فیس بکی و ٹوئٹری مسائل کا حل

پرنس چنگڑ نے جڑانوالہ سے پوچھا ہے کہ زنانہ آئی ڈیاں ان کی فرینڈ ریکویسٹ قبول نہیں کرتیں۔ حالانکہ انہوں نے شاہد کپور کے دھڑ پر اپنا سر فوٹوشاپڈ کرکے ڈی پی بھی لگائی ہوئی ہے۔
ڈئیر چنگڑ، آپ کو چاہیے کہ سب سے پہلے تو اپنا نِک بدل کے "سیڈ بِلاّ" یا "لون کھوتا" رکھیں۔ اس کے بعد عطاءاللہ کے دھڑ پر ہنس راج ہنس کا سر فٹ کرکے ڈی پی بنائیں۔ لندنی سکحوں کے دلدوز اور روح فرسا گانوں کے لنک اور باتصویر ٹرکانہ شاعری شئیر کرتے رہیں۔ انشاءاللہ بچیوں کا دل موم ہوجائے گا۔

 ڈس ہارٹ حسینہ نے بدّوملہی سے لکھا ہے کہ ٹوئٹر پر ان کے فالوورز تو بڑھتے جارہے ہیں لیکن کوئی ڈی ایم پر ان سے فون نمبروغیرہ  نہیں مانگتا۔ اس پر انہوں نے اپنی رنجوری کی حالت تفصیل سے بیان کی ہے۔ جس میں کچھ ناگفتہ بہ بیانات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی ڈی پی کی تفصیل نہیں لکھی ۔تمام  احباب سے گذارش ہے کہ ازرہ کرم، پوری تفصیل بھیجا کریں جس میں ڈی پی کی تفصیل، اکاونٹ کب شروع ہوا، بچیوں/بچوں سے  ڈی ایمی اور فیس بکی چیٹ کی مکمل تفصیلات شامل ہوں۔ اس کے بعد ہی ہم کوئی تیر بہدف نسخہ تجویز کرسکیں گے۔
 بہرحال ڈس ہارٹ بی بی کو ہمارا مشورہ ہے کہ ڈس ہارٹ کو بگ ہارٹ سے بدل لیں اور سنی لیون کی ڈی پی لگالیں۔ رونقیں لگ جائیں گی۔

ہمارے ایک کرم فرما  لال بیگ ، خلیج عرب کے ایک ملک  سے لکھتے ہیں کہ ان کا مسئلہ نہایت کرانک ہے۔ ٹوئٹر پر جیسے ہی وہ کسی بچی کے پیچھے لگتے ہیں ، تو اچانک انکا دل بچی سے ہٹ کے ان کے کسی اور مردانہ فالوور میں اٹک جاتا ہے۔ انہوں نے اس کی مابعدالطبیعاتی تشریح پوچھی ہے اور یہ بھی دریافتا ہے کہ کیا ان کی صنفی ترجیحات تو نہیں بدل رہیں۔
  ہم  بیگ صاحب سے گذارش کریں گے کہ سب سے پہلے تو اپنے ڈومیسائل کی ایک کاپی ارسال کریں اس کے بعد ہی ان کے مسئلے بارے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صنفی ترجیحات چونکہ ہماری سپیشئلٹی نہیں ہے لہذا ہم انہیں  ایک ٹی وی شو  "ہٹ اینڈ مس" ریکمنڈ کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان کے مسئلے کے آخر الذکر حصے کا حل انہیں ضرور اس میں سے مل جائے گا۔

یورپ کی اساطیری سرزمین  سے ایک بھائی نے ہم سے پوچھا ہے کہ وہ لاگ ان ہوتے ہی بچیوں کے قدموں  میں لوٹنے لگتے ہیں۔ حالانکہ حاشا و کلا ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا۔ یہ بے اختیاری کی کیفیت ان پر اچانک طاری ہوجاتی ہے جس کی وجہ وہ دریافت کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں ان کے پیغام سے محسوس ہوا ہے کہ انہیں صرف وجہ دریافت کرنے سے ہی دلچسپی ہے ، ناکہ اس کے حل میں۔  چونکہ ہم صرف ٹوئٹری اور فیس بکی امور کے ماہر ہیں او رنفسیاتی و تصوفی مسائل سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں لہذا اس بارے ہمارا کچھ کہنا مناسب نہیں ۔ ۔۔۔ اوہ ۔۔۔وٹ دا ہیل۔۔ ۔ حامد میر، فزکس پر پروگرام کرسکتے ہیں تو ہمیں کیا پِت نکلی ہوئی ہے جو ہم ہر کام میں ٹانگ نہیں اڑا سکتے؟ تو پیارے بھائی،  آپ نے جو اپنا تفصیلی حال بیان کیا ہے اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ ٹھرک اور پارسائی دونوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ لہذا آپ کے ساتھ یہ ذلالت تب تک چلے گی جب تک ان دونوں میں سے کسی ایک سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتے۔ مزید تفصیلات جاننے کے لیے ہمارے بلاگ پر لگے ہوئے اشتہارات پر سوکلک کریں  تاکہ آپ کو "رہنمائے ٹھرکیاں  قدیم و جدید" کا  "ای" نسخہ ارسال کیا جاسکے۔

ایک دوست نے اپنا نام اور نِک گمنام رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے ایک گھمبیر مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئٹر اور فیس بک پر صحافتی سلیبرٹیز کے اکاونٹ مینج کرنے والے مظلوموں کی آوا زہیں۔ چوّلیں ہمارے باس مارتے ہیں اور گالیاں ہمیں سننی پڑتی ہیں۔ اور کچھ افلاطون کے نانے ہم سے ایسے سوال پوچھتے ہیں جن کا جواب ہم تو کیا  ہمارے باسز کے باپ بھی نہیں دے سکتے۔ اس سے ہماری جذباتی اور روحانی اور نفسیاتی حالت نہایت ناگفتہ بہ اور دگرگوں ہوتی جارہی ہے۔ ہمیں اس کا کوئی حل بتائیں۔
پیارے بھائی، کوئی ہور نوکری لبھ لؤو!۔
جاتے جاتے ہم اپنے ٹوئٹری و فیس بکی احباب سے ایک دردمندانہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے لیے ، دیکھا دیکھی ، شاعری پیسٹ کرنا بند کردیں۔  شعر کی سدّھ پُٹھ کا پتہ نہ ہو تو اس میں ہاتھ نہیں دیتے۔اس بارے ،  کہنا تو ہم اور بھی بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن ہمارے کچھ  دوستوں نے بامقصد بلاگنگ کی جو پابندی ہم پر عائد کی ہوئی ہے،  اس کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ لہذا ۔۔۔
آہو!۔۔