فربہ دانشور


"توانا جسم کے ساتھ فربہ فکر بھی ضروری ہے۔ جیسے کمزور جسم میں طاقتور سوچ نہیں رہ سکتی اسی طرح فربہ فکر بھی مرگھلے ڈھانچے میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ "
انسانی شعور و تہذیب کے ارتقاء میں سب سے اہم کردار   ان شخصیات نے ادا کیا ہے جو دین و دنیا کو الگ سمجھنے کی بجائے ان کے ادغام پر یقین رکھتے تھے۔ شامیر خادم جاکھرانی اکابرین کی انہی روایات کے صادق امین ہیں۔جدید دور کے چیلنجز نے نئی نسل کے لیے بہت خطرات پیدا کیے ہیں جن میں سب سے بڑا خطرہ مشرقی روایات سے روگردانی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
مغربی تہذیب کے زہریلے پراپیگنڈے کی وجہ سے نئی نسل مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے۔ بزرگوں کا ادب و احترام کم ہوتا جارہا ہے۔ فحاشی و عریانی کا ایک سیلاب ہے جس نے مملکتِ اسلامیہ کو گھیرا ہوا ہے۔ اس پُر فتن دور میں شامیر جاکھرانی امید کی سرچ لائٹ بن کر سامنے آئے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی۔ روایت ہے کہ پیدائش کے تیسرے دن آپ نے خلیفہ  جی کا کالم پڑھا۔ والدہ نے چھلہ نہایا تو آپ اوریا اور کلاسرہ کے مضامین پر نقد کرنے لگے تھے۔ آپ کی پیدائش میں کچھ وقت ابھی باقی تھا کہ آپ کے والدِ ماجد کو خواب میں ایک بزرگ کی زیارت ہوئی۔ بزرگ فرمانے لگے کہ جلد ہی تمہارے خاندان میں ایسا شہابِ ثاقب گرے گا جس کی روشنی اور توانائی سے پورا وسیب روشن ہوجائے گا۔  بزرگ نے بڑے جاکھرانی صاحب کو خبردار کیا کہ نومولود  کی خور و نوش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت رکھا تو اس ہزارئیے میں اُمّہ کی بربادی کی ذمہ داری تمہارے نامۂ اعمال کی سیاہی میں اضافہ کرے گی۔ بزرگ کے اس انتباہ کو بڑے جاکھرانی صاحب نے حرزِ جاں بنا کے رکھا۔ آج شامیر خادم کی فربہ فکر  کو وہ مچّرب ڈھانچہ میسرہے جو اس فکر کا بوجھ بخوبی اٹھا سکتا ہے۔  
؏ تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو
دنیاوی علوم میں تبحر حاصل کرنے کے ساتھ آپ عالمِ رویاء میں اکابر علماء اور فلاسفہ کے سامنے زانوئے تلمذ بھی تہہ کرتے رہے۔ان اساتذہ میں جگر کینیڈوی،  فرائڈ، ہومر، وان گوف، شیخ الجبل، راسپوٹن، شیکسپئیر،  ابنِ عربی،  چارلی چپلن، قاسم شاہ اور رنگیلا شامل تھے۔  آج کل آپ خود بھی عالمِ رویاء کے اکابر اساتذہ  کی اس فہرست میں شامل ہیں جو دورِ جدید کے نابغے ہیں۔ ان میں نعیم الحق، وقار ذکاء، صابر شاکر، طاہر شاہ، آغا وقار،  علامہ ضمیر نقوی، جسٹس ٹیڈی بکری ، سلمان احمد،  علامہ خادم رضوی،  وصی شاہ اور آفتاب اقبال شامل ہیں۔
دنیاوی و روحانی اکابرین کی پوری توجہ  اور مکمل غذائیت ملنے سے آپ کی ذہنی و جسمانی کیفیات عروج پر پہنچیں تو آپ کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ آپ  کواکیسویں صدی کا فکری بگ بینگ کہا گیا۔ نوجوان نسل جو گمراہ ہو کر فیس بک کی پر خار وادیوں میں بھٹک رہی تھی، آپ ان کے لیے غبارۂ نور ثابت ہوئے۔ جلد ہی آپ کا ڈنکا  فیس بک کے ہر کھلے، بند اور خفیہ گروپ میں بجنے لگا۔ حاسدین ڈنکا بجنے کی وجہ مقدارِ خوراک اور بدہضمی قرار دیتے ہیں ، اہلِ نظر مگر جانتے ہیں کہ   دنیاوی علوم کو ثابت نگل جانے والوں کے لیےکباب،  نہاریاں، بونگ پائے، مغز،  ٹکاٹک، نان، بریانیاں، پلاؤ، ساگ، پالک گوشت، کریلے گوشت، چاؤمن، کابلی پلاؤ، سجیاں، چنیوٹی کُنے، پاستے، چرغے ،سوہن حلوے، حلیم، رس گلے، مرغ چھولے، مٹن کڑاہیاں، بیف تکے، فش فرائی، زردے، کھیریں، فرنیاں،  بلیک فارسٹ کیک، آم، کیلے، ہدوانے، خربوزے، انگور، ملوک، بیر وغیرہ ہضم کرنا بائیں جبڑے کا کام ہے۔
فیس بک پر ظہور سے پہلے یہاں ہر طرف گالم گلوچ کا رواج تھا۔ نوجوان نسل ہر زنانہ آئی ڈی کو ان باکس کرتی تھی۔ ان زنانہ آئی ڈیز کی اکثریت رشید، حفیظ وغیرہ نے بنائی ہوئی تھی۔ اس سے نوجوان نسل کے اخلاق کے علاوہ مستقبل خراب ہونے کا بھی خدشہ ہوتا تھا۔ آپ نے ان کو زندگی کا ایک واضح نصب العین دیا۔ اسلام کی سربلندی، خلافت کا احیاء، اخلاقیات کے درس ، رنگ برنگی کتب، علماء دین  کے ایمان افروز واقعات، روحانی شخصیات کی دماغ افروز حکایات، انگریزی ٹی وی شوز اور فلمز کے تھرلز اینڈ مزے، معیشت کے اسرار و رموز، وادیٔ سیاست کےپیچ و خم، چندے کے فوائد، وردی کے فضائل، سیاستدانوں کے رذائل۔۔۔ الغرض آپکی فیسبک ٹائم لائن ہر رنگ سے مزین ہے۔
؏ جو رنگ رنگیا گوڑھا رنگیا
جرائد، اخبارات، کتب، فیس بک،  نیوز ویب سائٹس  ہر جگہ آپ کے تبحر علمی کی دھوم ہے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ابھی تک وطنِ عزیز میں کوئی ایسا کیمرہ  دستیاب نہیں جو ان کو ٹاک شوکے سیٹ پر پورا کیپچر کر سکے ورنہ آج آپ ٹاپ اینکر بھی ہوتے۔  یہ زمانہ بلاشبہ علم و فضل کا دورِ جاکھرانی ہے۔
؏ کھا چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا