مردودکی یاد میں

ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کسی کی یاد میں کبھی کچھ لکھنے کی نوبت آئے گی لیکن آج ہم بصد خوشی و مسرّت یہ سطور قلم بند کرنے کی سعاد ت حاصل کررہے ہیں۔ان کا ذکر کرنے سے پہلے تین دفعہ لاحول اور تین ہی دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر پاس بیٹھے ہوئے پر دم کردیں لیکن خیال رکھیں کہ کوئی انجان خاتون نہ ہوں ورنہ آپ کا دم بھی نکل سکتا ہے۔۔۔
آمدم برسر مطلب۔۔۔ان کا نام ایسا تھا کہ اسکی وجہ سے اکثر وہ کبھی کھابے کھاتے اور کبھی قتل ہونے سے بال بال بچتے رہے لیکن عرف عام میں انہیں سجن دشمن سب "مردود" کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن سب سے بڑی وجہ ان کا موقع محل اور جھونپڑی دیکھے بغیر بولنا تھا۔ مرے پر سو درّے، جب وہ بولتے تھے تو زیادہ تر باقیوں کی بولتی بند کردیتے تھے۔ لہذا انہیں اتفاق رائے سے مردود کا نام دیا گیا۔ دوست احباب البتہ زیادہ جوش و خروش سے ان کی غیر موجودگی میں یہ نام دہراتے تھے اور اپنے من کو ٹھنڈک پہنچاتے تھے۔
زمانہ طالب علمی میں اساتذہ اور ہم جماعتوں میں وہ یکساں طور پر غیر مقبول تھے۔ اساتذہ ان کے سوالات اور ہم جماعت ان کی حاضر جوابی (جنہیں چند حاسدین جگت بازی کا بھی نام دیتے ہیں) سے تنگ رہتے تھے۔ اساتذہ تو اپنا ساڑ کسی نہ کسی طرح نکال لیتے تھے مثلا اردو گرائمر پڑھاتے ہوئے، استاد  اچانک ان سے پوچھتے کہ  بوٹسوانہ کے  وزیر بہبود آبادی کا نام بتاؤ۔۔ مردود بھی ایسے کائیاں تھے کہ کریبونگا امبنگوا جیسا کوئی نام بول دیتے، استاد محترم کے لیے مشکل ہوجاتی کہ اگر غلط کہیں تو ٹھیک بتانا پڑے گا اور درست  مانیں تو مردود بچ جائیں گے۔ لیکن استاد بھی آخر استاد ہوتے ہیں۔۔ فورا ان سے فعل ماضی مطلق شکیہ  کی گردان سنانے کا حکم جاری کردیتے۔۔ تس پر مردود گویا ہوتے ۔۔ سرجی ! پھینٹی لانی اے تے لاؤ ، بہانے تے نہ لاؤ۔۔ اس پر محترم استاد اپنے دل کی بھڑاس شہتوت کی لچکدار چھڑی ان کے ہاتھوں اور تشریف پر برسا کے پوری کرتے۔۔
ہم جماعت، نہ زبانی اور نہ ڈنڈیں پٹّیں ، ان سے الجھنے کی ہمّت رکھتے تھے لہذا اس ساڑ کو اکثر و بیشتر ان کی غیرموجودگی  میں ان کے قصیدے پڑھ کے نکالاجا تا تھا۔ آپ کو خدا تعالی نے ڈھٹائی کی صفت سے نکونک مُتّصف کیا تھا، بنا بریں ایسی باتیں اگر ان کے کان میں پڑ بھی جاتیں تو بے شرمی سے ہنس کر، سنانے والے کو دو تین جگتیں ٹکا دیا کرتے۔ رفتہ رفتہ سب کو اندازہ ہوگیا کہ آپ ہمیشہ اپنی مرضی اور منشاء سے  کھیلتے ہیں، لائی لگ نہیں ہیں۔
اعلی تعلیم کے لیے لوگ باہر جاتے ہیں آپ اس سلسلے میں دو تین دفعہ اندر جاتے ہوئے بال بال بچے۔ کالج میں آپ کے جوہر مزید کھلے۔ ایک تو یہاں شہتوت کی چھڑی سے گدّڑ کُٹ لگانے والے اساتذہ نہیں تھے اور دوسرا ان کو اپنے مزاج کے چند اور مردود بھی مل گئے۔ جو آخری سانس (مردود کی آخری سانس) تک ان کے ساتھ رہے۔ آپ نے کالج میں اپنی منافقت کے باوصف جماعتیوں میں شمولیت اختیار کی حالانکہ آپ کی گفتگو اگر کوئی ناظم بھائی سن لیتے تو موقع پر  ہی ان کو شہادت سے سرفراز کردیتے۔ آپ کا  "باگا" بہت تھا۔ "زندہ ہے جمعیت زندہ ہے" کے نعرے لگاتے ہوئے دو تین دفعہ ایم ایس ایف کے ہاتھوں مرتے مرتے بچے۔ ان کے حاسدین ان کے اس طرح بچنے پر ہمیشہ سڑ کے یہی کہتے تھے کہ ۔۔۔ بُرائی اینی چھیتی نئیں مُکدی۔۔۔
آپ نے  یہ محاورہ بھی غلط ثابت کیا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے  نہیں۔۔۔ آپ گرجتے بھی تھے اور برستے اس سے زیادہ تھے۔ ایک دفعہ تو تنگ آکے ایم ایس ایف  والے وفد بنا کر مرکز میں تشریف لے گئے اور اکابرین سے درخواست کی کہ اگر اس کو لڑائی میں شامل کرنا ہوتا ہے تو ۔۔ اسیں اگّے توں لڑائی لڑائی نئیں کھیڈنا۔۔۔
چہرے پر چھائی نحوست ، مردودیت اور لفنٹر پن کے باوجود آپ ہمیشہ خواتین کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ اس کی وجوہات پر جب روشنی ڈالنے کے لیے کہا جاتا تو آپ ہمیشہ ایک ذلیل سی ہنسی کے ذریعے اس کا جواب دیتے۔ اس دلچسپی  کے سائیڈ افیکٹس  یہ تھے کہ ان خواتین کے خالو، پھوپھے، ماموں، چچا ، بھائی وغیرہ ہمیشہ ان پر بندوقیں کس کے پھرتے رہے ۔۔۔ بقول شاعر۔۔۔
کانٹے کی طرح ہوں میں "اقرباء" کی نظر میں
رہتے ہیں مری گھات میں چھ سات مسلسل
جو ں جوں وقت گزرتا رہا اس فہرست میں بھتیجے، بھانجے وغیرہ بھی شامل ہوتے گئے۔۔ اگر آپ  دنیائے فانی سے اتنی جلد دفع نہ ہوتے تو یقینا نوبت بیٹوں تک جا پہنچتی۔۔
آسماں تیری لحد پہ زہر افشانی کرے
آپ کی وفات مُسّرت آیات، اچانک  ہوئی۔ ایک دن صبح اٹھے اور فیصلہ کیا کہ آج کے بعد بدل جائیں گے۔ منافقت چھوڑ دیں گے، مردودیت سے کنارہ کرلیں گے، اچھے بچّے بن جائیں گے۔۔ اس فیصلے کی خوشی کی تاب نہ لاتے ہوئے، اسی شام داعئ حق کو لبیک کہہ گئے۔۔
حق، پاء لمّیاں لوے، عجب مردود مرد تھا