ہونے کی گواہی کے لئے ۔۔۔

ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے
اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے
کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے
پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے
کیا اس سے ملاقات کا امکاں‌ بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے
آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے
نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے
(جمال احسانی)

چیخوف کی چیخیں اور پکوڑے

”ڈارلنگ! کیا بات ہے! آج تو بڑی خوبصورت لگ رہی ہو“۔ شوہر نے بیوی کے ملگجے لباس، الجھے ہوئے بالوں اور وحشت زدہ چہرے پر پیار بھری نظر ڈالتے ہو کہا۔
اس تعریف کا منبع، شوہر کی بیوی سے والہانہ محبت کی بجائے، فطری تقاضوں سے وہ محرومی تھی، جس کا وہ اکثر اپنی زوجہ کی مصروفیات، بقراطیات اور افلاطونیات کی وجہ سے شکار رہتا تھا۔
بیوی نے شوہر پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور یوں مخاطب ہوئی۔ ”کل رات میں روسو کی ”جنگ اور امن“ کا مطالعہ کررہی تھی۔ کیا تمہارے علم میں ہے کہ اس نے ”کساد بازاری اور ادب کے جدلیاتی عمل کی حسیت“ پر کتنا عمدہ لکھا ہے؟ چیخوف کی ”جنت گم گشتہ“ بھی اس کے سامنے پانی بھرتی نظر آتی ہے۔ والٹئیر نے ”بادشاہت کی مفصل تاریخ“ میں‌ اس چیز پر روشنی ڈالی ہے کہ انسان اور پکوڑے کس طرح جدلیاتی عمل اور داخلی حسیت کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تب سے یہی سوچ رہی ہوں کہ شعوری رو، لاشعور کی طرف بہتے ہوئے اپنے ساتھ کیا کیا بہا کر لے جاتی ہے! کساد بازاری نے ادب کو جس طرح متاثر کیا ہے، عنقریب میری لکھی ہوئی کتاب کے اوراق کو لوگ پکوڑے لپیٹنے کے لئے استعمال کیا کریں گے“۔ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور دوبارہ ضخیم ڈکشنری کے مطالعے میں غرق ہوگئی!
شوہر کے چہرے کے تاثرات چغلی کھا رہے تھے کہ وہ انتہائی سنجیدگی سے اپنے بال نوچنے کے آپشن پر غور کررہاہے! لیکن فی الوقت اس نے اس آپشن کو التوا میں ڈالا اور ایک کوشش اور کے مصداق تھوڑا سا کھسک کر اپنی بیوی کے ذرا اور پاس ہوگیا۔ بیوی اس سے بالکل بے خبر ڈکشنری میں گم تھی! شوہر نے اپنے لہجے میں 55 روپے کلو والی چینی کی تمام تر شیرینی سموتے ہوئے بیوی کے کان میں سرگوشی کی۔ ”جان! چلو آج کہیں باہر چلیں، کھانا کھائیں گے، انجوائے کریں گے، فلم دیکھیں گے“۔ تس پر بیوی نے غضب ناک ہوکر جواب دیا۔ ”تو کان میں پھونکیں مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ سیدھی طرح منہ سے نہیں پھوٹ سکتے؟ دانت بھی صاف نہیں کرتے، کیسی مہک آرہی ہے منہ سے۔۔۔ اونہہہ۔۔۔۔“۔ شوہر کھسیانا سا ہوکر ہنسنے لگا۔ بیوی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بیوی نے جب اسے یہ کہا کہ ”ذرا سر کے بائیں جانب کھجاؤ، لگتا ہے جوئیں پڑ گئی ہیں!“
تو مجازی خدا کے تمام رومانی جذبات، اس پر تین حرف بھیج کر دفان ہوگئے!!!