قاعدہ خلاص

ہمیں اندازہ ہے کہ آپ اس قاعدے سے "نکونک" آچکے ہیں اور  علم پھیلانے کا جو بیڑا، ہم نے آپو آپ ہی اٹھا لیا تھا، اس نے ہمارے دماغی کندھے بھی شل کرنے شروع کردئیے ہیں لہذا آج وچکارلے قاعدے کا اختتام کرکے ہم کچھ عرصے کے لیے اس بیڑے کو زمین پر پٹخنے والے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارا "وچکارلا" علم، ڈینگی کی طرح پھیلے گا اور سب کو متاثر کرکے ہی دم لے گا۔ تو آئیے قاعدے کا اختتام کرتے ہیں۔
ل۔۔۔۔ لڑائی: یہ ترقی کی اماں جان ہوتی ہے۔ اس کا ملاپ جب سیاست سے ہوتا ہے تو دھڑا دھڑ بچےجنم لینے لگتے ہیں جنہیں ترقی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ علامہ صاحب یوں تو بڑے عظیم بحرالعلوم تھے لیکن ان سےبھی ہجّوں کی ایک غلطی ہوگئی تھی (جبکہ ہماری ایک عظیم ادیبہ ساتھی غلطی سے ایک دفعہ درست ہجّے لکھتی پائی گئی تھیں) جب انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ "آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز"۔
م ۔۔۔۔ مالٹا: یہ مالٹے رنگ کا ایک پھل ہوتا ہے جو وٹامن سی، اورنج جوس اور گلا خراب کرنے کے کام آتا ہے۔  کھٹّا مالٹا بہت ہی مالٹا ہوتا ہے اور طبیب حضرات کے لیے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ن ۔۔۔۔ نعرہ: یہ ایک بہت مفید چیز ہوتی ہے۔ اس کے مُوجد بارے تاریخ خاموش ہے لیکن گمان ہے کہ وہ اس کائنات کا پہلا ماہر نفسیات تھا۔ یہ بھی شنید ہےکہ نعرے کی ایجاد کسی حکم شاہی کا نتیجہ تھی تاکہ رعایا کا کتھارسس ہوتا رہے اور گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
و۔۔۔۔ووٹ: یہ ایک پرچی ہوتی ہے جسے بکسے میں تہہ کرکے ڈالا جاتا ہے۔ البتہ ووٹ ڈالنے والوں کو کچھ عرصہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ پرچی، بتّی بنا کر، ان کو واپس دے دی گئی ہے۔اس مظہر کو "جمہوریت بہترین انتقام ہے" کہا جاتا ہے۔ علامہ صاحب یہاں پھر یاد آتے ہیں جو اس بتّی سسٹم کے اتنے زیادہ پرستار نہیں تھے کہ جس میں ان کا اور مُودے دھیں پٹاس کا ووٹ ایک جیسی اہمیت رکھتا ہو۔
ہ۔۔۔ہم زلف: یہ سالی کا شوہر ہوتا ہے پنجابی میں اسے "سَانڈو" کہتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر سیانوں نے ہم زلف کی دوستی کو کچھ زیادہ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا اور اس کو ایک ایسی کہاوت میں بیان کیا ہے جو یہاں بیان نہیں کی جاسکتی!
ء ۔۔۔: یہ پَخ ہوتی ہے۔ جو مختلف الفاظ کے ساتھ لگائی جاتی ہے تاکہ ان کو دھوکہ دیا جاسکے اور لفظ یہ سمجھیں کہ عبارت کا سارا بوجھ ان پر نہیں ہے۔
ی ۔۔۔ یلا یلی:  یہ لفظ استاد محترم سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کے اسرار و رموز ایک خاص عمر میں ہی پوری طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ اس بارے جتنا کم لکھا اور جتنا زیادہ محسوس کیا جائے، اتنا ہی اچھا ہے۔
ے۔۔۔۔: اسے بڑی ے کہتے ہیں تاکہ چھوٹی ے کو احساس ہوتا رہے کہ اس پر نظر رکھنے کے لیے کوئی بڑا موجود ہے اور وہ آوارہ نہ ہوسکے!