مردود، جگر اور ڈیوریکس


حاشا و کلا ہمارا ہرگز یہ  ارادہ نہیں تھاکہ  قادری جگر پر دوبارہ خامہ فرسائی فرماتے۔ لیکن دنیا ہے کہ ہمیں "اُنگل" کرانے سے باز نہیں آتی۔  اور ہمارے چند زریں اصولوں میں سے ایک،  انگل کے جواب میں "باں" کرانا ہے۔  آمدم برسر مطلب، قادری جگر ہمارے بچپن میں پی ٹی وی پر شاید جمعے کے جمعے "حلوہ" افروز ہوا کرتے تھے اور اسی زمانے سے ان کی خطابت کا ڈنکا اتنی زور سے بجتا آرہا ہے کہ پاس بیٹھے ہوئے  لوگ کانوں سے ہی نہیں بلکہ دماغ سے بھی بہرے ہوجاتے ہیں۔   جگر کی رام کہانی اتنی دفعہ دہرائی جاچکی ہے کہ اب تک سب کو ازبر ہوچکی ہوگی۔ کہ  جھنگ سے چلنے والا عبدالشکور ، علامہ مولاناپروفیسر ڈاکٹر  قادری جگر کیسے بنا۔ لہذا اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنے مشاہدات ہی بیان کرتے ہیں۔
مدت مدید کی بات ہے کہ جناح کالونی میں، جہاں ہمارے ابّا کی دوکان تھی اور ہم کالج سے فراغت کے بعد سیدھا وہیں پہنچا کرتے تھے، سرما کی ایک سرد اور دھند آلود دوپہر کو ہم چھتری والی گراونڈ سے متصل مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو  گراونڈ میں لگے شامیانوں نے ہماری توجہ کھینچی ۔ اسی اثنا میں پانچ چھ گاڑیوں کا ایک تیز رفتار قافلہ زن سے ہمارے پاس سے گزرا  اور گراونڈ کی دوسری طرف شامیانوں کے پاس جا کے رک گیا۔  ڈبل کیبن ڈالوں سے وردیوں میں ملبوس اور کلاشنکوفوں سے لیس محافظوں نے چھلانگیں لگائیں اورایسے  پوزیشنز سنبھال لیں جیسے ابھی فاتح کشمیر پدھاریں گے۔  درمیان والی کالی پجارو کا دروازہ کھلا اور اس میں سے قادری جگر نے قدم رنجہ فرمایا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب شیر علی جیسے ایم این اے سڑکوں پر عام چلتے پھرتے مل جاتے تھے۔فضل حسین راہی جیسے ایم پی اے تلنگوں کے ساتھ تھڑوں پر بیٹھ کر چرس پیتے تھے اور اسلحہ صرف پولیس والوں کے پاس ہی نظر آتا تھا۔  اس وقت تک ان کی خوابی پیشگوئیاں بھی زبان زد عام تھیں تو ہمارا بچگانہ اور احمقانہ دماغ یہ سوچنے لگا کہ یہ کیسا بندہ ہے جو خواب میں بشارت پانے کے بعد بھی اپنی حفاظت  کے لیے اتنے بندوں کو لے کے گھومتا ہے؟ یا تو خواب جھوٹے ہیں یا اس کا ایمان۔
وہ دور گزر گیا ۔ ہم حالات کے تھپیڑے کھاتے ، پردیس آ پہنچے۔ یہاں ہمیں ایک لہورئیے ملے۔ جو ایک موبائل کی دکان پر سیلز مین تھے۔ اور ان کے کمرے کی الماری میں قادری جگر کے آڈیو کیسٹس اور ڈیوریکس کے پیکٹ ساتھ ساتھ پڑے ہوتے تھے۔ ہم نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جو جگر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے شروع کیے تو بنا بریک کے آدھ گھنٹے تک بولتے ہی چلے گئے۔ ان کے دم لینے پر ہم نے پوچھا کہ یہ ڈیوریکس آپ انکی سالگرہ پر  غباروں کی جگہ لگاتے ہیں؟ اس بات پر وہ تپ گئے اور کہنے لگے کہ میں گنہگار بندہ ہوں، غلطی ہوجاتی ہے۔ تس پر ہم نے خاموشی اختیار کی کہ مقصد ان کو شرمندہ کرنا  نہیں تھا۔ جگر کے یہ پرستار ایک سال بعد غبن کرکے غائب ہوگئے اور سننے میں آیا تھا کہ لانچ کے ذریعے پاکستان پہنچے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
چند دن پہلے ہم ایک جانی کےساتھ بک بکواس ٹائم انجائے کررہے تھے کہ ان کے ایک دوست بھی تشریف لے آئے۔  تعارف سے پتہ چلا کہ حضرت ڈاکٹر ہیں ۔  انگریز ، بات کرنے کے لیے موسم کی بات چھیڑتے ہیں اور ہم سیاست کی۔ لہذا ہم نے بھی دانہ پھینکا کہ 'ڈاکٹر ساب، تہاڈا  کیہ خیال اے کہ عمران خاں کنیاں سیٹاں لے جائے گا؟" ہمارے اندازے کے عین مطابق ڈاکٹر صاحب انصافیے نکلےاور جو ش و خروش سے  کینسر ہسپتال، ورلڈ کپ کی فتح، عمران کی ایمانداری ، لگن، استقلال،  بہت سی عورتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی صلاحیت وغیرہ پر رواں ہوگئے۔ ہم میسنے ہوکے بیٹھ گئے اور ڈاکٹر صاحب کا جو ش و خروش انجائے کرنے لگے۔ جب وہ ذرا ٹھنڈے پڑنے لگے تو اللہ جانے ہمارے ذہن میں کیا خنّاس سمایا کہ قادری جگر کا ذکر چھیڑ بیٹھے۔  ڈاکٹر صاحب نے اپنی عینک اتاری، شیشے صاف کیے ۔ دوبارہ ناک پر جمائی۔ ہماری طرف غور سے دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو ان سے کیا تکلیف ہے؟ ۔ ہم نے اپنی سٹینڈرڈ تکالیف گنوادیں کہ ڈاکٹر صاحب یہ یہ تکلیف ہے۔  تازہ تازہ متوفی کو کلمہ پڑھانے والی ویڈیو کا حوالہ دینے پر انہوں نے فرمایا کہ تلقین کرنا سُنّت ہے اور جو اس کو نہیں مانتا ، وہ مردود ہے ۔ اس لیے آپ مردود ہیں۔ ہمارے کان لال تو ہوئے لیکن ازلی ڈھیٹ پن کی وجہ سے دوبارہ اپنی رنگت پر واپس آگئے۔ سجدے والی ویڈیو پر ارشاد فرمایا کہ آپ کو کیا پتہ کہ ان کی نیّت سجدہ کرنے کی ہے یا پاوں چومنے اور پاوں چومنا بھی حدیث سے ثابت ہے لہذا آپ ان پر شرک کا الزام لگا کر خود مشرک ہوچکے ہیں۔  اس دلیل پر ہماری ذہن میں ایک نہایت فحش جوابی دلیل آئی لیکن ۔۔۔ خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم۔۔
 دوست کا دوست بھی دوست ہی ہوتا ہے چاہے وہ آپ کو مردود اور مشرک ہی کیوں نہ سمجھے۔۔ ہیں جی۔۔