یومِ عُشّاق و پُونڈی وغیرہ

پشتو یا ایسی ہی کسی اور جنگجو زبان کی کہاوت ہے کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکاّ اپنے منہ پر مارلینا چاہیے۔ یہ کہاوت ہمیں اس لیے یاد آرہی ہے کہ عالمی یوم عاشقاں و پُونڈی کے پُرمُسرّت (شاہین) دن پر لکھنے کا فیصلہ ہم نے اس دن کے آخری گھنٹوں میں کیا ہے۔ تو امید واثق ہے کہ  آپ "مُکّے" اور "مارنے" کے بلیغ معنوں تک پہنچ چکے ہوں گے۔
سینٹ ویلنٹائن نامی بندے کے نام پر یہ دن منایا جاتا ہے جبکہ ہمارے فرشتوں بلکہ شیطانوں کو بھی اس بندے بارے کوئی جانکاری نہیں ہے۔ دور جدید کے بھگوان از قسم گوگل و وکیپیڈیا سے کسی بھی علمی معاملے میں مدد لینے کو ہم گناہ متوسطہ سمجھتے ہیں۔ گوگل پر ہم صرف ٹورنٹ فائلز سرچ کرتے ہیں اور وکی پیڈیا پر۔۔۔ چلیں چھوڑیں، آپ کے لیے یہ جاننا قطعا ضروری نہیں کہ آپ بھی یہی سب کچھ کرتے ہوں گے کہ ۔۔۔ آفٹر آل۔۔ آپ بھی پاکستانی ہیں۔
جب ہم اپنے بچپن اور لڑکپن بارے سوچتے ہیں تو اس دن بارے کوئی بھی یاد، یاد کرنے پربھی، یاد نہیں آتی۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اس وقت عاشق اور پُونڈی، عنقا تھے، بلکہ بہت ہی میسنی اور گُجھّی قسم کی عاشقی اور پُونڈی ہوتی تھی۔ اس موبائلی اور انٹرنیٹی دور میں  تو یہ کام غبارہ پُھلا کے پھاڑنے سے بھی آسان ہوگیا ہے، اس وقت ایسا نہیں تھا۔۔ بلکہ ۔۔
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔۔۔
والا حال تھا۔ سوشل میڈیائی ہومیوپیتھک قسم کے سٹالکرز (لام سائلنٹ) کی بجائے زندہ جیتے جاگتے، محلے کے وہ بابے جو اپنی مائیوں کی بے رخی سے تنگ آکر، رضاکارانہ طور پر انسداد پُونڈی فورس کے رکن بن جاتے تھے، پڑوس کی ماسیاں اور چاچیاں، جن کو محلےکے ہر عاشق اور معشوق کی بائیو زبانی حفظ ہوتی تھی جو وہ مناسب مواقع از قسم بچوں کی لڑائی، میلاد کےدوران والی چغلی اور طویل زچگیوں کے دوران ایک دوسرے کی خاطر تواضع کے لیے دہرایا کرتی تھیں۔ پھر اصلی والے رقیب رُوسیاہ، جو عاشق اور معشوق کے درمیان نہایت فحش قسم کی افواہیں پھیلانے میں ید طُولی رکھا کرتے تھے۔ 
اُس عاشقی میں عزت سادات جانے کا دھڑکا ہر رقعے اور خط کے آنے جانے پر ایسے گھٹتا بڑھتا تھا جیسے سٹاک مارکیٹ میں حصص کی قیمتیں چڑھتی اترتی ہیں۔ پریم پَتر، مقررہ ہدف یعنی معشوق کو ہٹ کرنے کی بجائے اگر کولیٹرل ڈیمج کی طرز پر کسی اور کو ہٹ کرتا تھا از قسم ابّا، بھائی، بڑی بہن، جس سے نہ کوئی سیٹ ہوتا ہو اور نہ اس کی شادی ہوتی ہو، وغیرہ تو اس سے جو وار آن ٹیرر برپا ہوا کرتی تھی وہ نہایت دلدوز اور دہشت ناک ہوتی تھی۔ جس میں کُھنّے پہلے معشوق کے اعزّہ و اقارب کھولتے تھے اور بعد میں یہ کھلے ہوئے کُھنّے، ابّا کی جوتیوں سے مزید کھولے جاتے تھے۔ چنگیز خانی نسل کے ابّا ہونے کی صورت میں جوتیوں کی بجائے ڈنڈوں اور مُکوں اور لاتوں کا بے جا استعمال بھی عین ممکن ہوتا تھا۔
ہمارا ماننا ایسا ہے کہ اس وقت ہر دن ہر عاشق و پُونڈ کے لیے یوم حضرت سینٹ ویلنٹائن ہوا کرتا تھا اگر چہ ان بے چاروں کو اس بابے ٹھرکی بارے کچھ بھی علم نہیں تھا۔  آج کے چیزی قسم کے ویلنٹائنی عاشق اور ان کی کُوجی قسم کی معشوقیں ۔۔ ایک پُھل۔۔ تین سو کا خرید کر ایک دوسرے کے سوکھی خوبانی جیسے منہ کو گھورتے ہوئے ایک دوسرے کو ہاتھ میں پکڑاتے ہیں۔۔۔ یہ اس خالص اور سچی عاشقی اور پُونڈی کی شدید اور سخت ہتک ہےجو روزانہ بنیادوں پر سب کچھ داؤ پر لگا کر کی جاتی تھی۔ اس سے بھی کُوجی قسم وہ ہے سوشل میڈیے پر اس یوم ربر بیلون کو منا کے کی جاتی ہے۔  شدید بور قسم کی سب ٹویٹس ، جن کا سوائے اس کو جس کو کی گئی ہو، سب کو پتہ چل رہا ہوتا ہے۔۔ ایسے ایسے شعراء کے اشعار جنہیں وہ شعراء خود اپنا کہتے ہوئے شرماتے ہوں، اپنے پیٹ پر لیپ ٹاپ رکھ کے غلط انگریزی میں پرنس چارمنگ بننے کی کوششیں۔۔۔ حمیدہ کوثر عرف میڈ سویٹی کا  افتخارالدین المعروف وِکّی چیمہ سے سب ٹویٹوں میں اظہار عشق سے لے کر قرار عشق تک کے تمام مرحلے طے کرنا وغیرہ۔۔۔
نہ ہوئے ہم تجزیہ کار و تبصرہ نگار وغیرہ ، ورنہ اس دن کی تجارتی  اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے کہ اس خطہ ارض موسوم بہ برصغیر میں پچھلے چند برسوں میں اس پر اتنا زور کیوں لگایا جارہا ہے جتنا زور کلچے کھا کے اگلے دن لگایا جاتا ہے۔
وما علینا الاالبلاغ