مانی

یادیں، مدّہم پڑ سکتی ہیں، محو ہوسکتی ہیں، وقت کی گرد انہیں چھپا سکتی ہے۔ پر جو منظر دل پر نقش ہوجائیں وہ کبھی مدّہم نہیں پڑتے، محو نہیں ہوتے، وقت کی گرد ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ وہ ہمیشہ ویسے ہی سفّاک، شفّاف اور واضح نظر آتے ہیں۔ جب نظر جھکائی، دیکھ لیا۔۔۔
مانی مجھ سے بہت چھوٹا تھا۔۔۔ کہیں تو سب بہن بھائیوں میں آخری نمبر۔ بہت کم عمری میں بھی کچھ الگ سا تھا ۔۔ بیمار ہوتا تو روتا نہیں تھا، تنگ نہیں کرتا تھا۔ چہرے پر نقّاہت سے پتہ چلتا کہ صاحب کی طبیعت برابر نہیں ہے۔ ہنس مُکھ ایسا کہ محلّے کے بچّے اسے باہر لے جانے کے لیے باری کا انتظار کرتے ۔ میری خالہ کہا کرتی تھیں کہ "اس کی آنکھیں ہنستی ہیں"۔۔۔۔خالہ کا اس سے بہت انس تھا۔۔۔ سادھ بیلے سے تقریبا روزانہ آیا کرتیں اور جس عمر میں بچہ ماں سے چند منٹ دور نہیں رہتا، وہ ان کے ساتھ ان کے گھر چلا جاتا اور سارا دن ان کے ساتھ رہتا۔
تھوڑا بڑا ہوا تو اس کی سب سے من پسند سرگرمی، موٹر سائیکل کی سیر تھی۔ محمّد پورہ کے بازار جسے "وڈّا بازار" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، ناشتہ لینے کے لیے جانا ہوتا تو مانی میاں موٹر سائیکل کے ساتھ پہلے سے کھڑے ہوتے کہ ہم بھی جائیں گے۔۔ حلوہ اور پوری ان کا من بھاتا کھاجا تھا۔ وڈّے بازار میں پاء شفیع کی حلوہ پوری سب سے مزے دار ہوتی تھی اور رش بھی خوب۔ مانی کے لیے دو پوریاں اور انکے درمیان حلوہ رکھ کے الگ باندھا جاتا کہ اسے ایسا ہی پسند تھا۔
جولائی کا مہینہ تھا اور دسویں کی گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ برسات کے موسم میں پھوڑے پھنسیاں نکل ہی آتی ہیں۔۔ اس کی کمر پر عین ریڑھ کی ہڈی کے اوپر ایک پھنسی سی نکلی۔۔ یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔۔ آم کھانے کے شوقین ہوں تو پھنسیاں تو نکل ہی آتی ہیں۔۔ کافی دن گزر گئے اور یہ پھنسی بڑھ کر پھوڑا بن گئی۔۔ مانی جو کبھی روتا نہیں تھا اور تنگ نہیں کرتا تھا وہ بے چین سا رہنے لگا۔۔۔ گھریلو ٹوٹکے آزمائے جاتے رہے کہ معمولی سا پھوڑا ہے، ٹھیک ہوجائے گا، لیکن نہیں ہوا۔ جولائی کی ایک گرم صبح ابّو اسے ساتھ لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ کہ چیک تو کروائیں کہ کیا مسئلہ ہے۔۔۔ اسی دن گیارہ بجے کے قریب، میں درمیان والے کمرے میں امّی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ کھڑکی سے دیکھا کہ برآمدے سے نکل کر تایا جی صحن میں آئے۔۔۔ مانی کو دونوں ہاتھوں پر اٹھائے۔۔۔ ابّو ان کے پیچھے تھے۔۔۔ مانی ایک کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔ یہ منظر ہے۔۔ جو نقش ہے۔۔۔۔
اس کے بعد کیا ہوا اس کا کچھ وضاحت سے مجھے علم نہیں۔۔۔۔ عصر کے بعد ہم نے اسے دفنا دیا۔ سخت گرمی اور حبس کا دن تھا۔ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے بھی میں سب سے پیچھے رہا۔۔۔ قبر میں کس نے اتارا، مجھے کچھ علم نہیں۔۔۔
وہ رات، خدا سے پہلے شکوے کی رات تھی۔ اس سے پہلے مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ میں سوچتا رہا کہ اتنی گرمی اسے لگتی تھی تو اب کیسے گڑھے میں اتنی مٹّی کے نیچے پڑا ہوگا۔۔ تو یہ سب کرکے خدا کو کیا ملا اور یہ چیز مجھے ایسی تکلیف دیتی تھی جس کا کوئی تجربہ مجھے اس سے پہلے نہیں تھا۔۔۔ میں گم آواز میں روتا رہا کہ مرد رویا نہیں کرتے ۔۔۔
اس بات کو بہت عرصہ گزرگیا ۔۔۔ مانو تو ایک لائف ٹائم گزر گیا ۔۔ لیکن وہ منظر آج بھی ویسا ہی شفّاف، سفّاک اور واضح ہے۔