ناصرہ فدوی - فن اور شخصیت

ادب کے افق پر بہت سے ستارے جھلملاتے ہیں پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی ضیاء سے آسمانِ ادب ہمیشہ منور رہتا ہے۔ فرد کی داخلی حسیّات کو اجتماعی لاشعور کی مابعد الطبیعیات سے ہم آہنگ کرنا ہر کسی کے بس کا نہیں ۔ یہ بھاری لکّڑ ہر کوئی نہیں لے سکتا۔ پچھلی چند صدیوں کے اردو ادب میں جو ستارے دائمی نور کا منبع رہے ہیں ان میں جنابِ رضی ٹھاہ کا نامِ نامی کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ ہر شے کو ناپنے کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ فاصلے میلوں میں ناپے جاتے ہیں۔ دودھ لٹروں میں اور وزن کیلو میں۔ شاعری ناپنے کا پیمانہ رضی ٹھاہ ہیں۔ کسی بھی شاعر یا شاعری کے مقام کا تعین درپیش ہو تو اس کے لیے ہمیں لا محالہ رضی ٹھاہ کو ہی معیار ٹھہرانا ہوگا۔ ان کا یہ شعر دیکھیے:
؎ اتنے خوش کیوں ہو رضی ٹھاہ
کرلیا ہے کیا اک اور ویاہ؟
مابعد جدیدیت کے داخلی انتشارکے جدلیاتی احساس فسوں کو ان کے بعد اگر کوئی سہل ممتنع میں بیان کرپایا ہے تو وہ محترمہ ناصرہ فدوی ہیں۔ نسائی مابعد الطبیعیات کے مجہول  لاشعور کی تہوں میں رینگتی کِرلیوں کے احساسِ تنہائی کو زبان دیتی یہ شاعرہ نئے دورِ شاعری کی ابتداء کا اعلان ہے۔پائمال موضوعات سے گریز، نئی زمینوں میں تازہ الفاظ کی کاشت اور ان سے یافت ہوئے معانی کے نئے جہان ناصرہ فدوی کی پہچان ہیں۔ یہ کسی بے بس فرد کی التجا نہیں بلکہ سٹرونگ انڈیپنڈنٹ وومن کا اظہارِ بغاوت ہے۔ان کی طویل نظم "حبشی حلوہ" کے چند اشعار دیکھیے:
تُم! ہاں تُم
تمہی میرے برفاب دل کی
 قلفی کا  تیلا ہو
یہ دل وہ تھا کہ انجان تھا
کسی چبھن سے
کسی لگن سے
پولکا کا ٹرک ہو جیسے
سرد خانے میں جمی خواہشات
چوکبار ہوں جیسے
بنا تیلے کے!
تپتی دوپہریں گرمیوں کی
قلفی والے کی صدا سے گونجتی تھیں
"کھوئے والی اے ملااااااائی والی اے"
من اندر تک اداس ہے
کیا میرے لیے بھی  کوئی خاص ہے؟
پھر تُم! ہاں تُم
آئے تھے میری زندگی میں
چوکبار بن کے
رنگ، خوشبو، حسن کا نام ناصرہ فدوی ہے۔ جتنی خوبصورت شاعری اس سے کہیں زیادہ خوبصورت آپ کی شخصیت ہے۔ مدہم روشنی، خوابناک ماحول ، جھیل جیسی آنکھیں نیم وا کرکے جب آپ اپنا کلام پیش کرتی ہیں تو یک بیک جیسے کائنات تھم سی جاتی ہے۔ آواز میں ایسا طلسم کہ جو سنے پتھر ہوجائے۔ انسٹاگرام سے فیس بک اور یو ٹیوب تک جیسے زندگی دوڑ جاتی ہے۔ حسن اور فن کا ایسا امتزاج شاید  اس سے پہلے اس کمال تک نہ پہنچا ہو۔بے اختیار علامہ شارق خلیل یاد آتے ہیں۔ حُورکا ہو بہو سراپا۔
معروف نقّاد حسرت جٹ لکھتے ہیں کہ ناصرہ کی شاعری قاری کو ففتھ جنریشن لٹریری ورلڈ میں لے جاتی ہے۔ خیال، بُنت، ڈکشن سب نیا اور انوکھا۔ناصرہ فدوی قاری کو بیرون سے بے خبر کرکے اندرون کے سفر پر لےجاتی ہے۔ تاریخ اور فکشن کے بیچ جو تھِن ریڈ لائن ہے اسے کراس کرکے نئی دنیاؤں کی سیر کراتی ہے۔ شعوری جدلیات کی تحلیلِ نفسی کرکے اسے قاری کے سامنے کھول کے رکھ دیتی ہے۔ جیسے اچار ماش کی دال کو زُود ہضم بنا دیتا ہے۔حسرت جٹ مزید لکھتے ہیں کہ تمہاری حسین آنکھوں کے کنول جب کھلتے ہیں تودل جلوں کے داغ سلگ اٹھتے ہیں۔ تمہاری آواز کا جلترنگ سن کر بھنورے گنگناتے ہیں۔ تمہاری کمرکے بل پر ناگن بل کھاتی ہے۔ تم ہنسو تو کائنات مسکراتی ہے۔ تمہاری اداسی شامِ غم بن جاتی ہے۔ الغرض بقول گمنام شاعر
؎کہوں کس سے میں کہ کیا ہے
ناصرہ فدوی بری بلا ہے
(مندرجہ بالا پیراگراف حسرت جٹ کے مضمون "محبت کی صورتحال" سے لیا گیا ہے جو ماہنامہ "پانچویں نسل" میں شائع ہوا۔ پیراگراف کا آخری حصہ جنابِ حسرت کے انسٹاگرام، ٹوئٹر اور فیس بکی تبصرہ جات پر مشتمل ہے جو آپ نے آنسہ ناصرہ فدوی کی ویڈیوز، فوٹوز، سٹیٹس اور ٹوئٹس پر کیے۔ ادارہ اس کا ذمّہ دار نہیں !)