ایک ادبی نشست

ناظرین! آج کے پروگرام کے ساتھ حاضر خدمت ہیں۔ ہماری آج کی نشست کے معزز مہمانان گرامی میں مشہور شاعر, کالم نگار، ڈرامہ نگار، سفرنامہ نگار جناب لام میم نون اور مشہور نقاد جناب عین غین جیم شامل ہیں۔ تو آئیے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، جناب لام میم نون سے۔۔۔

آج کے ادبی منظر کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے میں آپ کے پروگرام میں شامل ہوا ہوں! جہاں تک موجودہ ادبی صورتحال کا سوال ہے تو مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قائد اعظم کا پاکستان دیکھ" ۔۔۔

(میزبان بات کاٹتا ہے) لیکن جناب یہ تو کسی اور شاعر کا شعر ہے۔۔۔

تو آپ مجھ پر سرقے کا الزام دھررہے ہیں؟ یہ شعر میں نے پہلے کہا تھا، بلکہ یہ دیکھئے (ڈائری نکال کر اس کا صفحہ کھول کر دکھاتے ہیں) 21 جون 1958 کو میں نے یہ شعر کہا تھا۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کسی دوسرے شاعر کا شعر ہے؟ آپ کمال شخص ہیں۔ وہ تو نہ ہوا میں غالب کے دور میں، ورنہ پتہ پڑ جاتا غالب کے بچے کو بھی۔ ڈہائی صفحے لکھ کر شاعر بنا پھرتا ہے! (سائیڈ ٹیبل سے ایک ضخیم کتاب اٹھا کر فخریہ انداز سے میزبان کو دکھاتے ہوئے) یہ دیکھئے میرا دیوان! ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ آج کل کے شاعر تو ایک غزل لکھ کے "ہف" جاتے ہیں۔ میں اتنی شاعری کرکے بھی تازہ دم ہوں۔

(میزبان برا سا منہ بنا کر نقاد کی جانب متوجہ ہوتا ہے) جناب عین غین صاحب! آپ کیا سمجھتے ہیں کہ موجودہ ادبی منظر نامے میں لام میم نون کی کیا اہمیت ہے؟

(کھنکھار کر گلا صاف کرتے ہیں) دیکھئے! بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ادب، کوئی مجرد شے نہیں ہوتی بلکہ  یہ کسی بھی قوم کی لاشعوری حسیت سے جڑا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قوم ہیں؟ اگر ہاں ! تو اس سے ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا اجتماعی لاشعور، ادب کو قبول کرتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ ادب اس کا حصہ بھی ہے یا نہیں؟ اگر ہم قوم نہیں تو پھر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ ہم کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ کس لئے ہیں؟ جبکہ  ۔۔۔۔۔۔

(میزبان سوچکا ہے، جبکہ شاعر اونگھ رہا ہے اور کیمرہ مین کے خراٹے پورے سٹوڈیو میں گونج رہے ہیں، جبکہ صورتحال سے یکسر لا تعلق حضرت نقاد، دھڑادھڑ دانش کے موتی بکھیرتے جارہے ہیں)