف امریکہ، ب بھیڑیا

اردو کے ابتدائی قاعدے (القاعدے نہیں) جو ہم نے اپنے اپنے بچپنوں میں پڑھے تھے، ازکار رفتہ ہوگئے ہیں اور فی زمانہ، زمینی حقیقتوں سے بالکل متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر الف انار، ب بکری، پ پنکھا، ت تختی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اردو میں تعلیم حاصل کرنے والے اطفال تو اب انار کے نام سے بھی واقف نہیں، کھانا تو دور کی بات ہے۔ یہی حال بکری اور اس کے گوشت کا ہے۔ بھلا ہو شیر کا اور اس محاورے کا جس میں یہ دونوں ایک ہی گھاٹ پر مبینہ طور پانی پیتے ہیں، کیونکہ اگر یہ محاورہ نہ ہوتا بکری کا ذکر بھی معدوم ہوچکاہوتا۔ پنکھا بھی معدوم ہونے کی سرحد پر ہی کھڑا ہے۔ جن کو بجلی میسر ہے وہ اس کی ضرورت سے بے نیاز ہیں کیونکہ وہ پنکھے کے برادر نسبتی ائیر کنڈیشنر سے تعلقات گانٹھ چکے ہیں اور ہما شما کو تو یہ نعمت موسوم بہ بجلی میسر ہی نہیں۔ اس لئے وہ پنکھے کی حاجت سے بھی بے نیاز ہیں۔ تختی بھی آثار قدیمہ میں شمار ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں تختی والے سکول”کھوتی سکول“ کہلاتے تھے۔ سرکار نے یہ تفریق ختم کرکے اب سارے سکول ”کھوتے سکول“ کردیئے ہیں! جبکہ ہمارے ایک دوست عرصہ تک مُصر رہے کہ تختی، تختے کی بیوی ہوتی ہے، وہی تختہ جو الٹایا جاتا ہے! واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
قصہ مختصریہ کہ ہم نے اردو کا ایک وچکارلا قاعدہ بنایا ہے۔ جو بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ روشن خیال اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید روشن خیال بنائے گا۔ آئیے ابتدا کرتے ہیں۔
الف ۔۔۔۔۔۔ امریکہ : اصولی طور پر تو آجکل ہر حرف تہجی سے امریکہ ہی بننا چاہیے کیونکہ جتنی انسان دوستی، علم سے محبت، اعلی ترین اخلاقی و آفاقی اقدار، رواداری، مذہبی یگانگت، عدل و انصاف، امن پسندی، رحمدلی، سچ سے لگاو اور جھوٹ سے نفرت اس عظیم الشان ملک کی ہیئت مقتدرہ میں پائی جاتی ہے، انسانی تاریخ اس کی مثال کسی ایک دور میں پیش کرنے سے معذور ہے!
ب ۔۔۔۔ بھیڑیا: یہ ایک جانور ہوتا ہے۔ خونخوار۔۔۔ وحشی۔۔۔۔ میمنے اور اس کی کہانی بڑی مشہور ہے۔ یہ اتنی عمدہ کہانی ہے کہ تاریخ کے ہردور میں اس کی ڈرامائی بلکہ حقیقیاتی تشکیل کی جاتی ہے۔ بھیڑیے اور میمنے کا کردار ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ آخری مشہور میمنے اور بھیڑیے کی مڈبھیڑ ۲۰۰۲ میں ہوئی تھی۔ آٹھ سال بعد اب بھیڑیا شور مچا رہا ہے کہ میمنا اسے پھاڑ کھائےگا! ہور چوپو۔۔۔
(ب سے ایک اور مشہور جانور بھی ہوتا ہے۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!)
پ ۔۔۔۔۔ پیٹ: ہر جاندار کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ اسے بھرنا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اکثریت تو اسے روکھی سوکھی سے بھرتی ہے، جبکہ کئیوں کے پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ بھر جائے تومستی چڑھتی ہے جسے ”رج کھان دی مستی“ کہتے ہیں اور اسی کے زیر اثر بھیڑیا، میمنا اور میمنا، بھیڑیا نظر آنے لگتا ہے۔
ت۔۔۔۔۔۔ترقی: یہ بڑی اچھی چیز ہوتی ہے۔ اس سے دنیا کی آبادی قابو رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ جب انسان غیر ترقی یافتہ تھا تو لڑائی میں سینکڑوں لوگ مرتے تھے۔ ترقی کرنےکے بعد اب وہ لاکھوں، کروڑوں انسان ماردیتا ہے اور اسے کولیٹرل ڈیمیج کا دانشورانہ اور فلسفیانہ نام دیتا ہے!
ٹ ۔۔۔۔۔ ٹی سی: بچّو! اس کے بارے آپ بڑے ہو کر خود ہی جان جائیں گے کیونکہ یا تو آپ کو یہ کرنا پڑے گی یا کوئی آپ کی کرے گا۔ دعا ہے کہ آپ دوسرے آپشن سے ہی دوچار ہوں۔۔۔
ث۔۔۔۔۔ثانیہ: یہ پاکستانیوں کی مشہور زمانہ بھابھی (ہائے۔۔۔ کس دل سے یہ لفظ لکھا ہے۔۔۔ میرا دل ہی جانتا ہے) اور کچھ کم مشہور زمانہ ٹینس کی کھلاڑی ہے۔ اس کے متعلق جتنا کم لکھوں اتنا ہی اچھا ہے ۔۔۔۔ آہو۔۔۔
ج۔۔۔۔جعفر: خود دیکھ لیں کہ ثانیہ کا صحیح جوڑ کس کے ساتھ بنتا تھا؟

انقلاب زندہ باد

گنبد جیسے پیٹ، چربی میں غائب گردن، پھولی ہوئی گالوں اور ڈکراتی ہوئی آواز سے انقلاب آنے لگتے تو ساری دنیا میں ایسے انقلاب آتے جیسے برسات کے موسم میں پتنگے آتےہیں۔ عوام سے مطالبہ یہ ہے کہ تم انقلاب لے آؤ، پھر میں واپس آکر تمہاری قیادت کروں گا۔ ہشکے بئی ہشکے۔۔۔ ایڈا تو چی گویرے دا برادر نسبتی۔۔۔ کھیر پکائی جتن سے، چرخا دیا جلا، آیا کتا کھاگیا تو بیٹھی ڈھول بجا۔۔۔ جاگیرداروں کو پھانسیاں دینی ہیں لبرٹی چوک میں۔ اور جاگیردار وہ ہوں گے جو پانچ پانچ مرلے کی جاگیروں کے مالک ہوں گے اور بھتًہ دینے سےانکاری ہوں گے۔ جن کے ساتھ جنموں کا ساتھ ہے وہ تو بے چارے چھوٹے موٹے کسان ہیں۔ جن کی صرف دو دوچار چار لاکھ ایکڑ زمینیں ہیں۔ ان بے چاروں کی تو پہلے ہی دال روٹی نہیں چلتی تو ان کو کیوں تنگ کریں ؟

ماوزے تنگ، لینن، کاسترو، چی گویرا اور اگر نیک پاک لوگ معاف کرسکیں تو ملا عمر جیسے لوگ انقلابی ہوتےہیں۔ جن کو اپنے نظریے پر ایمان کی حد تک یقین ہوتا ہے اوروہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں اور سب سے آگے رہ کے قائد ہونے کا حق ادا کرتےہیں۔ انگریزکوئی کھوتے دے پتًر نہیں ہیں کہ انہوں نے لیڈنگ فرام دی فرنٹ کا محاورہ بنایا ہوا ہے۔ جبکہ سننے میں یہ آتاہے کہ تازہ انقلابی ”فرنٹ“ سے لیڈ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

یہ سارے بھی اوورسیز انقلابی ہوتے تو لینن برازیل میں بیٹھ کے انقلاب کی قیادت کرتے، چی گویرا جزیرہ ہوائی سے انقلاب کی کمان کرتے، کاسترو موزمبیق سے ٹیلیفونی انقلاب کا بھاشن دیتے، ماوزے تنگ اہرام مصر کو انقلابی کمان کا ہیڈکوارٹر بنا کر گراں خواب چینیوں کو انقلاب کی میٹھی لوریاں سناتے۔ ان سارے انقلابیوں کی ایسی کی تیسی، پاگل خانے۔۔۔ اپنا بھی بیڑا غرق کیااور اپنی قوم کا بھی۔ اور ان کی قوموں کی بھی ایسی کی تیسی کہ اپنے جان سے پیارے انقلابی لیڈروں کو آگے لگائے رکھا اور ان کی جان کی ذرا پروا نہیں کی۔ لیڈر کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے، ناکتخدا کی عصمت کی طرح۔۔۔ اس کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھے تو اس کو خطرہ ہوجاتا ہے۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

ضروری نوٹ: یہ”بیستی“ نہیں، ”بیستی جیسا اقدام“ہے۔

 

اشرف سٹیل مارٹ

اس دنیا میں سب سے بڑی ہیکڑی علم کی ہیکڑی ہے۔ صاحبِ علم فرد اور صاحبِ علم گروہ بے علم لوگوں کو صرف حیوان ہی نہیں سمجھتا، بلکہ ہر وقت انہیں اپنے علم کے ”بھؤو “ سے ڈراتا بھی رہتا ہے۔ وہ اپنے علم کے تکبّر کا باز اپنی مضبوط کلائی پربٹھا کے دن بھر بھرے بازار میں گھومتا ہے اور ہر ایک کو دھڑکا کے اور ڈرا کے رکھتا ہے۔ اس ظالم سفّاک اور بے درد کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس کے پھل دار علمی احاطے سے ایک بیر بھی توڑنا چاہے تو یہ اس پر اپنی نخوت کے کتّے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ اپنے بردوں کو اچھّا غلام بننے کا علم تو عطا کرسکتا ہے۔ لیکن انہیں باعزّت زندگی گزارنے کے رموز سے آگاہ نہیں ہونے دیتا۔ زمانہ گزرتا رہتا ہے اور اپنے اپنے دور کا ہر ذی علم برہمن، اپنے دور کے شودر کے کان پگھلتے ہوئے سیسے سے بھرتا چلا جارہا ہے۔

=====================================================================

علم کی ہیکڑی بڑی ظالم ہیکڑی ہے۔ یہ علم کے پردے میں بے علم اور معصوم روحوں پر بڑےخوفناک حملے کرتی ہے۔ علم اور جان کاری کا حصول اپنے قریبی لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور ان کے شبے میں اضافہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ایک جان کار ایک ان جان سے صرف اس لیے ارفع، اعلا اور سپیرئیر ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے۔ اس نے واقفیت، معلومات، خبر، گُن اور ابلاغ کے بہت سے کالے اپنی دانش کے پٹارے میں ایک ساتھ جمع کررکھےہوتے ہیں۔ وہ جس بستی، جس آبادی اور جس نگری میں بھی جاتا ہے، اپنے پٹارے کھولے بغیر وہاں کے لوگوں کو سیس نوانے اور دو زانو ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ ڈاکٹر، وکیل، ملاّ، پریچر، سیاست دان، معلّم، مقرر، کالم نگار، مندوب، اپنے نالج اور اپنی جان کاری کے پگھلے ہوئے سیسے کو نہ جاننے والے لوگوں کے کانوں میں ڈال کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گنگ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماؤف کردیتا ہے۔ علم والا یہ نہیں چاہتا کہ اس کے علم کا کوڑیالا کسی اور کے پاس جائے اور اس کی پٹاری خالی کرجائے۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کے علم کا کالا ہر بے علم کو ڈس کر واپس اس کے پاس پہنچے، تاکہ وہ اگلے  آپریشن کی تیاری کرسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ علم والا بے علم کوسوائے شرمندگی، بے چارگی، کم تری اور لجاجت کے اور کچھ نہیں دے سکتا۔ اور کسی شرمندہ، بے چارے، کم تر اور ہیٹے شخص کو درماندگی کے سوا اور دیا بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن لوگوں کے درد کا درماں کرنے کےلیے انہیں علم کی بجائے اس یقین، اعتماد اور اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے جو اُمّی پیغمبر پریشان اور خوارو زبوں لوگوں کے کندھے پر ہاتھ دھر کر عطا کرتے رہے ہیں۔

======================================================================

علم کی ہیکڑی بھی عجیب ہیکڑی ہے۔ شہسوار کے پاس گھوڑا بھگانے کا علم ہوتا ہے تو وہ اسے چابک بنا کر استعمال کرتا ہے۔ مہاوت اپنا علم آنکس کی زبان میں ادا کرتا ہے۔ دانش ور، عالم، مفکر، گیانی، دوان اپنے علم کی تکّل جھپ کھلا کر لوگوں کے باطن میں اترتا ہے اور ان کی بے پردگی کا نظارہ کرکے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ علم والا آپ کو کچھ دیتا نہیں، آپ کی ذلتّوں کا معائنہ کرکے آپ کو سندِ خفّت عطاکرجاتا ہے۔ آپ اس کے علم سے حصہ نہیں بٹا سکتے جو اصلی ہے، جو اس کا ہے، جو نافع ہے۔ البتہ وہ علم جو پرانی گرگابی کی طرح ڈھیلا اور لکرچلا ہوجاتا ہے، اسے ضرور پس ماندہ گروہوں کو عطا کردیا جاتا ہے۔ جیسے پرانے لیر ے بڑی محبت سے خاندانی نوکر کو دے دیئے جاتے ہیں۔ ہاں بس ایک اُمّی ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ بلا امتیاز سبھوں کو دے دیتے ہیں اور اس کی کوئی قیمت طلب نہیں کرتے۔ وہ اپنا سارا وجود، پورے کا پورا وجود لوگوں کو عطا کردیتے ہیں اور ان کے باغ وجود سے علم نافع کی نہریں ابد تک رواں دواں رہتی ہیں۔ لیکن ہمارے علم کی نخوت بڑی ڈاہڈی نخوت ہے۔ یہ رعونت تو انسان کو انسان نہیں سمجھتی، البتہ اس کے ڈے ضرور مناتی رہتی ہے۔

اشفاق احمد کی کہانی “اشرف سٹیل مارٹ” سے اقتباسات

آئیے!

بہت سے کام مجھے بہت مشکل لگتےہيں اور ان ميں سرفہرست پُرسہ دينا يا تعزيت کرنا ہے۔ ميں آج تک سمجھ نہيں پايا کہ آپ کسي ماں کو کيسے کہہ سکتے ہيں کہ وہ اپنے بيٹے کے مرنے پر صبر کرلے؟ کسي غمزدہ باپ کے سامنے 'اللہ کي مرضي' کا رٹا ہوا فقرہ کيسے دھرا سکتےہيں؟ سچ کہوں تو ميں ميّت والے گھر جانے سے گريز کرتا ہوں۔ دلاسہ دينا يا تعزيت کرنا تو دور کي بات ہے، ميري اپني حالت غير ہوجاتي ہے۔ مجھے سمجھ نہيں آتا کہ ميں کيا کہوں اور کيسے کہوں؟

خلاف عادت يہ ساري تمہيد ميں نے اس لئے باندھي ہے کہ ميں بہت دن سے سوچ رہا تھا کہ اس آفت کے بارے لکھوں جس نے ہميں پاني کي شکل ميں گھير ليا ہے۔ ليکن سمجھ ميں نہيں آتا تھا کہ کہ کيا لکھوں، اس ماں کو کيسے پرسہ دوں کہ جس کے بچے پاني ميں بہہ گئے۔۔۔ ان سفيد پوشوں کے دکھ کو کيسے بانٹوں جو ايک وقت کے کھانے کے لئے گھنٹوں قطاروں ميں لگے رہنے پر مجبور ہيں۔ ان بے کسوں کو کيسے سمجھاوں کہ روٹي نہيں ملتي تو لاٹھي چارج سے گزارا کرو اور ان لوگوں کے کہے کو حق جانو جو جگہ جگہ گھوم پھر کر تمہاري مدد کرنے کي بجائے تمہيں يقين دلا رہے ہيں کہ يہ سب تمہارے اعمال کا نتيجہ ہے!

ميں اپنے دوستوں سے صرف يہ کہنا چاہتاہوں کہ آئيے اور اٹھيے اور جس کي جو استطاعت ہے، اس کے مطابق اپنے ان آفت زدہ بھائيوں اور بہنوں کي مدد کے لئے نکليے۔ ان لوگوں کے کہے پر بالکل کان نہ دھرئيے جو يہ راگ الاپ رہے ہيں کہ ہماري امداد مستحقين تک نہيں پہنچے گي۔ مجھے يقين ہے کہ سب دوستوں کو کسي نہ کسي پر اعتبار ضرور ہوگا بحيثيت قوم ہم ابھي اتنے بے اعتبارے نہيں ہوئے! اٹھيے اور اپني امداد اپنے اعتبارکي تنظيم يا فرد کے حوالے کيجيے۔ اور پھر آکے اللہ کے سامنے اس مشکل کو آسان کرنے کي دعا کيجيے اور استغفار کيجيے۔

عمل کے بغير کوئي توبہ قبول نہيں ہوتي!

اردو کی 'وِچکارلی' کتاب - دیباچہ

غالباً اسمعیل میرٹھی نے 'اردو کی پہلی کتاب' لکھی تھی اور استاد الاساتذہ ابن انشاء نے 'اردو کی آخری کتاب'۔ اگرچہ ان حضرات نے اپنے تئیں سارے دریا، جھیلیں، ندیاں، ڈیم، بحور وغیرہ کوزے میں بند کردیئے تھے لیکن اہل نظر (یعنی ہم) جانتے تھے کہ اس ضمن میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ ہم نے بہت وقت اس انتظار میں گزارا کہ شاید کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے لیکن صد افسوس کہ کوئی مائی کا لال یا ابّا کی بنّو (محاورات میں دورجدید کے تقاضوں کے مطابق ترامیم بھی زیر نظر کتاب میں شامل ہوں گی) اس بھاری پتھّر کو نہ اٹھا سکے, بنا بریں ہمیں خود ہی ہمّت کرنی پڑی اور لنگر لنگوٹ وغیرہ کسنا پڑا۔ اگرچہ ہمارے لئے یہ کام کوئی ایسا کٹھن نہیں تھا لیکن ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ عصر حاضر میں شاید ایسا جواں مرد یا زنِ ذہین ہو جو ہمارا ہم عصر کہلانے کے لائق ہو، لیکن ۔۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

ہم گاہے بہ گاہے یعنی کَدَی کَدَی (وہی 'مَوکَا ملے کَدَی کَدَی' والا) اس کتاب کے لئے مضامین اسی بلاگ پر تحریر کریں گے۔ جن کو بعد میں کتابی شکل میں چھاپا جائے گا(بشرطیکہ ہمیں ہی کسی چھاپے وغیرہ میں نہ اٹھا لیا جائے)۔ چونکہ ہم درویشی/ فقیری قسم کی طبیعت رکھتے ہیں اس لئے اس کتاب کی رائلٹی وغیرہ سے ہم اللہ کی شان دیکھنے بلاد یورپ و امریکہ وغیرہم جائیں گے جہاں سیر و سیاحت اور فاسق و فاجر فرنگنوں کو دیکھ کر حصولِ عبرت برائے آخرت، جیسے نیک مقاصد پورے کئے جائیں گے۔ ہم اس بات پر بھی عمیق و دقیق غور کررہے ہیں کہ ان اسفار بارے تین چار چَوندے چَوندے سفرنامے بھی پھڑکائیں جن کے ہر تیسرے صفحے پر 'وَن سَوَنِّی' فاسق و فاجر فرنگی دوشیزائیں ہم پر موسلادھار طریقے سے عاشق ہوں جیسے اپنے چاچا جی پر ہوا کرتی تھیں اور بخدا کارٹون والے معصوم سے چاچا جی کے سفرنامے جب ہم نے ذرا بڑے ہونےپر پڑھے تو ہمیں چاچا جی کے میسنے پن پر بیک وقت غصّہ اور پیار آیا۔ اس بیک وقت غصے اور پیار کی وجوہات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں، اسے کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں!

اس کتاب کے فلیپ پر اپنی آراء چھپوانے کے لئے دنیا کے بہت سے عظیم ادباء، شعراء و مصنفین نے ہم سے رابطہ کیا جن میں گاما بی اے، فیجا لُدّھڑ ، طافو طمنچہ، شادا پوٹھوہاری، ماجھو ٹھاہ، ببّن کراچوی، ناجا لاہوری، چاچا چُوئی، مائیکل ٹُن، جارج گھسیٹا وغیرہم شامل تھے، لیکن چونکہ ہم ایسی سستی تشہیر پر یقین نہیں رکھتے اس لئے ہم نے ان سب عظیم ہستیوں سے معذرت کرلی۔ اب سب کو دو دو ہزار اور کتاب کے پچاس مفت نسخے کون دیتا پھرے! ویسے بھی ادب عالیہ کے عظیم نثرپاروں کو کسی ریویو وغیرہ کی محتاجی نہیں ہوتی کیونکہ جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے اور ۔۔آہو۔۔۔

کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ فوکویاما بھائی جان کا وہ نظریہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ لہذا اصولی طور پر اب تاریخ کو پیچھے کا سفر کرنا چاہیے تو آخری کتاب سے پیچھے جاتے ہوئے پہلے 'وچکارلی' کتاب ہی آنی چاہیے، اسی لئے ہم نے اس نام کو موزوں جانا۔ ویسےبھی چاچو شیکسپئیر نے فرمایا تھا کہ نام میں کیا رکھاہے اور گلاب (اس نکتے پر ذرا غور کریں کہ چاچو کو کیسے پتہ تھا کہ میں نے اپنا گریویٹار گلاب رکھنا ہے۔۔۔!!!! یہاں آپ (اپنے) منہ سے ۔۔ ڈھن ڈھنااااان۔۔۔ کا میوزک بھی بجا سکتے ہیں ) کو جس نام سے بھی پکاریں وہ گلاب ہی رہتا ہے۔ لہذا اگر اس کتاب کا نام 'ٹریکٹر کو 'پَینچر' کیسے لگاتے ہیں؟' یا 'برسات کے موسم میں ملیریا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اور روح افزا کے فائدے' بھی ہوتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔

آخر میں ہم اپنا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنے نہایت قیمتی وقت کو خرچ کرکے آپ جیسے کم پڑھے لکھے، سطحی سوچ کے حامل اور عقل کے پورے لوگوں کے لئے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا! جئے ہم۔۔۔۔

دُر شاباش!

سيلاب شيلاب تو آتے ہي رہتے ہيں۔ اہم بات يہ ہے کہ اپنے موقف سے انحراف کرنا، باپ بدلنے کے مترادف ہوتا ہے، کم ازکم حاجي صاحب نے تو يہي ثابت کيا ہے! اسي بات پر حاجي صاحب کے لئے دُر شاباش!

شاہي سيّد نے فرمايا ہے کہ يہ اردو بولنے والے 'بھيّا لوگ' پناہ گزين ہيں! جيسے ان کے اور ہمارے محترم باچا خان، وفات پانے کے بعد بھي جلال آباد ميں پناہ گزين ہيں۔ شاہي سيّد کے لئے بھي ايک عدد دُر شاباش!

آپ کے اور ہمارے، ہم سب کے پيارے، الطاف انکل نے ايم پي اے رضا حيدر کے قتل پر، پرامن يوم سوگ کي اپيل کي تھي۔ ان کے پيروکاروں نے بھرپور طريقے سے اس اپيل پر عمل کيا! اس ڈسپلن اور تنظيم اور يقين محکم پيدا کرنے پر الطاف انکل کے لئے دُر شاباش! (يہ الطاف انکل کي پندرہ کروڑويں دُر شاباش ہے)

شہباز شريف عرف خادم اعلي عرف عائشہ ہني کے ڈارلنگ عرف بيٹھي ہوئي آواز نے کہا ہے کہ سيلاب زدگان کي مدد کے لئے ناجائز دولت لوٹنے والوں سے پيسہ اگلوانا چاہيے۔ ان سے پوچھنا صرف اتنا ہے کہ يہ کام مياں شريف مرحوم کريں گے۔؟ اس کے ساتھ ہي انہوں نے تين ہزار سات سو ترپن ويں دفعہ خوني انقلاب آنے سے آگاہ کيا۔ يہ انقلاب، شايد اس سيلاب کے بعد آہي جائے کہ خدا کے گھر دير ہے، اندھير نہيں! خادم اعلي کے لئے بھي ايک عدد تازہ تازہ دُر شاباش!

صدرپاکستان اينڈ کو، کو کسي دُر شاباش کي ضرورت نہيں!

سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!

ایک دن 'اوئے' کے ساتھ

(احمقانہ پس پردہ موسیقی)۔۔۔روحیل کھڑپینچ کی آواز, پس پردہ موسیقی پر اوور لیپ کرتی ہے۔۔۔''آج ہام آپ کی ملاقات جس شخصیت سے کرووائیں گےےےے، وہ ہار فن مولا ہیںںںں۔ ڈاکٹر صابر ایوان کا نام کون نئیں جانتااااا۔(احمقانہ موسیقی اوورلیپ کرتی ہے) نامور ماہر قنون ہیںںںں۔ ججوں کے ساتھ ڈریکٹ کنکشن راکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں ماشہور اے کہ نسواری کو بھی بری کرووالیتے ہیںںںں۔ (موسیقی اوور لیپ)۔ آپ نے یونی وسٹی آف کوکوبانگو سے اخلاقیات میں پی ایچ ڈی کی ی ی اور فوجداری مقدموں میں بڑا نام پیدا کیاااا۔آیئے ان سے ملتے ہیںںںں۔''

ڈرائنگ روم میں صابر ایوان اور روحیل کھڑپینچ آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ کھڑپینچ کی آواز اوور لیپ کرتی ہے۔۔۔۔'' پیلے ہم نے آنڈوں پرونٹھوں کا ناشتہ کیااااا۔۔۔ پھر ہم نے دودھ پتّی کے دو دو مگّے پیےےےے۔۔۔ اس کے بعد لسّی کا ڈُوھڑ (ڈیڑھ) گلاس پیااااا۔۔۔ پھر ہمیں نیند آگئی ی ی (خرّاٹوں کی آواز اوور لیپ) اور ہم بارہ بجے اٹھے۔۔۔احمقانہ موسیقی۔۔۔ پھر صابر ایوان سے گپ شپ شروع ہوئی ی ی ''۔۔۔

آپ پر اَلزام لگایا جاتا اے کہ آپ نے وزیر اعظم زلفی کی پھانسی پر مٹھیائیاں بانٹیں تھیںںںں، آپ اس پر کیا کہتے ہیںںںں؟

جی نہیں۔۔۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اصل ماجرا یوں ہے کہ جناب زلفی شہید، کی شہادت کے دوسرے دن میں نے ان کی غائبانہ رسم قل کا اہتمام کیا تھا، کیونکہ اس دن بوجہ چھٹی، سبزی منڈی بند تھی، لہذا پھلوں کا بندوبست نہ ہوسکا،بنابریں ختم قل شریف کے بعد حاضرین محفل میں گلاب جامنیں اور برفی وغیرہ بانٹی گئی تھی، اتنی سی بات تھی جس کا حاسدین نے بتنگڑ بنا دیاہے۔۔۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جناب نسواری کے مخالفین یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مخلص ساتھیوں کی کردار کشی کرکے ان کو پارٹی سے نکالا جائے اور جناب نسواری کی ساکھ مجروح کی جائے، لیکن میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ ایسا صرف میری نعش پر سے گزر کر ہی ہو سکتا ہے۔ (وفور جذبات سے صابر ایوان کی داڑھی میں موجود سفید دھاری پھڑکنے لگتی ہے)

یہ بتائیں کہ ایک طرف تو آپ بی ٹی وی پر اسلامی لییکچر دیتے ہیںںںں، دوسری طرف جناب ناصف ولی نسواری کے وکیل بھی رہے ہیںںںں (آنکھیں میچ کر، ناک سکوڑ کر اور ہونٹوں کو گول کرکے) کیا یہ کھُولا تاضاد نئیں اے؟

مجھے آپ کے اس سوال سے تعصب، عناد، تنگ نظری اور انتہاپسندی کی بو آتی ہے، سو آئی آبجیکٹ اینڈ ریفیوز ٹو آنسر اٹ۔۔۔

روحیل کھڑپینچ کی آواز اوور لیپ کرتی ہے۔۔۔۔ صابر ایوان گسّے میں آگئےےےےے۔۔۔ انہوں نے لنچ کے لئے میری فرمیش پر کریلے گوشت پکوائے تھےےےے ۔۔۔لیکن انہوں نے کریلے گوشت کی ہوا بھی نہیں لگوائی ی ی ی۔۔۔۔  اور مُجے آلو اور کدّو کی بھجیا کھانے پر مجبور کردیاااا۔۔۔ جس پر ہامیں مجبورا پاروگرام مختصر کرنا پڑاااا۔۔۔

اگلے پاروگرام میں ہام آپ کی ملاقات ماشہور اداکارہ صیمہ سے کرائیں گےےےے۔۔۔ اس وقت تک کے لئے اجازت دیجیےےےے ۔۔۔ اللہ حافظ

ہیرو / ہیروئن – ادبی و تحقیقی مقالہ

فی زمانہ ادب کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس میدان میں سنجیدگی کے ساتھ تحقیقی، تنقیدی اور تعمیری کام کیا جائے، ورنہ بے ادبی فروغ پاتی جائےگی جو بنیادی اخلاقیات کے لئے سخت ضرر رساں ہے۔ اسی تناظر میں ہم نے اس میدان میں پاؤں دھرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ، زنانہ ڈائجسٹوں کے ہیرو اور ہیروئن کی بنیادی کرداری خصوصیات، نفسیات، مابعد الطبیعیاتی تحلیل نفسی وغیرہم پر مشتمل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا یہ کارنامہ ادبی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہر عظیم انسان کی طرح ہمیں بھی اپنے منہ میاں مٹھو بننا بالکل پسند نہیں اس لئے ہم اپنی تعریف کو مستقبل کے نقّاد پر چھوڑتے ہوئے مقالے کا آغاز کرتے ہیں۔

ہیروئن: حُور کا دنیاوی ورژن، اتنی حسین کہ روزانہ محلے کے بیس پچیس لڑکے اسے یونیورسٹی/کالج آتا جاتا دیکھ کر وفات پاتے ہوں اور یوں اس کا محلہ، وہ نازی کیمپ لگے جہاں روزانہ درجنوں کے حساب سے یہودی مارے جاتے تھے، اس سے یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ ہیروئن یہودیوں کے محلے میں رہتی ہے۔۔۔سرو قد جبکہ اس کی سہیلیوں میں امرود قد، بیری قد، بانس قد، مالٹا قد وغیرہ شامل ہوں، رنگت جیسے شہد میں دودھ ملا ہو، جھیل (یعنی تربیلا، منگلا، راول، کاغان وغیرہ بلکہ جھیلوں کی کمی کے پیش نظر قدرت نے عطا آباد جھیل بھی بنا دی ہے!) جیسی آنکھیں جن میں صرف ہیرو ہی ڈوبتاہے اس سے پہلے کسی کو توفیق نہیں ہوتی، بال گھٹنوں سے ذرا نیچے اور زیادہ تر شاہ کالے جبکہ کبھی کبھار ہلکے براؤن اور ہیرو اکثر یہ فرمائش کرتا پایا جاتا ہو کہ اسے ان زلفوں کی چھاؤں میں زندگی بسر کرنے دی جائے، ناک ستواں نہ کہ پھینی، موتیوں جیسے دانت، گھنی پلکیں، ہنستے ہوئے گالوں میں ڈمپل، بولے تو منہ سے پھول جھڑیں جبکہ ہنسے تو موسیقی بجنے لگے (اس سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ ہیروئن کا تعلق گانے بجانے والے گھرانے سے ہے!)، جب بھی ہیروئن اور ہیرو سامنے آئیں تو ہوائیں چلنے لگیں، سلوموشن میں دوپٹہ اڑنے لگے، پرندے گانے لگیں (چڑیاں وغیرہ، کوّے نہیں!) اور زوبی ڈُو ہونے لگے، جبکہ ولن کی آمد کی صورت میں سکُوبی ڈو۔۔۔ سگھڑاپے میں پی ایچ ڈی کی حامل، یونیورسٹی / کالج میں بوجہ حسن و اخلاق و ذہانت نہایت ہردلعزیز، آلو بتاؤں سے لے کر زعفرانی قورمے تک اور دال ماش سے ہرن کے کبابوں تک ہر ڈش پر کامل عبور، سلائی کڑہائی میں ید طولی، ہمیشہ فاختئی، کتھئی، کیلوی، سیبی، سنگتری، آمی، آڑوی، بینگنی، بھنڈوی، کدوؤی رنگ کے ملبوسات زیب تن ، ہیرو کو آخری صفحے تک بھائی جان کہنا، اکیلے بیٹھ کر فلسفے میں سوچنا (اس کی مثالیں اگلے کسی مقالے میں بیان کی جائیں گی)، والدین کی اکلوتی اولاد، امیر ہونے کی صورت میں والدین زندہ، جبکہ غریب ہونے کی صورت میں صرف باپ جس نے ماں بن کر پالا۔۔۔ عبادت گذار، محلے میں میلاد شریف کی محافل میں بطور خاص بلوائی جانے والی، نام ایسا اچھوتا کہ پتہ نہ چلے کہ یہ کسی خاتون کا نام ہے یا کسی یونانی دوا، افریقی دریا یا انڈونیشیائی بلا کا۔۔۔ مثلا فارمینہ، جسورہ، زلائنہ وغیرہم۔۔۔

ہیرو: دراز قد (کم از کم چھ فٹ)، کھلتا ہوا گندمی رنگ، مردانہ وجاہت کا کامل نمونہ کہ عمران خان بھی جس کے سامنے پانی بھرے، گہرے بھورے ، ہلکے نیلے یا 'سن وے بلوری اکھ والیا' جیسے رنگ کی آنکھیں، زیادہ تر داڑھی مونچھ منڈا لیکن کبھی کبھی ہلکی مونچھیں، ورزشی جسم، بازوؤں کی پھڑکتی ہوئی مچھلیاں، خوش لباس، ہر کھیل کا ماہر (ہر کھیل کے معاملے میں دماغ زیادہ نہ دوڑائیں، حالات اچھے نہیں چل رہے!)، یونیورسٹی / کالج کا سب سے ذہین طالبعلم، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سر فہرست، ہیروئن غریب ہو تو دنیا کے سب سے امیر باپ کا بیٹا اور ہیروئن کے امیر ہونے کی صورت میں اس کائنات کا سب سے مفلوک الحال انسان، جس کی بیوہ ماں کپڑے سی کرگھر چلا رہی ہو (لیکن ملبوسات دونوں صورتوں میں یکساں ہی رہیں گے)، بَلا کا خوددار (یہ بَلا بھی پتہ نہیں کون سی بَلا ہوتی ہے، چڑیل،ڈائن، اینا کونڈا، جن، بھوت۔۔ اس پر بھی ایک تحقیقی مقالہ لکھنا پڑے گا!)، دوستوں کا ایک بڑا گروپ جس میں صرف ایک ہی خاص دوست جو ہر مشکل صورتحال کو آسان بنانے کے لئےہمیشہ کمربستہ، شریف ایسا کہ بابرہ شریف کو شرمائے، لڑکیوں میں مغرور کے نام سے مشہور جبکہ حقیقت میں نہایت منکسر المزاج، نام ایسا کہ کم ازکم پڑھنے والے نے زندگی میں پہلی بار سنا ہو (از قسم روحال، صارم، یارق، زلیب وغیرہ)، ہیروئن کے ملنے سے پہلے ہر لڑکی کو بہن سمجھنے والا، بلکہ اگر ہیروئن کزن وغیرہ نکل آئے تو اس کو بھی نکاح نامے پر دستخط کرنےسے پہلے بہن ہی سمجھنے والا، بہادر، روشن خیال، نماز روزے کا پابند۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔

مندربہ بالا خصوصیات پر مشتمل انسان ان ڈائجسٹوں میں ہیرو/ہیروئن کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں یہ ساری خصوصیات تلاش کرنے کے لئے کم ازکم پینتیس سال اور ڈیڑھ کروڑ افراد چاہییں۔۔۔

چکّر

(شاہ زاد کے قلم سے)


چکّر باز دنیا۔۔۔۔ آخر میں اتنا چکرایا ہوا کیوں ہوں؟۔۔۔ لوگ کہتے ہیں جو چکّر دنیا کو دیئے ہیں، وہ واپس آرہے ہیں۔ میں کہتا ہوں ، چلو اچھا ہے۔۔۔ دنیا میں دیا چکّر دنیا میں واپس مل جائے۔ پر خود یہ دنیا چکّر کھا رہی ہے سورج کے گرد۔۔۔ پھر یہ کیا چکّر ہے؟ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے کم ازکم میں تو چکرا گیا ہوں۔۔۔
شیطان نے امّاں حوّا کو چکّر دیا تو یہ چکّر شروع ہوا، جو آج تک بس چکّر پہ چکّر کھا رہا ہے۔۔۔
چکّر شاید کسی گول چیز کو کہتے ہیں جس کا کوئی سرا نہ ہو، پھر تو سارا مسئلہ ہی ختم ہوگیا، جس کا سرا کوئی نہیں تو اس کا اختتام کیا ہوگا۔۔۔ میں سوچتا ہوں کہ شاید سوال حل ہوگیا پر پھر بھی سوال وہی رہے گا کہ یہ چکّر آخر ہے کیا۔۔!
زندگی ایک بہت بڑا چکّر ہے، شاید پینسٹھ سال کا یا ساٹھ سال کا۔ اس کے اندر تین چکّر ہیں، بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ پھر ان چکّروں میں کچھ اور چکّر ہیں، جیسے بچپن میں معصومیت کا چکّر۔۔ اپنی معصومیت دکھا کے ایک روپیہ لینے کا چکّر۔۔۔ اور نرم گالوں پر پیاری پیاری آنٹیوں کی پپّیوں کا چکّر۔۔۔ یہ چکّروں میں سب سے بادشاہ چکّر ہے!
پھر جوانی کا چکّر شروع ہوجاتا ہے۔ یعنی آپ چھوٹے چکّر سے اور بڑے چکّر میں آگئے، جیسے فزکس میں ایک الیکٹران اپنے مدار کو چھوڑ کر بڑے مدار میں جاتاہے تو بہت انرجی ضائع کرتا ہے۔۔ بس۔۔۔ آپ بھی ان چکّروں میں بہت سی انرجی ضائع کرنے والے ہیں کیونکہ اس چکّرمیں آپ کے چکّر الجھنے والے ہیں۔ جی چکّر ہی چکّر۔۔۔ پہلے محبت کا چکّر۔۔۔ پھر لڑکی کے گھر کے چکّر۔۔ پھر شادی کا چکّر۔۔۔پھر اس کے بعد بچوں کے پیمپر لانے کے چکّر۔۔۔ ان کو سکول چھوڑنے کے چکّر۔۔۔ ان کی دیکھ بھال کے چکّر۔۔۔ اتنے چکّر کہ بس آپ کو ایک دو بار خود اسپتال کے چکّر لگانے پڑ جاتے ہیں۔۔۔
اور پھر آخری قبرستان کا چکّر۔۔۔ جو صرف وہاں آپ کو چھوڑنے جانے والوں کے لئے ہے۔۔۔ کیونکہ آپ کا چکّر تو وہاں ختم ہوجاتا ہے۔۔۔۔!

فیرہُن؟

ہمارے یہاں، پچاس کے بعد، جب اولاد جوان ہوجاتی ہے، بیوی، ماں کا روپ دھار لیتی ہے، بہن بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوجاتے ہیں، والدین یا تو گزر چکے ہوتے ہیں یا اس کی تیاریوں میں ہوتے ہیں تو بڑا مشکل وقت شروع ہوجاتا ہے جی عمر کے اس حصے میں۔ بچّے، جو اب بڑے ہوچکے ہوتے ہیں، اپنی ساری کمیوں اور ناآسودگیوں کا ذمہ دار باپ کو ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے آج تک ہمارے لئے کِیا ہی کَیا ہے ؟؟؟۔۔۔ اور وہ جو پوری زندگی، دن رات محنت کرکےاور اپنا آپ مار کے ان کی خواہشیں ہر ممکن حد تک پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا، اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔۔۔۔!

بیوی کو بھی وہ سارے ظلم اور زیادتیاں یاد آنی شروع ہوجاتی ہیں جو بقول اس کے، شوہر نے ساری زندگی اس پر روا رکھیں۔ 'مُنّے کے ابّا' پکارنے والی محترمہ اب اپنا ہر جملہ یہاں سے شروع کرتی ہیں کہ 'اجی کبھی زندگی میں کوئی کام ڈھنگ سے بھی کر لیا کرو'۔۔ اور یہ بات وہ اپنی اولاد کے جھرمٹ میں ملکہ کی طرح بیٹھ کر ارشاد کرتی ہیں اور وہ یہ بھی کہہ نہیںسکتا کہ جن کے بل پر آپ یوں اکڑ رہی ہیں، یہ ڈھنگ کے کام بھی اسی نے کیے تھے!

مرے پر سو دُرّے۔۔۔۔۔کسی بھی مسئلے ،معاملے، جھگڑے، خوشی، غمی میں باپ ہمیشہ ایک طرف اور ماں اور اولاد دوسری طرف ہوتی ہے۔ باپ ہمیشہ غلط ہوتا ہے، ماں چاہے جتنی بھی غلط بات کررہی ہو، اولاد کی نظر میں وہ ٹھیک ہوتی ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ کہانی تقریبا ہر گھر کی کہانی ہے۔

میرے نزدیک تو جی اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ بندہ عین جوانی میں ہی مرجائے، یہی کوئی پینتیس چالیس کے آس پاس، اس وقت بچے چھوٹے ہوتے ہیں اور چھوٹے بچوں کے لئے ان کے باپ سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہوتی اس دنیامیں۔ بچوں کے لئے باپ، دنیا کا سب سے بہادر، امیر اور اچھا انسان ہوتا ہے۔ وہ تو جب بچّے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان پر باپ کی خامیاں اجاگر ہوتی ہیں کہ ان کا باپ کیسا غیر ذمہ دار، ظالم، عیّاش، ان کی ماں کی زندگی برباد کرنے والا اور لفنگا انسان تھا۔۔۔ جوانی میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ذہن میں تاعمر باپ کا وہی تاثر رہتاہے جو ان کی بچپن کی یادداشت میں محفوظ تھا۔ اور بیوی کو متوفی خاوند میں وہ خوبیاں بھی نظر آنی شروع ہوجاتی ہیں جو کبھی موجود ہی نہ تھیں۔ مرنے کے بعد سب محفلوں میں اس کا ذکر ایسے ہوتاہے جیسے اس جیسا نیک، پارسا، ذمہ دار، بات کا پکا، بیوی بچوں کا خیال رکھنے والا انسان شاید ہی کوئی اور ہو۔۔۔۔ اور یہ فقرہ بھی کہ بس جی اللہ اپنے اچھے بندوں کو جلدی اپنے پاس بلالیتا ہے۔۔۔۔۔اوروہ رشتے دار جو زندہ ہوتے ہوئے منہ لگانا بھی پسند نہ کرتے ہوں، وہ بھی ایسے تعریفوں کے پل باندھتےہیں کہ ۔۔۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔۔۔۔

تو جی بات یہ ہے کہ ہمارے خطّے کے لوگوں کی اوسط عمر ساٹھ سے کم ہی ہے، تو پندرہ بیس بدذائقہ سالوں کے لئے پوری زندگی کی 'کیتی کرائی کھوہ' میں ڈالنے کا کیا فائدہ؟ میرا تو مفت مشورہ ہے کہ یہی وقت ہے مرنے کا، اس عمر تک پہنچتے پہنچتے دعا کریں کہ اوپر پہنچ جائیں، ورنہ آگے بڑی بدمزگی ہے!!

دماغ کی دہی المشہور بہ میمنٹو

ایک بہترین سا، زیادہ سارے تلوں والا ،کرارا ، کلچہ لیں۔ پھر یہ فلم دیکھیں، فلم ختم ہونے کے بعد دماغ کی دہی بن چکی ہوگی بس اسے کلچے کے ساتھ تناول کرکے زندگی کے مزے لوٹیں!!

ہدایتکار کرسٹوفر نولان کی یہ پہلی فلم تھی جو میں نے دیکھی اور پھر اس کے بعد اس کی ساری فلمیں دیکھ ڈالیں، ڈارک نائٹ بھی، حالانکہ کامک بک کرداروں پر بنی ہوئی فلمیں میں نے کبھی شوق سے نہیں دیکھیں۔ جوناتھن نولان کی لکھی مختصر کہانی 'میمنٹو موری ' ماخوذ  اس فلم میں منظرنامہ کرسٹوفر نولان کا ہے۔ انسانی دماغ اور اس کی پیچیدگیاں اور ان پیچیدگیوں سے بُنے گئے کھیل، یادداشت، حقائق، دھوکہ، حقیقت، گھڑی گئی حقیقت اور بہت سے ڈفانگ آپ اس میں ملاحظہ کرکے اپنے دماغ کو سخت ورزش کرواسکتے ہیں۔ فکشن کا رسیا ہونے کے ناتے، میں اکثر کوئی کہانی پڑھ کے سوچا کرتا تھا کہ اس پر فلم یا ڈرامہ بنانا ناممکن ہے۔ لیکن اس فلم کو دیکھ کے بعد، میں اپنے ایسے بے ہودہ خیالات سے تائب ہوچکا ہوں۔ اگر اس پیچیدہ کہانی پر ایسی فلم بنانا ممکن ہے تو ہر کہانی کو فلمایا جا سکتا ہے!

گائے پیرز کی پہلی فلم جو میں نے دیکھی تھی، وہ 'ایل اے کانفیڈنشل' تھی۔ اس فلم میں سپرسٹارز بھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان جس طرح اس نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا، اس سے میں شدید متاثر ہوا تھا۔ اور اس فلم کے بعد تو میں اس کا سخت فین ہوچکا ہوں۔ کیری این موس (وہی میٹرکس والی!) اور جو پینٹالانو اس کے دوسرے اہم اداکاروں میں شامل ہیں۔ میرے خیال میں اس فلم کو فلم انسٹی ٹیوٹس میں ہدایتکاری کے سلیبس میں شامل ہونا چاہیے (شاید ہو بھی)۔ کہانی سنانے کی جو تکنیک اس میں استعمال کی گئی ہے وہ نہ تو اس سے پہلے میں نے کبھی دیکھی اور نہ اس کے بعد۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جس کا پہلا منظر، کہانی کا آخری منظر ہے! گھوم گیا ناں بھیجہ۔۔۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ اور نہیں کہوں گا کہ پھر فلم دیکھنے کا کیا 'فیدہ' اگر آپ نے مجھ سے ہی کہانی سننی ہے۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

اور ایک اور چیلنج بھی ہے، ایک دفعہ دیکھ کے آپ اس فلم کو نہ تو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی لطف اندوز ہوسکتے ہیں لہذا دوسری دفعہ دیکھنی ہی پڑے گی اور دوسری دفعہ دیکھنے پر جو لطف آئے گا اس کی مثال میں دینا نہیں چاہتا۔۔۔۔

انتباہ صرف اتنا ہے کہ اسے جم کیری، آرنلڈ شوارزینگر، بروس ولس، جیکی چن وغیرہ وغیرہ کی فلم سمجھ کر نہ دیکھیں، کہ فلم بھی دیکھ رہے ہیں ساتھ میں گپ شپ بھی جاری ہے، اور بعد میں میرے اوپر گرم ہوجائیں کہ یہ کیسی عجیب فلم ریکمنڈ کی ہے، نہ سر نہ پیر۔۔۔۔۔

اور ایک آخری بات اور کیونکہ اس کے بعد پروگرام کا وقت ختم ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جس کے انجام کو دیکھنے والے کے ذہن اور سوچ پر چھوڑدیا گیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ تقریبا ہر انجام، جو سوچا جاسکتا ہے، منطقی ہے۔۔۔۔ کیسا!!!!!


(بشکریہ فلمستان)

کھولنا اپنے ہی پولوں کا

دوسروں کے پول کھولنا شاید اس کائنات کا سب سے آسان اور۔۔۔۔ لذیذ کام ہے۔ وہ گنجا ہے، وہ کالی ہے، وہ توندیل ہے، وہ بالکل سیدھی ہے جیسے اسے کوئلے والی بڑی استری سے پریس کیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ لیکن آج میں اپنے ہی پول کھولنے پر اتر آیا ہوں۔ آپ کو شاید بلکہ یقینا مزا آئے گا، پر مجھ کو خاطر خواہ بدمزگی ہوگی جس سے چند احباب کے محظوط ہونے کا امکان یقینی ہے۔۔۔

چلیے شروع کرتے ہیں ۔۔۔مثلا نمبر ایک، میرا جیسا کنجوس اس کائنات میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ میری ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب جب تک مجھے ۹۹۹ ڈائل کرنے کی دھمکی نہیں دیتی، میں اسے دبا دبا کراور پچکا پچکا کر اور جھٹک جھٹک کر اس میں سے پیسٹ نکالتا رہتا ہوں،اور ۸۰ گرام کی ٹیوب میں سے میں تقریبا 7۔۷۹ گرام پیسٹ استعمال کرلیتا ہوں اور باقی بچنے والے اعشاریہ تین گرام کو نہ استعمال کرنے پر میری جو افسوسناک اور کربناک حالت ہوتی ہے، وہ قابل دید ہی ہوسکتی ہے، لفظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

فلرٹیشن کا مرض (پنجابی میں لکھیں تو۔۔۔ ہونا ٹھرکی کسی بندے کا) زمانہ طفولیت سے ہی لاحق ہے۔ پہلی جماعت میں تھا تواپنی مس پر عاشق ہوگیا تھا۔۔۔ اور اسے جھوٹ نہ سمجھیں۔ پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میں نے کوئی سات خیالی معاشقے پھڑکاڈالے تھے۔ چچا نے شاید یہ مصرعہ میرے لئے ہی کہا تھا کہ

مرا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے۔۔۔

جوانی کے حقیقی معاشقے سنانے کی غلطی تو میں ہرگز نہیں کرسکتا، کہ میں یملا تو ہوں پر اتنا بھی یملا نہیں! ہیں جی۔۔۔

اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ بڈّھا ہونے پر تو میری شدید واٹ لگے گی کہ بابے تو ویسے ہی ٹھرکی ہوجاتے ہیں اور میرے جیسے متوقع بابے، جو زمانہ قبل از تاریخ سے ہی ٹھرکی واقع ہوئے ہوں، تو وہ تو ٹھرکی کی بھی تیسری فارم یعنی ٹھرکیئسٹ ہوجائیں گے۔۔۔ اللہ میرے حال پر رحم فرمائے۔۔۔ اور مجھے جوانی میں ہی ۔۔۔ آہو۔۔۔

بزدلی مجھ میں ایسے کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے جیسے میرا میں انگلش۔ عورتیں بےچاریاں تو ویسے ہی مشہور ہوگئی ہیں چھپکلیوں، کاکروچوں، چوہوں وغیرہ سے ڈرنے میں، جبکہ اس کام میں جو یدطولی مجھے حاصل ہے، وہ کسی عورت کے بس کی بات نہیں۔ ویسے یہ عورتیں جب لڑکیاں ہوتی ہیں تو ان کے کالج ویمن کالج کہلاتے ہیں اور جب حسب توفیق چار پانچ چاند سے بچوں کی اماں جاتی بن جاتی ہیں تو ان کا اصرار ہوتا ہے کہ انہیں لڑکی سمجھا اور پکارا جائے۔۔۔ ساری دوسری سائنسوں کی طرح یہ سائنس بھی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔۔۔

کہیں آپ یہ نہ سمجھنا شروع کردیں کہ میں ہرکام میں ہی کنجوس ہوں اس لئے وضاحت کیے دیتا ہوں کہ لفظ خرچ کرنے کے معاملے میں، میرا ایک ہی ثانی ہے (بلکہ وہ اول ہے میں ثانی ہوں)۔ میں اتنی فضول خرچی سے لفظ بولتا اور لکھتا ہوں جیسے ہمارے حکمران قومی خزانے سے کبھی عمرے کرتے ہیں اور کبھی مجرے سنتے ہیں۔ 'الفاظوں' کے معاملے میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ میں نے کبھی جزرسی کی ہو، جو بات ایک فقرے میں کہی یا لکھی جاسکتی ہو، میں اس پر تین تین گھنٹے اور چھ چھ دستے کاغذوں کے لگا دیتا ہوں۔ اور جب بات ختم ہوتی ہے تو کوئی مائی کا لعل یا ابا کی بنّو یہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ اصل بات کیا تھی۔۔۔ ایک دفعہ پھر۔۔۔۔ ہیں جی۔۔۔۔

فوٹوسٹیٹی دانش

میں ایک بلاگر ہوں۔ میں ایک دن میں تین دفعہ کھانا کھاتا ہوں اور چار پوسٹیں بلاگ پر پوسٹتا ہوں۔ اس کائنات کا کوئی ایسا موضوع باقی نہیں بچا جس پر میں نے کوئی پوسٹ نہ کی ہو۔ چکن جلفریزی سے نظریہ اضافت تک میں نے ہر موضوع پر ‘دے مار ساڈھے چار' قسم کی دھانسو پوسٹیں ٹھوک کر لکھیں۔ اور تبصرہ نگاروں کی ایسی دھلائی بزعم خود کی، جیسے پچھلی پیڑھی کی عورتیں کپڑوں کی 'تھاپی' سے دھلائی کرتی تھیں۔ میں نے ہمیشہ اور ہر بندے کی ہر بات کی مخالفت اپنا علمی، دینی، اخلاقی، مذہبی، معاشرتی، سیاسی، نامیاتی، معاشی، اقتصادی، تحقیقی اور مابعد الطبیعاتی فریضہ سمجھ کر کی۔ میرا 'کاں' ہمیشہ 'چٹّا' ہی رہا اور میرا سورج رات کے ساڑھے بارہ بجے ہی طلوع ہوتا رہا۔ میں نے یونیورسٹی کی سب سے حسین لڑکی کو بھی آئی ہیٹ یو اس لئے کہا کہ اس نے مجھے آئی لو یو کہا تھا!!

ایک دن جب میں صبح اٹھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس لکھنے کو کچھ باقی نہیں۔ میں پریشان ہوگیا، میری سٹّی گم ہوگئی۔ میرے ہاتھوں کے طوطے، کبوتر، کاں سب اڑ گئے۔ میں نے خود کو ایسا محسوس کیا، جیسے میں کرپشن کے بغیر زرداری ہوں یعنی کچھ نہیں ہوں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرا دل درد سے بھر گیا۔ میں دنیا سے مایوس ہوگیا۔ میری راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ مجھے خوابوں میں ورڈ پریس کے بھوت ڈرانے لگے۔ میرے بلاگ کے تبصرہ نگار بھوتوں کی شکل میں مجھے آس پاس نظر آنے لگے۔ میں ذہنی مریض بننے لگا۔

انہی دنوں میں نے نمازیں بھی شروع کردیں۔ میں ایک دن جمعہ کی نماز پڑھ کے مسجد سے باہر نکلا تو مجھے مسجد کے دروازے پر دس بارہ سال کے بچے نے ایک فوٹو سٹیٹ کیا ہوا کاغذ تھما دیا۔ یہ کاغذ وہ ہر نمازی کو تھما رہا تھا۔ میں نے اس کاغذ پر نظر ڈالی اور میرے دل کی کلی کھل گئی۔ میں بھاگا بھاگا گھر پہنچا، کمپیوٹر آن کیا اور اس کاغذ کو سکین کرکے بلاگ پر لگادیا۔ میرے بلاگ پر وہ گھمسان کا گھڑمس مچا کہ میرا دل گاندھی گارڈن ہوگیا۔ میں ہواؤں میں اڑنے لگا۔ مجھے اپنی زندگی سے دوبارہ پیار ہوگیا۔ میں رفیع کے پیار بھرے گیت گنگنانے لگا۔ لیکن یہ بہار صرف دو دن قائم رہی۔ میں پھراگلے جمعے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن اس دن مجھے مسجد کے باہر کوئی کاغذ نہیں ملا۔ میں دھوپ میں دو گھنٹے کھڑا رہا کہ شاید کسی پوسٹ کا مصالحہ مل جائے لیکن ایسا نہ ہوا۔ اگلے تین چار جمعے بھی یہی کچھ ہوا۔ دھوپ میں کھڑا رہ رہ کے میرا رنگ ایسا ہوگیا کہ ایک ویسٹ انڈین نے بھی مجھے 'اوئے کالے اوئے' کہہ کے پکارا۔ میں جمعہ سے مایوس ہو کر فالسے اور گنڈیریوں کی ریڑھی سے خوامخوہ چیزیں خرید لیتا کہ شاید کوئی فوٹو اسٹیٹ ہو۔ حتی کہ شام کو پکوڑے کھا کھا کر میں نے اپنا پیٹ پانی پت کا میدان بنا لیا کہ شاید کسی دن اخبار کی بجائے فوٹو اسٹیٹ پیپر پر پکوڑے مل جائیں۔ یہاں تک کہ رات گئے میں فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں کے چکر لگاتا رہتا کہ شائد کوئی کسی پرچے کی فوٹو اسٹیٹ کروا رہا ہو اور میں ایک آدھ اچک لوں۔ میں نے ساری دنیا میں اپنے جاننے والوں سے درخواست کی پر ان سب نے مجھے رنگین اور اجلے پیپرز پر چھپے پمفلٹ بھیج چھوڑے جبکہ مجھے تو تلاش تھی اسی مٹی کے تیل والی فوٹو اسٹیٹ کی۔۔۔

میری زندگی، میرا کیرئیر، میری بلاگنگ اب ایک دوراہے پر آن پہنچی ہے۔ میں آپ سے پرسوز اور دردمندانہ اپیل کرتاہوں کہ براہ کرم جہاں بھی کسی کو کوئی فوٹوسٹیٹی دانش ملے، مجھے بذریعہ ڈاک، یا ایمیل یا دستی (جمشید دستی نہیں) پہنچادے اور اس دکھی اور جھلسے ہوئے دل (اورچہرے) کی دعائیں لے!!!!

ذلّت لیگ

میں نے پالٹی بنائی اے۔ بڑی مشور ہورئی اے۔ لوگ ایں، شامل ہورئے ایں۔ الیکشن اے، میں نے جیتنا اے۔ نوایشریف اے، جلتا اے۔ میری پاپولیرٹی اے، فیش بک اے، فین ایں، مزے ایں۔ پالٹی کے تین لاکھ رکن ایں، فیش بک پر آتے ایں، میرا پیج وِییَٹ کارتے ایں۔ کومنٹ کارتے ایں۔ لائک کارتے ایں۔ اور پاپولیرٹی کیا ہوتی اے؟

کرشٹینا لیمب اے۔ بڈھی اے۔ پیسے کھاتی اے، میرے خلاف رپوٹیں چھاپتی اے۔ کہتی اے، میں شراب پیتا اوں، ویلیں دیتا اوں۔ میرے پیسے ایں، اس کو کیا تکلیف اے؟ مجے سب پتہ اے۔ اسلام میں نشہ حارام اے، میں شراب پیتا اوں۔۔۔مجے نشہ نئیں اوتا اے۔۔۔۔ اس لئے مجے شراب حلال اے۔۔۔۔

میرے پاس آئی اے، میں نے لفٹ نئیں کرائی اے۔ گصہ اے، کیا اے۔ مجے ڈر نئیں لاگتا اے۔ دو باتیں ایں۔ فیش بک اے، پالٹی اے۔ راشد قاریشی اے۔ اچھا آدمی اے۔ لوگ اس کو چھیڑتے ایں، دو نمبر جرنل اے۔ ایسی بات نئیں اے۔ میں نے اس کو جرنل بنایا اے۔ ۔۔۔۔یہ باتیں جھوٹی باتیں ایں، یہ نون لیگیوں نے پھیلائی ایں۔ تم شاہ جی کا نام نہ لو، کیا شاہ جی شدائی ایں۔۔۔

لوگ مجھ کو یاد کارتے ایں۔ آہیں بھارتے ایں۔ میں ایک دن لُوٹ کر آؤں گا۔۔۔۔ میرا انتظار کارنا۔۔۔ہچچ ہچچچ۔۔۔ ہچکی اے ۔۔۔آتی اے۔۔ عوام یاد کارتی اے، نشہ نئیں اے۔۔۔ مجے سب پتہ اے۔ اسلام کا پتہ اے، نظام کا پتہ اے، عوام کا بی پتہ اے، میں نے جنگیں لڑیں ایں، میں بہادر اوں، مجے ڈر نئیں لاگتا اے۔۔ ہچچ ہچچچ ہچچچ۔۔۔

دو دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔

کہ ایک بادشاہ تھا، ایک ملکہ تھی، ملکہ وزیر کی بیوی تھی، جبکہ بادشاہ نے نرگس سے شادی کرلی تھی۔ نرگس، ہزاروں سال رونے کی وجہ سے بے نور ہوئی تھی یا بے نور ہونے کی وجہ سے ہزاروں سال روئی تھی، یہ بادشاہ نے کبھی اس سے پوچھا نہیں تھا۔ ایک دفعہ پوچھنے کی کوشش کی تھی تو نرگس ساری رات 'مینوں دھرتی قلعی کرادے میں نچّاں ساری رات' پر ناچ ناچ کے پاگل ہوگئی تھی۔ محل کے سارے ملازموں اور نوکروں اور غلاموں اور خواجہ سراؤں (کبھی بندے کا نہانے کو نہیں بھی دل کرتا) نے بھی یہ غصیلا مجرا مفت دیکھاتھا اور بادشاہ کی درازی عمر کی دعائیں کیں تھیں۔ لہذا بادشاہ کو آئندہ کے لئے 'کَن' ہوگئے تھے۔

نور، بچپن میں چائلڈ آرٹسٹ تھی، اور بڑی ہو کے بھی 'بچوں' والے کام ہی کرتی تھی، نور اور نرگس 'سہیلی بوجھ پہیلی' تھیں، بادشاہ کا تہترواں شہزادہ، جونور کے کمرشل اور نرگس کے ڈانس نما مجرے یا مجرے نما ڈانس دیکھ دیکھ کے بڑا ہوا تھا، اس کو شکار کا بہت شوق تھا۔ وزیر کی بیوی جو ملکہ تھی، وہ خفیہ طور پر گھر میں اسلحہ بناتی تھی اور پینٹ شرٹ اور موٹر سائیکل والے روشن خیالوں کو بیچتی تھی جن کی نہ داڑھیاں تھیں اور نہ ہی وہ امریکہ کو گالیاں دیتے تھے، اچھے بچے۔۔۔ بس یہ اچھے بچے سڑکوں اور گلیوں میں لوگوں کو ملکہ سے خریدا ہوااسلحہ دکھاتے تھے کہ دیکھو کیا شاندار چیز ہے۔۔۔ پر پتہ نہیں کیوں لوگ ان کو اپنے فون، پرس ، گھڑیاں وغیرہ دے دیتے تھے، حالانکہ انہوں نے کبھی خودداری کی وجہ سے ان سے کوئی چیز مانگی نہیں تھی شاید بلکہ یقینا تحفتا دیتے ہوں گے۔ شہزادی اور ملکہ کی چچیری بہن کی نند کے دیور کی بڑی بہن کی بیٹی بہت اچھی دوست تھیں۔ وہ دونوں کالج سے سیدھی جوس کارنر پر ڈیٹ مارنے جاتی تھیں، جہاں شہزادہ بھی شکار کھیلتا تھا۔

الحمرا سے بگھی والے نے جب بادشاہ سے محل جانے کے زیادہ پیسے مانگے تو بادشاہ نے غصے میں آکر اسے وزیر اعظم بنا دیا۔ جس پر بگھی والے کو اپنی بگھی بیچنی پڑی تاکہ اچھے اچھے سوٹ اور چمکیلی چمکیلی ٹائیاں خرید سکے۔ بگھی میں لگے ہوئے خچروں نے اپنے مالک کی اس بے وفائی پر عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائرکردیا۔ عالمی عدالت انصاف نے ترنت بگھی والے کو غاصب قرار دے دیا لیکن چونکہ بگھی والے کو استثناء حاصل تھا اس لئے خچروں نے جنیوا کے مشہور چوک میں اجتماعی خود کشی کی یرکانوے لگائی جس پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے وزیر اعظم کو انسداد بے رحمی حیوانات کے آرٹیکل تیرہ سو پینٹھ بٹا ساڑھے چتالی سو کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے انہیں ساڑھے اٹھونجہ دفعہ پھانسی اور بادشاہ کی تین لگاتارچُمّیوں کی سزادی۔ بادشاہ اور وزیر اعظم اور وزیر کی بیوی یعنی ملکہ اور شہزادی، جو بادشاہ کی وجہ سے شہزادی نہیں تھی بلکہ ملکہ کی وجہ سے شہزادی تھی اور شہزادے (تہترویں) اور نرگس اور سہیلی بوجھ پہیلی نے اعلی سطحی یعنی چھت پر منعقد اجلاس میں آم چوستے ہوئے اقوام متحدہ کو جی بھر کر کوسنے دیئے اور بادشاہ نے اپنے باقی بہتّر شہزادوں کو ٹرائی سائیکل دلوانے کے لئے آئی ایم ایف سے قرضے کی درمندانہ اپیل وزیر یعنی ملکہ کے شوہرکو 'رات بھر کرو اب کھل کہ بات' والے پیکج پر املا کرائی۔

اگر کسی کو اس کی سمجھ آئے تو براہ کرم مجھے بھی سمجھائے ۔۔ اوراس تحریر سے، میری آجکل جو ذہنی حالت ہے اس کا اندازہ 'ارام ناں' لگایا جاسکتا ہے۔۔

حقیقت / افسانہ

اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز نیا اور اچھوتا خیال ہوتا ہے، ان خیالات کو پیش کرنے والے لوگ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ ویسے بندہ مرجائے (اور مرجاتا ہے) تو تاریخ میں زندہ رہنےکا کیا فائدہ؟ اور اگر کہیں سے آب حیات مل جائے اور موت سے چھٹکارا پالیاجائے توپھر یہ زندگی مسلسل عذاب بنی رہے گی، بہرحال یہ ایک علیحدہ بحث ہے، جس پر پھر کبھی اپنی زرّیں چوّلیں پیش کروں گا۔

میں نے جب 'سٹرینجر دین فکشن' دیکھی تھی تو میرے ذہن میں اس کے مصنف کے لئے ایسے ہی خیالات ابھرے تھے کہ کیا ہی زبردست آئیڈیا ہے۔ بالکل اچھوتا! یا شاید مجھے اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سےاچھوتا لگا ہو، میں نے آج تک اس موضوع پر نہ تو کبھی پڑھا اور نہ اس پر کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھا۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب شاید میں فلم کی کہانی اور پلاٹ (ویسے اس فلم کا پلاٹ تو کارنر پلاٹ ہے، یعنی کافی قیمتی ہے) بیان کرنا شروع کروں گا۔ ایسی کوئی بات نہیں، ٹھنڈ رکھیں۔ اس فلم کوکسی خاص زمرے میں فٹ کرنا کافی مشکل ہے۔ رومان، تھوڑی بہت سنسنی، ڈرامہ، ہلکا پھلکا مزاح، فینٹسی (اس لفظ کی اردو نہیں آتی مجھے) سب موجود ہے۔

جیسا پہلے لکھا ہے کہ اس فلم کا سب سے بڑا مثبت نکتہ (پلس پوائنٹ، اتنی اردو توآتی ہے مجھے) اس کا بنیادی خیال ہے۔ منظرنامہ بھی زبردست ہے۔ مکالمے برجستہ اور کچھ مقامات پر نہایت شگفتہ ہیں۔ مارک فورسٹر اس فلم کے ہدایتکار ہیں۔ جن کے کریڈٹ پر مونسٹرز بال، فائنڈنگ نیور لینڈ اور سٹے جیسی فلمیں ہیں۔ فلم کی کاسٹ  ڈسٹن ہوفمین، ایما تھامپسن، ول فیرل، میگی جیلنہال، کوئین لطیفہ جیسے ہیوی ویٹس پر مشتمل ہے۔ بور، یکسانیت کا شکار اور تھوڑے سے خبطی آئی آر ایس آفیسر کا مرکزی کردار ول فیرل نے ادا کیا ہے اور اپنی معمول کی اوور دی ٹاپ اداکاری سے گریز کرتے ہوئے بہت عمدہ پرفارمنس دی ہے۔ ایما تھامپسن نے ناول نگار کے کردار میں جان بھر دی ہے جبکہ ڈسٹن ہوفمین حسب معمول شاندار ہیں۔ میگی جیلنہال کی یہ پہلی فلم تھی جو میں نے دیکھی اور دیکھتے ہی اس کا پرستار ہوگیا، اداکاری کا، خوبصورتی کا نہیں!

سوچنے والے ذہن رکھنے والوں کے لئے یہ فلم دیکھنا لازمی ہے۔ باقی جو میرے جیسے ہیں وہ بھی اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ میں تو صرف اس کے بنیادی خیال کے سحر میں مبتلا رہا لیکن دوسرے لوگ اس میں سے کچھ اور بھی برآمد کرسکتے ہیں جو میں اپنی سطحی سوچ کی وجہ سے نہ کرسکا۔

(یہ تحریر آپ فلمستان پر بھی ملاحظہ کرکے مزید بور ہوسکتےہیں)

قوت متحرکہ

شفیق الرحمان نے کسی جگہ لکھا تھا کہ دنیا کے سارے عظیم آدمی غمگین تھے، لہذا آپ بھی غمگین رہنا شروع کردیں کہ غم عظمت کی کنجی ہے۔ مزاح کے پیرائے میں کی گئی اس بات پر ذرا غور کریں تو یہ اتنی غلط بھی نہیں لگتی۔

محبت سے لے کر روزگار تک اور بے وفائی سے لے کر غریب الوطنی تک، دکھوں کی اقسام ان گنت ہیں۔ آپ کہیں گے کہ محبت کوغم میں کیسے شمار کیا جاسکتا ہے؟ کرنے والوں سے پوچھ کر دیکھیں یا پھر اپنے دل سے ہی پوچھ لیں!

دکھ اور غم بندے کو ہرابھرا اور زرخیز رکھتے ہیں، مسلسل خوشی بندے کو ایسے بنجر اور ویران کردیتی ہے جیسے سیم اور تھور زرخیز اور آباد زمین کو کردیتا ہے۔ مثال کے لئے اپنی اشرافیہ کو دیکھ لیں، پچھلے دو تین سو سال میں اس نے کیا پیدا کیا ہے، کاٹھ کباڑ۔۔۔۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بندہ، ایسے بھکاریوں کی طرح جو اپنے زخموں کو دکھا کر بھیک مانگتے ہیں، اپنے دکھوں کی نمائش لگا کر پھرتا رہے، اور ہمدردی کی بھیک سمیٹتا رہے۔ بلکہ دکھ کو بیج کی طرح دل کی زمین میں گہرا بونا پڑتا ہے، تنہائی میں بہائے گئے آنسوؤں کا پانی دینا پڑتا ہے اور یادوں کی دھوپ لگوانی پڑتی ہے۔ پھر جو پودا اگتا ہے تو اس سے پھل اورچھاؤں دونوں حاصل ہوتے ہیں۔

درمندانہ اپیل بنام بلاگ ایوارڈز انتظامیہ

معزز اراکین انتظامیہ و منصفینِ بلاگ ایوارڈز ڈاٹ پی کے

اس فدوی و حقیر پُر تقصیر کا بلاگ بھی بلاگ ایوارڈ کی دوڑ میں شامل ہے، لیکن اسے یقین کامل ہے کہ وہ یہ ایوارڈ حاصل نہیں کرسکتاکیونکہ سکول سے لے کر کالج تک وہ کسی بھی دوڑ میں جیت نہیں سکا۔ فدوی کو تو کرکٹ ٹیم میں بیٹنگ بھی گیارہویں نمبر پر ملتی تھی اور اس کی باؤلنگ کا حال یہ تھا کہ اس پر خالد لطیف بھی چھکےمار سکتا تھا لہذا باؤلنگ بھی نہیں ملتی تھی۔ فیلڈنگ کے لئے اس عاجز کو کپتان گہرے غور و خوض کے بعدایسی جگہ کھڑا کرتا تھا جہاں گیند سال میں ایک دو دوفعہ ہی آتی تھی۔ لیکن ٹیم کے جیتنے کے بعد بھنگڑے ڈالنے میں یہ فدوی سب سے آگے ہوتا تھا!

فدوی، آج تک سوائے ایک ایسے ایوارڈ کے کچھ نہیں جیتا، جس کی انتظامیہ میں 'متعصّب' اور 'تنگ نظر' لوگ شامل تھے، لہذا آپ سے درمندانہ اپیل ہے کہ فدوی کو لاحق شہرت کے لا علاج عارضے میں وقتی افاقے کے لئےاسے ایوارڈ عنایت کردیں اور ۵۰۰ ٹیرابائٹ سائزکی صدق دل سے مانگی ہوئی دعائیں حاصل کرکے عنداللہ ماجور ہوں۔ کیونکہ جہاں آپ اتنے سارے زمروں میں میرٹ پر ایوارڈ دیں گے تو ایک آدھ زمرہ میں ڈنڈی بھی مارلیں تواس میں کوئی ہرج نہیں کہ اس سے اللہ کے کسی بندے کو شفا ملنے کی امید ہے اور سب سے بڑی نیکی تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ اللہ کے بندوں کے کام آنا ہوتی ہے (اسلام کا تڑکا)۔ میں نے تو موقع کی مناسبت سے 'آسکر تقریر' بھی لکھ رکھی ہے، جو ایوارڈ ملنے کے بعد آپ اسی بلاگ پر ملاحظہ کرسکیں گے۔

مجھے امید ہے کہ آپ جیسے نیک، اہل، قابل اور دردمند دل رکھنے والے احباب اس اپیل پر ہمدردانہ غور کریں گے اور ایک ایوارڈ اس فدوی کو عنایت کرکے اس پر احسان عظیم (انتباہ! یہ کسی بندے کا نام نہیں ہے!) کریں گے۔ ایک مسئلہ اور ہے کہ فدوی بوجہ عدم دستیابی "فلوس و اجازہ" ایوارڈ کی تقریب میں حاضر ہونے سے قاصر ہے لہذا اپنا ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے قابل احترام بلاگر عنیقہ ناز کو نامزد کرتاہے۔

ویسے بھی مجھے پورے کراچی میں صرف ان پر ہی اعتبار ہے کیونکہ کوئی اور میرا ایوارڈ لے کر چمپت بھی ہوسکتاہے۔ بشرط زندگی جب بھی کبھی کراچی آناہوا تو عنیقہ بی بی سےایوارڈ بھی وصول کرلوں گا اور ان کی سپیشل ریسیپی، بھیجہ فرائی، بھی تناول کروں گا۔

اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ وما علینا الا البلاغ۔۔۔

چھترول بھی نعمت ہوتی ہے

آپ گامے بھیڈ کو دیکھ لیں۔ اس کو پولیس نے ڈکیتی کے جھوٹےالزام میں پکڑا اور مار مار کر 'بھیڈ' سے دنبہ بنا دیا۔ لیکن اس چھترول نے گامے کی زندگی بدل دی۔ آپ حیران ہوں گے کہ چھترول سے تو زیادہ سے زیادہ سونے کا آسن بدلتا ہے، زندگی کیسے بدل سکتی ہے؟ لیکن گامے کی زندگی پر چھترول نے جو دور رس اثرات مرتب کئے اس کا ذکر آگے آئے گا۔۔۔۔۔

گامے نے ڈکیتی تو دور کی بات، کبھی پُونڈی بھی نہیں کی تھی۔ گامے کا باپ 'جہاز' تھا۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی تو زندگی کی گاڑی چلتی بلکہ گھسٹتی تھی۔گامے نے سکول صرف باہر سے دیکھا تھا۔ کالج کا لفظ اس نے تب سنا تھا جب اس نے گنڈیریوں کی ریڑھی لگائی اور اس کے لنگوٹیے مُودے پھُر نے اسے مشورہ دیا تھا کہ کالج کے گیٹ کے باہر کھڑا ہواکرے، بِکری زیادہ ہوگی۔ 'بھیڈ' گامے کا لقب، خطاب، عرفیت سب کچھ تھا۔ یہ لفظ اس کی ساری زندگی کی کہانی بیان کردیتا تھا۔ اس نے ساری زندگی کسی کو مارنا تو درکنار کسی سے مار کھائی بھی نہیں تھی۔ ہر ایسی جگہ سے وہ ساڑھے اٹھونجہ میٹر دور رہتا تھا جہاں اسے کسی بھی قسم کے دھول دھپّے کا خدشہ ہو۔

پھر 12مئی کا دن آیا جس نے گامے کی زندگی ہمیشہ کے لئے بدل دی۔ گاما ریڑھی لے کر کالج کی طرف رواں دواں تھا کہ راستے میں سنتری بادشاہ نے روک کر اسے دو کلو گنڈیریاں تولنے کو کہا۔ گامے کا گناہ صرف یہ تھا کہ اس نے پیسے مانگ لئےتھے اور اسی دن شام کو تھانےکے ڈرائنگ روم میں الٹا لٹکا ہوا گاما، دنیا کی بے ثباتی پر غور کررہا تھا!

شیخ نیامت اللہ کے گھر کے باہر کھڑی نئے ماڈل کی کاردن دہاڑے گن پوائنٹ پر چھیننے کے الزام میں گرفتار ہوکر ایک گھنٹے کے قلیل وقت میں گاما، پانچ پانجے فٹ کرواچکا تھا۔ الٹا لٹکا ہوا گاما جب ہوش کی سرحد ( یعنی خیبر پختونخوا ) پھلانگ گیا تو اسے عارضی پھانسی گھاٹ سے اتار کر حوالات میں ڈک دیا گیا۔

آپ کہیں گے یہ تو ایک عام کہانی ہے اور ہر روز اس ملک کے تھانوں میں دہرائی جاتی ہے۔ بس یہیں آپ گامے کو انڈر ایسٹیمیٹ کرگئے، گاما عام لوگوں کی طرح بوقت چھترول نہ چیخا چلایا، نہ واویلا مچایا نہ اپنی بے گناہی کی دہائی دی اور نہ رب رسول کے واسطے۔ بس وہ چپ چاپ چھترول کرواتا رہا۔ اس نے نہ تو رشوت دے کر چھوٹنے کی کوشش کی اور نہ ہی علاقہ ناظم کی سفارش سے باعزت رہائی کی جگاڑ لگائی۔

گامے کے ساتھ حوالات میں ایک باؤ قسم کا بندہ بھی بند تھا۔ اس نے گامے سے اس کی گرفتاری کا سبب پوچھا تو گامے نے بتایا کہ اس کی گرفتاری کی وجہ غربت ہے۔ یہ جواب سن کر وہ باؤ پھڑک اٹھا۔ وہ باؤ ایک وکیل تھا جو ایک جلوس نما مظاہرے کے بعد احتجاجا گرفتاری دینے کا ڈفانگ کرکے حوالات میں رات گزارنے آیا تھا تاکہ اگلے دن اخباروں میں گرفتاری دیتے ہوئے اس کی دو کالمی تصویر چھپ سکے۔ گامے کی صورت میں اسے اپنی مزید تشہیر کا سنہری موقع نظر آیا جو اس نے جھپٹ کر اچک لیا!

اس نے اپنے موبائل کے کیمرے سے گامے کی تشریف کی تصویریں کھینچیں اور اسے ہدایت کی کہ اپنا منہ بند رکھے اور کسی کو کچھ نہ بتائے۔

اگلی صبح رہا ہونے کے بعد وکیل صاحب نے ایک پاٹے خاں چینل کی ٹیم کو ساتھ لیا اور اس تھانے پر غیر سرکاری چھاپہ مار کر گامے کا انٹرویو حوالات سےلائیو چلوادیا۔ رپورٹر نے مزید مسالہ لگاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ شدیدتشدد کی وجہ سے گامے کے گردے فیل اور جان پاس ہونے کا خطرہ ہے اور اگر فوری طبی امداد نہ ملی توگاما اس جہان فانی سے کوچ کرکے عالم جاودانی اپنی زخمی تشریف سمیت جاسکتا ہے۔

اگلا دن بڑا ڈرامائی تھا۔ ہائیکورٹ کے ازخود نوٹس سے لے کر، وزیر قانون کی تین لاکھ کی امداد تک، سرکاری ہسپتال کی ایمبولینس میں خوبرو نرس کے ہاتھوں ڈریسنگ سے لے کر، ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں سول سوسائٹی کے معزز ارکان کے ہاتھوں گلدستے قبول کرتے ہوئے، ہر چینل پر تین منٹی کوریج اور اخباروں کے پولیس کے مظالم پر مشتمل رنگین فیچرزتک گاما ہر جگہ موجود تھا!

اب آپ دیکھیں، اگر گاما شور مچاتا، پولیس کو رشوت دے کے چھوٹ جاتا، ناظم سے سفارش کرکے اپنی جان چھڑوالیتا تو آج بھی گنڈیریاں ہی بیچ رہا ہوتا، غلام محمد تبسم نہ بنتا۔ اس کے پاس نئی ہنڈا سیونٹی نہ ہوتی۔ ابھی تک اس کی شادی نہ ہوئی ہوتی۔ اسے این جی اوز کی طرف سے بیرون ملک سیمینارز میں نہ بھیجا جاتا۔ اسے انسانی حقوق کا سفیر اور امن و عزیمت کا نشان نہ سمجھا جاتا۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوسکا کہ گامے کی چھترول ہوئی، اگر چھترول نہ ہوتی تو وہ آج اس مقام پر نہ پہنچتا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ سب چھترول کی برکتیں ہیں۔ وہ تمام لوگ جو حوالات میں بند ہیں۔ جو چھترول سے ڈر کے سب کچھ مان جاتے ہیں۔ جو رشوت دے کر چھوٹ جاتےہیں، جو سفارش لڑا کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں، وہ ہمیشہ گنڈیریاں بیچتے رہتے ہیں،وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ چھترول ترقی کی کنجی ہے۔

لہذا چھترول بھی نعمت ہوتی ہے!

آج ویران خان کے ساتھ

السلام علیکمّ ناظرینّ۔ 'آج ویران خان کے ساتھ' آپ کا میزبانّ ویران خان حاضر ہے۔ آجّ کے پروگرام میں ہم اس اہم ترین مسئلے پر بات کریں گے کہ شعیب ملک کو فیملی پلاننگ کے لئے کون سے حفاظتی طریقے استعمال کرنے چاہییں کیونکہ ہماری نیکر بھابی نے کہا ہے کہ وہ مزید پانچ سال ٹینس کھیلیں گی۔ اور ناظرین، بطن میں ملک ہو تو لوڈو، یسّو پنجو، چڑی اُڈّی کاں اُڈّا وغیرہ تو کھیلے جاسکتے ہیں، ٹینس نہیں۔ اس لئے آج کے پروگرام میں بات کی جائے گی کہ کون سے کنڈوم ہیں جو کہ اچھے معیار کے ہیں اور ان پر اعتماد کیا جاسکتاہے اور دوسرے آپشنز پر بھی بات کریں گے جن میں نس بندی کا آپّریشن اور طلاق شامل ہیں۔ سب سے پہلے ہم بات کریں گے وفاقی وزیر برائے بہبود آبادی ڈاکٹر جنت محب پہلوان سے، جو ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں۔۔۔

'جی جنت صاحبہ آپ کیا کہتی ہیں شعیب ملک کی فیملی پلاننگ پر، ان کو کیا کرنا چاہیے، کون سا آپشن ہے جو انہیں سوٹ کرے گا، مختلف کمپینیز کے کنڈومز میں سے کون سا استعمال کرنا چاہیے اور نس بندی کے آپریشن میں کیا خطرات ہیں اور اس کی ناکامی کی صورت میں کیا حقوق زوجیت کی کماحقہ ادائیگی کا مسئلہ ابھر کر سامنے تو نہیں آجائے گااور طلاق کی صورت میں حق مہر کتنا طے ہوا ہے؟'

'دیکھیں جی، فیملی پلاننگ کا سب سے اچھا طریقہ تو شادی نہ کرنا ہے۔ اب منڈے نے اپنی مرجی کرلی ہے۔ اب کیا ہوسکتا ہے؟ آپ نے کنڈوم کے متعلق بڑا اچھا سوال پوچھا ہے، ویسے یہ ہوتا کیا ہے؟'

'ڈاکٹرصاحبہ! آپ بہبود آبادی کی وفاقی وزیر ہیں، آپ کےعلم میں تو ہونا چاہیے اس بارے میں۔ ہندوستان کے حالیہ دورے میں آپ نے مشین میں پیسے ڈال کر جو پیکٹ نکالا تھا، وہ کنڈوم ہی تھے۔'

'اچھا!!!۔۔۔ وہ غبارے تومیں نے اپنی شادی کی ۳۳ویں سالگرہ پر جھنڈیوں کے ساتھ لگادیئے تھے۔ بھلا غبارے اور فیملی پلاننگ میں کیا تلّق ہوسکتا ہے؟ جہاں تک نس بندی کاتلّق ہے، یہ اپنے رسک پر کرائیں بعد میں کُش ہوگیا تو میری کوئی ذمے داری نئیں۔ طلاق ہوبھی جائے تو حق مہر کی خیر ہے، ہمارے منڈے کے پاس بڑے پیسے ہیں، وسیم اکرم کے ساتھ کھیلا ہوا ہے، کوئی مذاخ نئیں ہے!'

بہت بہت شکریہ ڈاکٹر جنت محب پہلوان صاحبہ۔۔۔

اورّ ابّ بات کرتے ہیں سینیئر تجزیہ نگار، سول سوسائٹی کے نامور رکن جناب ماجرا خان سے جو، لائن پر موجود ہیں۔

'دیکھیں جی، یہ مسئلہ بڑا کمپلیکیٹڈ ہے جی۔ 'ساتھی' بہت اچھا پروڈکٹ ہے جی۔ اس کو پھلا کے پھاڑیں تو بہت زیادہ آواز آتی ہے جی۔ ویسے بھی میڈ ان پاکستان ہے جی۔ ڈیوریکس بہت مہنگا ہے جی۔ ورائٹی بہت ہے جی۔ بندہ کنفیوز ہوجاتا ہے جی۔ یہ حکومت کی سازش ہے جی۔ ایک ہی پروڈکٹ ہونا چاہیے جی۔ عوام کو کنفیوز کردیتے ہیں جی پھر وہ غصے میں کچھ بھی استعمال نہیں کرتے جی۔ آبادی بڑھتی جارہی ہے جی۔ یہ امریکی سازش ہے جی۔ اس میں زرداری شامل ہے جی۔ اس کی حکومت ختم ہونی چاہیے جی۔ سپریم کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینا چاہیے جی۔ کنڈوم عوام کا بنیادی حق ہے جی۔ یہ سب کو ملنا چاہیے جی۔ یہ ہمارا ملک ہے جی۔ ہم نے اس کو بچانا ہے جی۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔'

(بات کاٹتے ہوئے) بہت بہت شکریہ جناب ماجرا خان۔

اورّ ناظرین اس کے ساتھ ہی آجّ کے پروگرام کا وقت ختم ہوتاہے۔ کل پھر حاضرّ ہوں گے۔ اللہ ہی حافظ۔

تیتھوں اُتّے۔۔

مجھے تو جی یہ لکھتے اور بولتے ہوئے کبھی شرم نہیں آئی کہ میرے آباء و اجداد کپڑا بُناکرتے تھے، سادہ الفاظ میں جولاہے تھے، اس سے بھی سادہ الفاظ میں کمّی کمین تھے! ہمارے ایک ساتھی نے لکھا ہے کہ جی ہنر والے لوگوں کو یہ گورے لوگ آرٹسٹ اور فنکار کہتےہیں جبکہ ہم انہیں کمّی کمین کہتے ہیں۔ تو جی فرق بھی دیکھ لیں ناں ان کا اور اپنا۔۔۔ ہم قوموں کے پِنڈ کے کمّی کمین اور وہ چوہدری۔۔۔

میں کالج میں نیا نیا تھا تو ایک دن گپ شپ کرتے ہوئے بات اسی طرف نکل گئی۔ میرا ایک کلاس فیلو جو الیاسے چونٹھیے (چوہدری الیاس جٹ، سابق ایم این اے، بدمعاشی میں اساطیری شہرت) کے گاؤں کا تھا، کہنے لگا کہ ہم چوہدری لوگ ہیں جبکہ تم تو جلاہے ہو، نیچ لوگ، کمّی کمین۔ تم ہماری برابری کیسے کرسکتے ہو۔ وہ جی میرے جانثار تو تپ گئے فورا اور لگے آستینیں چڑھانے کہ تیری اور تیرے الیاسے کی تو ٹوں ٹوں ٹوں۔۔۔ پر میں نے ان کو ٹھنڈا کیا اور اس نسرین باجوے کو کہا کہ باجوہ صاحب! بات تو آپ کی ٹھیک ہے، پر ہم جولاہوں کا بڑا احسان ہے جی ساری انسانیت پر۔ وہ تمسخرانہ انداز سے بولا ۔۔ کیسے۔۔۔؟؟ میں نے کہا کہ بھائی دیکھ۔۔ اگر میرے آباء و اجداد یہ کام نہ سیکھے ہوتے تو آج تمہاری ماں بہنیں پتّے لپیٹ کر بکریوں سے بچتی پھر رہی ہوتیں کہ کہیں ان کے ملبوسات تناول کرکے انہیں آدم و حوّا والی شرمندگی سے دوچار نہ کردیں۔

اس پر جی وہ ایسا چپ ہوا کہ اردو میں لکھیں تو اس کی بولتی بند ہوگئی جبکہ پنجابی میں تو صرف کہہ سکتے ہیں، لکھ نہیں سکتے۔

میرے سگے چچا ہیں جی، شیخ ہوگئے ہیں۔ گھر کی نیم پلیٹ پر بھی شیخ لکھوالیا ہے۔ 'انصاری' کہلواتے اور لکھواتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے کہ لوگ انہیں جولاہا سمجھیں گے۔ جبکہ میرے قریبی عزیز ہیں کراچی میں ۔۔۔ وہ سارے بھی ترقی (یا تنزلی!) کرکے شیخ لگ گئے ہیں۔ میں ان کو کہا کرتا ہوں کہ یار۔۔ اگر ترقی(؟) ہی کرنی ہے اور ذات ہی بدلنی ہے تو شیخ بننے کی کیا تُک ہے؟ بندہ سیّد بنے۔ میں نے سوچا ہوا ہے کہ جب بہت سارا پیسہ کما لینا ہے اور ترقی کرنے پر تُل جانا ہے توانصاری سے پروموٹ ہوکے 'ڈریکٹ" سیّد ہی لگناہے۔

چار پانچ پشت پہلے جالندھر کے گردونواح میں آباد، میرے آباء و اجداد کے ہاتھ میں یہ فن تھا کہ وہ ستر ڈھانپتے تھے لوگوں کا،کپڑا بُن کے، پر پھر بھی ان کےہاتھ چوہدریوں اور پِیروں کے سامنے پھیلے ہی رہتے ہوں گے اور جن ہاتھوں سے غریبوں کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں تب بھی اور اب بھی، ان کو لوگ چوما کرتے تھےتو پھر میں نے بھی ایسا ہی بن جانا ہے، کہ لوگ مجھے نیچ اور کمّی کمین اور جُلاہا نہ سمجھیں بلکہ میرے ہاتھ چومیں کہ جی یہ تو سیّد بادشاہ ہیں!

میں نے اپنے والد سے ایک دفعہ پوچھا تھا جی کہ یہ سیّد طاہر احمد شاہ (سابق ایم پی اے) واقعی سیّد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بھئی! یہ تو بالکل خالص سیّد ہے، ہمارے سامنے بنا ہے۔

ہم برصغیر کے مسلمانوں کے اختیار کی بات ہوتی تو جی سارے مسلمان ہی بالترتیب سیّد اور چوہدری اور خان اور سردار ہوتے۔ اس بات پر تو کسی کا اختیار نہیں کہ جس نطفے سے وہ پیدا ہوتا ہے وہ' کون'،'کہاں' پرگرائے ، پراس بے اختیاری پر فخر بہت ہوتا ہے کہ جی ہمارا نطفہ تو بڑا اعلی ہے اور حسب نسب والا ہے۔

بس یہی چیز رہ گئی ہے عزت اور حسب نسب کا معیار

نطفہ۔۔!

ہونا تھوڑا تھوڑا مشہور اس فدوی کا

یہ کوئی راز نہیں کہ مجھے مشہوری کا شدید شوق اور تمنّا ہے اور اس کے لئے میں 'کچھ' کام چھوڑ کے سب کچھ کرنے کو تیّار ہوں۔ اس کی مثالیں جابجا اس بلاگ پر بکھری پڑی ہیں جو آپ تھوڑی سی کوشش کرکے اکٹھی کرسکتے ہیں اور عبرت و ہدایت، دونوں حاصل کرکے عنداللہ ماجور ہوسکتےہیں۔

اس بلاگ کے شروع کرنے کی وجہ بھی مشہوری کا جان لیوا شوق ہی تھا نہ کہ سماج سدھار یا اخلاق سدھار قسم کا کوئی فلسفہ۔۔ویسے بھی، میں خود، آج تک سدھر نہیں سکا تو کسی اور کو سدھرنے کا مشورہ کیسے دے سکتا ہوں۔۔ ہیں جی۔۔۔!

عام لوگوں کو سدھارنے پر ،بزعم خود مامور، لوگوں کے اپنے پیچ اور قابلے ڈھیلے ہوگئے ہوتےہیں جبکہ وہ پندو نصائح کے رینچ، پانے لے کر لوگوں کے نٹ بولٹ کسنے کی کوششیں، لگاتار اور مسلسل جاری رکھتےہیں۔ پر یہ مینگو پیپل یعنی عام لوگ بھی بڑی ڈھیٹ مخلوق ہوتی ہے، سدھرتی نہیں۔ پر سانوں کیہ۔۔۔ نہ سدھرے ۔۔۔ کھصماں نوں کھائے۔۔ ہم نے کوئی ان کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا، افیم کا ٹھیکہ ہو تو کچھ فائدہ بھی ہو، ایسے ٹھیکے کا کیا فائدہ۔۔۔!

یہ میں کدھر نکل گیا؟ میں تو آپ کو یہ بتانے والا تھا کہ میری ایک پوسٹ ایک اخبارکے سنڈے میگزین میں شائع ہوئی ہے اور میں اس پر نہایت شاداں (مطلب خوش، وہ پنجابی والی شاداں نہیں!) اور فرحاں ہوں۔ میں اس وقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا جب اخبار پڑھنا شروع کیاتھا۔اس وقت ہمارے گھر میں اخبار شام کو آیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اخبار صرف کراچی سے شائع ہوتا تھا اور اسے فیصل آباد پہنچتے پہنچتے شام ہوجاتی تھی۔ اس اخبار کا نام 'جسارت' تھا!

اس سے آپ یہ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ میرے والد جماعتیے ہیں اور اس مشہور مقولے کی زندہ مثال ہیں کہ بندہ جماعت سے چاہے نکل جائے، جماعت بندے سے نہیں نکلتی۔۔۔!

اس وقت میری دلچسپی کا مرکز اندرونی صفحات پر چھپنے والی باتصویر 'فلیش گورڈن' نامی قسط وار کہانی ہوتی تھی جسے شاید آجکل 'کامک بک' کہتےہیں۔ آپ کو شاید یہ زمانہ قبل از مسیح کی بات لگے، ویسے مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ وقوعہ شاید فراعنہ کے دور کا ہے، لیکن یہ اخبار میرا بچپن کا دوست ہے اور اس میں اپنا لکھا ہوا شائع ہونے کی مجھے بہت خوشی ہے اور میں اخبار کی انتظامیہ کا شدید مشکور و ممنون و شکرگذار و احسان مند وغیرہ ہوں۔ وما علینا الا البلاغ۔۔

منجی کتھے ڈاہواں

'نو کنٹری فار اولڈ مین' کا اگر پنجابی میں ترجمہ کیا جائے تو شاید اس تحریر کے عنوان سے ملتا جلتا ہی ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ یہ ایک فلم کا تذکرہ ہے نہ کہ 'سینئر سیٹیزنز' کے مسائل کا تجزیہ۔

میں یہاں ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کے جنوب میں بولاجانے والا لہجہ مجھے بہت اچھالگتا ہے، اسے آپ امریکی پوٹھوہاری بھی کہہ سکتے ہیں۔شاید اسی لئے مجھے یہ فلم زیادہ پسند آئی کہ اس کی کہانی جنوب کے پس منظر پر بُنی گئی ہے۔ یہ فلم اسی نام کے ناول سے ماخوذ ہے جبکہ ایتھن کوئن اور جوئل کوئن مشترکہ طور پراس فلم کے ہدایتکار اور منظرنامہ نگار ہیں۔ ان کی فلموں کی ایک خصوصیت 'ڈارک کامیڈی' ہےجو زیر سطح رواں دواں رہتی ہے۔ دونوں بھائی، تشدد اور خونریزی کو بغیر گلیمرائز کئے اصل صورت میں دکھانے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ اگر یہ کسی منظر میں کسی کو تشدد سے مرتا دکھاتے ہیں تو دیکھنے والا تشدد سے نفرت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جبکہ زیادہ تر نام نہاد 'تفریحی فلموں' میں انسان ایسے مرتے دکھائے جاتے ہیں جیسے پاؤں کے نیچے کوئی چیونٹی آجائے۔ حوالے کے لئے ملاحظہ ہوں، آرنلڈ سے لے کر بروس ولس تک کی شہرہ آفاق فلمیں! جن میں تشدد اور خونریزی کو ایک معمول کی چیز بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

اگر اس فلم کا کوئی اور نام رکھا جائے تو میں تجویز کروں گا کہ اس کا نام 'ہاوئیر بارڈم' رکھا جانا چاہیے۔ برے آدمی کے کردار میں اس سے اچھی پرفارمنس شاید ہی کبھی پردہ سکرین پر کسی نے پیش کی ہو، سوائے ہیتھ لیجر کے۔ اور اس کردار کی ادائیگی پر وہ واقعی آسکر کا حقدار تھاجو اسے ملا بھی۔ کچھ فلمیں صرف چند مناظر کی وجہ سے یاد رہ جاتی ہیں جبکہ ان میں کوئی اور خاص بات نہیں ہوتی۔ جب کہ اس فلم میں دونوں باتیں ہیں۔ یہ فلم بھی خاص ہے اور اسمیں یاد رہ جانے والے مناظر بھی بہت ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

گیس سٹیشن کے مالک کے ساتھ اینٹون شِیگَر (ہاوئیر بارڈم) کا منظر، فلم کے شروع میں ٹامی لی جونز کا وائس اوور، شروع کے مناظر میں ہی پولیس سٹیشن میں پولیس آفیسر کا قتل، اینٹون شِیگَر (ہاوئیربارڈم) اور کارسن ویلز (ووڈی ہیرلسن)کا ہوٹل کے کمرے میں مکالمہ، لیولن موس (جوش برولن) کا رقم حاصل کرنے کے بعد گھر واپسی پرکارلا جین (کیلی مکڈونلڈ) کے ساتھ منظر، کارلا جین (کیلی مکڈونلڈ) اور ایڈ ٹام بیل (ٹامی لی جونز) کا ریسٹورنٹ میں مکالمہ۔۔۔ اور یہ فہرست کافی لمبی ہے!

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ساری فلم میں کیا مکالمے ہی مکالمے ہیں؟ سچی بات تو یہ ہے کہ اس فلم کے مکالمے اتنے زبردست اور برجستہ ہیں کہ کم ہی فلمیں اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ اس فلم کی ایک اور خاصیت اس میں پس پردہ موسیقی کا نہ ہونا ہے۔ زیادہ تر فلموں میں پس پردہ موسیقی سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آنے والےمنظر میں سسپنس ہوگاکہ ایکشن یا رومانس ہوگا یا تھرل۔ جبکہ اس فلم میں یہ سارا کام چہرے کے تاثرات اور مکالموں سے لیا گیا ہے اور اسے دیکھنے کے بعد ہی آپ جان سکیں گے کہ کس مہارت سے ایسا کیا گیا ہے۔ ٹیکساس کی لینڈ سکیپ کو بھی بہت خوبصورت اور حقیقی انداز میں فلمایا گیا ہے۔

اگر آپ ایسی فلمیں دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں جن میں 'فلمی' انداز اور معمول کی فلمیں چوّلیں نہ ہوں تو یہ فلم آپ کے لئے ہے!

فیس بکیے

دوست ، تو جی سکول کے دور کے ہی ایک نمبر ہوتے ہیں۔ کالج والے آدھے ایک نمبر اور آدھے دو نمبر۔ اور عملی زندگی میں کودنے کے بعد اگر آپ کو کوئی دوست، اور دوست مطلب ' دی دوست'، مل جائے تو یہ کم ازکم اتنی بڑی خوشخبری ہے جو لاٹری لگنے کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔

دوستوں کی بڑی تعریفیں لکھی جاچکی ہیں،مثلا جو ضرورت میں کام آئے، جو آپ کے دکھ بانٹے، جو آپ کی معشوق کو نہ ورغلائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن جی میرے نزدیک تو دوست وہ ہوتا ہے جس کو آپ منہ بھر کےگالی دیں تو آگے سے وہ بے حیائی سے ہنستا رہے اور وائس ورسا۔۔۔ میں نے ایسے ایسے لوگوں کو اپنے پرانے دوستوں سے گالیاں کھاتے اور ہنستے دیکھا ہے جو اونچی آواز میں بات کرنے کو بھی بدتہذیبی اور معاشرتی آداب سے ناواقفیت پر محمول کرتے ہیں۔ چپراسی سے بھی آپ جناب سے بات کرتے ہیں اور چائے بھی سڑکیاں مار کے نہیں پیتے۔ لیکن دوستوں کے ساتھ ان کی گفتگو اس گانے کے مصداق ہوتی ہے کہ ۔۔۔ تیری تو۔۔۔ تیری تاں۔۔۔۔

پر جی اب ایک نئی قسم بھی دریافت ہوچکی ہے دوستوں کی۔ فیس بکیے دوست۔ ایک ڈھیلے ڈھالے اندازے کے مطابق اگر آپ فیس بکیے ہیں تو آپ کے دوستوں کی پچانوے فیصد سے زیادہ تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگی جن سے نہ آپ کبھی ملے ہوتے ہیں اور نہ ہی امید ہوتی ہے کہ کبھی زندگی میں ان سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تحریر، انسان کا آئینہ ہوتی ہے اور فلاں اور ڈھینگ۔۔۔ پر جی لکھے ہوئے حرف سے بندے کا تھوڑا بہت اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے پر پورا جاننے کے لئے تو وقت کی سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر بندے کا پتہ چلتا ہے وہ بھی تھوڑا سا۔ بچپن کے دوستوں پر تو آپ نے بیس بائیس سال کی سرمایہ کاری کی ہوتی ہے، اس لئے ان کی رمز میں بھی آپ کے لئے کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔ پر ایک دوہفتے کی فیس بکی دوستی میں بھی ہم ایک دوسرے کو لمّیاں پَا کے ایسی چھترول کرنی شروع کردیتے ہیں جو کم ازکم بھی دس سال پرانی دوستی میں ہی جائز سمجھی جاسکتی ہے!

اس پر میں نے سوچا ہے اور بہت سوچنے کے بعد بھی میرا بھیجہ کوئی نتیجہ نہیں نکال سکا کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب مجرّد نام ہی ہیں، انسان نہیں اور ان کو کچھ بھی کہا جاسکتاہے اور فار دیٹ میٹر۔۔۔ کچھ بھی سنا جاسکتا ہے! کیا فرماتے ہیں مفتیان فیس بک بیچ اس مسئلے کے۔۔۔

فلمیں شلمیں

ایک دفعہ پہلے بھی یہ حرکت کرچکا ہوں۔ لیکن وہ گانے تھے اور یہ میری کچھ پسندیدہ فلمیں ہیں۔ فلموں کے نام ریٹنگ کے حساب سے نہیں لکھے گئے۔ جونام یاد آتا گیا، لکھ دیا ہے۔ اگّے تیرے بھاگ لچھّیے۔۔۔

ویسے بھی میرے جیسے جہلاء ، تہذیبوں کے تصادم پر تحقیقی مقالے تو لکھ نہیں سکتے، لہذا اسی طرح کی خرافات پر گزارا کریں!

Eastern Promises

Match Point

Michael Clayton

Godfather I

Godfather II

Godfather III

Memento

Ocean’s Eleven

Company

The Lord of the Rings I

The Lord of the Rings II

The Lord of the Rings III

There will be blood

Avatar

The Prestige

Awake

a500 Days of Summer

Law Abiding Citizen

Primal Fear

Goodfellas

Tin Cup

The Notebook

Inglorious Bastards

Casino

Bugsy

Taking of Pelham 123

Closer

Hangover

No Country for old men

Knocked up

Three Idiots

The Pursuit of Happiness

Vicky Christina Barcelona

Body of Lies

Legends of the Fall

Rock’n’Rolla

The Curious case of Benjamin Button

Love Aaj Kal

Last Man Standing

Earth

Snatch

Heat

Taxi Driver

Atonement

Taare Zameen par

Carlito’s Way

Training Day

Ronin

The Deer Hunter

Domino

U Turn

Out of sight

Autumn in New York

Omkara

The Departed

Forrest Gump

Matrix Reloaded

Pulp Fiction

Scent of a woman

The assassination of Jesse James by the Coward Robert Ford

Ransom

Oye Lucky, Lucky Oye

Million Dollar Baby

Saving Private Ryan

Jane Tu ya Jane Na

The Bridges of Madison County

As good as it gets

Twilight

Wild Things

Unforgiven

Mission: Impossible

The Dark Knight

Stranger Than Fiction

Kaminey

Sleepless in Seattle

Butterfly Effect

Jackie Brown

The Constant Gardener

Basic Instinct

Notting Hill

Mystic River

About Schmidt

Brave Heart

Any Given Sunday

Jerry Maguire

Love Actu
ally

Cast Away

Intersection

L.A. Confidential

The Usual Suspects

The Silence of the Lambs

Cliffhanger

A Few Good men

Good Will Hunting

Syriana

Things to Do in Denver When You're Dead

The Untouchables

Cold Mountain

Wall Street

Lost in Translation

Great Expectations

The Edge

احمد ندیم قاسمی / قیصر تمکین

ُاُسی انگریز کے بارے میں منشی جی یہ بھی بتاتے تھے کہ وہ تھل کی آندھیوں سے بہت پریشان تھا، اور اس نے اُدھر ولایت میں اپنی سرکار کو لکھا تھا کہ پٹڑی بچھانے کے لئے یہ کیسا علاقہ مجھے دیا گیا ہے کہ آندھی کے بعد اس کا سارا جغرافیہ ہی بدل جاتا ہے، یہاں تو ریت کے ٹیلے باقاعدہ سفر کرتے ہیں، سو میری کچھ مدد کیجیے۔ اس پر ولایت کی سرکار نے دلّی کی سرکار کو لکھا، اور دلّی کی سرکار نے کسی پہنچے ہوئے پِیر سے ایک تعویذ حاصل کیا، جو پٹڑی کے آس پاس کی ببول میں لٹکا دیا جاتا۔ اس کے بعد آندھی آتی تو ریت کے ٹیلے پٹڑی کو چھوتے تک نہ تھے، مگر معلوم ہوتا ہے، حضرت پِیر اس پِیر سے بھی بڑے پِیر تھے۔ اس لیے کہتے ہیں، جب ایک بار بہت تیز آندھی آئی تو ایک ٹیلا ببول میں لٹکے تعویذ کی پروا کئے بغیر پٹڑی پر چڑھ گیا، پھر دلّی سے ایک اور تعویذ منگایا گیا، اور جب پہلے تعویذ کی جگہ اسے ببول میں لٹکایا گیا تو اچانک 'شررررر' کی آواز آئی۔ ریت کے اس ٹیلے کو آگ لگ گئی، اور وہ راکھ کی چٹکی بن کر اڑ گیا۔ غرض، تھل میں جب تک پٹڑی بچھتی رہی اس علاقے کے حضرت پِیر اور دلّی کے پیروں کا آپس میں سخت مقابلہ ہوتا رہا، اور حضرت پِیر کے جن بھوت تو آج بھی سرگرم ہیں۔ پچھلے دنوں اللہ جوایا اپنی بھینس سمیت گاڑی کے نیچے آکر کٹ گیا تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بات بات پر ریل کا ٹکٹ کٹا لیتا تھا۔ بڑے بوڑھوں نے اسے بہت سمجھایا کہ ریل گاڑی میں اتنا سفر نہ کیا کرو، حضرت پِیر خفا ہوجائیں گے ، مگر وہ نہ مانا، اور پھر ایک پٹڑی پر چرتی ہوئی بھینس کو ریل گاڑی سے بچانے دوڑا تو بھینس کے ساتھ خود بھی انجن کے پہیوں کے ساتھ لپٹا چلا گیا۔ لوگوں نے پہیوں سے لپٹی ہوئی سوکھی چمڑی بیلچوں سے ادھیڑی۔

احمد ندیم قاسمی کی کہانی "تھل" سے اقتباس

دلی میں ان دنوں 'خروشچیف' اور 'بلگانن' کی آمد کی دھوم تھی۔ دیس کی پرانی تہذیب کے مظاہرے ہورہے تھے۔ طرح طرح کے ہنر اور پیشے زندہ کیے جارہے تھے۔ اسی میلے ٹھیلے میں مدّو میاں نے اپنے ساتھ قنوج سے لائے ہوئے حقے اور پیچوان بھی منہ مانگے داموں پر سیاحوں کے ہاتھ بیچ دیے۔ دو چار پیسے ان کے ہاتھ آئے تو یکایک دماغ کی ساری کھڑکیاں کھل گئیں۔ انہوں نے ترک وطن کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔ عطر اور تیل کے ساتھ ہی تمباکوے خوردنی و کشیدنی کا کاروبار بھی شروع کردیا۔ پھر بھئی، اللہ نے برکت بھی خوب دی۔

تھوڑے ہی دنوں بعد حاجی بمبا نے مدّو میاں کے، جو اب سیّد امداد حسین کا روپ دھار چکے تھے، بیٹے اجّن سے اپنی بیٹی بیاہ دی۔

اجّن اپنے گھرانے میں سے زیادہ لائق فائق تھا، کیوں کہ ملک کے جمہوریہ بننے کی خوشی میں جشن جمہوریہ کے موقع پر جو لوگ رعایتی نمبروں سے پاس کردیے گئے تھے، ان میں اجّن بھی میٹرک کی کھائی پھلانگ گیا تھا۔ اپنے خاندان میں وہ پہلا میٹرک پاس شخص تھا اور سیّد ایجاد حسین کے نام سے شہر کے عمائدین میں گنا جانے لگا تھا۔

ان دنوں شہر میں صرف تین سیّد رہ گئے تھے؛ایک تھے سیّد وید رتن تنخا۔۔۔ جو ایک شراب خانے کے مالک تھے، دوسرے سیّد اقتدار المہام۔۔۔ آئی سی ایس، تیسرے تھے سیّد گنگا جان کاظمی ۔۔۔ جو ریاست میں وزارت کی گدی پر چڑھتے اترتے رہتے تھے۔ اب چوتھے، ذرا جونئیر قسم کے 'سیّد' بن گئے تھے مدّو میاں، یعنی سیّد امداد حسین، اور تو اور، انہوں نے شہر کے مئیر کا الیکشن بھی لڑ ڈالا، اور شہر کے نامی گرامی غلام السیّدین نے اخباروں میں مضامین شائع کرائے کہ سیّد امداد حسین اصل میں 'سر'، 'خان بہادر' یا 'شمس العلماء' قسم کے خطاب یافتہ تھے۔ پھر انہوں نے آزادی کی لڑائی میں سب کچھ قربان کردیا۔ کھدر پہننے لگے، اور پنڈت پنت اور رفیع احمد قدوائی وغیرہ کے ساتھ جیل بھی گئے تھے۔ انگریزی کے ایک غریباؤ رپورٹر نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ سیّد امداد حسین بہت ٹھوس علمی انسان ہیں، اور مشرق و مغرب کے فلسفوں پر ان کی گہری نظر ہے۔

قیصر تمکین کی کہانی 'ختنے کے لڈو' سے اقتباس

سٹوری میں ٹوئسٹ

(تفتیشی، تحقیقی و درفنطنی ڈیسک) کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن ایک جوڑا ایسا بھی ہے جو آسمانوں کی بجائے نئی دلّی میں را کے ہیڈکوارٹرز میں بنایا گیا ہے۔ اس رپورٹر کو حساس اداروں کے باوثوق ذرائع سے ایک ایسی اطلاع ملی ہے جو ہوش اڑادینے والی ہے اور اسے بجاطور پر اکیسویں صدی کی سب سے بڑی خبر قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس رپورٹر کو یہ دھماکہ خیز سکوپ دیاہےکہ شعیب ملک اصل میں پاکستان کے ایک انتہائی حساس سائنسی ادارے کے سربراہ ہیں جو میزائل پروگرام پر انتہائی جانفشانی سے کام کررہاہے۔ اگرچہ یہ خبر انتہائی ناقابل یقین ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو شعیب ملک کو دیکھ کے ہی ان کی میزائلوں سے محبت صاف ظاہر ہونے لگتی ہے کہ ان کی اپنی شکل ماشاءاللہ سٹنگر میزائل جیسی ہے! اسی ذریعے نے مزید بتایا کہ کرکٹر کے طور پر شعیب ملک کی شناخت ایک کیمو فلاج ہے کیونکہ بطور کرکٹر وہ قومی ٹیم تو کجا ڈسکے کے کسی لوکل کلب میں بھی نہیں کھیل سکتے۔

ایک سوال کے جواب میں اسی ذریعے نے کہا کہ شعیب ملک اتنی کم عمری میں ایسے ادارے کے سربراہ بالکل میرٹ پر بنے ہیں۔ مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ شعیب ملک پیدائشی جینئس ہیں۔ وہ ابھی 'چھلے' میں ہی تھے کہ انہوں نے شرلیاں بنانی شروع کردی تھیں۔ پانچ سال کی عمر میں انہوں نے راکٹ لانچر کے لئے ہوم میڈ راکٹ اور دس سال کی عمر میں سٹنگر میزائل ایجاد کرلیا تھا۔ جو امریکیوں نے خرید کر اپنے نام سے پیٹنٹ کروالیا اور پھر اسے افغان جنگ میں استعمال کرواکے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ شعیب ملک کی کامیابیوں کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ایٹمی پروگرام میں بھی ان کا کنٹری بیوشن بہت زیادہ ہے۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ایٹم بم بناتے ہوئے ایک جگہ ڈاکٹر قدیر پھنس گئے تھے تو یہ شعیب ملک ہی تھے جنہوں نے اس الجھن کو حل کیا تھا ورنہ آج پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا، لیکن یہ شعیب ملک کی اعلی ظرفی ہے کہ انہوں نے آج تک کبھی اس چیز کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی!

پاکستان کے میزائل پروگرام کی دن دگنی رات چوگنی ترقی ہمارے روایتی دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔انہوں نے پاکستانی میزائل پروگرام کے سربراہ کو پھانسنے کے لئے ثانیہ مرزا کو استعمال کیا۔ جنہوں نے شعیب ملک کو اپنی اداؤں (اداؤں کی بجائے وہ پڑھا جائے جو میں لکھنا چاہتا تھا!) کے جال میں پھنسایا اور اب ان سے شادی کرکے سارے میزائلی راز 'کڑچ' کرنے کی کوشش کریں گی۔

شعیب، بوجہ پیدائشی جینیئس، ذرا سادہ (احمق پڑھا جائے!) سے اور بوجہ پاکستانی ذرا ٹھرکی سے بندے ہیں، اسی لئے اس سازش میں پھنستے چلے گئے۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں کہ ہمارے حساس ادارے بھی میدان میں آگئے ہیں اور انہوں نے عائشہ صدیقی کی صورت میں ایک شدید ڈفانگ کھڑا کردیا ہے۔ ان کے ابّا نے چینلز پر جس طرح 'بھوترنے' کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہمارے حساس اداروں کی جوابی کاروائی کی روشن مثال ہے۔ دوسرے محاذ پر انہوں نے ایک غیر معروف اور چوّل سے بلاگر کو ہائر کرکے ثانیہ کے نام عاشقانہ خطوط لکھوانے شروع کردیئے ہیں تاکہ کل کلاں اگر شادی ہوبھی جائے تو شادی کے بعد ثانیہ کو بلیک میل کرکے را کے ایجنڈے پر کام کرنے سے روکا جاسکے!

اس لئے ان کو خام جانتا ہوں

اس لئے ان کو خام جانتا ہوں
اپنے اشکوں کے دام جانتا ہوں
اور تو کوئی خوبی مجھ میں نہیں
دکھ اٹھانے کا کام جانتا ہوں
خواہشیں ہاتھ باندھ لیتی ہیں
ایک ایسا کلام جانتا ہوں
کون ہوں اس کی کیا خبر مجھ کو
میں تو بس اپنا نام جانتا ہوں
بے سبب تو نہیں جھجک میری
میں تمہارا مقام جانتا ہوں
گھر پہنچنے میں دیر کیسے کروں
اپنی گلیوں کی شام جانتا ہوں
کام لیتا ہوں بھولپن سے حسن
ورنہ باتیں تمام جانتا ہوں
حسن عباسی

ثانیہ کے نام آخری خط (فی الحال!)

صنم بے وفا، ہرجائی محبوبہ، و گیڑے باز حسینہ وغیرہ وغیرہ

ہذا سلام آخر بالطرف عاشق مَل اَنتِ!

آپ آخر اس دنیا (بلاگنگ و فیس بک وغیرہم) میں میری کتنی مٹی اور پلید کرنا چاہتی ہیں؟ آپ کے عشق لاحاصل میں ساری دنیا کی باتیں سن سن کے میرے کان پک چکے ہیں بلکہ اب تو گل بھی چکے ہیں۔ آخر وہ کون سی چیز ہے جو آپ کو 'آراماں' نہیں لینے دیتی؟ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ میں نے چند 'اصولی اختلافات' پر شادی سے انکار کردیا تھا، لیکن دو طرفہ جامع مذاکرات کا دروازہ تو بند نہیں کیاتھا۔ آخر کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آتی۔ ویسے بھی ہم پاکستانی ڈیل کرنے میں اتنے ماہر ہیں کہ روز قیامت بھی ڈیل کے آسرے پر دنیا میں موجیں کرتے رہتے ہیں۔۔۔ تو اس مسئلہ کا حل بھی بذریعہ ڈیل بآسانی نکالا جاسکتا تھا۔۔۔ لیکن یہ 'کالیاں'  کسی دن مروائیں گی آپ کو۔۔۔ غضب خدا کا، سیدھی شعیب ملک پر ہی بریک!

برسبیل تذکرہ یہ بھی بیان کردیجئے کہ سرمہ سلائی قسم کے منڈوں میں آپ کی اتنی شدید دلچسپی کا راز آخر ہے کیا؟ اگر چوّل مارنی ضروری ہو ہی جائے تو کم ازکم چوّل تو ڈھنگ کی ہو (مثلا آپ کا یہ خاکسار)۔۔۔۔ یہ سوچ لیں کہ جو بندہ حیدر آبادیوں کو بھی 'گیڑے' کراچکا ہو، وہ کیسا درجہ اوّل قسم کا 'گیڑے' باز ہوگا۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ محترمہ بھی آپکی سہیلی ہونے کا شرف رکھتی ہیں، اب اس بات سے جو منظرنامہ میرے ذہن میں بن رہا ہے وہ تو میں اس نجی خط میں بھی نہیں لکھ سکتا۔۔۔

اللہ نہ کرے کہ یہ بیل منڈھے چڑھے لیکن اگر شومئی قسمت سے ایسا ہوبھی گیا تو پاکستان آکر آپ کو پتہ چلے گا کہ یہاں کےلوگاں آپ کے سسرالی شہر کے بارے میں کیا 'تاثرات' رکھتے ہیں۔ لیکن اس وقت پچھتانے کا نہ تو کوئی موقع ہوگا اور نہ فائدہ۔۔۔ کہ کوّا ،کھیت چگ چکا ہوگا۔۔۔ ہیں جی۔۔

جہاں بھی رہیں، ٹینشن میں رہیں

فقط ۔۔۔۔ شربت وصل کا پیاسا و ہجر کا مارا ۔۔۔ جعفر بے چارا

رخصتی

حالیہ دنوں میں میرے ساتھ عجیب ساماجراہوا ہے۔ میری باتیں کچھ سنجیدہ سی ہوگئیں ہیں، کچھ لکھتا ہوں تو وہ بھی کسی بزعم خود دانشور اور مصلح قوم ٹائپ لکھاری کا لکھا لگتا ہے۔ لکھنے کے بعد میں خود سوچتارہتاہوں کہ یہ میں نے کیالکھ دیاہے؟ حد تو یہ ہے کہ خواب میں بھی ثانیہ و کترینہ کی بجائے رانا مبشر، روئیداد خان، رویت ہلال کمیٹی کے ارکان، "ڈاکٹر" عامر لیاقت وغیرہ کی قبیل کے لوگ آنے لگے ہیں۔ آپ خوب اندازہ کرسکتےہیں کہ صبح جاگنے پر میرے موڈ کی کیا واٹ لگی ہوئی ہوتی ہوگی۔ جن باتوں پر ہنسی آتی تھی، اب ان پرنصیحتیں یاد آنے لگی ہیں۔ شفیق الرحمن اور یوسفی کی بجائے "موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا" پڑھنے کا من کرنے لگا ہے۔ ڈائجسٹ پڑھنا لہوو لعب اور فاسقانہ کام لگتا ہے۔ جن محفلوں میں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا، اب مجھ کو دیکھ کر سب کو ضروری کام یاد آجاتے ہیں۔ اپنے بال برے لگنے لگے ہیں۔ دل میں روز طلب اٹھتی ہے کہ چل بچہ ٹنڈ کرا۔ لیکن ابھی تک اس طلب کی مزاحمت جاری ہے۔ کل رات میں نے اپنی اس حالت پر نہایت رنجیدہ ہوکر اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی تو مجھ پر یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ چند دن پہلے ریموٹ کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے میں ایک ایسے چینل پر جاپہنچا تھا جس کے سحر نے مجھے اب تک جکڑا ہوا ہے اور میں اس سے اپنے آپ کو ابھی تک آزاد نہیں کراسکا۔

آپ یقینا یہ جاننے کے مشتاق ہوں گے کہ وہ چینل کونسا تھا؟ اس کانام تو مجھے یاد نہیں آرہا لیکن کچھ نشانیاں ہیں، وہ بیان کردیتا ہوں کہ شاید آپ اس چینل کا نام یاد بتاسکیں۔

ایک بزرگ کہ نہایت سجے ہوئے سٹیج پر تشریف فرما تھےاور نور ان کی صورت پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی تھی۔۔ اوہووو۔۔۔ رہا تھا۔ ان کے دائیں ہاتھ میں ایک چھوٹا جھنڈا(ڈنڈے سمیت) تھا جسے وہ لہرا لہرا کر اور خود لہک لہک کر کچھ کہہ رہے تھے۔ جو میں اپنی کم علمی اور اونچا سننے کی بیماری کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر تھا۔ ان کی گود میں ایک چمکدار غلاف والا تکیہ تھا۔جس پر وہ باربار پیار سے بایاں ہاتھ پھیر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک کم عمر صاحب تشریف فرما تھے۔ جو اپنی سریلی آواز میں کچھ مذہبی مناجات گنگنا رہے تھے۔ سٹیج کے سامنے پنڈال میں بہت سے لوگ وہی کاسٹیوم پہنے بیٹھے تھے، جو مرکزی کردار نے زیب تن کیا ہوا تھا اور یہ سارے لوگ ہل ہل کر اور لہک لہک کر فلک شگاف نعرے بلند کررہے تھے۔ سکرین پر ایک "ٹکر" بھی چل رہا تھا کہ صاحبزادہ (نام میں بھول گیا)مدظلہ العالی سلمہ کی رخصتی! اس رخصتی کی کوئی تفصیل نہ تو ٹکر میں موجودتھی اور نہ ہی دونوں مقررین (وہی ی ی ۔۔۔ سٹیج والے) کی بیک وقت تقاریر سے اندازہ ہورہا تھا کہ اس رخصتی کی نوعیت کیا ہے؟ البتہ نورانی چہرے والے بزرگ زور لگاکررونے کی شدید کوشش کررہےتھے، جیسے شاہ رخ خان زور لگاکر اداکاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کم بخت آنسو تھے کہ نکلنے سے انکاری تھے، اس پر سمجھدار کیمرہ مین نے فرشتہ صورت بزرگ کے کلوز اپ کی بجائے کیمرہ دوبارہ پنڈال میں موجود عقیدت مندوں پر فوکس کردیاجبکہ پس پردہ موسیقی کے طور پر بزرگ کی المناک ہچکیاں (بغیر آنسوؤں والی) بدستور چلتی رہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شاید یہ کم عمر صاحب، ان بزرگ شخصیت کے صاحبزادے ہیں اور گھر داماد کے طور پر رخصت ہوکر اپنے سسرال جارہے ہیں اور ان کی جدائی میں یہ رقت آمیز (دیکھنے والوں کے لئے) محفل سجائی گئی ہے!

اس محفل کی براہ راست کوریج نے میرے دل میں وہ کیفیات پیدا کردیں، جن کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ساری دنیا ایسے ہی کاسٹیوم زیب تن کرکے ہر وقت اسی حلیے میں لہکتی پھرے۔ یہ رنگارنگی اور تنوع ختم ہوجائے اور یک رنگی کی کیفیت پیدا ہوجائے تو دنیا کتنی حسین لگنے لگےگی اور اس کائنات کی تخلیق کا مقصد بھی پورا ہوجائے گا!

میرا دوست "ھ" ،جو نہایت بے ہودہ، بدتہذیب، جاہل، گنوار، منہ پھٹ اور دہریہ قسم کا شخص ہے اور بدقسمتی سے اس وقت میرے پاس بیٹھا تھا، اس نے اپنے منحوس چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ سجائی اور ایک آنکھ میچ کر نہایت لوفرانہ انداز میں کہا کہ عقیدت اور جہالت کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور اس کیس میں تو گلے مل رہی ہیں!

32 مارچ

چاند میری زمیں، پھول میرا وطن ۔۔۔۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے ۔۔۔ اے وطن پیارے وطن ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ،  اگر ملی نغموں، ترانوں، نعروں، فوجی پریڈوں سے ملک ترقی کیا کرتے اور قومیں دنیا میں اپنی پہچان بنایا کرتیں تو یقینا ہم اس کائنات میں بسنے والی سب سے عظیم قوم اور سب سے ترقی یافتہ ملک ہوتے۔

سکول کے زمانے میں ۲۳ مارچ کا اپنا ایک رومان ہوتا تھا۔ مارچ پاسٹ کرتے ہوئے چاق و چوبند فوجی، سلامی کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے ہوئے ٹینک، توپیں، میزائل اور سونے پر سہاگہ اظہر لودھی کا خون کی گردش تیز کرتا ہوا رواں تبصرہ۔ وہ زمانہ گزرگیا۔ اور اپنے ساتھ بہت سے رومان بھی لے گیا۔ اب 23 مارچ کو بہت سے تلخ سوال میرے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جواب کا تقاضہ کرتے ہیں۔ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہیں!

ایک سوال یہ ہے کہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ" کا کیا مطلب تھا؟ اگر اس کا مطلب پاکستان کو دین اسلام کے مطابق چلانا تھا تو عمر (رض) سے ایک عام آدمی بھری محفل میں پوچھ لیتا تھا کہ یہ کرتہ تو نے کیسے بنا لیا ایک چادر سے؟ اب آپ اپنے کونسلر سے پوچھ کے دیکھیں کہ بھائی یہ ایک ہی سال میں تو موٹر سائیکل سے کار پر کیسے آگیا تو اگلا پورا مہینہ آپ پشت کے بل سو نہیں سکیں گے اور موٹی گدی والی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے بھی دس دفعہ سوچیں گے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ بھونپو نما لوگ اخبارات میں اس دن بیانات چھپواتے ہیں (اب چینلز پر اپنی سریلی آواز میں کلام شاعر بزبان شاعر کی صورت میں بھی) کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ اچھا تو پھر 1971 میں اسرائیل کے دو ٹکڑے ہوئے تھے؟ شاید خدا نے ہمارے لئے اپنے قانون بدل دیئے ہیں۔ ہم جو جی چاہے کرتے رہیں یا یوں کہہ لیں کہ کچھ نہ بھی کریں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں پھر بھی ہم قائم و دائم رہیں گے۔ اور وہ جو مالک کہتا ہے کہ "لیس للانسان الا ما سعی" تو وہ شاید ہمیں چھوڑ کے باقیوں کے لئے کہا گیا ہوگا۔

ہماری رگوں میں یقینا بنی اسرائیل کا خون ہے!

اسی ۲۳ مارچ کے دن چند بزرگ ایسے بھی نمودار ہوتے ہیں، جن کا فرض ہم کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو کی دکان پر منشی ہوتے۔ اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں اور ہمیں سرزنش کرتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم ایک "آزاد اسلامی" ملک کے رہنے والے ہو۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ کیا ہندوستان والےہماری سوکن ہیں؟ یا ہمارا ان سے وٹہ سٹہ ہے؟ کیا ہمیشہ ہم ان کو معیار مان کر ہی اپنی حالت ماپتے رہیں گے؟

ایک اور سوال ہے کہ ریاست اگر ماں جیسی ہوتی ہے تو یہ کیسی ماں ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھاجاتی ہے؟یہ ماں ہے یا ناگن؟ یا پھر یہ ریاست صرف اس طبقے کی ماں ہے جن کے لئے اسے بنایا گیا تھا اور جو آج بھی سارے وسائل شیر مادر سمجھ کے ڈیک لگا کے پی جاتے ہیں۔ اور پھر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھاشنوں کی صورت میں ڈکار مارتے پھرتے ہیں۔ عامیوں کے تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان  کے مطالبے پر انہیں ہر سال، اگلے سال ۳۲ مارچ تک کا وقت دے دیتے ہیں۔ اور شاباش ہے ۱۷ کروڑ "غیور" عوام پر جو ۶۲ سال سے ۳۲ مارچ کا انتظار کرتے آرہے ہیں۔ کرتے رہو، قیامت تک!

اوراس پیشینگوئی کے لئے آپ کو رینڈ کارپوریشن کی کسی ریسرچ، ہنود ویہود لابی کا ایجنٹ یا کافروزندیق ہونے کی ضرورت نہیں کہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو ہمارے ان داتاؤں کے پاس کچھ زیادہ ۲۳ مارچیں منانے کا وقت نہیں رہ گیا۔ حشرات الارض کا کیا ہے، آپ کے پاؤں کے نیچے آکر نہ کچلے گئے تو کسی اور کے پاؤں کے نیچےآکر کچلے جائیں گے۔ اور فرق تو ان کو بھی نہیں پڑے گا۔وہ نئےفاتح کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر ہار لے کر کھڑے ہوجائیں گے، جیسےان کے باپ دادا انگریزوں کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہا کرتے تھے۔

بس ذرا حکمرانی کا مزا کرکرا ہوجائے گا!

تناظر!

آج تک اس لفظ کی سمجھ نہیں آئی کہ آخر اس کا مطلب کیا ہے?

انگریز شاید اس کو پرسپیکٹو کہتے ہیں۔ مثلا ایک لفظ ہے فحش۔ اب کچھ لوگوں کو انسانوں کے بنا لباس یا چست لباس میں لپٹے بدنوں میں فحاشی نظر آتی ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کو ستر سالہ مزدور کاڈیڑھ من کی بوری اٹھا کر دوسری منزل پر لے کر جانا فحش نظر آتا ہے۔کوئی کہتا ہےکہ ایک ہی کمرے میں جوان اولاد اور ماں باپ کا سونا فحاشی ہے تو کسی کی رائے میں چائے کے کھوکھے پر کام کرنےوالاچھ سات سالہ بچہ فحاشی کی کلاسیکی مثال ہے! کوئی کہتا ہے کہ جہاں بھوک سے خودکشیاں ہوتی ہوں وہاں شادیوں پر دس دس کھانے پیش کرنا فحاشی ہے۔ کوئی ہزاروں گز پر پھیلے "سادہ" مکانات کو فحاشی سمجھتا ہے، تو کوئی فلمی پوسٹروں اور اشتہاری ہورڈنگز کو ہی فحاشی کی معراج سمجھ کر ان پر سیاہی انڈیلتا ہے اور اپنے تئیں فحاشی کا "بی ناس مکا" دیتا ہے۔ چند لوگ بالغ لطیفوں کو فحاشی سمجھتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو ارباب اختیار کا ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا اور بولتے ہی چلے جانا، بدترین فحاشی نظر آتا ہے۔

دہشت گردی بھی ایک ایساہی لفظ ہے۔ کسی کے نزدیک دہشت گرد صرف وہ ہے جو کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں دہشت گردی کرے۔ خود بھی مرے اور ساتھ بیسیوں بے گناہوں کو بھی لے مرے۔ اور اگر کوئی فضا سے میزائل مار کے ایک گناہگار کے ساتھ بیسیوں بے گناہوں کو مارڈالے تو وہ "کولیٹرل ڈیمیج" ہے! جبکہ کچھ کے نزدیک دہشت گردی کی تعریف اس سے بالکل الٹ ہے۔

اسی طرح کچھ لوگ کسی کے زاہد اور متقی ہونے کا فیصلہ حلیے سے کرتے ہیں جبکہ کچھ اس زمرے میں صرف عمل کو دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ کسی ایک جملے یا پھبتی پر کسی کے اخلاق وکردار پر حکم لگادیتے ہیں۔ جبکہ کچھ کسی کے بارے میں کوئی حکم لگانا یا کسی کو "جج" کرنا ہی سب سے بڑی بد اخلاقی سمجھتے ہیں۔

میں بہت حیران ہوں کہ ایک ہی لفظ "تناظر" کے اتنے تناظر کیسے ہوسکتے ہیں؟ کوئی دانشور، فلسفی، صوفی، درویش ہے جو میری اس الجھن کو دور کرے!