خالدہ؛ کوئی نئیں تیرے نال دا!۔


چند ماہ قبل، جب ہم وطن مالوف کے سالانہ دورے پر تھے تو ہمیں چند ٹی وی ڈرامے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہرچند کہ ہمارا ارادہ ہرگز ایسا کوئی کام کرنے کا نہیں تھا لیکن تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ۔ سب سے پہلے تو ہم ان ڈراموں کے عنوانات سے نہایت متاثر ہوئے؛ مثال کے طور پر "خالدہ کی والدہ"، "نزاکت علی کی بچیاں" وغیرہ۔ یادداشت کمزور ہوجانے کے باعث شاید ناموں میں کچھ گڑ بڑ ہو لیکن مفہوم تقریبا یہی تھا۔ ایک اور قابل تعریف بات جو ہم نے نوٹ کی، وہ ہر ڈرامے میں ایک جیسے واقعات، حادثات،  رومانویات، بکواسیات وغیرہ کا ہونا تھا، ہماری رائے میں ڈرامہ پروڈیوسرز اپنے ناظرین کو کسی بھی قسم کی ذہنی کوفت سے بچانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں تاکہ کسی بھی ڈرامے کو کہیں سے بھی دیکھنا شروع کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ۔۔ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے ۔۔
ہماری بدبختی کہہ لیں کہ ڈراموں کے نام پر ہم نے جو کچھ دیکھ رکھا ہے اس میں اور کچھ ہو نہ ہو، کہانی نام کی ایک چیز ضرور ہوتی تھی۔ اور کہانی میں خرابی یہ ہوتی ہے کہ شروع ہونے کے بعد اس کو ختم بھی ہونا ہوتا ہے۔ جبکہ ان ڈراموں میں ایسا کوئی تکلف سرے سے برتا ہی نہیں جاتا۔ ان کی خاصیت ہے کہ یہ کہیں سے بھی شروع ہوسکتے ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوتے۔
 کھانے کی تراکیب والے پروگرامز، جن میں مختلف عمر کے خواتین و حضرات جناتی قسم کے کھانوں کی تراکیب رٹانے کی سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں،  اسی طرح ہر نسل اور کَو نسل   ڈرامے بنانے کی ایک  ہر فن مولا قسم کی  ترکیب ہم آ پ کے گوش گذار کرنا چاہتے ہیں ۔بیان کردہ  سارے اجزاء مناسب مقدار میں ڈالیں اور ایک سپر ہٹ ڈرامہ تیار۔ ان اجزاء میں سب سے اہم جز، کسی نہ کسی دوشیزہ ، چار شیزہ   ڈائجسٹ  وغیرہ کی مشہور مصنفین ہیں جن میں سے کسی ایک  کا نام بطورڈرامہ نویس، ضرور ی ہے ۔ اس کے بعد تین چار ہاٹ ماڈلز، شبیر جان، عدنان صدیقی، اسد، فیصل قریشی وغیرہ میں سے جو میسر ہو۔ بشری انصاری، عتیقہ اوڈھو (وائن فیم اور ہمارے لڑکپن کا کرش) وغیرہ میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی، ڈرامے کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ دبئی، ملائشیا، سنگاپور، برطانیہ، آئر لینڈ ، سکاٹ لینڈ وغیرہ کی لوکیشنز، بجٹ کے حساب سے جو سوٹ کرے۔ ان سارے اجزاء کو ایک فینسی ڈریس شو قسم کے پروگرام میں ڈال کر اچھی طرح ہلالیں، ساس بہو کا رنڈی رونا بھی مناسب مقدار میں ڈال لیں۔ دوسری عورت اور "مجھے سچی محبت نہیں ملی" وغیرہ بھی حسب ذائقہ شامل کرلیں۔ ڈرامے کے ٹریلرز اور پوسٹرز بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہیروئنز کے سائڈ پوز کو ایکسپوز کیا جائے اور یہ پوز صرف چہرے کا نہیں ہونا چاہیے!۔ اور ہاں سب سے اہم چیز، ڈرامے کا تھیم سانگ ہے۔ فراز جیسے کسی ٹین ایج شاعر کی کوئی "چیزی" سی غزل، راحت فتح علی یا سجاد علی سے انتہائی غمگین لے میں گوائیں اور ڈرامے کے ہر ٹریلر میں ناظرین کو پوری سنوائیں۔
جہاں تک ڈرامے کے نام کا تعلق ہے تو ہم نے کچھ نام سوچ رکھے  ہیں۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف۔
رفیق نوں پے گئی نویں  پھٹیک۔ سسرال میں دھمال۔ نذیر کی نور نظر۔ کم ظرف بشیراں۔ ہم دل والوں کو بہت کچھ ہوتا ہے صنم۔ دل پر پڑی چماٹ۔ حسینہ کا مہینہ اور لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ۔۔۔
خالدہ؛ کوئی نئیں تیرے نال دا! ۔