بی سی جیلانی کی ڈائری - ری پلگ


زمانہ اتنا خراب ہوگیا ہے کہ میرے جیسے بندے کو سوچ کے پسینہ آنے لگتا ہے۔ ایمانداری، راستبازی، حق پرستی تو عبرانی کی اصطلاحات لگنے لگی ہیں۔ یہ پُرفِتن دور بھی دیکھنا تھا کہ خالص وہسکی بھی منہ مانگے داموں دستیاب نہیں ہوتی۔ اللہ بھلا کرے ڈپلومیٹک انکلیوز والوں کا یا اپنے حسین ایثار کا، اگر یہ دونوں نہ ہوں تو ہم جیسے مسکین پیاسے مر جائیں۔ اوپر سے خرچے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ میرے جیسے رزق حلال کمانے والوں کا تو جینا دوبھر ہوتا جارہا ہے۔ آنٹی شمیم نے کل رات ایک مہینے کا ڈیڑھ لاکھ کا بل تھما دیا ، حالانکہ میرے صرف تین چار وزٹ ہی تھے پورے مہینے میں۔ شریف آدمی کے لیے تو تفریح بھی عذاب ہوتی جارہی ہے اس ملک میں۔ اس سے بہتر تو بندہ دبئی کا چکر لگا آئے۔ پر اس کے اپنے مضمرات ہیں۔ اوّل تو بیگم ساتھ جانے پر تیار ہوجاتی ہیں اگر کوئی بہانہ کرنے کی کوشش کروں تو وہ میرے سامنے ہی وکّی، ٹونی وغیرہ کو فون کرکے پارٹی کرنے کا پروگرام بنانے لگتی ہیں۔ بندہ جائے تو کہاں جائے۔
بیگم کے اپنے خرچے ہیں۔ ابھی دو مہینے پہلے ہی پلاسٹک سرجری اور وہ پتہ نہیں جلد کھنچوانے کا کچھ پروسیجر ہوتا ہے، اس پر چار لاکھ اڑا دئیے۔ حالانکہ "فرق" کوئی نہیں پڑا۔ وہی چال "پلپلی" جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے۔ ایمانداری سے کام کرنے والوں کی قدر تو یہاں کسی کو ہے ہی نہیں۔ عوام، جاہل ہےتو سیاستدان، لٹیرے اور مولوی، فسادی ۔ ایک چھوٹا سا طبقہ ہمارا ہی ہے جو عقل کی بات کرتا اور سمجھتا ہے۔ایک فرق البتہ بہت مثبت پڑا ہے، فوج، ماشاءاللہ، سدھرتی جارہی ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس دنیا میں پیسے کے بغیر کسی کی کوئی عزت نہیں۔ ہر چیز معیشت اور پیسہ  ہی ہے۔ میرے تائے کا بیٹا، سکول ماسٹری کرتاہے۔ حالانکہ اسے  کوئی  دس ہزار دفعہ سمجھایا تھا کہ سی ایس ایس کرکے افسر لگ جا۔ لیکن وہی مولویانہ سوچ کہ معاشرہ سدھاروں گا۔ کھانے کے لالے پڑے رہتے ہیں اس کے گھر میں۔ کوڑی کی عزت نہیں، نہ معاشرے میں نہ خاندان میں۔ میں اولیول بھی پاس نہیں کرسکا تھا لیکن سفیر محترم بھی اٹھ کے مجھ سے ملتے ہیں۔ یہ ہوتی ہے عزت۔ ان مڈل کلاسیے ٹَٹ پونجیوں کو کیا علم کہ دنیا میں ترقی کیسے کرتے ہیں۔ وہی صدیوں پرانے تصورات سے چمٹے ہوئے ہیں۔ خاندانی نظام، عزت، غیرت، حیا، شرم، پردہ۔۔۔ پردہ تو نظر کا اور دل کا ہوتا ہے۔ میری بیٹی کے ماشاءاللہ چھ سات بوائے فرینڈ ہیں۔ میں نے کبھی اس کے معاملات میں دخل نہیں دیا۔ ہاں البتہ بڑی سختی سے اس کو کہا ہوا ہے کہ چاہے دو بج جائیں، تین بج جائیں، سونا گھر آکے  ہے۔ اور اتنی تابع دار بچی ہے کہ چاہے جتنی مرضی ڈرَنک ہو،  کسی نہ کسی طرح گھر پہنچ جاتی ہے  اور اُصول کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ اسے کہتے ہیں تربیت ۔ ویسے  بھی میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اس کی اپنی زندگی ہے اور یہی عمر ہے اس زندگی  کو  انجائے کرنے کی اور دوسروں کو کروانے کی۔
جب تک یہ فرسودہ تصورات اور نظریات ان جاہلوں کو گھوٹ گھوٹ کے پلائے جاتے رہیں گے، ہمارا یہی حال رہے گا۔ ایسے ہی دہشت گردی رہے گی ایسے ہی بدعنوانی اور جہالت راج کرے گی۔ سب کو پتہ ہے کہ معیشت میں ترقی کے لیے سیاحت کو فروغ دینا ضروری ہے اور اس ملک میں کون پاگل آئے گا جہاں  وہسکی تک خالص نہیں ملتی اوراگر ملتی بھی ہے  تو ہزار پابندیوں کے ساتھ۔ اور جہاں آنٹی شمیم جیسے استحصالی طبقات، رزق حلال کمانے والوں کو  تفریح فراہم کرنے کے نام پران کا  خون چُوسیں۔  حالانکہ تمام دوسرے شعبوں کی طرح تفریح کا شعبہ بھی ریگولیٹ ہونا چاہیے اور کسی کی اس پر اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں عقل کی بات سنتا کون ہے۔ بس اس مُلک کو اللہ میاں ہی چلارہے ہیں ورنہ ان جاہل عوام اور مولویوں  اور سیاستدانوں نے اس کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ ان کو غارت کرے۔