گولی


یہ لاہور کے مضافات میں واقع قلعہ نما محلاّت کےایک کمرے کا منظر ہے۔ سنہری رنگ کے مرکزی صوفے پر سابق وزیر اعظم بیٹھے ہیں اور ان کے دائیں بائیں اور سامنے کے صوفوں پر مریم نواز، رانا ثناءاللہ، کیپٹن صفدر، سعد رفیق، خواجہ آصف، شہباز شریف اور پرویز رشید براجمان ہیں۔ ویڈیو لنک پر اسحاق ڈار بھی اس ملاقات میں شریک ہیں۔ نواز شریف کے چہرے پر مایوسی، افسردگی اور پریشانی واضح ہے۔ سینٹر ٹیبل پر خورونوش کی اشیاء کا ڈھیر موجود ہے لیکن کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں۔ نواز شریف گہری سانس لے کر اسحاق ڈار سےپوچھتے ہیں کہ تل ابیب سے رابطوں کی کیا رپورٹ ہے۔ اسحاق ڈار کا جواب سنسنی خیز ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے ایک ایسا ڈرون(ہائیلی موٹیویٹڈ سٹیلتھ ڈیوڈ سٹار وارئیر) تیار کیا ہے جو کسی بھی قسم کے ریڈار میں نہیں آسکتا۔ اس پر کسی بھی میزائل حملے کا اثر نہیں ہوتا۔ ابھی تک اسے باقاعدہ طور پر فوج کا حصہ نہیں بنایا گیا بلکہ اسے خفیہ رکھا گیا ہے۔ اسحاق ڈار نے مزید بتایا کہ نیتن یاہو تک آپ کی درخواست پہنچا دی گئی تھی اور انہوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو ڈرون بھیج دئیے ہیں۔ چند منٹوں تک یہ ڈرون رائے ونڈ کے محلات میں پہنچ جائیں گے۔ ان کو آپریٹ کرنے والے لوگ اسی وقت واہگہ بارڈر پار کررہے ہیں۔ پنتالیس منٹ تک وہ بھی رائے ونڈ پہنچ چکے ہوں گے۔
یہ سن کر میاں صاحب کے چہرے پر رونق آجاتی ہے۔ وہ رانا ثناءاللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ٹارگٹ کی کیا پوزیشن ہے۔ رانا ثناءاللہ بتاتے ہیں کہ ٹارگٹ اس وقت ایک تقریب میں شریک ہے اور تقریبا گیارہ بجے تک اپنے مقام پر پہنچے گا۔ میاں صاحب دستی طلائی گھڑی پر وقت دیکھ کر خود کلامی کرتے ہیں کہ "بس دو کینٹے رہ گئے"۔ خواجہ سعد رفیق  میاں صاحب سے مخاطب ہو کے کہتے ہیں کہ ڈرون سے بم حملہ نہایت خطرناک ہوگا۔ میری رائے میں ڈرون میں ایک نائن ایم ایم بریٹا فکس کردیا جائے۔ اس سے ایسا تاثر ملے گا کہ جیسے کوئی آوارہ گولی کہیں سے آنکلی اور اسے آسانی سے حادثہ ثابت کرنا ممکن ہوگا۔ کیپٹن صفدر ان کی بات کاٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نازک موقع پر کسی بھی قسم کا رسک لینا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ نائن ایم ایم کا فائر کارگر ہونے کے لیے بہت نزدیک سے شوٹ کرنا ضروری ہے جس کی اس موقع پر گنجائش شاید نہیں ہے۔
شہباز شریف جو اس تمام گفتگو میں اب تک خاموش تھے، دھیمی آواز میں کہتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر سوچ لیجیے۔ مجھے ایک آخری کوشش کر لینے دیں۔ امید ہے کہ معاملات سنبھل جائیں گے۔ مریم نواز جو اب تک سمارٹ فون پر مصروف تھیں۔ نخوت سے سر اٹھا کر شہباز شریف کی طرف دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ چچا جان، ابھی تک کے معاملات آپ کے سامنے ہیں۔ کیا آپ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ میں اور ابو جی جیل چلےجائیں؟ آپ یہ تسلی پچھلے ڈیڑھ سال سے دے رہے ہیں اور ابھی تک ابوجی بھی آپ کی بات مانتے آرہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں ان لوگوں کو سبق سکھانا ہی پڑے گا۔ ایسے یہ لوگ سدھرنے والے نہیں۔ مریم نواز کی آواز غصے کی شدت سے لرزنے لگی تھی۔ پرویز رشید بھی مریم کی مدد کو آئے اور بولے کہ ان دو ٹکے کے لوگوں کو ان کی اوقات پر رکھنا چاہئے تھا۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ اس پلان پر عمل کریں اورایک ایک کرکے ان سے چھٹکارا پائیں۔
خواجہ آصف جو یہ ساری گفتگو انہماک سے سن رہے تھے انہوں نے میاں صاحب کی طرف دیکھا اور بولے کہ ہم نے ان کو فی بندہ ترپن ارب کی آفر کی تھی۔ بالکل محفوظ طریقے سے رقم بیرون ملک ہی ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کردی جاتی۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی لیکن یہ بندے اللہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ ان میں سے ایک بندے کی مالی حالت اتنی پتلی ہے کہ بے چارہ چار سال سے نیا کوٹ تک نہیں خرید سکا۔ بیوی اس کی بیمار ہے ، بچے فیس نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری اداروں میں پڑھتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیا ایمانداری کا خنّاس ان کے دماغ میں بھرا ہوا ہے کہ کوئی بھی آفر ان کو اٹریکٹ نہیں کرسکی۔
میاں صاحب نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور کیپٹن صفدر کو کہا کہ اپنا بریٹا لے آؤ۔ کیپٹن صفدر اٹھے اور داخلی دروازے سے اندر چلے گئے۔ چند منٹ بعد وہ چمکتے سیاہ رنگ کا پستول اپنے ہاتھ میں تھامے واپس آئے۔ میگزین نکال کے چیک کیا۔ مریم نے ایک گولی  اٹھا کر اس پر چاقو کی نوک سے ایک نام لکھا اور کیپٹن صفدر سے کہا ، "یہ گولی سب سے آخر میں بھرنا"۔اسی دوران ایک باوردی ملازم کمرے میں آیا اور پیغام دیاکہ مہمان آگئے ہیں۔ میاں صاحب نے انہیں اندر لانے کا کہا۔ کالے سوٹوں میں ملبوس دو سفید فام افراد کمرے میں داخل ہوئے تو میاں صاحب سمیت سب نے ان کا اٹھ کر استقبال کیا۔ خواجہ آصف نے انہیں پلان سے آگاہ کیا کہ بم سے حملہ ہم افورڈ نہیں کرسکتے لہذا نائن ایم ایم پستول کو کسی طرح ڈرون پر فکس کریں تاکہ اس کو کسی حادثہ کا رنگ دیا جاسکے۔ ان میں سے ادھیڑ عمر نظر آنے والے شخص نے کندھے اچکا کے کہا ، نو پرابلم۔ اٹ کین بی ڈن۔
شہباز شریف نے اورنج لائن کے معائنے پر جانے کے لیے میاں صاحب سے اجازت طلب کی اور  روانہ ہوگئے۔ آپریشن شروع کرنے کے لئے کنٹرول روم تیار گیا تھا جہاں ڈرون کا سارا آپریٹنگ سسٹم نصب تھا۔ دونوں سفید فام افراد کنٹرول روم میں گئے اور آپریشن کا آغاز ہوگیا۔تقریبا پونے گیارہ بجے پہلا ڈرون اڑا۔ چھ سات منٹ تک رائے ونڈ کی حدود میں اس کی جانچ کی گئی اور پھر اسے ٹارگٹ کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ ٹارگٹ سے سو میٹر کے فاصلے پر ڈرون کو ہیلی کاپٹر کی طرح ساکت کردیا گیا تاکہ ٹارگٹ نظر آتے ہی اسے ہٹ کیا جائے۔ تقریبا گیارہ ٹارگٹ تقریب سے واپسی پر گھر پہنچا۔ پورچ میں کار رکی۔ ٹارگٹ کار سے باہر آیا۔ اسی وقت آپریٹر نے فائر کیا۔ ٹارگٹ بالکل سامنے تھا۔نشانہ عین ٹارگٹ کا دل تھا۔ ٹارگٹ کے قریب پہنچتے ہی گولی اچانک ایسے اچٹ کر لوہے کے گیٹ پر جالگی جیسے درمیان میں کوئی دیوار حائل ہوگئی ہو۔ ڈرون آپریٹر حیران ہوگئے۔انہوں نے ہزاروں ڈرون حملے کئے تھے لیکن ایسا ماجرا آج تک پیش نہیں آیا تھا۔ ٹارگٹ گھر میں داخل ہوگیا۔ اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ اس پر حملہ ہوا ہے۔
شہباز شریف اورنج لائن کے بہانے باہر نکل آئے تھے۔ باہر نکلتے ہی انہوں نے چوہدری نثار کو فون کیا اور ساری صورتحال ان کے گوش گذار کی۔ چوہدری نثار نے فورا  ہائی کمان سے رابطہ کرکے ان کو بریف کیا اور ہنگامی طور پر سیکورٹی کا بندوبست کرنے کا کہا۔ اس وقت تک پہلا حملہ ہوچکا تھا۔ لیکن شہباز شریف اور چوہدری نثار نہیں جانتے تھے کہ دنیاوی سیکورٹی کے علاوہ ان متبرک نفوس کو روحانی سیکورٹی بھی حاصل ہے۔ بہرکیف دس منٹ کے اندر تمام علاقے کو فورسز نے گھیرے میں لے لیا۔ اہم شخصیت کو اعلی افسران نے قائل کیا کہ آج تہجد اپنے کمرے میں ادا کرلیں۔ لان میں تہجد نہ پڑھیں۔ وہ وجہ پوچھتے رہے لیکن ان سے مؤدبانہ گذارش کی گئی کہ آج ہماری بات مان لیں۔ تہجد کے وقت ایک اور حملہ ہوا لیکن اس وقت تک صورتحال قابومیں آچکی تھی۔
جسے اللہ رکھّے، اسے کون چکھّے