حقیقت / افسانہ

اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز نیا اور اچھوتا خیال ہوتا ہے، ان خیالات کو پیش کرنے والے لوگ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ ویسے بندہ مرجائے (اور مرجاتا ہے) تو تاریخ میں زندہ رہنےکا کیا فائدہ؟ اور اگر کہیں سے آب حیات مل جائے اور موت سے چھٹکارا پالیاجائے توپھر یہ زندگی مسلسل عذاب بنی رہے گی، بہرحال یہ ایک علیحدہ بحث ہے، جس پر پھر کبھی اپنی زرّیں چوّلیں پیش کروں گا۔

میں نے جب 'سٹرینجر دین فکشن' دیکھی تھی تو میرے ذہن میں اس کے مصنف کے لئے ایسے ہی خیالات ابھرے تھے کہ کیا ہی زبردست آئیڈیا ہے۔ بالکل اچھوتا! یا شاید مجھے اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سےاچھوتا لگا ہو، میں نے آج تک اس موضوع پر نہ تو کبھی پڑھا اور نہ اس پر کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھا۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب شاید میں فلم کی کہانی اور پلاٹ (ویسے اس فلم کا پلاٹ تو کارنر پلاٹ ہے، یعنی کافی قیمتی ہے) بیان کرنا شروع کروں گا۔ ایسی کوئی بات نہیں، ٹھنڈ رکھیں۔ اس فلم کوکسی خاص زمرے میں فٹ کرنا کافی مشکل ہے۔ رومان، تھوڑی بہت سنسنی، ڈرامہ، ہلکا پھلکا مزاح، فینٹسی (اس لفظ کی اردو نہیں آتی مجھے) سب موجود ہے۔

جیسا پہلے لکھا ہے کہ اس فلم کا سب سے بڑا مثبت نکتہ (پلس پوائنٹ، اتنی اردو توآتی ہے مجھے) اس کا بنیادی خیال ہے۔ منظرنامہ بھی زبردست ہے۔ مکالمے برجستہ اور کچھ مقامات پر نہایت شگفتہ ہیں۔ مارک فورسٹر اس فلم کے ہدایتکار ہیں۔ جن کے کریڈٹ پر مونسٹرز بال، فائنڈنگ نیور لینڈ اور سٹے جیسی فلمیں ہیں۔ فلم کی کاسٹ  ڈسٹن ہوفمین، ایما تھامپسن، ول فیرل، میگی جیلنہال، کوئین لطیفہ جیسے ہیوی ویٹس پر مشتمل ہے۔ بور، یکسانیت کا شکار اور تھوڑے سے خبطی آئی آر ایس آفیسر کا مرکزی کردار ول فیرل نے ادا کیا ہے اور اپنی معمول کی اوور دی ٹاپ اداکاری سے گریز کرتے ہوئے بہت عمدہ پرفارمنس دی ہے۔ ایما تھامپسن نے ناول نگار کے کردار میں جان بھر دی ہے جبکہ ڈسٹن ہوفمین حسب معمول شاندار ہیں۔ میگی جیلنہال کی یہ پہلی فلم تھی جو میں نے دیکھی اور دیکھتے ہی اس کا پرستار ہوگیا، اداکاری کا، خوبصورتی کا نہیں!

سوچنے والے ذہن رکھنے والوں کے لئے یہ فلم دیکھنا لازمی ہے۔ باقی جو میرے جیسے ہیں وہ بھی اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ میں تو صرف اس کے بنیادی خیال کے سحر میں مبتلا رہا لیکن دوسرے لوگ اس میں سے کچھ اور بھی برآمد کرسکتے ہیں جو میں اپنی سطحی سوچ کی وجہ سے نہ کرسکا۔

(یہ تحریر آپ فلمستان پر بھی ملاحظہ کرکے مزید بور ہوسکتےہیں)

قوت متحرکہ

شفیق الرحمان نے کسی جگہ لکھا تھا کہ دنیا کے سارے عظیم آدمی غمگین تھے، لہذا آپ بھی غمگین رہنا شروع کردیں کہ غم عظمت کی کنجی ہے۔ مزاح کے پیرائے میں کی گئی اس بات پر ذرا غور کریں تو یہ اتنی غلط بھی نہیں لگتی۔

محبت سے لے کر روزگار تک اور بے وفائی سے لے کر غریب الوطنی تک، دکھوں کی اقسام ان گنت ہیں۔ آپ کہیں گے کہ محبت کوغم میں کیسے شمار کیا جاسکتا ہے؟ کرنے والوں سے پوچھ کر دیکھیں یا پھر اپنے دل سے ہی پوچھ لیں!

دکھ اور غم بندے کو ہرابھرا اور زرخیز رکھتے ہیں، مسلسل خوشی بندے کو ایسے بنجر اور ویران کردیتی ہے جیسے سیم اور تھور زرخیز اور آباد زمین کو کردیتا ہے۔ مثال کے لئے اپنی اشرافیہ کو دیکھ لیں، پچھلے دو تین سو سال میں اس نے کیا پیدا کیا ہے، کاٹھ کباڑ۔۔۔۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بندہ، ایسے بھکاریوں کی طرح جو اپنے زخموں کو دکھا کر بھیک مانگتے ہیں، اپنے دکھوں کی نمائش لگا کر پھرتا رہے، اور ہمدردی کی بھیک سمیٹتا رہے۔ بلکہ دکھ کو بیج کی طرح دل کی زمین میں گہرا بونا پڑتا ہے، تنہائی میں بہائے گئے آنسوؤں کا پانی دینا پڑتا ہے اور یادوں کی دھوپ لگوانی پڑتی ہے۔ پھر جو پودا اگتا ہے تو اس سے پھل اورچھاؤں دونوں حاصل ہوتے ہیں۔