ہیرو / ہیروئن – ادبی و تحقیقی مقالہ

فی زمانہ ادب کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس میدان میں سنجیدگی کے ساتھ تحقیقی، تنقیدی اور تعمیری کام کیا جائے، ورنہ بے ادبی فروغ پاتی جائےگی جو بنیادی اخلاقیات کے لئے سخت ضرر رساں ہے۔ اسی تناظر میں ہم نے اس میدان میں پاؤں دھرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ، زنانہ ڈائجسٹوں کے ہیرو اور ہیروئن کی بنیادی کرداری خصوصیات، نفسیات، مابعد الطبیعیاتی تحلیل نفسی وغیرہم پر مشتمل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا یہ کارنامہ ادبی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہر عظیم انسان کی طرح ہمیں بھی اپنے منہ میاں مٹھو بننا بالکل پسند نہیں اس لئے ہم اپنی تعریف کو مستقبل کے نقّاد پر چھوڑتے ہوئے مقالے کا آغاز کرتے ہیں۔

ہیروئن: حُور کا دنیاوی ورژن، اتنی حسین کہ روزانہ محلے کے بیس پچیس لڑکے اسے یونیورسٹی/کالج آتا جاتا دیکھ کر وفات پاتے ہوں اور یوں اس کا محلہ، وہ نازی کیمپ لگے جہاں روزانہ درجنوں کے حساب سے یہودی مارے جاتے تھے، اس سے یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ ہیروئن یہودیوں کے محلے میں رہتی ہے۔۔۔سرو قد جبکہ اس کی سہیلیوں میں امرود قد، بیری قد، بانس قد، مالٹا قد وغیرہ شامل ہوں، رنگت جیسے شہد میں دودھ ملا ہو، جھیل (یعنی تربیلا، منگلا، راول، کاغان وغیرہ بلکہ جھیلوں کی کمی کے پیش نظر قدرت نے عطا آباد جھیل بھی بنا دی ہے!) جیسی آنکھیں جن میں صرف ہیرو ہی ڈوبتاہے اس سے پہلے کسی کو توفیق نہیں ہوتی، بال گھٹنوں سے ذرا نیچے اور زیادہ تر شاہ کالے جبکہ کبھی کبھار ہلکے براؤن اور ہیرو اکثر یہ فرمائش کرتا پایا جاتا ہو کہ اسے ان زلفوں کی چھاؤں میں زندگی بسر کرنے دی جائے، ناک ستواں نہ کہ پھینی، موتیوں جیسے دانت، گھنی پلکیں، ہنستے ہوئے گالوں میں ڈمپل، بولے تو منہ سے پھول جھڑیں جبکہ ہنسے تو موسیقی بجنے لگے (اس سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ ہیروئن کا تعلق گانے بجانے والے گھرانے سے ہے!)، جب بھی ہیروئن اور ہیرو سامنے آئیں تو ہوائیں چلنے لگیں، سلوموشن میں دوپٹہ اڑنے لگے، پرندے گانے لگیں (چڑیاں وغیرہ، کوّے نہیں!) اور زوبی ڈُو ہونے لگے، جبکہ ولن کی آمد کی صورت میں سکُوبی ڈو۔۔۔ سگھڑاپے میں پی ایچ ڈی کی حامل، یونیورسٹی / کالج میں بوجہ حسن و اخلاق و ذہانت نہایت ہردلعزیز، آلو بتاؤں سے لے کر زعفرانی قورمے تک اور دال ماش سے ہرن کے کبابوں تک ہر ڈش پر کامل عبور، سلائی کڑہائی میں ید طولی، ہمیشہ فاختئی، کتھئی، کیلوی، سیبی، سنگتری، آمی، آڑوی، بینگنی، بھنڈوی، کدوؤی رنگ کے ملبوسات زیب تن ، ہیرو کو آخری صفحے تک بھائی جان کہنا، اکیلے بیٹھ کر فلسفے میں سوچنا (اس کی مثالیں اگلے کسی مقالے میں بیان کی جائیں گی)، والدین کی اکلوتی اولاد، امیر ہونے کی صورت میں والدین زندہ، جبکہ غریب ہونے کی صورت میں صرف باپ جس نے ماں بن کر پالا۔۔۔ عبادت گذار، محلے میں میلاد شریف کی محافل میں بطور خاص بلوائی جانے والی، نام ایسا اچھوتا کہ پتہ نہ چلے کہ یہ کسی خاتون کا نام ہے یا کسی یونانی دوا، افریقی دریا یا انڈونیشیائی بلا کا۔۔۔ مثلا فارمینہ، جسورہ، زلائنہ وغیرہم۔۔۔

ہیرو: دراز قد (کم از کم چھ فٹ)، کھلتا ہوا گندمی رنگ، مردانہ وجاہت کا کامل نمونہ کہ عمران خان بھی جس کے سامنے پانی بھرے، گہرے بھورے ، ہلکے نیلے یا 'سن وے بلوری اکھ والیا' جیسے رنگ کی آنکھیں، زیادہ تر داڑھی مونچھ منڈا لیکن کبھی کبھی ہلکی مونچھیں، ورزشی جسم، بازوؤں کی پھڑکتی ہوئی مچھلیاں، خوش لباس، ہر کھیل کا ماہر (ہر کھیل کے معاملے میں دماغ زیادہ نہ دوڑائیں، حالات اچھے نہیں چل رہے!)، یونیورسٹی / کالج کا سب سے ذہین طالبعلم، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سر فہرست، ہیروئن غریب ہو تو دنیا کے سب سے امیر باپ کا بیٹا اور ہیروئن کے امیر ہونے کی صورت میں اس کائنات کا سب سے مفلوک الحال انسان، جس کی بیوہ ماں کپڑے سی کرگھر چلا رہی ہو (لیکن ملبوسات دونوں صورتوں میں یکساں ہی رہیں گے)، بَلا کا خوددار (یہ بَلا بھی پتہ نہیں کون سی بَلا ہوتی ہے، چڑیل،ڈائن، اینا کونڈا، جن، بھوت۔۔ اس پر بھی ایک تحقیقی مقالہ لکھنا پڑے گا!)، دوستوں کا ایک بڑا گروپ جس میں صرف ایک ہی خاص دوست جو ہر مشکل صورتحال کو آسان بنانے کے لئےہمیشہ کمربستہ، شریف ایسا کہ بابرہ شریف کو شرمائے، لڑکیوں میں مغرور کے نام سے مشہور جبکہ حقیقت میں نہایت منکسر المزاج، نام ایسا کہ کم ازکم پڑھنے والے نے زندگی میں پہلی بار سنا ہو (از قسم روحال، صارم، یارق، زلیب وغیرہ)، ہیروئن کے ملنے سے پہلے ہر لڑکی کو بہن سمجھنے والا، بلکہ اگر ہیروئن کزن وغیرہ نکل آئے تو اس کو بھی نکاح نامے پر دستخط کرنےسے پہلے بہن ہی سمجھنے والا، بہادر، روشن خیال، نماز روزے کا پابند۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔

مندربہ بالا خصوصیات پر مشتمل انسان ان ڈائجسٹوں میں ہیرو/ہیروئن کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں یہ ساری خصوصیات تلاش کرنے کے لئے کم ازکم پینتیس سال اور ڈیڑھ کروڑ افراد چاہییں۔۔۔