بتا نہیں سکتا

تنہا سفر کرنا ہمارے لیے کبھی کوئی ایسا خوشگوار کام نہیں رہا۔  کوشش یہی ہوتی ہے کہ سفر کے آغاز میں ہی سوجائیں اور آنکھ کھلے تو منزل مراد شاد باد آچکی ہو۔سفر کی نیند بھی بہرحال  خواب میں کروڑ پتی ہونے والا حساب ہے ؛آنکھ کھلنے پر بندہ وہی کا وہی اور وہیں کا وہیں ہوتا ہے۔ خیر۔۔ آج ہم آپ کو ایک حالیہ سفر کا قصّہ سنانے جارہے ہیں ۔ فیصل آباد سے ایشیا کے صاف  اور خوبصورت ترین شہر گوجرانوالہ کا سفر۔
گوجرانوالہ کے ذکر سے ہمارے ذہن میں جو پہلی چیز آتی ہے وہ "کھوتا پُلی" ہے۔ حاشا و کلا اس سے  تفنّن مراد نہیں ہے۔ زندگی میں پہلی دفعہ  جب ہم گوجرانوالہ وارد ہوئے تو  سکول کے ابتدائی درجات میں اپنی استانیوں کو  شاگردی  کا شرف ارزاں کررہےتھے۔ سردیوں کے دن تھے اور رات کا سفر۔ جی ٹی ایس کی بس سے اتر کر جب تانگے میں سوار ہوئے تو ابّو جی کو پتہ سمجھاتے ہوئے کھوتا پُلی کا نام لیتے سنا۔  ہم دل میں بہت ہنسے کہ یہ کیا نام ہوا۔ اونچی آواز میں اس لیے نہیں کہ اس زمانے کے ابّو جی لوگ بہت بارعب ہوا کرتے تھے اور ان کے سامنے دَم مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی کجا منہ پھاڑ کر ہنسنا ۔ خیر ہم اپنے خالہ زادوں کو بہت عمر تک "کھوتا پُلی" کا نام لے کر چھیڑتے رہے۔۔۔ فیصلابادی جو ہوئے۔
دوسرا سفر ہم نے لڑکپن اور نوجوانی کے درمیانی عرصہ میں کیا۔ یہ ہمارے یکے از خالہ زادوں کی شادی کی تقریب تھی۔  گوجرانوالہ ابھی تک ایک بہت بڑی  کھوتا پُلی ہی تھا۔ شادی کا ڈیڑھ دن ہم نے بہت مشکل سے گزارا اور عین ولیمہ کے وقت فرار ہوکے عازمِ فیصل آباد ہوئے۔  اس کے بعد طویل عرصہ  تک گوجرانوالہ ہمارے لیے شہرِ ممنوع رہا۔ اس دفعہ بعدمدت مدید ایک کام کے سلسلے میں  گوجرانوالہ جانا ہوا۔
فیصل آباد میں اب  جی ٹی ایس  چوک ہی باقی رہ  گیا ہے۔ جی ٹی ایس تو  عرصہ ہوا ملازمین کو پیاری ہوگئی۔ فلائنگ کوچ  سے نجانے ہمیں اپنے کلب کرکٹ کے لیفٹ آرم سپنر  ثاقب یاد آجاتے ہیں جو موٹے شیشوں کا چشمہ پہنتے تھے اور انہیں پیار سے "انّہی فلینگ کوچ" کہا جاتا تھا۔ ان کے احترام میں ہم فلائنگ کوچ میں سفر کرنا کچھ مناسب نہیں سمجھتے۔ خیر احترام وغیرہ تو کچھ نہیں  اس کی اصل وجہ فلائنگ کوچ کی  نشستوں کا یک جان  دو قالب ہونا ہے۔ آپ کا قد معمول یا اس سے کچھ زیادہ ہے تو اس نشست پر تشریف رکھنے کے بعد گھٹنے قد کی مناسبت سے پیٹ یا سینے سے لگ جاتے ہیں اور ہر دھچکے پر ایسا لگتا ہے جیسے۔۔۔
؎  سینہ ءبشیر سے باہر ہے دم بشیر کا
ڈائیوو  نے موٹر وے تو خیر بنائی ہی تھی لیکن اس کا بڑا احسان بسیں چلانا ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمیں اتنی عزت سے بذریعہ سڑک سفر کرنے کی عادت ہی نہیں رہی۔ لاری اڈّے پر مسافر کو ربڑ سمجھ کے کھینچا جاتا تھا۔ سانگلے جانے والے کو زبردستی سمندری کی بس میں کھینچ کر بٹھا دیتے کہ ۔۔۔۔ پاء جی بیٹھو تے سئی۔۔ گڈّی بس ٹُرَن ای لگّی اے۔۔۔ وہ بے چارہ چلاّتا رہتا کہ۔۔ او بھائیا۔۔ مَیں سانگلے جانا۔۔ لیکن اس غریب کی کوئی سنتا نہیں تھا۔  ڈائیوو کی دیکھا دیکھی  اب بہت سے لوگوں نے ویسی ہی بسیں منگوا  لی ہیں۔ ہوسٹس کا بندوبست بھی ہوگیا ہے۔ وائی فائی بھی چلتا ہے۔ تھکی ہوئی ہندی/انگلش فلم کے علاوہ  ٹھنڈا پانی اور گرم کولڈ ڈرنک بھی میسر ہے۔ سنیکس کے نام پر دو بسکٹ اور ہوا سے بھرا ایک  پیکٹ ملتا ہے جس میں سے کبھی کبھی آلو کے قتلے بھی برآمد ہوجاتے ہیں۔ 
تو صاحبان، مدّعا اس تفصیل کا یہ کہ ہم فلائنگ کوچ سے بچ کے ایک ڈائیوو نما بس میں جا گھسے۔  خوشگوار حیرت تب ہوئی جب عین وقت مقرّرہ سے پانچ منٹ بعد ہمارے سفر کا آغاز ہوگیا۔  مَلوکڑی سی ہوسٹس کے پاس جا کے ہم نے وائی فائی کا پاسورڈ دریافت کیا تو وہ چَمک کے غلامابادی لہجے میں بولیں، "پہلی دفعہ سفر کرنے لگے ہیں؟"۔ ہم نے مُنڈی اثبات میں ہلائی تو  انہوں نے ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے پاسورڈ عنایت کیا اور ہم نیویں نیویں ہوکے اپنی نشست کی جانب روانہ ہوگئے۔ سائیں، خاتون اور جیالے کی بات کا ہم کبھی برا نہیں مانتے۔
ٹوئٹر  کھولا۔ اتنی صبح ٹوئٹر بالکل ہومیوپیتھک ہوتا ہے۔ سلام دعا چل رہی ہے۔ کہیں تلاوت لگی ہے تو کہیں اقوال زریں کا ناشتہ ہورہا ہے۔ کسی کو ڈی ایم نہ آنے کا نِمّا نِمّا گلہ ہے تو کوئی سب ٹویٹس میں نسرین/پروین/رخسانہ وغیرہ کو صبح بخیر کہہ رہا  ہے۔  واللہ اعلم دس گیارہ بجے کے بعد ٹویپس کو کیا موت پڑتی ہے کہ ایک دوسرے کے گریبان نوچنے پر تُل جاتے ہیں اور رات دس بجے تک یہی گھڑمس برپا رہتا ہے۔ دس بجے کے بعد اچانک پھر سب کو اپنی اپنی نہ ہونے والی محبتّیں یاد آنے لگتی ہیں اور وہ حسبِ توفیق میرؔ سے وصی شاہ سرکار اور محمد رفیع سے یویو ہنی سنگھ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتے ہیں۔ 
ہم نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو چار خودساختہ اقوال زرّیں مارکیٹ کیے اور حسب خواہ ری ٹویٹس اور لائکس سمیٹ کر چپکے ہو رہے۔ ایک دفعہ جب لوگ آپ کو کچھ تسلیم کرلیں تو پھر چاہے ان کو جو مرضی انٹ شنٹ پڑھاتے رہیں وہ اس  کو" اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ" کہہ کے برکت ڈالتے رہتے ہیں۔ ہم بھی یہی نسخہ آزماتے ہیں کچھ بھی لایعنی، مہمل بات ٹویٹ کردیتے ہیں اور ہمارے پرستار اس میں سے ایسے ایسے نکات ڈھونڈ لاتے ہیں کہ ہمارے فرشتوں کے علاوہ ان کے سپروائزر کو بھی کوئی خبر نہیں ہوتی کہ ایں چہ چکر است۔۔۔ اور گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے  اور ہم ری ٹویٹس اور لائکس کے نشے میں دُھت رہتے ہیں۔  جب نشہ ٹوٹنے لگتا ہے تو کسی گمنام سے شاعر کا فضول سا شعر ٹویٹ کرکے اس پر واہ واہ سمیٹ کے نشہ پورا کرلیتے ہیں۔ کچھ احباب دُشنام کا نشہ بھی کرتے ہیں ۔  یہ ملامتی صوفیاء کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا ٹوئٹری کے علاوہ روحانی دنیا میں بھی اونچا درجہ ہے۔ 
؎  آپ بھی گالم گال ہو مجھ کو بھی گالم گال کر
شہری حدود سے نکل کے موٹر وے پر چڑھتے ہی ہمیں کُوکِی چڑھنی  شروع ہوگئی اور گوجرانوالہ پہنچنے تک ہمیں صرف "سنیکس" کے لیے جاگنا پڑا جب  ہوسٹس بی بی نے ہمارے کان میں آکر کہا۔۔۔ "سرررر۔۔ سنیکس"۔۔ ہم ہڑبڑا کر اٹھے کہ شایدرہزن آگئے ہیں۔۔ جبکہ وہ سنیکس تھے۔ سنیکس کا ڈبہّ سامنے والی جالی میں اُڑس کے ہم دوبارہ کارِ زیاں میں مشغول ہوگئے اور ہماری آنکھ دوبارہ تبھی کھلی جب گوجرانوالہ شہر کی بتّیاں اور کھوتا ریڑھیاں نظر آنے لگیں۔ 
جس جگہ ہم بس سے اترے وہ شاید شیخوپورہ موڑ کہلاتی ہے۔ لاری اڈّے کی مخصوص افراتفری اور بے ترتیبی۔ سڑک کے ایک جانب پھلوں کی ریڑھیاں قطار اندر قطار  کھڑی تھیں اور تقریبا آدھی سڑک پر مالکانہ حقوق کا دعوی کیے ہوئے تھیں۔ باقی آدھی سڑک پر رکشے، موٹر سائیکلیں، تانگے، ریڑھیاں، چنگ چی، کاریں۔۔۔ توں ٹھہر جا ، مینوں لنگھ لین دے۔۔ کا عملی مظاہرہ پیش کررہی تھیں اور اس کوشش میں سب وہیں جمے کھڑے تھے۔ کاروں اور موٹر سائیکلوں  والے ہارن بجا رہے تھے اور ویگنوں، رکشوں والے نصیبو اور ہنی سنگھ کے گانے ۔ 
ہمیں گرجاکھ جانا تھا۔ تھوڑا پیدل چل کے ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں رش کچھ چھَٹ گیا تھا۔ رکشے والے سے استفسار کیا کہ میاں، گرجاکھ  کا کیا لوگے؟ وہ بولے، سو روپیہ۔ ہم لپک کے رکشے میں سوار ہوگئے۔ رکشے والے بھائی کے تاثرات بتا رہے تھے کہ ابے گھامڑ، دو سو ہی مانگ لیتا۔۔۔ 
ہمارے ذہن میں گوجرانوالہ کا جو تاثر جما ہوا تھا اس دفعہ شہر اس سے مختلف دِکھ رہا تھا۔ وقت عجیب ستم ظریف شے ہے۔ انسان کو کھنڈر کردیتا ہے اور شہرسنوار دیتا ہے۔ رش بے ہنگم اور بے تحاشہ تھا لیکن صفائی کی جو صورتحال ہم نے دیکھ رکھی تھی، موجودہ حالت اس سے کہیں بہتر تھی۔ رستے ٹوٹے پھوٹے نہیں تھے۔ دس بجنے والے تھے۔ ناشتے کی دکانیں، ریڑھیاں ابھی تک رش لے رہی تھیں۔ بازار کھل رہے تھے۔ قریبا دس بجے ہم منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ وہاں جو کام تھا، نمٹایا اور  بارہ بجے کے قریب فارغ ہوگئے۔ لشٹم پشٹم دوبارہ رکشے پر سوار ہوئے اور شیخوپورہ موڑ جاپہنچے۔
ٹکٹ کاؤنٹر سے لیکن ہمیں ٹکٹ کی بجائے مایوسی ملی۔ وڈّی بس جا چکی تھی اور اگلی بس تین بجے روانہ ہونی تھی۔ تین گھنٹے اس رونق میں گزارنے کے خیال سے ہی ہَول اٹھنے شروع ہوگئے تھے۔ ہم نے دوبارہ مسمسی سی صورت بنا کے ٹکٹ بابو سے پوچھا کہ کوئی گنجائش؟ وہ رکھائی سے بولے، "فلینگ کوچ لگّی جے۔۔۔ پندرہ منٹاں تک نکلے گی۔۔۔ اوہدے اچ چلے جاؤ"۔۔۔ ہم نے ایک لحظہ توقف کیا۔ تین گھنٹے لاری اڈے پر انتظار کرنے کا موازنہ فلائنگ کوچ کے سفر سے کیا اور دل بڑا کرکے حامی بھرلی۔ 
سمارٹ فون کے بے شمار گفتنی و ناگفتنی  فوائد ہیں۔ ہم بھی ہنگامی حالات کے لیے ہر وقت اپنے فون میں ایک دو فلمیں اور کسی ٹی وی شو کے تین چار ایپی سوڈ  کاپی کرکے رکھتے ہیں کہ ۔۔ نجانے کہاں زندگی کی شام ہوجائے۔۔۔۔  فلائنگ کوچ میں تشریف فرما ہوتے ہی ہم نے کانوں کو ٹونٹیاں لگائیں اور واکنگ ڈیڈ کی تازہ قسط ملاحظہ کرنی شروع کردی۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ کسی نے ہمارا کندھا تھپتھپایا۔ ایک درمیانی عمر کے صاحب جو درمیانی یعنی فولڈنگ نشست پر تشریف رکھتے تھے ، ہمیں گنڈیریاں چوپنے کی صلح مار رہے تھے۔ ہم نے نرمی سے شکریہ کہہ کے انکار کیا اور دوبارہ  فونی سکرین کی طرف متوجہ ہوگئے۔ چند ثانیوں بعد انہوں نے ہمارا گھٹنا ہِلا کے متوجہ کیا اور بھُنے ہوئے چنے پیش کیے۔ اگرچہ ہمارے برادرِ خُورد بچپن سے ہی ہمیں گھوڑا کہتے آرہے ہیں لیکن حاشا و کلا ہمیں بھُنے ہوئے چنوں سے ہرچند رغبت نہیں رہی۔ ہم نے نرمی سے انکار کیا اور ٹونٹیاں کانوں سے نکال کے  ان صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی کہ ہم ایک فِریک شو قسم کے انسان ہیں اور دورانِ سفر کھانے سے اتنا پرہیز کرتے ہیں  کہ غصہ تک نہیں کھاتے۔ 
ہمیں اندازہ ہورہا تھا کہ فولڈنگ سیٹ والے صاحب فیصل آباد تک کا سفر ہم سے گپ شپ کرکے گزارنا چاہتے ہیں جبکہ ہم ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے ۔ کوئی رستہ نہ پاتے ہوئے ہم نے ٹونٹیاں لپیٹ کر فون سمیت کھیسے میں ڈالیں  اور کھڑکی سے باہر کا منظر ملاحظہ کرنے لگے۔ فلائنگ کوچ کسی ایسی سڑک پر گامزن تھی جو  پُل صراط کی کزن لگتی تھی۔ ناہموار، سامنے سے آتی ہوئی ٹریفک اور ایک دوسرے کو آخر تک رستہ نہ دینے کی مردانگی۔  وہ صاحب  اپنے ساتھیوں سے حکومتوں کی بے حسی پر دھواں دھار بحث کررہے تھے کہ  سڑک کا براحال ہے اور کوئی سننے والا نہیں۔ کہیں تو وہ ہمیں ایک چھوٹے موٹے حسن نثار ہی لگ رہے تھے۔ صاحب موصوف کی ناراضگی کی وجہ بھی بیلی پور کی سڑک ہی بتائی جاتی ہے۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
ہمیں متوجہ دیکھ کر ان صاحب نے ہم سے سمال ٹاک کرنی شروع کی۔ کہاں جارہے ہیں۔ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ گوجرانوالہ کوئی رشتہ دار ہے۔  ہم ان سوالات کے مناسب جواب دیتے رہے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں تو اچانک ہمارے اندر جاوید چوہدری کی کالمانہ روح بیدار ہوئی۔ ہم نے پہلو بدلا۔ کان کی لَو کھجائی۔ بالوں میں ہاتھ پھیرا اور منہ ان کے کان کے قریب لے جا کر آہستگی سے بولے۔ سرکاری ملازمت۔ حسب توقع اگلا سوال یہ تھا کہ کہاں؟ ہم نے لہجے میں مزید پُراسراریت سموتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ بتا نہیں سکتا!
صاحب موصوف کو یکلخت جیسے چُپ سی لگ گئی۔  کچھ توقف کے بعد بولے کہ ہمارے گاؤں کا ایک لڑکا بھی ایسی ہی ملازمت کرتا ہے کسی کو پتہ نہیں کہ کیا اور کہاں کام کرتا ہے۔ جب اس کی شادی ہوئی تو اس سے دو دن پہلے تین جیپوں میں بندے بھر کے آئے اور پورے گاؤں کا سروے کرتے رہے۔ پھر شادی سے ایک رات پہلے وہ آیا اور عین ولیمے کے بعد دوبارہ واپس چلا گیا۔ صاحب کے چہرے پر خوف بھری عقیدت کے تاثرات صاف دیکھے جاسکتے تھے۔ یہ کہہ کر وہ پھر چُپ ہوئے تو فیصل آباد آنے تک ان کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ ہم نے واکنگ ڈیڈ کے دو ایپی سوڈ سکون سے دیکھے۔ شیخوپورہ روڈ پرچڑھنے کے بعد سڑک بھی ہموار ہوگئی اور کچھ دیر نیند نما چیز سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ 
فلائنگ کوچ فیصل آباد شہر میں داخل ہوئی تو ہم نے ڈرائیور کو بتایا کہ ہمیں فلاں جگہ اتار دے۔ ہمارا سٹاپ آیا  تو اترنے سے پہلے ان صاحب  کی طرف سے "اللہ حافظ سر" کو ہم نے سر کی مربّیانہ  جنبش سے قبول کیا ۔ جیب سے چشمہ نکالا، جمایا اور قلانچ بھر کے فلائنگ کوچ سے کود گئے۔