دسمبری دُکھڑے کا علاج

پار سال ہم نے دسمبر اور اس کے انواع و اقسام کے دُکھڑوں پر کماحقہ روشنی وغیرہ ڈالی تھی۔ اب ہم ان دُکھڑوں کے شافی و کافی علاج کے ساتھ حاضر ہیں مبادا یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم اردو کالم نگاروں کی طرح، صرف مسائل کا پرچار کرتے ہیں اور ان کا حل ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ خیر، ایسا سمجھ بھی لیا جائے تو ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں۔ آپ کا جو دل چاہے سمجھتے رہیں۔۔۔
دسمبر میں وہ خواتین و حضرات بھی دردیلی شاعری کا پرچار شروع کردیتے ہیں جنہیں ۔۔۔ لپّے آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری۔۔ بھی، کبھی یاد نہیں ہوسکی تھی۔ اس کا آسان علاج  ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے سے ہی انور مسعود، دلاور فگار، ضمیر جعفری ، خالد مسعود اور اگر ہمّت ہو تو استاد امام دین گجراتی کی شاعری کا کثرت سے مطالعہ کریں۔ شادی شدہ خواتین و حضرات اس کے ساتھ ساتھ کثرت جماع پر زور رکھیں۔ یہ بھی مفید ہوتا ہے۔
جن خواتین کو اپنے نہ ملنے والے سجّن پیاروں کی یاد بے چین کرتی ہے اور وہ ان کی یاد میں دسمبر شروع ہوتے ہی آٹھ آٹھ آنسو بہانا شروع کردیتی ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جولائی کی کسی اتواری ملتانی دوپہر کا تصّور ذہن میں لائیں۔ صبح سات بجے سے بجلی بند ہو۔ آپ کا محبوب رات کو کمپلسری ویک اینڈ بھی سیلیبریٹ کرچکا ہو۔۔ اور اس وقت تہہ بند، شلوار یا برمودا شارٹس پہن کے صحن میں بیٹھا ہو۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی تک "غسل" بھی نہ کیا ہو۔۔ دانت صاف کرنے کی عادت اس کو عادتِ بد لگتی ہو۔۔ پانچ فٹ دور سے اس کے منہ کی سگرٹانہ مہک مخاطب کو عطر بیز کرتی ہو۔۔۔کُلّی کرکے اس نے اس گرمی میں بھی، صبح دو پراٹھوں کے ساتھ چار انڈوں کا آملیٹ کھایا ہو اور اب ایک ہاتھ اپنی بنیان میں ڈال کے پیٹ کھجا رہا ہو اور دوسرے ہاتھ میں "گولڈ لیف" سلگا کے اس کے کش لگا رہا ہو۔۔ عاشقی کی کامیابی کے جوش میں پہلے تین سالوں میں جو تین ماڈل مارکیٹ کردئیے گئے تھے، وہ گرمی کی وجہ سے مسلسل اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہوں اور آپ کے یہ کہنے پر کہ۔۔۔ ذرا زوماریہ نوں چُوٹا ای دے دیو۔۔ پر وہ گھُور کے آپ کی طرف دیکھے اور کہے۔۔۔ میں تیرے پیو دا نوکر آں؟۔۔۔
اس سارے سنیریو کو ایک دفعہ تصوّر میں لانے پر اس وقت جو دہُوش میلی بنیان اور الٹی شلوار پہنے، آپ کے ساتھ لیٹا ہوا خرّاٹے مار رہا ہے، آپ کو اس پر بے اختیار پیار آسکتا ہے۔۔ لیکن اس پیار کو دل میں ہی رکھیں اور اسے عملی طور پر ظاہر کرنے سے گریز کریں۔ سردی کافی ہے اور گیس کی لوڈ شیڈنگ چل رہی ہے اور ٹھنڈے پانی سے نہانا کافی مشکل ہوتا ہے۔۔۔
ان مرد احباب کے لیے جنہیں غمِ جاناں ہے اور وہ اس کو شاعری کے زور پر غم دوراں بنانے پر تُلے ہیں، مشورہ ہے کہ وہ ان محترمہ کا تصوّر کریں جن کے بغیر ان کو لگتاہے کہ ان کی زندگی ادھُوری ہے۔۔ شادی کے بعد ان کو پتہ لگتا کہ خاتون کو چٹپٹی چیزیں کھانے کا شوق ہے، بنا بریں اوائل عمری سے ہی گیس ٹربل ان کی سہیلی ہے۔ اس صورت میں آپ کی آدھی تنخواہ تو ائیر فریشنر پر ہی خرچ ہوجاتی۔ اس کے علاوہ جتنا وقت وہ ہار سنگھار اور میک اپ پر خرچ کرتی ہیں، اتنی دیر آپ بھی میک اپ کریں تو ونیزہ احمد تو لگ ہی سکتے ہیں۔ غُبارِ عاشقی کی وجہ سے ہونے والی مسلسل زچگیوں کے باعث خاتون دو تین سال میں ہی پیچھے سے مُسرّت شاہین اور سامنے سے عابدہ پروین لگنے لگی ہیں۔ مرے پر سو دُرّے۔۔ آپ کے بیڈروم میں شیرخواروں کے بول کی مہک ایسی رچ بس گئی ہے کہ آپ کی سونگھنے کی حِس ہی مردہ ہوچکی ہے۔۔ اور خاتون کو ان سب چیزوں کا احساس دلانے پر وہ آپ کو شادی سے پہلے آپ کی احمقانہ گفتگو کے ایسے ایسے طعنے دینا شروع کردیتی ہیں کہ آپ کا اعتبار ہی دنیا، شادی، عورت سے اٹھ جاتا ہے اور آپ برہمچاری ہو کر اس دنیا سے بن باس لینے کا سوچنے لگتے ہیں۔
یہ سب تصوّر میں لانے کے بعد آپ کو اپنی گہری سانولی زوجہ، جو اس وقت مُنّے کو سُلا کر عمیرہ احمد کے ناول کی تازہ قسط پڑھ رہی ہیں، پر شدید ہارمونک پیار آئے گا۔۔۔ اور چاہے دسمبر یا ہو یا گیس کی لوڈ شیڈنگ۔۔ آپ نے باز تو آنا نہیں۔۔۔