بابوں کا المیہ

آپ مجید نظامی کود یکھ لیں۔ یہ ایک عظیم جرنلسٹ ہیں۔ یہ بہت بہادر اور آؤٹ سپوکن پرسنیلٹی ہیں۔ یہ کبھی کسی سے نہیں ڈرے۔ یہ اس وقت سے جرنلزم میں ہیں جب  دنیا تک بلیک اینڈ وائٹ ہوتی تھی۔  یہ ہمیشہ جابر اور صابر ہر قسم کے سلطان کے سامنے کلمہءحق کہتے آئے ہیں۔   یہ نظریہ ء پاکستان اور پاکستان کے اکلوتے  ماموں ہیں اور دونوں سے بیوہ بہنوں کی اولاد جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ان سب  خوبیوں کے باوجود جب سے یہ بابے ہوئے ہیں۔ یہ سڑیل ہوگئے ہیں۔ یہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ جلی کٹی سنانے لگتے ہیں۔  یہ جب جوان تھے تو خوش مزاج ہوتے تھے۔ یہ گندے لطیفے بھی انجائے کرتے تھے۔ یہ جگتیں بھی کرلیتے تھے۔  لیکن بابے پن کی دہلیز تک پہنچتے ہی ان کی ساری خوبیاں جون کی دھوپ میں رکھے ہوئے میٹریس کے کھٹملوں کی طرح ختم ہوتی گئیں۔ یہ کیوں ہوا؟ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو ایک کہانی سننی پڑے گی۔
عبدالمنان ایک دکاندا ر تھا۔ یہ کپڑے کی دکان کر تا تھا۔ یہ ایک متوسط درجے کا خوشحال انسان تھا۔ اس کی شادی اوائل جوانی میں ہی  ہوگئی تھی۔ یہ چونکہ فکر معاش سے آزاد تھا لہذا ہرسال ایک برانڈ نیو بچہ اس دنیا میں لانا اس نے اپنا شرعی، اخلاقی، قومی اور خاندانی فریضہ سمجھ لیا تھا۔  عبدالمنان کی زندگی  ایک خوشگوار معمول کے مطابق گزرتی رہی۔ یہ اپنے بچوں اور بیوی سے بڑی محبت کرتاتھا۔ یہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ یہ ایک خوش مزاج اور جولی طبیعت کا انسان تھا۔ یہ کبھی غصے میں نہیں آتا تھا۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی  جو اس کی فطرت بھی تھی اور دکانداری مجبور ی بھی۔ کیونکہ غصیلے دکاندار کے تو آئی فون بھی نہیں بکتے۔ وقت گزرتا گیا۔ عبدالمنان کے بچے بڑے ہوگئے یہ نویں دسویں کلاس تک پہنچ گئے۔ یہ چونکہ کم عمری میں ہی شادی کرچکا تھا لہذا اس کی عمر ابھی  کھیلنے کھانے کی تھی۔ یہ وہ اہم مقام تھا جہاں سے عبدالمنان کی زندگی نے  ٹریجک ٹرن  لیا۔
یہ جب بھی اپنی بیوی کے پاس بیٹھتا ، یہ جب بھی اس سے کوئی رومانوی چھیڑ چھاڑ کرتا ۔ اس کی زوجہ اسے ڈانٹ دیتی۔یہ اسے شٹ اپ کہہ دیتی ۔  یہ اسے کہتی " حیاکرو، بچے وڈّے ہوگئے نیں، تہانوں اپنے ای شوق چڑھے  رہندے نیں"۔  عبدالمنان کی زندگی کے معمولات درہم برہم ہوگئے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر  ہائپر ہونے  لگا۔ اس کا بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا۔ اس کے بچّے اس  سے ڈرنے لگے۔  اس کی دکانداری پر بھی اثر پڑنے لگا۔ یہ گاہکوں سے الجھنے لگا۔ یہ معمولی باتوں پر تو تکار کرنے لگا۔ لوگ حیران تھے کہ عبدالمنان  جو ایک خو ش مزاج اور جولی انسان تھا، اس کی یہ حالت کیونکر اور کیسے ہوئی۔
یہی وہ المیہ ہے جو پاکستانی بابوں کو ڈیسنٹ بابے کی بجائے چاچا کرمو ٹائم پیس جیسے بابوں میں بدل دیتا ہے۔ یہ جیسے ہی ادھیڑ عمری کی منزل پار کرتے ہیں۔ ان کی زوجہ، بیوی سے مزار کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس کے پاس سے اگربتیوں کی خوشبو اور قوالیوں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔  اس کے پاس بیٹھنا تو درکنا ر اس کی طرف پشت کرنا بھی بے ادبی شمار ہوتا ہے۔ یہ وہی بیوی ہوتی ہے جوشادی کے پہلے سال  خاوند کے گھر آنے پر مور نی کی طرح پیلیں پارہی ہوتی تھی۔  اب یہ خانقاہ کا مجاور بن جاتی ہے ۔یہ بابے کی زندگی میں ایک ایسی  کسک بھردیتی ہے جس کی وجہ سے بابا، کپتّا، سڑیل اور ٹھرکی ہوجاتا ہے۔
آپ کسی  محلّے میں چلے جائیں ۔ آپ گلیوں میں تھڑوں پر بیٹھے بابوں کو چیک کرلیں۔ یہ سب زندگی سے بے زار بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ ہر بچے کو جھڑکتے ہیں اور ہر بچّی کو تاڑتے ہیں۔  یہ بابے بے قصور ہیں۔ ان کی مائیوں نے ان کا یہ حال کیا ہے۔  آپ دبئی چلے جائیں، آپ بنکاک چلے جائیں۔ آپ ملائشیا چلے جائیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے ۔ آپ دیکھیں گے کہ گورے مائیاں بابے کیسے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سیریں کرتے ہیں۔ یہ  سر عام اظہار محبت بھی کرتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے  عاشقی ٹُو جیسے سین بناتے ہیں۔  جبکہ پاکستانی بابوں کو یہ موقع تنہائی میں بھی نہیں ملتا۔ ان کی آخر ی عمر اعتکاف میں ہی گزرجاتی ہے۔
جب تک ہم بابوں کے مسائل کو سمجھیں گے نہیں۔ جب تک ہم ان کو حل کرنے کے  لیے  ان کی مائیوں کو کنونس نہیں کریں گے۔ بجٹ کا خسارہ ہویا  لوڈشیڈنگ۔ ڈرون حملے ہوں یا  کیبل پر انڈین چینلز۔ امن و امان کا مسئلہ ہو یا پرویز خٹک کی صحت۔ عائلہ ملک  کی دوسری شادی ہو یا شہباز شریف کی چوتھی (یاشاید پانچویں، چھٹی  یا ساتویں ( شادی ۔  پاکستان کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بابے اپنے اپنے پروفیشن میں ماہر ہوتے ہیں لیکن ان کی مائیوں کی بے اعتنائی انہیں ہر چیز سے متنفر کرکے سڑیل اور کوڑا کردیتی ہے۔  یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے  یہ صرف تھڑوں پر بیٹھ کر سڑ سکتے ہیں ۔

میاں نواز شریف کی حکومت جب تک یہ کام نہیں کرے گی ۔ یہ پاکستان کو نہیں بچاسکے گی۔ پاکستان کو بچانے کے لیے بابوں کو خوش کرنا ضروری ہے۔  ورنہ 
  ؎ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں