دو کہانیاں ہیں

دو کہانیاں ہیں۔
اس کے ابّا محکمہ انسداد رشوت ستانی میں نائب قاصد تھے۔ آمدنی محدود اور کنبہ لا محدود۔ جز وقتی طور پر کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا سپرے کیا کرتے تھے۔ شام ڈھلے جب وہ اپنے پرانے چوبیس انچ کے ریلے سائیکل پر گلی کا موڑ مڑتے تو سائیکل کے کیرئیر پر سپرے والی مشین اور ان کے منہ پر صافہ ہوتا جس سے انہوں نے منہ ڈھانپا ہوتا تھا۔ زندگی مشکل تھی۔ گزارا  مشکل تھا۔ تب ہر طبقے کی علیحدہ آبادیوں کا رواج نہیں تھا۔ ایک ہی محلے میں امیر سے غریب تک سب  رہ لیاکرتے تھے۔ اور ایسے ہی بہت سوں کی پردہ پوشی خاموشی سے کردی جاتی تھی۔ گزارا ہوجاتا تھا۔
  اسے کرکٹ کا شو ق تھا۔ صرف شوق ہی نہیں ، جنون تھا۔  نیچرل اتھلیٹ۔ تیز بالنگ کرتا تھا اور کم عمری میں ہی بڑے   بڑوں کے   قدم اکھاڑ دیتا تھا۔ فطری ٹیلنٹ۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے ابّا کی طرف سے ہمیشہ دباو رہتا تھا کہ کچھ کرکے دکھا۔ پڑھنے لکھنے سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔ مار ے باندھے پاس ہوجایا کرتا تھا۔ نویں جماعت میں پہنچا تو اپنے سکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتا ن بن گیا۔ اسلامیہ ہائی سکول ، جناح کالونی کی ٹیم اس سے پہلے کبھی فائنل تک نہیں پہنچی تھی۔ لگاتار دو سال فائنل میں شاید ایم سی ہائی سکول سے مقابلہ ہوا اور جم کر ہوا۔ شاید دونوں دفعہ ہار گئے لیکن اس کے نام کے ڈنکے بج گئے ۔  بوہڑاں والی گراونڈ، فیصل آباد  میں کلب کرکٹ کا  جی ایچ کیو ہے۔ اس نے وہاں جانا شروع کردیا۔ کلب کے نیٹس میں بالرز کو پہلے بیٹنگ  کی باری ملتی ہے۔ بلے بازوں کی باری بعد میں آتی ہے۔ اسے نیا سمجھ کر پرانا گیند دیا گیا اور شروع میں ہی بالنگ پر لگادیا گیا۔  دس منٹ بعد ہی جب دو بلے باز اپنی پسلیاں سہلاتے ہوئے ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے تو راشد ولی، جو اس کلب کے کپتان اور فیصل آباد کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے، انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا ، نام پوچھا  اور گیند واپس لے کے انتظار کرنے کو کہا۔  جب بلے بازوں کی باری آئی تو اسے نسبتا نیا گینددیا گیا۔ فطری طور پر اس کا گیند آوٹ سوئنگ کرتا تھا۔ ایک پندرہ سولہ سال کے لڑکے کی نسبت اس کی رفتار حیران کن حد تک تیز تھی۔ ہائی آرم اور بہت ہموا ر بالنگ ایکشن اور زبردست قسم کا باونسر۔ تیز بالرز کی اصطلاح میں مکمل پیکیج۔
کلب کرکٹ میں اس کا نام راتوں رات زبان زد عام ہوگیا۔راشد ولی نے اسے اپنے بالنگ کے جوتے جنہیں سپائیکس کہا جاتا تھا وہ دئیے ۔ کلب کی طرف سے اس نے کچھ میچز بھی کھیلے جو ایک بالکل نئے کھلاڑی کے لیے بہت بڑی اچیومنٹ تھی۔ یہ سارا ماجرا اس وقت وقوع پذیر ہورہا تھا جب میٹرک کے امتحان کے بعد والی چھٹیاں جاری تھیں۔ نتیجہ آیا اور وہ بمشکل تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوا۔ گھریلو حالات  زیادہ مشکل ہوگئے تھے۔ بچے بڑے ہورہے تھے ، اخراجات بڑھ رہے تھے اور آمدنی وہی کی وہی۔ میٹرک میں کم نمبروں کے باوجود گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ  میں داخلہ کھیل کی بنیاد پر اس کے لیے بہت آسان تھا۔ لیکن اس کے ابّا نے فیصلہ کیا کہ بہت پڑھائی اور کرکٹ ہوگئی۔ اب اسے کمانا چاہیے۔ اسے رضا آباد تین نمبر بازار کی ایک  کپڑے دھونے والے صابن کی فیکٹری میں منشی کا اسسٹنٹ رکھوادیا گیا۔ مبلغ سات سو روپے سکہ رائج الوقت۔ یہ کہانی یہاں ختم ہوتی ہے۔
وہ بھی اسی گلی میں تھوڑا آگے کرکے رہتا تھا۔ اس کے ابّا کی کپڑے کی دکان تھی۔ اچھے خوشحال لوگ تھے۔ بڑے بھائی بھی شیخوں کی روایت کے مطابق اپنا اپنا کاروبار کرتے تھے۔ مناسب سے زیادہ حد تک فارغ البالی تھی۔ اسے بھی کرکٹ کا شوق تھا۔ آف سپن بالنگ کیا کرتا تھا۔ جو ان دنوں آو ٹ آف فیشن تھی۔ کوئی بھی سپنر نہیں بنناچاہتا تھا۔ سب کے دل میں وقار یونس اور وسیم اکرم بننے کی خواہش ہوتی تھی۔  لیکن اسے سپن بالنگ پسند تھی۔ کھیل کا اسے  بھی جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس کے ابّا بھی کرکٹ کے شیدائی تھے اور ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔  اتفاق سے یہ بھی اسلامیہ ہائی سکول میں ہی پڑھتا تھا اور سکول کی کرکٹ ٹیم میں بھی شامل تھا۔ لیکن پلئینگ الیون میں جگہ بہت مشکل سے بنتی تھی تو  اکثر بارہواں کھلاڑی ہی ہوتا تھا۔ بارہواں کھلاڑی ہونے پر بھی اس کا جوش کبھی کم نہیں ہوتا تھا اور وہ کسی نہ کسی کو باہر بلا کر اس کی جگہ فیلڈنگ کرکے کھیل میں شامل ہونے کا شوق پورا کرلیا کرتا تھا۔وہ  ایک عام سا کھلاڑی تھا۔ کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا سوائے اس کے شوق او رکمٹمنٹ کے۔  دسویں کے بعد اس نے شاید گورنمنٹ کالج سمن آباد میں داخلہ لیا اور بوہڑاں والی گراونڈ بھی جانا شروع کردیا۔ وہ گرمیوں میں ساڑھے تین بجے گراونڈ میں پہنچ جاتا تھا۔ گراونڈ کے تین چار چکر لگاتا تھا۔ پچ  کو رول کرنے میں مدد دیتا تھا۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام بڑی خوشی اور لگن سے کرتا تھا۔ جب پریکٹس شروع ہوتی تو اسے گراونڈ میں آئے ڈیڑ ھ دو گھنٹے ہوچکے ہوتے تھے۔  غیر معمولی صلاحیت کی کمی اس نے شدید محنت سے پوری کی۔ اس کے ذمّے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی کام تھا۔ کرکٹ کھیلنا ۔ اور یہ کام اس نے پوری ایمانداری اور محنت سے کیا۔ وقت گزرتا گیا۔ اور یہ معمولی صلاحیت والا محنتی کھلاڑی آہستہ آہستہ کامیابی کے زینے چڑھتا گیا۔ فیصل آباد کی طرف سے کھیلنے کے بعد اسے ایک ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کھیلنے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ اس کا نام کبھی کبھی اخبارات میں آنے لگا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اس نے تقریبا ایک عشرہ لگایا۔ آخر کار اسے قومی ٹیم میں موقع ملا اور اس نے یہ موقع دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا۔ آج وہ ایک عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی ہے۔  یہ کہانی بھی ختم ہوئی۔

دو کہانیاں ہیں!۔