کُنڈلی

پنڈت جی  سُرور اور مدہوشی کی درمیانی حالت میں تھے۔  اگرچہ ہیں تو وہ یوپی کے ٹھاکر اورمشہور  غازی آباد ڈسٹرکٹ سے ان کا تعلق ہے لیکن ہم انہیں پنڈت جی ہی کہتے ہیں  اور بظاہر انہیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں بلکہ ہمیں تو لگتا ہے کہ وہ اندر ہی اندر خوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔ شاید ایک درجہ ترقی پانا سبھی کو  بھلالگتا ہے۔ ان سے ہماری ملاقات ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہماری چوپال یا ڈیرا کہہ لیں، جہاں ہم روزانہ شام سے رات گئے تک پائے جاتے ہیں، وہاں بھانت بھانت کے لوگ آتے ہیں۔ پنڈت جی سے ملاقات بھی وہیں ہوئی تھی۔ اردو بولنے والوں سے ہماری دائمی انسیت کی وجہ سے ان سے گپ شپ شروع ہوئی۔ پنڈت جی بھی بقول یوسفی علم دریاؤ سے کم نہیں ہیں۔پیشے کے لحاظ سے تو اکاؤنٹنٹ ہیں  لیکن  گنی بساؤ کی معاشی حالت سے امیتابھ بچن کے کیرئیر کے اتار چڑھاؤ تک اس عالم فانی کی کوئی خبر ان سے بچ کر نہیں جاسکتی۔ الیکٹرانک چپ بنانے سے پیزا بنانے تک کے عمل انہیں ازبر ہیں۔ سٹاک مارکیٹ اور میوزک مارکیٹ دونوں  پر ان کی نظر گہری ہے۔ کب کس کے سٹاک گریں گے اور کون کہاں سُر سے گرا، ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا یا کم ازکم وہ یہی سمجھتے ہیں۔ کرکٹ کے بے حد شوقین اور سیاست کے اس سے بھی زیادہ۔ پاکستانی چینلز کے ٹاک شوز پر فریفتہ ہیں اور کیوں نہ ہوں اس سے اچھی انٹرٹینمنٹ  برصغیر میں کون فراہم کررہا ہے؟ بڑے بڑے لوگوں کے قصے ایسے سناتے ہیں  کہ سماں باندھ دیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں یوپی کے الیکشن میں اکلیش یادیو کی جیت پر ان کو دیئے گئے سیاسی مشوروں کی کہانی سُنی اور دل میں یہ سوچا کہ کہیں ہمارے پیارے کپتان کے مشیر بھی  پنڈت جی ہی نہ ہوں!۔
ممبئی کے انڈر ورلڈ  کی ہوشربا ان کہی کہانیاں ہوں یا دبئی  میں بھائی لوگوں کے کارنامے، ان کو سب علم ہے۔داؤد بھائی کو ممبئی سے کیوں جانا پڑا، چھوٹاشکیل ان کا نمبر دو کیوں ہے، رام گوپال ورما کی فلموں میں پیسہ کون لگاتا ہے اور اتنی فلاپ فلموں کے باوجود وہ فلموں پہ فلمیں کیسے بناتا چلا جاتا ہے۔   یہ سب باتیں اور اس پر ان کا انداز بیان! وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔۔
ان سب باتوں کے علاوہ جس چیز کا انہیں جنون کی حد تک شوق ہے، وہ پامسٹری ہے۔ عجیب و غریب قسم کی جنّاتی اصطلاحیں،   جن میں ستارے، ان کی چالیں اور ان کے اثرات  کا ذکر ہوتا ہے، استعمال کرکے وہ یہ علم ہمیں گھوٹ کے پلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم ٹحہرے سدا کے نالائق۔ سیکھنا تو دورہمیں آج تک اس کی "سِدّھ پُٹھ " کا ہی پتہ نہ چل سکا۔ وہ اکثر ہم سے فرمائش کرتے تھے کہ اپنا ہاتھ دکھائیے لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ہم نے انہیں ہاتھ دکھایا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کےقابل نہیں رہیں گے۔ بہرحال  اس دن۔۔
پنڈت جی  سُرور اور مدہوشی کی درمیانی حالت میں تھے!
اور ہم سے باصرار تقاضہ کررہے تھے کہ آج تو ہم آپ کا ہاتھ "جرور" دیکھیں گے اور آپ کی کُنڈلی بنا کے ہی دم لیں گے۔ہم نے انہیں بُہتیرا سمجھایا کہ بخدا ہم سانپ یاناگ قسم کی مخلوق نہیں  ہیں کہ ہماری کُنڈلی بن سکے۔لیکن  پنڈت جی بھی اپنی ہی طرز کے ایک کائیاں ہیں ، اس بات کو ہنسی میں اڑاتے ہوئے اپنی بات پر اڑے رہے ۔ شومئی قسمت سے ہم بھی اس دن فیس بکی چیٹ پرایک دوست سے بھیجا چٹوا رہے تھے لہذا شدید "خوشگوار" موڈ میں تھے۔ ہم نے جھٹ اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔ پنڈت جی کی آنکھوں کی لالی اور چہرے کی چمک مزید  بڑھ گئی۔ وہ نہایت انہماک سے ہمارے ہاتھ کی وینگی چِبّی لکیریں دیکھنے لگے ۔ وقفے وقفے سے ہمم ہمم کی معنی خیز آوازیں بھی ہمارے کانوں تک پہنچنے لگیں۔ہمیں اپنے وہ سارے کالے کرتوت یاد آنے لگے جو ہم کرچکے تھے  اور اب کچھ ہی دیر میں دنیا کے سامنے آنے والے تھے۔  پنڈت جی نے کہیں سے ایک قلم اور کاغذبھی  برآمد کرلیا اور  مستطیلیں اور دائرے سے بھی بنانے لگے۔ تقریبا بیس پچیس منٹ کے بعد کُنڈلی کو مکمل کرکے انہوں نے ایک  استادانہ نظر ہم پر ڈالی اور سگریٹ سلگا کر باہر نکل گئے ۔ شاید انہیں کُنڈلی سے اندازہ ہوچکا تھا کہ ہمیں سگریٹ کے دھویں سے کوئی زیادہ محبت نہیں ہے۔ اپنے پھیپھڑے سگریٹ کے صحت بخش دھویں سے تازہ کرنے کے بعد ان کی واپسی ہوئی اور انہوں نے ہمارا کچا چٹھا کھولنا شروع کیا جس کو سننے کے لیے سب بے تاب تھے۔ ان کی بتائی گئی زیادہ تر باتیں ایسی تھیں، جو کوئی بھی اوسط سے زیادہ قوت مشاہدہ رکھنے والا شخص اپنے حلقہ احباب بارے بتا سکتا ہے۔ انسانوں کی اکثریت اپنے رویوں، چال ڈھال،  پہناوے، آداب محفل  وغیرہ  سے اپنی ماضی کی چلتی پھرتی تصویر ہوتی ہے۔ دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔ بہرحال ایک دو باتیں ایسی تھیں جن کو سن کر ہم بھی چونکے۔ لیکن ہمارے اندر جو ایک مُنکر بیٹھا ہے اس نے ہمیں دَبکا مار کر چُپ کرادیا۔ پنڈت جی نے ہمیں مستقبل کی مشکلات دور کرنے بارے چند ایک ٹوٹکے بھی ارزانی کیے جن میں کچھ مخصوص پتھروں کی انگوٹھیاں وغیرہ پہننا بھی شامل تھا۔ ہم کیسے ان کو بتاتے کہ ہم نے تو کبھی ماہی کے دئیے ہوئے چھلّے نہیں پہنے تو یہ انگوٹھیاں کیسے پہنیں گے۔ ہمارا نامہ اعمال جسے وہ کُنڈلی کا نام دے رہے تھے،  تہہ کرکے انہوں نے جیب میں رکھا اور ہمیں مطلع کرنا ضروری سمجھا کہ یہ کُنڈلی وہ" بڑے بھیّا" کو بھیجیں گے کیونکہ اس میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو ان کی سمجھ میں نہیں آئیں۔ہم نے سوچا کہ ہم آج تک خود اپنی سمجھ میں نہیں آئے تو یہ پاجی پامسٹری  کیا بیچتی ہے۔
پنڈت جی کا پامسٹری پر یقین ، ایمان کی حد تک ہے۔ بڑے بھیّا  جو ان کے استاد بھی ہیں، کے کارنامے ہمیں اکثر سناتے ہیں۔ اپنی زندگی میں آنے والی سب مشکلات اور مصیبتوں کی پیشگی خبر  ان کے دعوے کے مطابق ،بڑےبھیّا کو ہوجاتی ہے۔ جس کا اُپائے بھی وہ کرلیتے ہیں۔ ہم چپ چاپ سنتے رہتے ہیں اور جب نکو نک ہوجاتے ہیں تو  بات انگریزی فلموں کی طرف موڑ دیتے ہیں کہ یہ واحد موضوع ہے  جس پر پنڈت جی کی بولتی ہمارے سامنے بند ہوتی ہے۔

پنڈت جی سے  کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی، وہ چھٹیاں منانے ہندوستان گئے ہوئے تھے۔ نہایت تپاک سے ملے۔ حال احوال پوچھا تو بتا نے لگے کہ "ارے کیا بتائیں جعفر بھائی۔ موٹر سائیکل پر ریلوے اِسٹیسن جارہےتھے۔ سالی گدھا گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔  پوری بائیں ٹانگ کام نہیں کررہی۔ سالا ،بیٹھے بٹھائے مصیبت آگئی۔ اسی حالت میں پَہلے ٹرین میں سفر کئے ہیں پھر پلین میں۔ فلائٹ کینسل ہوجاتی تو باس بولے تھے کہ ٹھاکر اِب کے نہ آئے تو وہیں رہیو۔ آنے کی جرورت نہیں ہے"۔ پنڈت جی کے چہرے پر بے چارگی اور معصومیت تھی!