کہانی کی کہانی

کہانی پڑھنا، کہانی سننے سے زیادہ دلچسپ ہے۔ بچپن کی کچھ دھندلی اور بہت سی واضح یادوں میں سے ایک، اگلی جماعتوں کی اردو کی کتابیں پڑھنا شامل ہے۔ شاید تیسری جماعت میں تھا، جب اخبار پڑھنا شروع کیا۔ پہلا اخبار  'جسارت' تھا جو ان دنوں شام کو فیصل آباد پہنچا کرتا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابّو، جماعت کے متفقین میں شامل تھے۔ اس میں ہماری دلچسپی کا سامان اندر کے صفحات میں "فلیش گورڈن" کی قسط وار، باتصویر کہانی ہوتی تھی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دور کے مُتقین اتنے خُشک نہیں تھے۔ آج کل شاید ان کہانیوں کو کامکس کہا جاتا ہے۔۔۔۔ خیر۔۔۔ پڑھنے کی لَت بہرحال دو تین مختصر پیروں سے تسکین نہیں پاتی تھی۔ لہذا شہزادی، بادشاہ، جن، پری، دیو، شہزادہ، لکّڑ ہارا، چرواہے کی کہانیوں والے مختصر سے رسالے اپنے جیب خرچ سے خرید کے پڑھنا شروع کیے۔ ہمدرد، نونہال وغیرہ بھی کہیں نہ کہیں سے مل جاتے تھے۔ لیکن یہ کہانیاں زیادہ عرصہ ہمارا دل نہ لُبھا سکیں۔
ان دنوں ابّو، تقریبا روزانہ شام کے وقت ایک کتاب لے کے بیٹھ جاتے۔ جس کے سرِ ورق پر پستول تھامے، سوٹ پہنے ہوئے کوئی شخص ہوا کرتا تھا۔ ان سے پوچھتا کہ اس "رسالے" میں کیا ہے تو جواب ملتا کہ ۔۔ چور، سپاہی کی کہانی ہے۔۔۔ میں اصرار کرتا کہ میں بھی پڑھوں گا تو مسکرا کے کہتے کہ بڑے ہوجاؤ ، پھر پڑھنا، ابھی سمجھ نہیں آئے گی۔
وہ "رسالے" ابنِ صفی سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔
جناح کالونی میں چھتری والے چوک سے ہوزری مارکیٹ کی طرف جائیں تو سیدھے ہاتھ کونے پر ویسٹ اینڈ بیکری ہوا کرتی تھی شاید اب بھی ہو۔ اس کے ساتھ ایک دو دکانیں چھوڑ کے "رفیق لائبریری" تھی۔ لائبریری کے مالک، رفیق صاحب، ایک دھان پان، معنّک، گورے چٹّے، بیٹھی ہوئی آواز والے چاچا جی تھے۔ ابّو کے دوست ہونے کی وجہ سے ہم ان کو چاچا جی کہتے تھے۔ انکی دوستی کی وجہ بھی وہی "رسالے" تھے۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں دوپہر تک ہمیں دکان پر قید کیا جاتا تھا کہ گھر میں رہتے ہوئے، چھٹیوں کے کام کی بجائے ہم بنٹے، کرکٹ اور ایسی ہی دوسری مفید سرگرمیوں میں ملوّث رہتے تھے۔ تو صبح سویرے ہم بستہ اٹھائے، ابّو کےساتھ دکان پر تشریف لے جاتے۔ جناح کالونی میں واقع پاکستان نیشنل سنٹر سے ہمارا تعارف انہی دنوں ہوا۔ جیسے ہی ابّو کسی کام کے لیے نکلتے، ہم سُودی کو ساتھ لیتے اور پاکستان نیشنل سنٹر میں جا دھمکتے۔ وہاں بہت سے اخبار، کتابیں، رسائل ہمارے لیے کسی خزانے سے کم نہیں تھے۔ ایک چھوٹی سی الماری میں بچّوں کے لیے کتابیں تھیں۔ عنبر، ناگ، ماریا، چلوسک ملوسک، داستانِ امیر حمزہ وغیرہ ہم نے وہیں بیٹھ کر پڑھیں۔
انہی دنوں ہم نقل مکانی کرکے اپنے آبائی مکان جھنگ بازار سے عوامی کالونی منتقل ہوگئے۔ یاد نہیں کہ پہلی دفعہ ظہیر لائبریری، ہمارا جانا کیسے ہوا لیکن ایک دفعہ تعارف ہونے کے بعد عوامی کالونی میں گزرے ہوئے طویل عرصے میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب دن میں کم ازکم ایک چکّر، ظہیر لائبریری کا نہ لگا ہو۔ طارق روڈ سے عوامی کالونی میں داخل ہوں تو گلی نمبر چھ میں بائیں ہاتھ پر تیسرا مکان ہمارا تھا۔ گلی کی دائیں نُکّڑ پر 'سلیم اختر راہی بیسٹ ٹرنر اینڈ ریپیئرنگ" نامی خراد کی دکان تھی۔ راہی صاحب، قاری سعید چشتی کے گہرے دوست تھے اور قاری صاحب اکثر شام کو اپنے ویسپے سمیت اس دکان پر پائے جاتے تھے۔ قاری صاحب اس وقت تک صرف قاری ہی تھے، قوّال نہیں ہوئے تھے۔ گلی کی بائیں نُکّڑ پر استاد خالد کی ویلڈنگ کی دکان تھی۔ گلی پار کرکے گلستان روڈ (اب شاید بمبینو روڈ) آتا تھا جس کے دوسری طرف گلشن کالونی تھی۔ ظہیر لائبریری گلستان روڈ پر گلی نمبر ایک کے کونے سے تیسری دکان میں واقع تھی۔ تینوں دیواروں پر لکڑی کے ریک استادہ تھے۔ جو کتابوں سے بھرے ہوتے تھے۔ ایک چھوٹا سا کاؤنٹرتھا جس کے پیچھے پروپرائٹر ظہیر لائبریری، ظہیر الدین بابر براجمان ہوتے تھے۔ کاونٹر کے سامنے والی دیوار کے ساتھ لکڑی کا ایک بنچ تھا۔ جس پر کافی عظیم شخصیات اپنی تشریف رکھتی تھیں۔
اشتیاق احمد سے پہلا تعارف، ظہیر لائبریری کی وساطت سے ہوا۔ یہ ہمارے لیے ایک بالکل نئی چیز تھی۔ بادشاہ، ملکہ، شہزادی، لکڑہارا، جن، دیو، پریوں کی بجائے ، عام کردار۔ ہمارا ماننا ہے کہ چور، سپاہی کی کہانی سے دلچسپ شاید ہی کوئی اور کہانی ہوتی ہو۔ تو اشتیاق احمد ہمارے پسندیدہ ترین لکھنے والے بن گئے۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے، ابّو کا رجحان مذہبی ہوتا گیا۔ رسالے، ناول وغیرہ خرافات میں شامل ہوتے گئے۔ جماعت اسلامی کے رسالے، نُور، بتول اور ترجمان القرآن باقاعدگی سے آنے لگے۔ ہم بھی لیکن چھپ چھپا کر خرافات پڑھتے ہی رہے۔ اشتیاق احمد کے بعد عمران سیریز کی باری آئی۔ مظہر کلیم، صفدر شاہین، ایچ اقبال وغیرہ کے ناولز پڑھے۔ مظہر کلیم ان سب میں سے اچھا لکھتے تھے۔ ابنِ صفی کو ساتویں میں پہلی دفعہ پڑھا تو بہت بورنگ لگے، چھوڑ دیا۔ دسویں کے پیپر دے کے دوبارہ شروع کیا اور آج تک نہیں چھوڑا۔
نسیم حجازی، اسلم راہی ایم اے، قمر اجنالوی، عنایت اللہ وغیرہ کو بھی پڑھ ڈالا۔ نویں جماعت میں پہلا ڈائجسٹ پڑھا، جاسوسی ڈائجسٹ۔ "شکاری وہ پہلی کہانی تھی جس سے ڈائجسٹ کا چسکا لگا۔ بس پھر چل سو چل۔۔۔ سب رنگ، جاسوسی، سسپنس، مسٹری میگزین، عمران ڈائجسٹ، نیا رخ، نئے افق، عالمی ڈائجسٹ۔۔۔ ڈائجسٹوں کے لکھاریوں کی اپنی ایک الگ دنیا تھی۔ شکیل عادہ زادہ، احمد اقبال، علیم الحق حقّی، اثر نعمانی، ایم اے راحت، محی الدین نواب، طاہر جاوید مغل، محمود احمد مُودی، کاشف زبیر، ساجد امجد، جبار توقیر، اقلیم علیم اور بہت سے دوسرے۔۔۔۔۔ ڈائجسٹ سے ہی غیرملکی کہانیوں کے ترجمے پڑھنے کا موقع ملا۔ ایک نئی دنیا سے تعارف۔۔۔
کالج کے پہلے سال، منٹو کا ذکر سنا۔ یہ ذکر اور تاثر کچھ ایسا خوشگوار نہیں تھا۔ ہمارے ایک دوست جو بعد میں کاکول کو پیارے ہوگئے، انہوں نے منٹو کی کہانی "ٹھنڈا گوشت" پڑھنے کو دی اور بائیں آنکھ مِیچ کے بولے۔۔ "مزے آجان گے"۔۔۔ مزے تو خیر کیا آتے، جتنی سمجھ آئی۔۔ اسی میں ہمارے کان لال ہوگئے۔ اس سے بہرحال ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں ادب پڑھنے کی تحریک ملی۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے شاید وہ پہلی ادبی تحریر تھی جو ہم نے پڑھی۔ ممتاز مفتی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، غلام عباس، خدیجہ مستور، اے حمید، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، عبداللہ حسین۔۔ الغرض جو بھی ہمارے سامنے آیا ہم نے پڑھ ڈالا۔۔۔۔ بہت کچھ سر کے اوپر سے گزر گیا۔۔ بہت عرصے بعد دوبارہ پڑھا تو گتھیاں سلجھیں۔ تارڑ کے سفرنامے پڑھے اور سچّی بات کہ زیادہ متاثر نہیں کرسکے۔ تارڑ سے اصلی والا ٹاکرا "راکھ" پڑھ کے ہوا اور تب سے تارڑ کے سحر میں مبتلا ہیں۔
نان فکشن بہت کم پڑھا۔ ڈاکٹر سلیم اختر، سبطِ حسن اور ڈاکٹر مبارک علی کے نام  ذہن میں آرہے ہیں۔ اس میں اگر مذہبی لٹریچر کو بھی شامل کرلیا جائے تو مولانا مودودی اور شبلی نعمانی کا نام آتا ہے۔
شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ اقبال کے علاوہ ہم کسی کو شاعر نہیں سمجھتے تھے اور اقبال کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں عقیدت و احترام کی اگر بتّیاں سلگنے لگتی تھیں۔ ایک دن ظہیر سے گپ شپ کرتے، ریک میں پڑی ایک کتاب کے عنوان نے توجہ کھینچ لی۔۔۔ دشمنوں کے درمیان شام۔۔۔ ورق گردانی کی تو ایک انوکھی چیز پڑھنے کو ملی۔ یہ ہمارے شاعری سے لائف لانگ رومانس کا آغاز تھا۔ منیر نیازی، شاعری میں ہماری پہلی محبّت ہیں۔ پہلی محبّت کبھی نہیں بھولتی۔