جندل، چلّی ملّی اور کمبلے

چیمپئینز ٹرافی کی فاتح ٹیم کے اعزاز میں وزیر اعظم ہاؤس میں تقریب جاری تھی۔وزیر اعظم بہت ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے مقتدر حلقوں پر پھبتیاں بھی کسیں اور خود کو نام نہاد وزیر اعظم قرار دیتے ہوئے بظاہر کرکٹ ٹیم لیکن اصل میں مقتدر حلقوں کو وزیر اعظم قرار دیا۔ انہوں نے ایک اور بہت اہم بات کہی کہ "اصل ہیروز آپ ہیں۔ ہم تو آپ کے پرستار ہیں"۔ آن دا فیس آف اٹ یہ ایک خراج تحسین ہے لیکن اس کے پیچھے ایک پوری کہانی ہے۔ آئیے اس کہانی کی پرتیں کھولتے ہیں۔
یہ 26 اپریل کی ایک سہانی دوپہرکا منظر ہے۔ مری کے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے لان میں دو افراد چہل قدمی کرتے ہوئے گفتگو کررہے ہیں۔ یہ وزیراعظم اور ہندستانی صنعتکار سجن جندل ہیں۔ مسٹر جندل جیب سے ایک گلابی کاغذ کا پرزہ نکال کر وزیر اعظم کی طرف بڑھاتے ہیں۔ وزیر اعظم ویسٹ کوٹ کی اوپری جیب سے قلم نکال کے اس پر کچھ لکھ کے واپس کردیتے ہیں۔ جندل اس کو ایک لحظہ دیکھتے ہیں اور پھر کاغذ کے اس ٹکڑے کو منہ میں ڈال کے ٹافی کی طرح چبا کے نگل جاتے ہیں۔ کاغذ کے اس پرزے پر " چیمپئینز ٹرافی" لکھا ہوا تھا!
اس کاغذ کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ یونیورسٹی آف تل ابیب کے ڈیپارٹمنٹ آف ایڈیبل سائنسز کے سربراہ ایریل بیگن نے ایک ایسا کاغذ ایجاد کیا جس کا ذائقہ مشہور زمانہ چلّی ملّی کینڈی کی طرح ہے۔اس کا نام ایڈیبل پیپر رکھا گیا۔ ساری دنیا کے جاسوس کہیں نہ کہیں پکڑے جاتے ہیں لیکن موساد کے ایجنٹ کبھی نہیں پکڑے جاتے۔ اس کی وجہ یہی کاغذ ہے۔ موساد کے ایجنٹ کسی بھی مشن پر تمام کمیونیکیشن اسی پیپر پر کرتے ہیں اور پیغام ریسیو کرنے کے بعد اس کو کھا لیتے ہیں اور کسی بھی قسم کا الیکٹرانک یا دستاویزی ثبوت نہیں چھوڑتے۔
سجن جندل کے خفیہ دورے کے متعلق ہر طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں۔ کوئی اسے ڈان لیکس سے جوڑتا رہا اور کوئی وزیر اعظم کے ہندوستانی میں موجود کروڑوں ڈالرز کے کاروبار کا ذکر کرتا رہا۔ لیکن اصل معاملہ بہت الگ اور گہرا تھا۔ ڈان لیکس میں مقتدر حلقوں کی جمہوریت سے وابستگی کے عزم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمرانوں نے ایک اور منصوبہ بنایا ۔ جس میں پانامہ کے معاملے کو بھی ڈان لیکس کی طرح جمہوریت کے خلاف سازش کا رنگ دینے کا فیصلہ ہوا۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود بھی آزاد و خودمختار عدلیہ کو جھکایا نہ جا سکا ۔ پانامہ کا فیصلہ نوشتۂ دیوار نظر آنے لگا تو اگلے منظر نامے کے لئے ایک گھناؤنی سازش رچائی گئی۔  سجن جندل کے ذریعے وزیر اعظم نے اپنے دوست اور سٹریٹجک پارٹنر نریندر مودی کو پیغام بھجوایا کہ کسی بھی طرح پاکستان کو چیمپئینز ٹرافی جتوانے کا بندوبست کریں ورنہ معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے ۔ مودی جی نے کرکٹ ایکسپرٹس کو بلا کے بریفنگ لی جس میں ان تمام ٹیموں کا اندازہ لگایا گیا جن سے پاکستان کا میچ ہوسکتا تھا۔ ان ایکسپرٹس میں کیرتی آزاد، شیو لال یادیو، آکاش چوپڑا اور مدن لعل شامل تھے۔ گروپ سٹیج کی ٹیموں سے رابطہ کیا گیا۔ ساؤتھ افریقہ نے صاف انکار کردیا۔ سیمی فائنل اور فائنل کی متوقع ٹیموں میں انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل تھیں۔ گوروں کی مزاحمت سے نبٹنے کے لئے مودی جی نے آخرکار اسرائیلی وزیر اعظم سے رابطہ کیا اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی۔  یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کا اصل حکمران اسرائیل ہے۔ ساری دنیا کا میڈیا، بزنس، مالیاتی ادارے سب کو کنٹرول کرنے والے یہودی ہیں۔ جہاں انہیں اپنے مفادات خطرے میں نظر آتے ہیں وہاں یہ پوری قوت سے ضرب لگاتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے متعلقہ ممالک کی حکومتوں سے رابطہ کرکے انہیں سخت الفاظ میں پیغام دیا کہ اگر ان کی ٹیم پاکستان سے نہ ہاری تو انہیں اس کی ناقابل تلافی قیمت چکانی پڑے گی۔
ہنگری کے شہر بوڈاپسٹ میں ہونے والی ایک پارٹی میں سجن جندل مدہوش ہو کر اس منصوبے بارے بول پڑے۔ روس کے مشہور اخبار ماسکوپوسٹ کے سٹار رپورٹر نیکولائی کرامازوف تک یہ خبر پہنچی  توانہوں نے آن لائن ایڈیشن میں یہ خبر چھاپ دی۔ دہلی سے تل ابیب تک تھرتھلی مچ گئی۔ اسی وقت کرامازوف کی بیٹی کو ماسکو سے اغوا کرلیا گیا اور خبر ہٹانے کی شرط پر اس کو رہا کیا گیا۔ یہ خبر فورا ہٹا لی گئی اور اگلے دن پرنٹ ایڈیشن میں بھی شامل نہیں کی گئی۔ اس خبر کے سکرین شاٹس انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں۔
چیمپئینز ٹرافی شروع ہوئی۔ پہلے ہی میچ میں ہندوستان نے پاکستان کو بری طرح ہرادیا۔ رینکنگ اور موجودہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ غیر متوقع نہیں تھا۔ سابقہ کرکٹرز نے کرکٹ بورڈ پر کڑی تنقید کی ۔ عمران خان نے اپنی ٹوئٹ  میں نواز شریف اور نجم سیٹھی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں پاکستانی کرکٹ کو تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ یہود و ہنود کے پلان کے عین مطابق تھا۔ پاکستان کی اوسط سے کم درجے کی بالنگ نے جنوبی افریقن بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑا دئیے۔ آملہ، ڈوپلیسی، ڈی کاک، ڈی ویلئیرز جیسے بلّے بازوں کو اڑا کے رکھ دیا۔ سری لنکا کے خلاف میچ میں جیسے سرفراز کے کیچز چھوڑے گئے ان پر کرکٹ ماہرین اب تک حیران ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں بین سٹوکس جیسا کوالٹی آل راؤنڈر ایک بھی باؤنڈری نہ لگا سکا۔ جبکہ اسی وکٹ پر اظہر علی چوکے پہ چوکے لگاتے رہے۔ حتّی کہ حفیظ جیسے کھلاڑی بھی انگلینڈ کے ورلڈ کلاس بالرز کو کلب لیول کے بالرز کی طرح ٹریٹ کررہے تھے۔ یہ سب الارمنگ علامات تھیں لیکن کوئی بھی مشہور کرکٹ تجزیہ نگار اس کی تفصیل میں نہیں گیا۔ سب پاکستانی ٹیم کے فائٹ بیک کی توصیف کرتے رہے۔  اب فائنل درپیش تھا!
پچھلے 25 سال میں کرکٹ کی دنیا میں میچ فکسنگ اور جوئے کا کینسر پھیلا ہوا ہے۔ بہت کم کھلاڑی ایسے ہیں جو اس میں سے کلین ہوکر سامنے آئے ہیں۔ انیل کمبلے ان میں سے ایک ہیں۔ اظہر الدین، جدیجہ، سچن ٹنڈولکر، دھونی، رائنا جیسے سٹارز نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے لیکن کمبلے نے ہمیشہ صاف کرکٹ کھیلی۔ انیل کمبلے کو کوچ بناتے وقت بھی ٹیم میں ان کی مخالفت موجود تھی۔ ان کے ہوتے ہوئے کھیل میں ہیرا پھیری ممکن نہیں تھی۔  چیمپئینز ٹرافی کے فائنل سے قبل میٹنگ میں جب مودی جی کا پیغام پڑھ کے سنایا گیا تو کمبلے نے اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا انہوں نے ساری زندگی فئیر گیم کھیلی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی فکسنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو سخت وارننگ دی کہ اگر انہوں نے جان بوجھ کر خراب کھیل پیش کیا تو وہ اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ صورتحال بگڑتی دیکھ کر دھونی نے مودی جی سے رابطہ کیا اور انہیں کمبلے کے موقف سے آگاہ کیا۔ مودی جی نے اسی وقت ٹیم میٹنگ میں کال کی ۔ فون کا سپیکر آن تھا۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں ٹیم کو حکم دیا کہ کل ہر صورت فائنل ہارنا ہے۔ اگر کسی کو یہ منظور نہیں تو وہ ٹیم چھوڑ کر جا سکتا ہے۔ کمبلے نے اسی وقت اپنا استعفی لکھا اور ٹیم مینجمنٹ کے حوالے کرکے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
فائنل کا آغاز بھی سنسنی خیز تھا۔ بمراکی گیند پر فخر زمان آؤٹ ہوئے تو تھرڈ امپائر نے نوبال قرار دے دی۔ سکرین پر چلتے پھرتے ڈائنو سارز دکھائے جاسکتے ہیں تو ایک سفید لائن کو دو تین انچ آگے پیچھے کرنے میں کیا مشکل ہوسکتی ہے۔ پاکستانی اوپنرز کو یقین دلایا گیا کہ پہلے 20 اوورز میں انہیں کسی بھی طرح آؤٹ قرار نہیں دیا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اظہر علی بھی کھل کر کھیلے۔ سب سے دلچسپ چیز حفیظ کے چھکے چوکے تھے۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ حفیظ نے سارے کیرئیر میں کبھی ایسے بیٹنگ نہیں کی۔ ہندوستانی بالرز کو باقاعدہ ہدایات دی گئی تھیں کہ ہر پاکستان بلے باز کے سٹرانگ پوائنٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بالنگ کریں تاکہ وہ اپنے فیورٹ شاٹس آزادی سے کھیل سکیں۔ ہندوستانی بیٹنگ کا پاور ہاؤس بھی پاکستانی ایوریج بالنگ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ یووراج سنگھ نے ہاتھ کھولنے کی کوشش کی تو انہیں ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا گیا۔ پانڈیا کو جدیجہ نے رن آؤٹ کرا  یا۔ بالآخر پاکستان نے چیمپئینز ٹرافی جیت لی۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ 92 کا ورلڈ کپ  ملک و قوم کی یکجہتی کی واحد وجہ ہے۔ جس نسل کے والدین کی 92 میں شادی بھی نہیں ہوئی تھی وہ بھی اس ورلڈ کپ فتح کے دیوانے ہیں۔ ملک و قوم کو متحد رکھنے والی اس علامت پر ضرب لگانے کے لئے چیمپئینز ٹرافی جیتنے کی سازش کی گئی۔ 92  کی طرح شروع میں بری طرح میچ ہارا گیا۔ پھر اس کے بعد فائٹ بیک کا ڈرامہ سٹیج کیا گیا  اور بالآخر فائنل جیت کے اپنے تئیں ورلڈ چیمپئینز  بن گئے۔ نجم سیٹھی اور کرکٹ بورڈ کی تعریفیں ہونے لگیں۔ یہ سب تیاریاں متوقع پانامہ فیصلے کے بعد ہونے والے انتخابات کی ہیں۔ تاکہ کہا جاسکے کہ ورلڈ کپ تو سرفراز نے بھی جیتا اور ہمارے دور میں جیتا ۔ اس سازش  سے ایک دفعہ پھر عمران خان کا رستہ کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے  لیکن سازشی ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر ناکام و نامراد ہوں گے۔

ورلڈ کپ کا اصلی فاتح صرف ایک کپتان ہے۔ ہمارا کپتان۔۔ عمران خان

متوازی تاریخ

انیس سو چھہتر  کے آخری دنوں میں جب وزیر اعظم بھٹو نے انتخابات کا اعلان کیا تو یہ اپوزیشن کے لئے سرپرائز تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ۔ متحدہ اپوزیشن نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ ایک پُرتشدد تحریک چلی۔ بالآخر حکومت اور اپوزیشن نے مذاکرات کے ذریعے معاملہ طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2 جولائی 1977 کو سمجھوتہ ہوگیا اور  وزیر اعظم بھٹو نے اکتوبر 1977میں دوبارہ انتخابات کا اعلان کردیا۔ ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ، عبدالولی خان، پروفیسر غفور، غوث بخش بزنجو، شاہ احمد نورانی اور اصغر خان بھی موجود تھے۔ انتخابات کے لئے نگران حکومتوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ اپوزیشن اور حکومت کو ان میں برابر نمائندگی دی گئی تھی۔
انتخابات پرامن اور شفاف طریق سے ہوئے۔ مرکز میں پی پی پی نے سادہ اکثریت حاصل کی جبکہ بلوچستان اور سرحد میں متحدہ اپوزیشن نے اکثریت حاصل کرکے حکومتیں تشکیل دیں۔ سندھ اور پنجاب میں بھی پی پی پی کامیاب ہوئی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ پی پی پی کے امیدواروں کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔  یہ بھٹو کا دوبارہ سے پارٹی کے بنیادی منشور کی طرف رجوع تھا۔ اس سے ان کی سیٹیں تو کم ہوئیں لیکن عام آدمی کا بھٹو پر دوبارہ سے اعتماد بحال ہوا۔  معراج محمد خان سندھ  اور حنیف رامے پنجاب کے وزیر اعلی بنے۔
نومبر 1978 میں بھٹو نے زرعی اصلاحات  کا اعلان کیا۔ اس میں انہیں نیپ، جے یو آئی، تحریک استقلال کی حمایت حاصل تھی۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (قیوم) اور مسلم لیگ (دولتانہ) نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن ختم کرکے سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ صوبائی خودمختاری کے لئے آئینی ترمیم کی گئی ۔ خارجہ، دفاع، مواصلات اور خزانہ کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کردئیے گئے۔ فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو صوبہ سرحد میں ضم کردیا گیا ۔ ستمبر 78 میں بلدیاتی انتخابات بھی ہوئے جن کا نتیجہ کم و بیش عام انتخابات جیسا ہی تھا۔
دسمبر 79میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے اس جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سوویت فوجیں افغانستان سے نکل جائیں اور افغانی عوام کی خواہشات کے مطابق ان کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر اصغر خان نے حکومتی موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے پیشکش کی کہ بحران کے خاتمے کے لئے وہ اور ولی خان ماسکو اور کابل کا دورہ کرنے کو تیار ہیں۔ وزیر اعظم بھٹو نے اس بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔صدر ریگن نے انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم بھٹو کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ پاکستان کو پیشکش کی گئی کہ اگر وہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں تو انہیں بھرپورفوجی اور معاشی امداد دی جائے گی۔وزیر اعظم نے اس قضیے میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا البتہ انہوں نے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں ہر قسم کی مدد کی یقین دھانی کرائی۔
افغان پناہ گزینوں کے لئے سرحدی علاقوں میں کیمپس بنائے گئے۔ ان کی رجسٹریشن کی گئی اور آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی۔ مفتی محمود اور ولی خان افغانستان کے متعلقہ فریقوں کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اگست 1982 میں کابل حکومت اور افغان مزاحمت کاروں کے مابین پہلے باضابطہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔  اکتوبر 82 میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اس دفعہ پی پی پی کے مقابل متحدہ  اپوزیشن نہیں تھی۔ نیپ اور جے یو آئی نے اتحاد کرکے الیکشن لڑا۔ جبکہ اصغر خان کی تحریک استقلال نے سولو فلائٹ کی۔ جماعت اسلامی نے  مولانا مودودی کی وفات کے بعد سیاست اور انتخابات  میں حصہ لینے کی پالیسی سے رجوع کیا اور دعوتی کام کی طرف واپس چلی گئی۔
پنجاب کی حد تک پی پی پی اور تحریک استقلال میں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ اصغر خان کا کرشمہ شہری علاقوں میں نظر آیا جبکہ دیہی علاقوں میں بھٹو کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ پی پی پی بڑی مشکل سے سادہ اکثریت حاصل کرسکی۔ سندھ میں پی پی پی، جبکہ سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔نئی اسمبلی نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کی متفقہ قراردار منظور کی اور اس میں ذمہ دار ٹھہرائے گئے لوگوں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی سفارش کی۔ 16دسمبر 1983 کو سقوطِ ڈھاکہ کے مرکزی کرداروں کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا۔ اس سے ایک ماہ قبل افغانستان کے متحارب فریقین امن معاہدہ کرچکے تھے۔ جس کے تحت ایک نگران حکومت قائم کی گئی جس میں افغانستان کے تمام نسلی و لسانی گروپس کو نمائندگی دی گئی۔ اس حکومت کے تحت ڈیڑھ سال بعد عام انتخابات ہونے طے پائے۔ افغان پناہ گزینوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل بھی شروع ہوا۔ اگلے چھ ماہ میں تمام افغان پناہ گزین واپس جاچکے تھے۔
زرعی اصلاحات پر عملدرآمد میں بہت سی رکاوٹیں آئیں مگر  وزیر اعظم بھٹو نے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جدیدکاشتکاری کے لئے زمین کے نئے مالکان کو تربیت دی گئی۔ بلاسود زرعی قرضے اور سستی بجلی فراہم کی گئی۔ مارچ 1984 میں چاروں صوبائی حکومتوں کی منظوری سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔اس کا سنگِ بنیاد عبدالولی خان نے رکھا۔
16 دسمبر 1985 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا۔ وزیر اعظم بھٹو نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے  کہا کہ پاکستان کبھی کشمیر سے دستبردار نہیں ہوگا اور نہ ہی کشمیریوں کو بھولے گا۔ یہ تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہےجسے آج یا کل مکمل ہونا ہے۔ خطّے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے یو این اور عالمی طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ مذاکرات  کے پہلے دور کا آغاز 4 اپریل 1986 کو مری میں ہوا۔ ڈیڑھ سال کی بات چیت کے بعد پاکستان اور ہندوستان ابتدائی سمجھوتے پر رضامند ہوگئے جس کے تحت کشمیر کی سرحد کھول دی گئی اور دونوں اطراف کے کشمیریوں کو آنے جانے کی آزادی دے دی گئی۔ عام شہریوں کے لئے بھی ویزے کی پابندیاں نرم کرکے تقریبا ختم کردی گئیں۔ دو طرفہ تجارت کے فروغ کا بھی فیصلہ ہوا۔
اس تاریخ کو یہیں چھوڑتے ہیں اور 5 جولائی 1977 کو یاد کرتے ہیں!