۔۔۔ تو ناچتی بوتل

کوئی جائے اور شہباز مسیح کو بتائے؛ فقیروں کو لُوٹ کے تونگری نہیں ملتی۔
خدا اس کی قبر کو نُور سے بھر دے۔ ربع سال ہوتا ہے، جون کی تپتی صبح کو جانکاہ اطلاع ملی، جارج گھسیٹے خاں گزر گئے۔ ایسا نجیب و بے ریا آدمی۔ زمین کا نمک۔ دو دہائیوں کی سنگت رہی۔ ایک بھی دن ایسا نہیں کہ شکایت کا موقع دیا ہو۔ ہمیشہ جو کہا، وہی ملا۔ قناعت ایسی کہ تہواروں پر بھی وہی دام جو عام دنوں میں۔ فقیر، بُہتیرا اصرار کرتا کہ میاں سب زیادہ لے رہے ہیں۔۔۔ تم کیوں نہیں لیتے؟ آنکھیں بھر آتیں، کانوں کو ہاتھ لگاتے اور آسمان کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کرکے گویا ہوتے۔۔۔ خدا کو کیا منہ دکھائے گا؟ فقیر بادشاہوں کی محفلوں میں بھی گیا اور اپنے جیسے بے مایہ رندوں کے ساتھ بھی محفلیں جمائیں پَر جو بوتل خلد آشیانی لاتا تھا ویسا خالص پن کہاں۔۔۔۔ جو مزا چھجّو کے چوبارے وہ بلخ نہ بخارے۔۔۔
برّصغیر کا مزاج مگر تقلید کا ہے۔ نشہ حرام ہے حضورِ والا۔۔ مشروب حرام نہیں۔ یہ نکتہ مگر سب پر نہیں کھلتا۔ حالی، شہرہءآفاق مُسدّس میں یوں گویا ہوئے۔۔۔
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
مگر کون سنتا ہے، کون غور کرتا ہے۔ تقلید کے خُوگر صرف عامی نہیں، جلیل القدر علماء بھی اکابرین کا آموختہ دھراتے ہیں۔ مشروب حرام اور لسّی مرغوب۔ روح چیخ اٹھتی ہے۔ ایک سے فکر کی پرواز بلند کہ کائنات کے راز کھولنے پر آمادہ اور دوسری ایسی کہ انسان کو گوبھی بنا دے۔ غنودگی اور بسیارگی۔ درویش کی خدمت میں حاضر ہوا۔دل بے چین اور روح مضطرب۔ خاموش ایک کونے میں جا براجا۔ طالب علم کی حالت مگر درویش سے اوجھل کیسے رہ سکتی ہے۔ سر اٹھایا؛ ہچکی لی اور بوتل طالب علم کی طرف بڑھا دی۔ دو گھونٹ لئے تو دل کو قرار آیا۔ ذہن سوچنے کے قابل ہوا۔ درویش سے ماجرائے درد بیان کیا۔
وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی
کون سنتا ہے مگر سوائے درویش کے۔ دل چیر کے رکھ دیا۔ چار ماہ ہونے کو آئے۔ خالص مشروب کی ایک بوند حلق سے نہیں اُتری۔ ڈیڑھ سو کی کُپّی کے چار سو تک ادا کیے۔ نرا پانی۔ جب حلق ہی تَر نہ ہوا تو دماغ کیسے تَر ہوگا۔ قارئین، حیران اور برگشتہ۔ لکھتا ہوں تو ۔۔ ماروں گُھٹنا پھُوٹے آنکھ۔۔۔ والا حال۔ حضرت جنید بغدادی سے شروع ہونے والی تحریر، اختتام تک صدارتی نظام کی حمایت بن جاتی ہے۔ ایک دو دفعہ تو العیاذ باللہ۔۔ میاں صاحب کی حمایت بھی سرزدِ قلم ہوئی۔ مدیر بھی ایسے کہ بعینہ شائع کردی ۔۔
کَلّی کَلّی جان دکھ لکھ تے کروڑ وے
دور جان والیا مہاراں ہُن موڑ وے
مردانِ باصفا کی قدر ان کے جانے کے بعد ہوا کرتی ہے۔ جارج گھسیٹے خان کا ذکر آیا تو آنکھیں برس اٹھیں۔ درویش بے اختیار اٹھے، لڑکھڑائے اور دھڑام سے طالبعلم پر آ پڑے۔ گلے سے لگا لیا۔ دل کو قرار آیا۔ آنسو پونچھے۔ تسلّی دی۔ الماری کھول دی۔ اذن دیا کہ جو جی چاہے لے لو۔ مشروب کی خوش وضع بوتلیں کہ قطار اندر قطار پریاں۔ ہاتھ باندھ دئیے۔عرض کیا۔۔ حضور، کوئی مستقل حل عنایت ہو۔ درویش نے سر جھُکا لیا۔ چند ثانیے گزرے۔۔۔ ایک آہ بھری سر اٹھایا اور گویا ہوئے۔۔۔ جان دے سکتے ہیں۔۔۔۔ سپلائر کا نام نہیں دے سکتے۔
بوجھل دل کے ساتھ طالبعلم اٹھا۔ دو ریڈ لیبل اور تین جیک ڈینئیلز اٹھائیں اور صدری کی جیبوں میں ٹھونس لیں۔ اپنی آزمائش سے خود ہی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ انسان، سپلائر سے نہیں اس پر اصرار سے برباد ہوا کرتا ہے۔ ڈھونڈے سے خدا مل جاتا ہے۔ ایک صالح سپلائر کی کیا حیثیت!

کوئی جائے اور شہباز مسیح کو بتائے؛ فقیروں کو لُوٹ کے تَونگری نہیں ملتی۔