غالب کے خطوط - جدید


میرے دل کے چین مولوی خادم حسین!
بارے خبر تمہارے پکڑے جانے کی ہوئی۔ طبیعت بوجھل اور دل بے چین ہے۔ رہ رہ کے خیال آتا ہے کہ سرکاری ہرکارے کیسے تمہاری شیریں مقالی سے فیض پائیں گے۔ تم کو بولنے کی عادتِ بد ہے۔ ان کو مار پیٹ کی خُو ۔
؎ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
 شتابی میں تمہارا تکیہ کلام یاد آیا۔ ابلیس نے بہکایا کہ دوانے کو اس سے بدل دو۔ قلم کو لگام ڈالی۔تمہارا جملہ کانوں میں گونجا۔ کیا پوچھتے ہو؟ کونسا جملہ؟ ارے بھئی وہی "لو آیا جے فیر غوری!"۔ سچ کہیں تو تم بھی بادشہ سے کم نہیں ۔ دربار سجاتے ہو۔ جانثار رکھتے ہو۔طبیعت استوار ہو تو خلعتیں بانٹتے ہو۔ مزاج برہم ہو تو سر قلم کراتے ہو۔اقبال لاہوری کے اشعار پڑھتے ہو۔جنّوں کی حکایات سناتے ہو۔ کیسے دوست ہو کہ ایک آدھ دانہ ہمارے تصرّف میں نہ دیا۔ جنّ  میسر ہوجائے تو کچھ پینے کی سبیل بنے۔ یہ ممکن نہ ہو تو پری سے بھی کام چل جاوے گا۔
تم بہشت میں جا کے پیو گے۔ حُوروں کے ساتھ جیو گے۔ ہم یہیں پیتے ہیں۔ مر مر کے جیتے ہیں۔ امراؤ بیگم کے بعد اب کسی حُور کی حاجت نہیں رہی یا یوں کہو کہ خواہش نہیں رہی۔  ارےمولوی صاحب! بہشت میں جا کے تم جو کرنے کی تمنا رکھتے ہو۔ فقیر سبھی کچھ یہیں کرچکا۔
؎  ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
 دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
لڑکے بالے تمہاری میمز بناتے ہیں۔ کبھی ہم کو ہنساتے ہیں کبھی دل جلاتے ہیں۔ آخر تم ہمارے یار جانی ہو۔نصیحت کو فضیحت نہ جانو تو ایک بات کہتے ہیں۔ جب دربار سجا کے بیٹھتے ہو تو گاہے لگتا ہے کہ نشہ صرف ہمی نہیں کرتے۔کیا الٹ سلٹ بول جاتے ہو۔ بلی کو جن بنا دیتے ہو۔ گردے کو ناشدنی سناتے ہو۔ کل ہی ایک کندہءناتراش کہہ رہا تھا کہ گردے کو دھمکی دے کے ٹھیک کرلیا۔ اب ٹانگوں پر بھی ہاتھ پھیر کے اسپِ تازی ہوجاؤ۔ میاں ہم حضرت صاحبِ عالم کا دربار دیکھ چکے۔آپ کے پاپوش چومنے والے فرنگی سپاہ کے قلب میں پرچم تھامے کھڑے تھے۔ تمہارے درباری سرکار کو پکّے کاغذ پر لکھ کے دیتے ہیں۔ اس مولوی کو ہم نہیں جانتے۔ ہمارا کوئی تعلق اس سے نہیں ہے۔ جب تک ان کو بریانی، حلوے، بادام، پستے، اخروٹ کھلاتے تھے۔ تمہارا دم بھرتے تھے۔ سرکار نے ڈنڈا دکھایا تو تم کو پہچاننے سے انکاری ہیں۔
کم لکھے کو بہت جانو۔ سرکار سب کی خبر رکھتی ہے۔ کوئی پیغام چھلنی سے گزرے بغیر نہیں جاتا۔ تم مردِ مجاہد ہو۔ایمان کی طاقت رکھتے ہو۔  میں ایک ضعیف ، نحیف بوڑھا۔ اس عمر میں قیدخانہ، جوانی میں پرہیزگار ہونے جیسا ہے۔ جہاں رہو خوش رہو۔۔۔ میرے پیارے دلّے۔
نجات کا طالب
غالبؔ