معصوم بسنت


پتنگ بازی سے ہمیں کبھی ایسا شغف نہیں رہا جسے شوق کا درجہ دیا جاسکے البتہ بچپن میں جیسے ہر چیز کا موسم ہوا کرتا تھا، کرکٹ کا موسم، ہاکی کا موسم، بنٹوں کا موسم ویسے ہی پتنگ بازی کا بھی موسم ہوتا تھا۔ چونکہ اس وقت ٹی وی، بچوں کی جان کو ایسے نہیں چمٹا تھا کہ وہ ہر قسم کی سرگرمی سے دور ہوکے کارٹونوں کے ہی ہوکر رہ جائیں لہذا ہم ان تمام موسموں سے حتی المقدور لطف اندوز ہونے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ کوشش ان معنوں میں کہ ہاکی اور کرکٹ پر تو کوئی قدغن نہیں تھی البتہ بنٹے یعنی کنچے اور پتنگ بازی ایسے شوق تھے جو سختی سے ممنوع تھے۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ممنوع کام کرنے میں کتنا لطف ہوتا ہے۔ جیسے ہی ابو گھر سے نکلتے، ہم اماں کی ان تمام دھمکیوں کے باوجود، جن میں وہ یہ کہا کرتی تھیں کہ آج اگر تو نے پتنگ بازی کی تو تیری کھال اتروادوں گی تیرے باپ سے، ہم اپنا رنگ برنگا پِنّا اور لوٹی ہوئی گڈیاں نکال کے چھت پر چڑھ جایا کرتے تھے۔ ہمیں یہ بات کبھی سمجھ میں نہ آسکی کہ بیٹے بچپن میں باپ اور بڑے ہونے کے بعد ماں کے اتنے تابعدار کیوں ہوجاتے ہیں۔
ہماری پتنگ بازی کی تاریخ زیادہ قابل ذکر نہیں ہے۔ اس فن کی باریکیوں سے ہم کبھی واقف نہ ہوسکے اور نہ ہی کبھی گُڈی یا ڈور خرید کے یہ شوق پورا کیا۔ ہماری ساری پتنگ بازی لوٹی ہوئی گڈیوں اور ڈور پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ لوٹی ہوئی ڈور سے بنایا ہوا رنگ برنگ پِنّا عین اس وقت دھوکہ دے جاتا تھا جب کبھی ہم پیچے کو دو منٹ سے زیادہ طول دینے میں کامیاب ہوتے تھے۔ ہمارے ایک کزن البتہ اس کام میں ماہر فن کا درجہ رکھتے تھے۔ جب وہ نیا نکور ڈور کا پِنّا اور بڑے بڑے گُڈّے اور تُکلیں خرید کر لاتے تو ہم ان کے اسسٹنٹ کے طور پر ان کے ساتھ ساتھ چھت پر جا چڑھتے اور ان کو پیچے لڑاتے دیکھ کر سیکھنے کی کوشش کرتے۔ لیکن ہماری یہ کوشش کبھی کامیاب نہ ہوسکی اور ہم پتنگ بازی میں پھسڈی ہی رہے۔ پیچے وغیرہ لڑانے پر تو ہمیں کبھی عبور حاصل نہ ہوسکا۔ ہماری ساری مہارت پِنّے کا دھیان رکھنے اور گڈی کٹ جانے پر ڈور لپیٹنے تک ہی محدود رہی۔
لاہور میں منائی جانی والی بسنت کی کہانیاں ہم اپنے ایک دورپار کے کزن سے اکثر سنا کرتے تھے جو لہوریے تھے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں شرف ملاقات بخشنے آیا کرتے تھے۔ ان کے بڑے بھائی پتنگ بازی میں بقول ان کے "لیجنڈ" کا درجہ رکھتے تھے اور ہمیشہ "تُکّل" اڑایا کرتے تھے، ان کے بقول اصل پتنگ بازی تُکّل اڑانا ہی ہوتی ہے، گڈیاں وغیرہ تو عورتیں اڑاتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ ان سے یہ بات بھی منسوب تھی کہ اگر یپچے میں ان کی گُڈّی کٹ جاتی تھی تو وہ اس پِنّے کو پھینک دیا کرتے تھے اور اگلے پیچے کے لیے نیا پِنّا استعمال کرتے تھے۔ بسنت کی ان کہانیوں میں ایسے پیچوں کی کہانیاں ہوتی تھی جو پوری پوری رات چلتے رہتے تھے اور ان میں چار چار پِنّے لگ جاتے تھے۔ اب جا کے ہمیں پتہ چلا ہے کہ لہوریوں کی ہر بات پر من و عن یقین نہیں کرنا چاہیے کہ "بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے"۔
ہمارے شہر میں بسنت ذرا دیر سے آئی تھی۔ اور ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم اس سے بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ جیّد پتنگ بازوں کے پیچے، کھِچ مارنے پر دھمکیاں اور گڈی کٹ جانے پر ڈور نہ پکڑنے کی درخواستیں اور دوسروں کی گڈیوں پر گاٹیاں۔ چند چھتوں پر ڈیک وغیرہ لگا کر پورے محلے کو تازہ ترین ہندوستانی موسیقی سے بھی محظوظ کرنے کا بندوبست ہوتا تھا۔ سکول سے کالج پہنچنے تک یہ بسنت باقاعدہ ایک تہوار کی صورت اختیارکرنے لگی تھی۔ چھتوں پر سرچ لائٹیں لگنی شروع ہوگئی تھیں۔ کہیں کہیں پریشر ہارن بھی استعمال ہونا شروع ہوگئے تھے اور اکا دکا جگہ ہوائی فائرنگ بھی ہونے لگی تھی۔ اس وقت تک ہم نے دھاتی ڈور نامی کسی چیز کا ذکر نہیں سنا تھا اور نہ کبھی یہ سننے میں آیا تھا کہ ڈور سے کسی کی گردن کٹ گئی ہے۔
کافی وقت گزر گیا ہے، نہ بسنت کبھی دیکھی اور نہ منائی۔ البتہ ہر سال بسنت کی خبریں ضرور پڑھتے رہے۔ فائرنگ سے اتنے ہلاک اور ڈور پھرنے سے اتنے۔ پھر بسنت پر مجروں اور شراب کا فیشن شروع ہوگیا۔ ہمارے ایک کزن جو لاہور کی ایک ملٹی نیشنل فرم میں نوکر ہیں۔ چند سال ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی فرم نے ایک زیر تعمیر پلازے کی چھت، بسنت کے لیے ڈھائی لاکھ روپے کرایے پر حاصل کی اور اپنے غیر ملکی مہمانوں کو "پاکستانی ثقافت" کا مظاہرہ دکھانے کا بندوبست کیا۔ اس بندوبست میں شراب اور ساقی دونوں کا اہتمام تھا۔ میں حیران ہو کر اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اتنی معصوم سی بسنت کو ہم نے قاتل اور کوٹھے کی چیز کیسے بنادیا؟