ایک اداس شام

پَتّوکِی کے لاری اڈّے سے باہر نکلتے ہی اداسی نے مجھے گھیر لیا۔ شام کے جھٹپٹے میں قریبی چھپّر ہوٹل سے سموسوں کے حیوانی چربی میں تلے جانے کی خوشبو، بسوں کے ڈیزل کی مہک، سڑک سے مٹی کی ٹرالی گزرنے کے بعد اڑنے والے غبار، تانگوں اور کھوتا ریڑھیوں کے 'انجنوں' کے خشک فضلے کے فضا میں تیرتے ذرات نے مل جل ایک طلسمی اور پرفسوں ماحول تخلیق کیاہوا تھا۔ میں مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے دل میں میٹھا میٹھا درد جاگ اٹھا ہو۔ حاجی ثناءاللہ نے میرے کندھے پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تو جیسے میں ہوش میں آگیا۔ اور مجھے یاد آیا کہ یہ درد دل نہیں بلکہ دمے کا پرانا مریض ہونے کی وجہ سے سانس بند ہورہا ہے۔۔۔!

حاجی ثناءاللہ، انجمن قومی تاجران (رجسٹرڈ) پَتّوکِی، کے تاحیات صدر ہیں۔ یہ پَتّوکِی کے روح رواں ہیں، کیونکہ پَتّوکِی کے تینوں پٹرول پمپ ان کی ملکیت ہیں۔ یہ جب چاہیں پَتّوکِی کو بے جان کردیتے ہیں۔ اس کی روح کھینچ لیتے ہیں۔ یہ میرے مدّاح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری تحاریر نے ان کی زندگی میں مشعل راہ کا کام کیا ہے۔ یہ معمولی چوری چکاری کرتے تھے۔ پھر انہوں نے میری تحاریر کا مطالعہ شروع کردیا۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا دھارا ہی بدل گیااور انہوں نے معمولی چوری چکاری کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا اور اب یہ اس عظیم شہر کے قابل فخر سپوت ہیں۔

میں جب تھک جاتا ہوں۔ اپنے معمولات زندگی سے اکتا جاتا ہوں۔ میرا ذہن بنجر ہوجاتا ہے تو میں اپنے جسم اور ذہن کو ڈھیلا چھوڑدیتا ہوں۔ اور جو دس پندرہ دعوت نامے بمعہ ٹکٹ موصول ہوئے ہوتے ہیں ان پر ایک سے دس تک گنتا ہوں۔ جس دعوت نامے پر دس آجائے میں اسی شہر چھٹی گزارنے چلا جاتا ہوں۔ اس دفعہ پَتّوکِی، کی باری آگئی۔ حاجی ثناءاللہ، بہت برسوں سے اصرار کررہے تھے کہ میں ان کو شرف میزبانی بخشوں۔ انہوں نے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا۔ مجھے اس تقریب کی صدارت کرنی تھی۔

لاری اڈّے سے میں اور حاجی صاحب ہونڈا سیونٹی پر ان کے گھر روانہ ہوئے جہاں میری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ حاجی صاحب سیونٹی ایسے چلارہے تھے جیسے سلطان گولڈن کے استاد ہوں۔ میرا سانس خشک ہونے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا (یاشاید سٹریٹ لائٹس بند تھیں)۔ اچانک موٹر سائیکل ایک جھٹکے سے رک گئی۔ میں نے چونک کر دیکھا تو ہم گول گپوں کی ریڑھی کے پاس کھڑے تھے۔ حاجی صاحب نے پَتّوکِی کے مشہور عالم گول گپوں سے میری تواضع کی۔ پَتّوکِی آکر گول گپے نہ کھانا ایسا ہی ہے جیسے دبئی جاکر بھی بندہ۔۔۔۔۔ چلو مٹی پاؤ۔۔۔

رات کے پھیلتے اندھیرے، نیم تاریک بازار، بھونکتے ہوئے آوارہ کتّوں، سڑک کے دونوں اطراف کھلی نالیوں سے آنے والی مہک اور ریڑھی کے پاس کھڑے ہو کرگول گپے کھانے کا ایسا لطف آیاکہ میری ساری ناسٹیلجک فیلنگز بیدار ہوگئیں۔ مجھے لالہ موسی یاد آگیا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ جہاں میں اپنے دوستوں کے ساتھ دو گول گپے کھا کر کھٹّے کے چار پیالے مفت پی جاتا تھا۔ اور دو دو مہینے کھانسی اور اباجی کا جوتا میرا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ میں اداس ہوگیا۔ اداسی کی وجہ ناسٹیلجیا یا بچپن کی یادیں نہیں تھیں بلکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ حاجی صاحب، شیخ ہیں لہذاڈنر پر بھی مونگ کی دال ہی ہوگی۔۔۔!

گول گپوں کے بعد مونگ کی دال کے ڈنر کا خیال کسی بھی شریف انسان بلکہ لکھاری کو بھی اداس بلکہ مرنے کی حد تک رنجیدہ کرسکتا ہے۔