سانچہ = Template

وہ پریشان اور مایوس تھا اور اس کو لگتا تھا کہ اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کے پاس موجود نہیں۔ اس کا حافظہ کمزور تھا، وہ ایک سے زیادہ مضمون یاد نہیں رکھ سکتا تھا۔ جب بھی کوئی امتحان ہوتا، کوئی ٹیسٹ ہوتا، اگر اس کا یاد کردہ مضمون، پرچے میں نہ ہوتا تو وہ سب کے منہ دیکھتا رہتا۔ وہ پرچہ خالی دے آتا۔ اس کے استاد اس سے تنگ تھے۔ اس کے والد نے فیصلہ کرلیا کہ اس کو سکول سے اٹھالیں گے۔ اسے خراد کے کام پر ڈال دیا جائے گا۔

پھر اچانک ایک دن اس کی ملاقات چوہدری علم دین سے ہوگئی! چوہدری صاحب، ٹوانہ صاحب کے منشی اور سردوگرم چشیدہ انسان تھے۔ وہ گیارہ بجے ہی سکول سے "پھٹ" کر چھپڑ کے کنارے کیکر کے نیچے مایوس بیٹھا، اپنی ناکامیوں کا ماتم کررہاتھا کہ ادھر سے چوہدری صاحب کا گزر ہوا۔ چوہدری صاحب اسے دیکھ کر رکے اور قریب آکراس سے پریشانی کا سبب پوچھا تو وہ پھٹ پڑا۔ چوہدری صاحب نے تحمل سے اس کی پوری بپتا سنی۔ ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کھیلتی رہی۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ پھر چوہدری صاحب نے اسے اس مسئلے کا ایسا حل بتایا جو آج تک اس لڑکے کے کام آرہا ہے!

وہ لڑکا کوئی اور نہیں بلکہ میں، جنید چوہدری تھا!

اگلے ہفتے دسمبر ٹیسٹ ہونے والے تھے۔ اس میں "ایک ہوائی سفرکا آنکھوں دیکھا حال" کا مضمون تھا، لیکن میں نے "ایک کبڈی میچ کا آنکھوں دیکھا حال" یاد کیا ہوا تھا۔ میں پریشان نہیں ہوا۔ میں نے مضمون لکھنا شروع کیا کہ میں کراچی سے پشاور جانے کے لئے جہاز میں بیٹھااور باہر جھانکا تو وہاں کبڈی کا میچ ہورہا تھا، اس کے بعد میں نے کبڈی میچ کا آنکھوں دیکھا حال من و عن لکھ ڈالا۔ ہمارے اردو کے استاد نے جب یہ مضمون پڑھا تو وہ پھڑک اٹھے۔ خوشی سے ان کا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور میرا ماتھا چوم کے بولے، یہ بچہ ایک دن پوری دنیا کو آگے لگائے گا!

وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں نے زندگی میں بڑی بڑی کامیابیاں اسی ایک گر سے حاصل کیں۔ موضوع کوئی بھی ہو، سیاسی ہو یا مذہبی، اقتصادی ہو یا اخلاقی، ثقافتی ہو یا ادبی،میں اسے گھیر گھار کر اپنے تیار کئے ہوئے "کبڈی میچ" کے سانچے میں ٹھوک پیٹ کرفٹ کردیتا ہوں۔ ایک عالم میری تحاریر کا دیوانہ ہے۔ اخبار والے میرے آگے پیچھے گھومتے ہیں۔ میرے ناز نخرے ایسے اٹھائے جاتے ہیں جیسے چالیس سالہ بندہ شادی کے بعد اپنی ساڑھے سولہ سالہ بیوی کے اٹھاتا ہے! لیکن میں اپنی کامیابی، شہرت، ناموری اور عزت کے لئے چوہدری علم دین کا مشکور ہوں۔ وہ نہ ہوتے تو شاید آج میں خراد پر چنگ چی کے پرزے بنا رہا ہوتا!

ویل ڈن اینڈ تھینک یو چوہدری صاحب۔۔۔۔۔

اے خانہ بر انداز چمن، کچھ تو ادھر بھی

اس مصرعہ سے غلط فہمی میں مبتلا مت ہوجائیں کہ یہ کوئی ادبی یا سیاسی تحریر ہے۔ کل میں اپنے بلاگ کے کنٹرول پینل پر گیا تو "فلموفلمی" کے زمرے نے میرا دامن حریفانہ کھینچا کہ میاں! ہم سے کیا غلطی ہوئی کہ ایک ہی پوسٹ لکھ کے ہمیں فارغ کردیا۔ تس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور اسے یقین دلایا کہ میاں، فکر نہ کرو۔ ابھی آپ کا کچھ کرتے ہیں۔۔۔

آج کل ایک فلم کا بہت چرچا ہے، اوتار عرف ایلینز کی قوالی، اس پر ہمارے ایک دوست اظہار خیال بھی کرچکے ہیں۔ میرا ایک مشورہ ہے کہ اس فلم کو تھیٹر میں ہی جاکر دیکھیں، ٹی وی پر آپ اس سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ یہ ایک ایسا بصری تجربہ ہوگا جو مجھے یقین ہے اس سے پہلے آپ کو کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو وہ کسی آٹھ آنے والے رسالے سے لی گئی ہے اور اس پر جتنا کم لکھا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا!

میں اصل میں جس فلم کا ذکر کرنا چاہتا تھا وہ ہے "لو آج کل"۔ میں انڈین فلموں کا کوئی اتنا بڑا پرستار نہیں ہوں۔ چند ہدایتکار ہی ایسے ہیں، جن کا نام مجھے فلم دیکھنے پر مائل کرتا ہے اور امتیاز علی یقینا ان میں شامل نہیں تھے۔ اتفاقا مجھے یہ فلم اپنے دوست سے ملی جو اس نے ڈاؤن لوڈ کی تھی، اس کی پکچر کوالٹی بھی کچھ خاص نہیں تھی۔ لیکن ایک دفعہ جب میں نے اسے دیکھنا شروع کیا تو یہ ایک ایسا تجربہ ثابت ہوا جس کی امید کم از کم مجھے ایک عام ہندوستانی رومانی فلم سے نہیں تھی!

جیسے غزل میں ایک شعر بھی کام کا نکل آئے تو غزل کا حق ادا ہوجاتا ہے، ویسے ہی کوئی ایک منظر پوری فلم پر حاوی ہوکر اسے معمولی سے غیر معمولی بنا دیتا ہے۔ فلم کے آخری مناظر میں جب ہیرو، ہیروئن کے پاس واپس آتا ہے تو مجھے کوفت ہونے لگی کہ اب وہی برسوں کے گھسے پٹے میلو ڈرامیٹک مکالمے ہوں گے اور ان کے آخر میں ہیرو، ہیروئن "گھٹ کے جپھی" ڈالیں گے اور کٹ ہو کے اگلا منظر سوئٹزر لینڈ کی وادیوں میں ہوگا جہاں وہ اختتامی گانا گاکر ہمارا پیچھا چھوڑ دیں گے!

لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اور جو ہوا، وہ دل کو اتنا چھولینے والا تھا کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ اگر آپ نے یہ فلم دیکھی ہے تو دوبارہ وہ منظر دیکھیں، اگر نہیں دیکھی تو میری درخواست پر دیکھیں، امید ہے کہ آپ مایوس نہیں ہوں گے۔۔۔

ضروری اعلان: فلم ختم ہونے کےبعد آج کل جو آئٹم نمبر کی بدعت پھیلی ہوئی ہے، یہ فلم بھی اس سے مستثنی نہیں ہے، میری یہ بھی درخواست ہے کہ براہ کرم اس گانے کو نہ ہی سنیں تو بہتر ہے، پوری فلم کے تاثر کی ایسی کی تیسی ہوجاتی ہے!!

جدید غلامی

ميں تھوڑی دير کے لئے ہال ميں ان اميدواروں کو ديکھنے لگا جو بڑی بے چينی کی حالت ميں اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے اور جو باری بھگتا کے باہر نکلتا تھا۔ اس سے بار بار پوچھتے تھے کہ تم سے اندر کيا پوچھا گيا ہے اور کس کس قسم کے سوال ہوئے ہيں؟ اور ان باہر بيٹھے اميدواروں کے چہروں پر تردد اور بے چينی اور اضطراب عياں تھا۔ ميں کھڑا ہو کر ان لوگوں کو ديکھتا رہا اور حيران ہوتا رہا کہ اگلے زمانے ميں تو لونڈی غلام بيچنے کے لئے منڈی ميں تاجر باہر سے لايا کرتے تھے۔ آج جب ترقی يافتہ دور ہے اور چيزيں تبديل ہو گئی ہيں، يہ نوجوان لڑکے اورلڑکياں خود اپنے آپ کو بيچنے اور غلام بنانے کے لئے يہاں تشريف لائے ہيں اور چيخيں مار مار کر اور تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو، اپنی ذات، وجود کو، جسم و ذہن اور روح کو فروخت کرنے آئے ہيں اور جب انٹرويو ميں ہمارے سامنے حاضر ہوتے ہيں اور کہتے ہيں، سر ميں نے يہ کمال کا کام کيا ہے، ميرے پاس يہ سرٹيفيکيٹ ہے، ميرے پرانے مالک کا جس ميں لکھا ہے کہ جناب اس سے اچھا غلام اور کوئی نہيں اور يہ لونڈی اتنے سال تک خدمت گزار رہی ہے اور ہم اس کو پورے نمبر ديتے ہيں اور اس کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور سر اب آپ خدا کے واسطے ہميں رکھ ليں اور ہم خود کو آپ کے سامنے پيش کرتے ہيں۔ ميں سوچتا ہوں کہ کيا وقت بدل گيا؟ کيا انسان ترقی کر گيا؟ کيا آپ اور ميں اس کو ترقی کہيں گے کہ کسی معشيت کے بوجھ تلے، کسی اقتصادی وزن تلے ہم اپنے آپ کو خود بيچنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں لے جا کر يہ کہتے ہيں کہ جناب اس کو رکھ لو۔ اس کو لے لو اور ہمارے ساتھ سودا کرو کہ اس کو غلامی اور اس کو لونڈی گيری کے کتنے پيسے ملتے رہيں گے۔ يہ ايک سوچ کی بات ہے اور ايک مختلف نوعيت کی سوچ کی بات ہے۔ آپ اس پر غور کيجيئے اور مجھے بالکل منع کيجيئے کہ خدا کے واسطے ايسی سوچ آئندہ ميرے آپ کے ذہن ميں نہ آيا کرے کيونکہ يہ کچھ خوشگوار سوچ نہيں ہے۔ کيا انسان اس کام کے لئے بنا ہے کہ وہ محنت و مشقت اور تردّد کرے اور پھر خود کو ايک پيکٹ ميں لپيٹ کے اس پر خوبصورت پيکنگ کر کے گوٹا لگا کے پيش کرے کہ ميں فروخت کے لئے تيار ہوں۔ يہ ايسی باتيں ہيں جو نظر کے آگے سے گزرتی رہتی ہيں اور پھر يہ خيال کرنا اور يہ سوچنا کہ انسان بہت برتر ہو گيا ہے، برتر تو وہ لوگ ہوتے ہيں جو اپنے ارد گرد کے گرے پڑے لوگوں کو سہارا دے کر اپنے ساتھ بِٹھانے کی کوشش کرتے ہيں اور وہی قوميں مضبوط اور طاقتور ہوتی ہيں جو تفريق مٹا ديتی ہيں۔ دولت، عزت، اولاد يہ سب خدا کی طرف سے عطا کردہ چيزيں ہوتی ہيں ليکن عزتِ نفس لوٹانےميں، لوگوں کو برابری عطا کرنے ميں يہ تو وہ عمل ہے جو ہمارے کرنے کا ہے اور اس سے ہم پيچھے ہٹے جاتے ہيں اور اپنی ہی ذات کو معتبر کرتے جاتے ہيں۔

(اشفاق احمد کے "زاویہ" سے ایک اقتباس)