کپتان، جوشؔ اور فرائڈ

جبلّت سے ہم شرمندہ ہوتے ہیں۔ روح پر گرانی  لاد لیتے ہیں۔ خود کو ہم کوستے ہیں اور اس پر تقلید کے  خوگر مذہب کے سوداگر جو زیست کو عذاب بنانے پر تلے ہیں۔ مردِ آزاد فرائڈ البتہ حقیقت پا گیا تھا۔
اکل و شرب پیکر خاکی کی ضرورت ہے۔ زندہ ہم اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن مگر اعتدال۔۔  مگر نفاست۔۔۔ مگر تہذیب۔  طبیعت میں عجیب سی بے چینی جاگزیں تھی۔ پسلی کی آنکھ والا لحم، ہلکی آنچ پر بھنا ہوا۔۔ نیلی پٹّی والا مشروب۔ ماکولاتِ بہشت  سے لذّت کام و دہن کے باوجود اضطراب وجود میں لہریں لے رہا تھا۔ اس عالم میں اس عالمِ بےبدل، بابائے پُونڈاں حضرت جوش کی یاد آئی۔ یادوں کی برات جیسے تمنائیں بیاہنے پہنچ گئی ہو۔یک لخت جیسے گرہ کھل گئی ہو۔ اضطراب کا ماخذ دریافت ہوا۔ من شانت ہوا۔
فرائڈ یاد آتا ہے۔ ہر کارِ جہاں پُونڈی پر منحصر ہے۔۔۔ کیسی حکمت بیان کی۔ ہم مگر علم کو خانوں میں بانٹتے ہیں۔ انسانی تہذیب کی اجتماعیت کو رد کرتے ہیں۔ کیوں نہ پھرتاریخ کے چوراہے پر لڑکے بالے ہمارا ٹھٹھا اڑائیں۔ کپتان طعام سے فراغت کے  بعد سیاہ بیر پر مشغول تھا۔ نفیس فریم کا چشمہ ناک کی پھننگ پر ٹکائے۔۔ نِمّا نِمّا ہاسا بُلیوں پر سجائے۔۔۔کیسا یقین اور کیسا سکون اس کے چہرے پر تھا۔ مانو جیسے کپل وستو کا سدھارتھ نروان پا گیا ہو۔  من بے اختیار ہوا ۔۔۔  یویو ہنی سنگھ یاد  آیا۔
لَک ٹوئنٹی ایٹ کُڑی دا
فورٹی سیون ویٹ کُڑی دا
کتاب سے کپتان کو مگر شغف نہیں۔ جی کڑا کرکے لیکن دریافت کیا۔ جوشؔ کو جانتے ہو؟ سیاہ بیر سے نظر اٹھا کے کپتان نے فقیر کو دیکھا۔ چہرے پر جیسے رنگین یادوں کا میلہ سجا ہو۔ لان میں انار کے درخت پر بہار تھی۔ اناروں  پر نظر کپتان کی ٹِکی رہی۔ کچھ لحظے توقف کے بعد بولا۔ یادوں کی برات میں نے پڑھی نہیں؛ مجھ پر بیت گئی ہے۔اس عالم میں کپتان کو پہلی دفعہ دیکھا۔ جھُرجھُری آگئی۔ نظر اس کے چہرے پر ٹکنی دشوار۔ ایسا نُور۔۔ ایسا اطمینان۔۔ بایدو شاید۔ یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے۔۔۔فقیر کے سینے پر سے جیسے سل ہٹ گئی۔ جسم و ذہن پھول کی پتّی ہوا۔
  ؎ اڑتا ہی پھروں ان ہواؤں میں کہیں
زنجیریں ہیں یہ زنجیریں۔ احساسِ گناہ میں ہماری روحیں جکڑتے ہیں۔ جبلّت پر پہرے بٹھاتے ہیں۔ اکل و شرب ضرورت ہے تو پُونڈی بھی ضرورت ہے حضورِ والا۔ آزاد روح اور آزاد فکر۔اس کے سوا اس قوم کی راہِ نجات کوئی نہیں۔پست فکر یہ معاشرے کو کرچکے ۔ تخلیق کا گلا گھونٹتے ہیں۔ فکر کو زنجیر پہناتے ہیں۔ ادبار سے نجات کا وقت آ پہنچا ہے۔ جوشؔ یاد آتا ہے۔
جبلّت سے ہم شرمندہ ہوتے ہیں۔ روح پر گرانی  لاد لیتے ہیں۔ خود کو ہم کوستے ہیں اور اس پر تقلید کے  خوگر مذہب کے سوداگر جو زیست کو عذاب بنانے پر تلے ہیں۔ مردِ آزاد فرائڈ البتہ حقیقت پا گیا تھا۔

خدائی کا سرٹیفکیٹ

دیکھیے، سرٹیفکیٹ جدید زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ پیدا ہوتے ہی میونسپل کمیٹی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ اب قانونی طور پر پیدا ہوچکے ہیں۔یہ نہ ہو تو آپ پیدا ہوکے بھی پیدا نہیں ہوتے کہیں عالم برزخ میں پڑے رہتے ہیں۔ یہی تعلیم کا قصہ ہے۔ پرائمری سے پی ایچ ڈی تک یہ مُوا سرٹیفکیٹ ہی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ آپ پڑھے لکھے ہیں اگرچہ آج کل حامل سرٹیفکیٹ پوری  کوشش کرتے ہیں کہ انہیں پڑھا لکھا نہ سمجھا جائے۔ اس کے بغیر چاہے آپ جتنی مرضی قسمیں کھاتے رہیں کوئی یقین نہیں کرتا۔ ریاست بھی اپنے شہریوں کو سرٹیفکیٹ دیتی ہے کہ مسمی فلاں ابن فلاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری ہے اور اسے بھی وہ تمام حقوق (یا ان حقوق کی خلاف ورزیاں) حاصل ہیں جو ایک جدید ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں۔
مذہب کا معاملہ البتہ کچھ الگ تھا۔ اس کے لئے کسی سے کوئی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ زبان سے کیا جانے والا اقرار کافی و شافی رہتا تھا۔  کسی کو اس پر شک نہیں ہوتا تھا  نہ کوئی کسی سے سرٹیفکیٹ مانگتا تھا۔ مذہبی پیشواؤں کو البتہ مشغلے کے طور پر دوسروں کے مذہب /مسلک میں مین میخ نکالنے  کی عادت تھی لیکن یہ سب سو کالڈ علمی طور پر ہوتا تھا۔ ہزاروں صفحات اس لٹریچر کے لکھے گئے کہ فلاں کا مذہب /مسلک /عقیدہ ناقص ہے جبکہ  ہمارا ایک دم چوبیس قیراط ہے اور حافظ کا اصلی ملتانی سوہن حلوہ ہے۔ یہ سرگرمیاں مذہبی کتابوں/رسائل اور کبھی کبھار مناظروں تک محدود رہتی تھیں۔ لہو گرم رکھنے کا بہانہ سمجھ لیں کہ علاّمہ صاحب نے بھی پلٹ کر جھپٹنے کی کافی  فضیلت بیان کر رکھی ہے۔ اگرچہ دبے  الفاظ میں "فی سبیل اللہ فساد" کا ذکر بھی کیا  ہے لیکن عموما اس سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔بزرگوں کی خطا پر گرفت کرنا ویسے  بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔  کسی بھی مسلک کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے کسی کو کوئی ڈریا خوف نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اس سے سرٹیفکیٹ طلب کرے گا کہ۔۔۔ او  بھیّا کدھر منہ اٹھا کے گھسے آتے ہو؟ تمہارے پاس ہمارا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی ہے یا نہیں؟
ہر شہر کی چند مساجد میں ایسے شعلہ بیان خطیب ہوا کرتے تھے جن کا ہر جمعہ کاشو ہاؤس فل ہوتا تھا۔ شعلہ بیان خطیبوں کو مذہبی انڈسٹری کے سپر سٹار سمجھ لیں۔ جو بھی بول دیں، سپر ہٹ ہوجاتا ہے۔ عبداللہ حسین کا "اداس نسلیں" شاید چند ہزار لوگوں نے پڑھا ہوجبکہ مظہر کلیم ایم اے کے ولولہ انگیز ناول بلا مبالغہ کروڑوں لوگ پڑھ چکے ہوں گے۔  سلمان خان کی ایک فلم کو اتنے لوگ دیکھتے ہیں جتنے شاید نصیرالدین شاہ کی تمام فلموں کے ناظرین ملا کے بھی نہیں بنتے ہوں گے۔ خیر۔۔۔  لوگ دور دور سے آتے۔ سوا  ڈیڑھ گھنٹے کی انٹرٹینمنٹ سے لطف اندوز ہوتے اور دوبارہ اپنی معمول کی زندگی میں مگن ہوجاتے۔ اچھے وقت تھے کہ شعلہ بیان خطیب بھی ایسے شعلے دہکاتے تھے جن پر باربی کیو ہوسکے نہ کہ گھر جلائے جا ئیں۔ فیصل آباد میں مولانا ضیاءالقاسمی غلام محمد آباد کی گول مسجد میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ پنجابی میں خطاب کرتے اور لوگوں کو ہنساتے تھے،رلاتے بھی تھے۔ ان سے منسوب ہے کہ جمعے کے خطبہ میں حضرت موسی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کوئلے کا ذکر آیا تو فرمانے لگے،
"واہ اوئے کولیا تیریاں شاناں، جے پَخ گیا تے نورانی ۔۔۔ جے بُجھ گیا تےےےے۔۔ مفتی جعفر حسین"۔
صاف بات یہ ہے کہ ہمیں مذہبی اور ریاستی معاملات کی پیچیدگیوں کا کوئی زیادہ ادراک نہیں ہے۔ نہ ہی ان کو جاننے میں دلچسپی ہے لیکن کچھ تو ایسا ضرور ہوا ہے کہ ایسا روادار معاشرہ جس کے مذہبی پیشوا بھی جگتیں کیا کرتے تھے وہ اس حال کو پہنچ گیا کہ ایک لفظ بھی آپ کا حال مشال جیسا کرسکتا ہے۔   اب آپ کو باقاعدہ ایک مذہبی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔جس پر واضح الفاظ میں آپ کے ایمان کی گواہی اور تصدیقی مہر ثبت ہو  کہ حامل ہذا سرٹیفکیٹ قادری سُنّی ٹن ٹن ٹناٹن ہے۔  اس کے بغیر آپ کی ساری قسمیں رائیگاں ہیں۔ کوئی بھی ہجوم کسی بھی بازار، درس گاہ میں آپ کو جہنم رسید کرسکتا ہے اور اس کام کو جنت کی یقین دھانی سمجھ سکتا ہے۔ ایمان پر شک کی ایک چنگاری آپ کے جسم کے پٹرول پر پھینکی جاسکتی ہے اور آپ بھک سے اڑ سکتے ہیں۔  جن بزرگوں کے ہاتھ پر برصغیر کے لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ بھی آج ہوتے تو شاید انہی لوگوں کی اولادیں ان کو کافر قرار دے کے قتل کردیتیں۔
زاہد حامد، رانا ثناءاللہ وغیرہ  جانے کس بھول میں ہیں یہاں تو خدا کو بھی سوادِ اعظم کی منظور شدہ فرنچائز  سے خدائی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑے  گا۔

قائدؒ کے ایمان افروز واقعات

جیمز واٹس ہومز مشہور برطانوی محقّق اور تاریخ دان ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں "اے سٹڈی آف انڈو پاک تھرو آ نیوٹرل آئی"، "ہسٹری از سائنس" اور "جناح - سینٹ آف ٹوئنٹیتھ سنچری" شامل ہیں۔ برّصغیر پاک و ہند کی تاریخ جیمز ہومز کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ پر لکھی گئی ان کی کتاب خاصے کی چیز ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قائد بارے بہت سی ایسی باتیں پتہ چلتی ہیں جو آج تک ہم سے بوجوہ چھپائی گئی ہیں۔ 
مثلاً صفحہ نمبر چونتیس پر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے جیمز ہومز لکھتے ہیں کہ 12 فروری، 1933 کو پیر مہر علی شاہ،  لاہورمیں  نواب افتخار ممدوٹ کی رہائش گاہ  پر قائد سے ملنے آئے توقائد مرکزی دروازے پر ان کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے۔ قائد نے پیر صاحب کے ہاتھ چومے اور انہیں بصد احترام ڈرائنگ روم  میں لے کر آئے۔ پیر صاحب کو صوفے پر بٹھایا اور خود قالین پر آلتی پالتی مار کربیٹھ گئے۔ پیر صاحب کے بصد اصرار پر بھی آپ نے ان کے برابر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ علمائے دین کا رتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کے احترام و ادب میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھا جائے۔ پیر صاحب نے خوش ہوکر آپ کے لئے دعا فرمائی کہ " اے جناح، اللہ تعالی تمہیں ایسی عزت و شرف عطا فرمائے گا کہ رہتی دنیا تک تمہارا نام زندہ و تابندہ رہے گا۔" یہ سن کر قائد کی آنکھیں بھر آئیں اور آپ نے فرمایا کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں بزرگان دین کی جوتیوں کے صدقے میں ہوں۔
قائد بارے کچھ حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ پارلیمانی نظام کی بات کی اور جمہوریت کو پاکستان کے لئے واحد راستہ قرار دیا۔ مسٹر جیمز نے تاریخی حقائق سے اس بات کی تردید کی ہے۔ 2 ستمبر، 1935 کی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ نمبر 69 پر لکھتے ہیں کہ جناح ؒاور اقبالؒ کی ملاقات آگرہ میں ہوئی۔ چوہدری رحمت علیؒ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ اس ملاقات میں جناح ؒاور اقبالؒ اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کا نظام خلافت ہوگا۔ جناحؒ نے واضح الفاظ میں پارلیمانی جمہوریت کو زہر قاتل اور اسلام کے خلاف  قرار دیا۔ اسی موقع پر اقبالؒ نے مشہورِ زمانہ شعر کہا ۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
چوہدری رحمت علیؒ کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ قائد نے جماعت کرائی۔ تلاوت کرتے ہوئے آپ کی ہچکی بندھ گئی  اور آپ روتے روتے نڈھال ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکے تقریباً تیس منٹ تک آپ اوراد و وظائف میں مشغول رہے۔
وطنِ عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نعوذ باللہ قائد کو سیکولر اور لبرل خیالات کا مالک کہتے ہیں۔ مذکورہ واقعہ پڑھنے کے بعد ان کو اپنے خیالات پر نظرثانی کرنی چاہیئے اور قائد ؒ پر بہتان باندھنے سے گریز کرنا چاہیئے۔
قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد قائدؒ نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیے۔ مسلم لیگ کے لئے چندہ اکٹھا کیا اور انہیں پاکستان کے جھنڈے تلے اکٹھا کرنے کے لئے دن رات ایک کردئیے۔  قائدؒ پبلک منی کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ اسی کتاب کے صفحہ 92 پر درج ہے کہ شملہ کے دورے میں آپ کی کار کے ٹائر میں ہوا کم ہوگئی۔ ڈرائیور نے پنکچر والی دکان سے ہوا بھروائی اور سیکرٹری سے پیسے لے کر دکان والے کو دے دئیے۔ آپ نے ریسٹ ہاؤس پہنچتے ہی ڈرائیور کو ملازمت سے برطرف کردیا کہ اس نے سیکرٹری سے پارٹی فنڈ کا پیسہ لے کر اس سے ذاتی کار میں ہوا کیوں بھروائی۔ آپ نے سیکرٹری کو بھی سخت وارننگ دی اور اپنی ذاتی جیب سے ہوا بھروائی کے دو آنے پارٹی فنڈ میں جمع کرا دئیے۔
پاکستان بننے کے بعد کابینہ کا پہلا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اجلاس کے دوران نوابزادہ لیاقت علی خان نے ملازم سے پانی کا گلاس مانگا تو قائدؒ نے اپنی مخصوص دبنگ آواز میں قائد ملت کو جھاڑ پلادی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ریاست کا ملازم ہے، ہمارا ذاتی ملازم نہیں ہے۔ آپ نے پانی، چائے، کافی جو بھی پینا ہو گھر سے پی کے آیا کریں۔ یہ کام کرنے کی جگہ ہے، کوئی ریسٹورنٹ نہیں ہے۔  اس کے بعد قائدؒ کی زندگی میں کابینہ کے جتنے بھی اجلاس ہوئے، کابینہ کے تمام ارکان اپنے لئے گھر سے پانی، چائے، کافی وغیرہ تھرمس میں ڈال کے لایا کرتے تھے اور وقفے کے دوران پی لیا کرتے تھے۔
کرپشن اور سرکاری وسائل کے ذاتی استعمال کے آپ سخت خلاف تھے۔ جیمز واٹس ہومز نے ایک ایسا واقعہ لکھا ہے جو ناقابل یقین ہے لیکن ایک غیرجانبدار فرد ہوتے ہوئے ان کو غلط بیانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ایک اجلاس کے دوران ایک بیوروکریٹ نے آپ سے بال پوائنٹ مانگا۔ آپ نے میز کی دراز سے ریوالور نکال کر اسے شُوٹ کردیا اور یہ الفاظ کہے، "آج تم بال پوائنٹ مانگ رہے ہو، کل کو تم اس ملک کا خزانہ لوٹ کے کھا جاؤ گے۔ میں یہ ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔" اس کے بعد آپ نے اس کی جیب سے سرکاری کارتوس کے 3 روپے 25 پیسے بھی نکالے اور خزانے میں جمع کرادئیے۔ اس کی لاش کو سرکاری گاڑی کی ڈگی میں بھیجنے کی بجائے سالم ٹانگہ منگوایا گیا اور اس کا خرچہ بھی متوفّی کے لواحقین سے وصول کیا گیا۔
یہ بالکل واضح ہے کہ قائدؒ اس ملک کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے نہ کہ پارلیمانی جمہوریت  کے کفریہ نظام پر۔آپ نہ تو سیکولر تھے اور نہ ہی لبرل بلکہ بزرگان دین سے حددرجہ عقیدت رکھتے تھے۔  آپ ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں کرپشن نہ ہو اور فوری انصاف ملے اور کرپشن کرنے کی نیّت کرنے والوں کو بھی موقع پر ہی جہنم رسید کیا جائے۔  آپ کے بعد اس ملک پر قابض مافیا نے آپ کی تعلیمات کو فراموش کردیا اور ہر ایسی چیز پر پابندی لگادی جس سے آپ کے اصل خیالات کا اظہار ممکن ہو۔تمام پاکستانیوں کو جیمز واٹس ہومز کی کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے بلکہ اس کتاب کا ترجمہ کرکے اسے نصاب تعلیم میں شامل کرنا چاہئے۔

دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے

خوابوں پر ہمارا یقین کوئی ایسا نہیں رہا کہ ہم انہیں سنجیدہ لیں۔ خواب ہمارے نزدیک وہ فلمیں ہوتی ہیں جو ہم بنانا چاہتے ہیں لیکن بوجوہ بنا نہیں سکتے۔ حاشا و کلا اس سے ہماری مراد علامہ اقبال کا پاکستانی خواب نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ جاگتے میں دیکھا جانے والا خواب تھا جسے نیند والے خوابوں کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ بچپن سے ہی ہم خواب دیکھتے آئے ہیں اور ڈراؤنے، رنگین، سنگین اور غمگین خواب بکثرت دیکھ چکے ہیں۔ ان خوابوں کا مگر ہماری زندگی میں کوئی کردار نہیں رہا اور نہ ہی ہم نے خوابوں کو اجازت دی کہ ہماری زندگی میں دخل اندازی کرسکیں۔  اس تمہید کے بعد یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم آپ کو فرائڈ وغیرہ کے نظریات ِ رنگین و سنگین خواب جات بارے بریف کریں گے تو آپ کا خیال درست نہیں ہے۔اس کے برعکس ہم آپ کو ایک ایسے خواب کی روداد سنانے جارہے ہیں جس نے ہماری زندگی، آدرش، نظریات اور افعال سب بدل کے رکھ دئیے ہیں۔
خواب میں خود کوایک وسیع و عریض سرسبز وادی میں پایا جس کو چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا۔ وادی کے مشرقی پہاڑ کی  ترائی پر ایک عظیم الشان قلعہ تھا جس تک پہنچنا ناممکن نظر آتا تھا۔ قلعہ کی فصیل پر لاتعداد بُرجیاں تھیں اور اس کے پیچھے قلعے کی مرکزی عظیم الشان عمارت ، جس کا گنبد اور مینار طویل فاصلے سے بھی نمایاں نظر آتے تھے۔ وادی میں گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔آسمانی  بجلی کی کڑک سے دل دہل دہل جاتا تھا۔ وادی کے عین درمیان میں ایک منہ زور ندی بہہ رہی تھی جس کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ اس کو عبور کرنا ناممکن نظر آتا تھا۔ اچانک شمالی  پہاڑ کے جنگلات سے گھوڑوں کے سُموں کی آوازیں قریب آتی محسوس ہوئیں۔ ہم چونک کر اس طرف متوجہ ہوئے  تو کیا دیکھتے ہیں کہ سفید عربی النسل گھوڑوں پر سوار افراد تیز رفتاری سے ہماری طرف بڑھتے  چلےآتے ہیں۔ ان کی فارمیشن ایرو ہیڈ جیسی تھی اور دونوں سروں پر موجود سواروں کے ہاتھ میں پرچم تھے۔ تقریبا بیس فٹ کے فاصلے پرسواروں نے یکدم لگامیں کھینچیں، گھوڑوں نے اگلی ٹانگیں اٹھائیں اور جگر پاش آواز میں ہنہنا کر وہیں رک گئے۔
سواروں کے امیر نے چہرے پر لپٹا ہوا سبز پگڑی کا پلّوہٹایا ۔  سرخ و سفید چہرہ، مہندی رنگی خوبصورت داڑھی میں جگمگا رہا تھا۔  آنکھوں سے شعاعیں نکلتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ ہم مبہوت کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔امیر نے اپنے ہاتھ میں موجود لٹھ کو زور سے زمین پر مارا اورگونجتی ہوئی پروقار آواز میں اپنا نام بتایا  (یہ نام ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہیں لکھا جارہا)۔ ہم نے تعظیما ان کو جھک کے سلام کیا اور ان کا ہاتھ چومنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو انہوں نے کڑک کر فرمایا۔
"یہیں رُک جا، مُورکھ۔ ہمارے قریب آنے کی جرات مت کرنا۔ تم ایک زبان دراز، بے ہودہ اور بے ادب انسان ہو۔ تمہاری گز بھر لمبی زبان سے ہم کو اتنی تکلیف پہنچی ہے کہ آج ہم تمہاری گوشمالی کو آئے ہیں۔"
خوف سے ہماری گھگھّی بندھ گئی۔ ہم گھٹنوں کے بل جھکے اور عاجزی سے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہم زبان دراز اور بے ادب ہیں لیکن آج تک اکابرین و بزرگان بارے کوئی زبان درازی نہیں کی۔ یہ  سن کر امیر کا چہرہ متغیر ہوا انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ہمارے قریب آکر زور سے لٹھ ہماری کمر پر جمائی۔ ہم قلابازیاں کھا کر کئی فٹ دور جاگرے۔ کراہتے ہوئے اٹھے اور عرض کی کہ ہماری خطا تو بتائی جائے۔ امیر نے اپنے ساتھیوں کو ہاتھ کے اشارے سے چہروں سے پگڑیوں کے پلو ہٹانے کا اشارہ کیا۔ دائیں طرف والے  خوبصورت نوجوان نے بلند آواز میں اپنا نام بتایا، "میں محمد بن قاسم ہوں"۔ ہم حیرت سے وہیں جم کر رہ گئے۔ اگلے درمیانی عمر کے سخت جان سوار نے بلند آہنگ سے کہا ، "ہم صلاح الدین ایوبی ہیں"۔ درمیان والے سوار نے جو امیر کے عین پیچھے تھے انہوں نے بتایا کہ وہ قاضی شریح ہیں۔ اگلے دونوں افراد کے چہروں پر غور کیا تو ہم انہیں پہچان گئے۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق حضرتِ علامہ محمد اقبال تھے۔ دونوں بزرگوں کے چہرے خوبصورت جماعت کَٹ داڑھیوں سے سجے تھے۔ قائد بے نیازی سے بولے،" وَیل۔۔ ینگ مین، یو نوء ہُو آئی ایم"۔ ہم نے عقیدت سے اثبات میں سر ہلا یا۔ حضرت علاّ مہ نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا اور غالب کا مصرع گنگنایا۔۔
 کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
ہم نے جوابا چھٹی جماعت میں یاد کی گئی نظم کا ایک شعر ان کی نذر کیا
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی | دل کو لگتی ہے بات بکری کی
امیر نے اس شعرو شاعری پر اپنی ناگواری کا اظہار دوبارہ لٹھ ہماری کمر پر جما کر کیا۔ ہم کراہتے ہوئے اٹھے اور ہاتھ باندھ کر امیر سے التجا کی کہ ہماری خطا سے آگاہ کیا جائے۔ ابھی ہماری بات ختم ہی ہوئی تھی کہ آسمانی بجلی کی زبردست کڑک سے پوری وادی روشن ہوگئی۔ اسی روشنی میں مغرب کی سمت سے ایک شہسوار تیز رفتاری سے ہماری طرف بڑھتا نظر آیا۔  جوں ہی وہ سوار ہمارے قریب پہنچا تو بادل چھٹ گئے اور چہار سُو شمس کی ضیاء پھیل گئی۔سوار نے اسپِ سیاہ کی لگام کھینچی اور چہرے سے سرخ اور سبز رنگ کا کپڑا ہٹایا تو ہم دم بخود رہ گئے۔ یہ عمران خان تھے!
قائد اعظم نے دایاں ہاتھ اٹھا کر فلک شگاف آواز میں  نعرہء تکبیر بلند کیا اور باقی بزرگوں کے ساتھ ہم نے بھی پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ خاں صاحب نے زرہ بکتر کے کھیسے سے کالی عینک نکال کر لگائی اور سب بزرگوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔ شہسواروں کے امیر، گھوڑے سے اترے اور ہمارے قریب آکر لٹھ سے ہمیں ٹہوکا دیا اور یوں مخاطب ہوئے۔۔
"اے ناہنجار، بے شعور انسان!تمہاری زبانِ دراز ہمارے سپہ سالار کے خلاف برسوں سے زہر اگل رہی ہے۔عمران خان اس دور میں اسلام اور مسلمانوں کا سپہ سالار ہے۔ یہ وہی بطلِ حریت ہے جو مسلمانوں کو ادبار سے نجات دلانے کے لیے مامور کیا گیا ہے۔ ہم سب (انہوں نے بازو لہرا کر تمام بزرگان کی طرف اشارہ کیا) اس معرکے میں اس کے ساتھ ہیں۔ تم اور تمہارے جیسے عاقبت نااندیش اس عبقری کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ اس پر زبانِ طعن دراز کرتے ہیں۔ تمہارے جیسے بے ہودگانِ ملّت یہ نہیں جانتے کہ خان کو اُس عظیم مشن میں پر مامور کیا گیاہے جس پر اس سے پہلے محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدینِ ملّت فائز رہ چکے ہیں۔ پاکستان کو کس سمت میں لے کر جانا ہے یہ قائد اعظم اور شاعر مشرق سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور تم دیکھ سکتے ہو کہ آج وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیا اب بھی تم جہالت اور بے شعوری پر قائم رہو گے؟ کیا اب بھی تم اس عظیم انسان کے خلاف زبان اور قلم سے جھوٹ پھیلاؤ گے؟"
یہ کہہ کر انہوں نے ایک دفعہ پھر زور سے لٹھ ہماری پشت پر جمائی۔ ہم اوئی اوئی کرتے کافی دیر اچھلتے رہے۔ جب تکلیف  ذرا کم ہوئی تو ہم بصد ادب عمران خان کی طرف بڑھے ۔ ان کا دایاں ہاتھ تھام کر چُوما۔ ان کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اپنی زبان درازیوں کی معافی مانگ کر اپنی بیعت میں قبول کرنے کی درخواست کی۔ خان صاحب نے بصد مہربانی ہمیں اپنی بیعت میں قبول کیا اور لالے عطاءاللہ کا "بنے گا نیا پاکستان" گا کر سنانے کا کہا۔ تین ضرباتِ لٹھ کے بعد ہماری آواز میں لالے جتنا ہی سوز آچکا تھا۔ ہم نے مکھڑا ہی گایا تھا کہ سب بزرگان آبدیدہ ہوگئے۔ پگڑی کے پلو سے آنکھیں  پونچھتے ہوئے ہمیں گانا بند کرنے کا اشارہ کیا۔
بزرگان کے امیر نے واپس جانے سے پہلے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف خواب نہیں ہے۔ تنبیہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیدار ہونے کے بعد تم اسے بھول جاؤ اور اپنی پرانی حرکات پر اتر آؤ۔ یہ کہہ کر انہوں نے لٹھ بلند کی ہی تھی کہ ہم نے ہاتھ جوڑ دئیے کہ انشاءاللہ ہم دوبارہ کبھی ایسی شنیع حرکات کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ تس پر سب بزرگان بشمول خان صاحب نے اپنے اسپانِ تازہ دم کو ایڑیں لگائیں اور چشم زَدن میں پہاڑی جنگلات میں گم ہوگئے۔
اس موقع پر ہماری آنکھ کھلی۔ ہم نے اس خواب کو بھی آج تک دیکھے گئے باقی خواب جات کی طرح اہمیت نہیں دی۔ بستر سے اٹھے تو ایک دم کمر اور پشت پر ٹیسیں محسوس ہوئیں۔ سائیڈ ٹیبل پرنظر پڑی تو وہاں ایک خوبصورت سرخ اور سبز رنگ کا چھوٹا سا باکس دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ اسے کھول کر دیکھا تو اس میں چھوہارے، بادام اور لڈو موجود تھے۔ یہ بِد کا ڈبّا لگ رہا تھا۔ ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ فورا  قمیص اتار کے آئینے کے سامنے گردن موڑ کر کمر کو دیکھنے کی کوشش کی۔ کمر پر نیل نظر آرہے تھے۔
بزرگ جاتے ہوئے دو نشانیاں چھوڑ گئے تھے!

جھیل، چِکّڑ چھولے اور چیمہ

میں نے نظریں جھکائیں۔ ارمانی کی شرٹ پر دہی پودینے کی چٹنی کا دھبہ دیکھا اور گہری سانس لے کر نان چھولے کا آخری بائٹ لیا  اورویٹر کو سپرائٹ اور کالانمک  لانے کا آرڈر دے دیا۔ لا گورڈیا جھیل میں لہریں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں۔ ایک شوخ  لہر باقی لہروں سے نظر بچا کے بار بار ساحل تک آتی اور ترشے ہوئے پتھرکو چوم لیتی۔ پتھر بے خود ہو کراس کی طرف لپکتا۔ اس کو بانہوں میں لینے کی کوشش کرتا  لیکن یہ انگلی سے نہ نہ کا اشارہ کرتے بھاگ جاتی۔ یہ منظر اتنا رومانی  تھا۔ یہ اتنا  خواب ناک تھا کہ میں 6 نان کھا گیا۔ میں نے چکڑ چھولوں کی چار پلیٹیں کھالیں جن میں سات ابلے ہوئے انڈے بھی تھے۔ میرے سٹامک میں پین ہونے لگی۔ ہر محبت کا انجام پین ہوتا ہے۔یہ مجھے لاگورڈیا جھیل کے کنارے بیٹھ کر نان چھولے کھاتے ہوئے  سمجھ آیا۔
یہ ریسٹورنٹ عین لاگورڈیاجھیل کے کنارے  ایک جھکی چٹان پر واقع ہے۔ یہ چٹان جھیل پر بالکل ایسے جھکی ہوئی تھی جیسے کسی عاشق  کو زمانوں بعد اپنے محبوب  کا دیدار  نصیب ہو اور وہ اس کے حضور جھک جائے ۔ اس ریسٹورنٹ کی سٹوری بہت انٹرسٹنگ ہے۔ یہ نیامت چیمے کا ریسٹورنٹ ہے ۔ یہ لاگورڈیا تک کیسے پہنچا، جھیل  کنارے اس کو ریسٹورنٹ بنانے کا خیال کیسے آیا۔ اس کے لیے آپ کو چیمے کی سٹوری جاننا بہت ضروری ہے۔
یہ  لالے موسے کے ریلوے سٹیشن پر نان پکوڑے بیچتا تھا۔ یہ غریب تھا۔ یہ ہڈحرام اور بے ایمان تھا۔ یہ باسی پکوڑے بیچ دیتا۔ یہ بقایا پیسے دینے میں حیل حجت کرتا حتی کہ گاڑی چل پڑتی۔ مسافر اس کو کھڑکیوں سے سر نکال نکال کے گالیاں دیتے۔ یہ ڈھیٹ بن کر ہنستا رہتا۔ ریلوے سٹیشن کے سارے صادق اور امین اس کو سمجھاتے۔ یہ اس کو گندی گالیاں نکالتے۔ یہ اس کو کہتے، بے ایمانی سے کبھی فائدہ نہیں ہوتا۔ جب تک تم تازے پکوڑے نہیں بیچو گے۔ مسافروں کا بقایا نہیں دوگے۔ تم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ چیمہ آگے سے ان کو ہنس کے دکھا دیتا۔ یہ ان کو عرفان قادر والے اشارے کرتا۔ یہ ان کے چھابے الٹا دیتا۔ یہ صادق اور امین  مایوس  ہوگئے۔ انہوں  نے چیمے  سےکچّی کرلی۔ یہ اس کو بلانا چھوڑ گئے۔
لالے موسے کے سٹیشن پرریل گاڑیوں کا جھمگٹا لگا رہتا ہے۔ یہاں ہر وقت رش رہتا ہے۔ یہ وسط اکتوبر کے دن تھے۔ ہوا میں بھینی بھینی خنک خوشبوئیں تھیں۔ آتی جاتی ٹرینوں میں  لڑکے،  لڑکیاں اکھ مٹکّوں میں مشغول تھے۔ تاروں پر بیٹھے چڑے، چڑیوں سے رومانس کررہے تھے۔ جنہیں دیکھ کر بچے حیران ہوتے تھے کہ یہ چڑیاں کیوں لڑ رہی ہیں۔ یہ نہیں جانتے تھے ۔ یہ پیار ہے یہ محبت ہے۔ یہ لڑائی نہیں ہے۔ نیامت چیمہ خیبر میل کو بھگتا کے فارغ ہی ہوا تھا۔ اس نے فیقے کے ٹی سٹال سے چائے اور کیک رس لیے۔ یہ بنچ پر بیٹھ کر کھانے لگا۔ اچانک اس کی نظر ایک اخبار کے ٹکڑے پر پڑی۔ اس نے اٹھا کر دیکھا ۔ یہ ضرورت رشتہ کا صفحہ تھا۔ یہ اس کو پڑھنے لگا۔ یہ لاگورڈیا میں رہائش پذیر ایک خاتون کا اشتہار تھا۔ خوبرو، خوب سیرت، والدین انتقال کرچکے، بے تحاشہ جائیداد کی واحد وارث، نیک دل، صادق اور امین کی طالب۔  چیمہ اس اشتہار میں ایسا ڈوبا کہ اس کا کیک رس چائے میں ڈوب گیا۔ یہ فورا اٹھا ۔ نان پکوڑے سمیٹے اور تیر بن کے نکلا ۔یہ اپنے لنگوٹیے تجمل کمبوہ کے گھر پہنچ گیا۔ 
اس نے کمبوہ سے کہا، 'میرا ٹَیم آگیا ہے جِیلے۔ خدا نے میری سن لی ہے۔' چیمے نے کمبوہ سے اس اشتہاری حسینہ کو خط لکھوایا۔ تجمل کمبوہ خواتین کے رسالوں میں شگفتہ نورین کے نام سے کہانیاں لکھتا تھا۔ اس نے پھڑکتا ہوا خط لکھ کے چیمے کے حوالے کردیا۔
خط کا جواب ایک ہفتے میں ہی آگیا۔ اشتہاری حسینہ نے اپنی تصویر، نام، فون نمبر بھی بھیجا۔ اس کا نام کوثر شہزادی تھا۔ یہ خط پڑھتے ہی چیمے کی محبت میں مبتلا ہوگئی۔ کوثر کی تصویر چیمے کو روغنی نان پر دھرے تازہ پکوڑوں جیسی لگی۔ یہ پہلی نظر میں کوثر کا دیوانہ ہوگیا۔ دو لیٹرز اور پانچ ٹرنک کالز کے بعد کوثر اور چیمہ، کوثر چیمہ بننے کے لئے بے تاب ہوگئے۔ نیامت چیمے کو لاگورڈیا کا ویزا ملا تو اس نے پورے محلے میں تازہ پکوڑے بنا کے بانٹے۔ یہ اتنا ہیپی ہوگیا کہ اس نے سٹیشن والے صادق، امینوں سے بھی صلح کرلی۔ جس دن چیمے نے کراچی جانے والی ٹرین میں پاؤں دھرا، پورا سٹیشن اس کے استقبال کے لیے امڈ آیا۔  چیمے نے ثابت کردیا کہ آنسٹی از ناٹ بیسٹ پالیسی، لَوّ از بیسٹ پالیسی۔
یہ ریسٹورنٹ اسی چیمے کا ہے۔ یہ لاگورڈیا جھیل کے کنارے بھی نان پکوڑے اور چِکّڑ چھولے بیچتا ہے۔ پوری دنیا سے محبّت کے پنچھی یہاں آتے ہیں۔ یہ محبت کی نشانی جھکی ہوئی چٹان پر بیٹھتے ہیں۔ یہ تلوں والے نان اور چِکّڑ چھولے کھاتے ہیں۔ یہ سِی سِی کرتے ہیں۔ یہ سپرائٹ میں کالانمک ڈال کے پیتے ہیں ۔ یہ پتھروں اور لہروں کی بالغانہ فلم انجائے کرتے ہیں۔ یہ منظر ان کے یادوں کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ زندگی میں جب بھی انہیں محبت ہوتی ہے۔ انہیں چِکّڑ چھولے یاد آجاتے ہیں۔ انہیں پتھر اور لہریں یاد آجاتی ہیں۔ یہ لاگورڈیا اور نیامت چیمے کے مشکور ہوجاتے ہیں۔ 
نیامت چیمہ آج کا شاہجہاں ہے جس نے کوثر شہزادی کی محبت  میں چِکّڑ چھولوں کا تاج محل بنادیا ہے۔  میں نیامت چیمے کو سلیوٹ کرتا ہوں!

مُودے کی کہانی، بِلّو کی زبانی

عرش  سے نالوں کا جواب آتا ہے۔ آہیں دل پگھلا دیتی ہیں مگر انجام سے بے خبر یہ سرپٹ دوڑتے ہرکارے۔حیف اس قوم پر جو سیٹیاں مارنے کا الزام لگائے۔۔۔ مُودا  دھیں پٹاس بے قصور ہے حضورِ والا۔۔۔
ربع صدی  ہوتی ہے؛ طالبعلم ساتویں درجے میں فیل ہوا تو دل خون ہوا ، تشریف ابّا جی خلد آشیانی نے خونم خون کی۔طیش اور مایوسی۔ کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔
۔ ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
جی میں آیا کہ یہ جہاں ترک کیا جاوے اور کہیں دور بستی بسائی جائے۔ فقیر گلی میں نکلا تو بِلّو پر نگاہ پڑی۔ روپ اور  رنگ کی پُڑیا۔ واٹ 69 کی بظاہر سر بمہر بوتل۔ چشمِ پُر فتن۔ جدھر نظر اٹھائے، کشتوں کے پشتے لگائے۔ریشمی لاچے سے جھانکتی روپہلی پنڈلیاں۔ چال ایسی کہ بقول یوسفی، دو مٹکے مٹک رہے ہوں۔ چاچے جیرے کے تھڑے پر فدوی ڈھیر ہوا۔ سانس بے قابو، جذبات میں ہنگام۔ ہمت مجتمع کی اور گویا ہوا ، "اے حسینہء خوش اندام، کدھر کا قصد ہے؟"۔ بِلّو نے ایک نگاہِ غلط انداز فقیر پہ ڈالی اور بزبان مادر ہم سے ایسا سوال کیا جس میں ہماری عمر کا طعنہ تھا اور حسّاس اعضاء کی جبلّی حرکات بارے شکوک ۔طالب علم شرم سے پانی پانی ہوا۔ خاموشی شعار کی۔ تِس پرحُسن کی اُوزی نے موڈا مارا اور چمک کے فرمایا، "مُودے کول چلّی آں۔ کوئی تکلیف؟"۔
مُودا دھیں پٹاس، وہ مرِد جری کہ جس کی پہنچ سے  ماجھے کاکوئی ڈنگر محفوظ نہ تھا۔ ایسی آہو چشم بھینسیں چشمِ زدن میں کھول لیتا جیسے بنارسی ٹھگ آنکھ سے سُرمہ چرا  لیا کرتے تھے۔ مردِ خود دار و خُود بیں۔اقبال کا شاہیں۔ کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال درا ز نہ کیا۔ ہمیشہ چھین لیا۔  شجاعت کا جوہر بس چند جواں مردوں کا زیور ہوا کرتا ہے۔ لوگ مگر سمجھتے نہیں۔دل مگر مُودے کا گداز تھا۔ شبِ بھینس کھلوائی مناکے آتا تو عجب ہی ترنگ ہوتی۔ چال میں نرالا بانکپن ، آواز ایسی کہ دلوں کو چیر دے۔
شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لئے بہتی ہے | جن کے محبوب بہت دور کہیں رہتے ہیں
حاسد پیٹھ پیچھے زبان طعن دراز کرتے کہ مُودے کا محبوب بھینس ہے۔ ۔حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔۔۔نگہ پاکباز اور لنگوٹ آہنی۔ شورہ پشت بِلّو جو کسی کو پٹھے پر ہاتھ دھرنے نہیں دیتی تھی؛ مُودے پر دھیں پٹاس تھی۔ مُودا مگر راہِ سلوک کا مسافر۔ دنیاوی لذائذ سے کنارہ کش۔ نظر جھکا کے بِلّوکے سب وار سہہ جاتا۔ عورت کی انا، حضورِ والا، عورت کی انا۔ زخمی ناگن،  بِلّو بن چکی تھی۔ وہ دوشیزہ کہ 12 سے 72 تک سب مرد جس کے لئے مرے جارہے ہوں اور ایک جواں مرد اسے پرِ کاہ جیسی اہمیت نہ دے؟  توہین ہے یہ حُسن کی توہین۔
ساون کی ایک حبس بھری صبح چوپال کے سامنے بِلّوفریاد کرتی پائی گئی۔ تریا چلتر۔ ہجوم اکٹھا کرلیا گیا۔ چلاّ چلاّ کر مُودے پر بہتان باندھے گئے۔ تان اس پر ٹوٹی کہ آتے جاتے مجھے سیٹیاں مارتا ہے۔ حضورِ والا مُودے کی تو سیٹی نکلتی ہی نہیں؛ وہ کیسے سیٹیاں مار سکتا ہے؟  بہتان ہے، صریح بہتان۔ جھوٹ ہے ، سفید جھوٹ۔
عرش  سے نالوں کا جواب آتا ہے۔ آہیں دل پگھلا دیتی ہیں مگر انجام سے بے خبر یہ سرپٹ دوڑتے ہرکارے۔حیف اس قوم پر جو سیٹیاں مارنے کا الزام لگائے۔۔۔ مُودا  دھیں پٹاس بے قصور ہے حضورِ والا

جندل، چلّی ملّی اور کمبلے

چیمپئینز ٹرافی کی فاتح ٹیم کے اعزاز میں وزیر اعظم ہاؤس میں تقریب جاری تھی۔وزیر اعظم بہت ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے مقتدر حلقوں پر پھبتیاں بھی کسیں اور خود کو نام نہاد وزیر اعظم قرار دیتے ہوئے بظاہر کرکٹ ٹیم لیکن اصل میں مقتدر حلقوں کو وزیر اعظم قرار دیا۔ انہوں نے ایک اور بہت اہم بات کہی کہ "اصل ہیروز آپ ہیں۔ ہم تو آپ کے پرستار ہیں"۔ آن دا فیس آف اٹ یہ ایک خراج تحسین ہے لیکن اس کے پیچھے ایک پوری کہانی ہے۔ آئیے اس کہانی کی پرتیں کھولتے ہیں۔
یہ 26 اپریل کی ایک سہانی دوپہرکا منظر ہے۔ مری کے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے لان میں دو افراد چہل قدمی کرتے ہوئے گفتگو کررہے ہیں۔ یہ وزیراعظم اور ہندستانی صنعتکار سجن جندل ہیں۔ مسٹر جندل جیب سے ایک گلابی کاغذ کا پرزہ نکال کر وزیر اعظم کی طرف بڑھاتے ہیں۔ وزیر اعظم ویسٹ کوٹ کی اوپری جیب سے قلم نکال کے اس پر کچھ لکھ کے واپس کردیتے ہیں۔ جندل اس کو ایک لحظہ دیکھتے ہیں اور پھر کاغذ کے اس ٹکڑے کو منہ میں ڈال کے ٹافی کی طرح چبا کے نگل جاتے ہیں۔ کاغذ کے اس پرزے پر " چیمپئینز ٹرافی" لکھا ہوا تھا!
اس کاغذ کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ یونیورسٹی آف تل ابیب کے ڈیپارٹمنٹ آف ایڈیبل سائنسز کے سربراہ ایریل بیگن نے ایک ایسا کاغذ ایجاد کیا جس کا ذائقہ مشہور زمانہ چلّی ملّی کینڈی کی طرح ہے۔اس کا نام ایڈیبل پیپر رکھا گیا۔ ساری دنیا کے جاسوس کہیں نہ کہیں پکڑے جاتے ہیں لیکن موساد کے ایجنٹ کبھی نہیں پکڑے جاتے۔ اس کی وجہ یہی کاغذ ہے۔ موساد کے ایجنٹ کسی بھی مشن پر تمام کمیونیکیشن اسی پیپر پر کرتے ہیں اور پیغام ریسیو کرنے کے بعد اس کو کھا لیتے ہیں اور کسی بھی قسم کا الیکٹرانک یا دستاویزی ثبوت نہیں چھوڑتے۔
سجن جندل کے خفیہ دورے کے متعلق ہر طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں۔ کوئی اسے ڈان لیکس سے جوڑتا رہا اور کوئی وزیر اعظم کے ہندوستانی میں موجود کروڑوں ڈالرز کے کاروبار کا ذکر کرتا رہا۔ لیکن اصل معاملہ بہت الگ اور گہرا تھا۔ ڈان لیکس میں مقتدر حلقوں کی جمہوریت سے وابستگی کے عزم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمرانوں نے ایک اور منصوبہ بنایا ۔ جس میں پانامہ کے معاملے کو بھی ڈان لیکس کی طرح جمہوریت کے خلاف سازش کا رنگ دینے کا فیصلہ ہوا۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود بھی آزاد و خودمختار عدلیہ کو جھکایا نہ جا سکا ۔ پانامہ کا فیصلہ نوشتۂ دیوار نظر آنے لگا تو اگلے منظر نامے کے لئے ایک گھناؤنی سازش رچائی گئی۔  سجن جندل کے ذریعے وزیر اعظم نے اپنے دوست اور سٹریٹجک پارٹنر نریندر مودی کو پیغام بھجوایا کہ کسی بھی طرح پاکستان کو چیمپئینز ٹرافی جتوانے کا بندوبست کریں ورنہ معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے ۔ مودی جی نے کرکٹ ایکسپرٹس کو بلا کے بریفنگ لی جس میں ان تمام ٹیموں کا اندازہ لگایا گیا جن سے پاکستان کا میچ ہوسکتا تھا۔ ان ایکسپرٹس میں کیرتی آزاد، شیو لال یادیو، آکاش چوپڑا اور مدن لعل شامل تھے۔ گروپ سٹیج کی ٹیموں سے رابطہ کیا گیا۔ ساؤتھ افریقہ نے صاف انکار کردیا۔ سیمی فائنل اور فائنل کی متوقع ٹیموں میں انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل تھیں۔ گوروں کی مزاحمت سے نبٹنے کے لئے مودی جی نے آخرکار اسرائیلی وزیر اعظم سے رابطہ کیا اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی۔  یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کا اصل حکمران اسرائیل ہے۔ ساری دنیا کا میڈیا، بزنس، مالیاتی ادارے سب کو کنٹرول کرنے والے یہودی ہیں۔ جہاں انہیں اپنے مفادات خطرے میں نظر آتے ہیں وہاں یہ پوری قوت سے ضرب لگاتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے متعلقہ ممالک کی حکومتوں سے رابطہ کرکے انہیں سخت الفاظ میں پیغام دیا کہ اگر ان کی ٹیم پاکستان سے نہ ہاری تو انہیں اس کی ناقابل تلافی قیمت چکانی پڑے گی۔
ہنگری کے شہر بوڈاپسٹ میں ہونے والی ایک پارٹی میں سجن جندل مدہوش ہو کر اس منصوبے بارے بول پڑے۔ روس کے مشہور اخبار ماسکوپوسٹ کے سٹار رپورٹر نیکولائی کرامازوف تک یہ خبر پہنچی  توانہوں نے آن لائن ایڈیشن میں یہ خبر چھاپ دی۔ دہلی سے تل ابیب تک تھرتھلی مچ گئی۔ اسی وقت کرامازوف کی بیٹی کو ماسکو سے اغوا کرلیا گیا اور خبر ہٹانے کی شرط پر اس کو رہا کیا گیا۔ یہ خبر فورا ہٹا لی گئی اور اگلے دن پرنٹ ایڈیشن میں بھی شامل نہیں کی گئی۔ اس خبر کے سکرین شاٹس انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں۔
چیمپئینز ٹرافی شروع ہوئی۔ پہلے ہی میچ میں ہندوستان نے پاکستان کو بری طرح ہرادیا۔ رینکنگ اور موجودہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ غیر متوقع نہیں تھا۔ سابقہ کرکٹرز نے کرکٹ بورڈ پر کڑی تنقید کی ۔ عمران خان نے اپنی ٹوئٹ  میں نواز شریف اور نجم سیٹھی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں پاکستانی کرکٹ کو تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ یہود و ہنود کے پلان کے عین مطابق تھا۔ پاکستان کی اوسط سے کم درجے کی بالنگ نے جنوبی افریقن بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑا دئیے۔ آملہ، ڈوپلیسی، ڈی کاک، ڈی ویلئیرز جیسے بلّے بازوں کو اڑا کے رکھ دیا۔ سری لنکا کے خلاف میچ میں جیسے سرفراز کے کیچز چھوڑے گئے ان پر کرکٹ ماہرین اب تک حیران ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں بین سٹوکس جیسا کوالٹی آل راؤنڈر ایک بھی باؤنڈری نہ لگا سکا۔ جبکہ اسی وکٹ پر اظہر علی چوکے پہ چوکے لگاتے رہے۔ حتّی کہ حفیظ جیسے کھلاڑی بھی انگلینڈ کے ورلڈ کلاس بالرز کو کلب لیول کے بالرز کی طرح ٹریٹ کررہے تھے۔ یہ سب الارمنگ علامات تھیں لیکن کوئی بھی مشہور کرکٹ تجزیہ نگار اس کی تفصیل میں نہیں گیا۔ سب پاکستانی ٹیم کے فائٹ بیک کی توصیف کرتے رہے۔  اب فائنل درپیش تھا!
پچھلے 25 سال میں کرکٹ کی دنیا میں میچ فکسنگ اور جوئے کا کینسر پھیلا ہوا ہے۔ بہت کم کھلاڑی ایسے ہیں جو اس میں سے کلین ہوکر سامنے آئے ہیں۔ انیل کمبلے ان میں سے ایک ہیں۔ اظہر الدین، جدیجہ، سچن ٹنڈولکر، دھونی، رائنا جیسے سٹارز نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے لیکن کمبلے نے ہمیشہ صاف کرکٹ کھیلی۔ انیل کمبلے کو کوچ بناتے وقت بھی ٹیم میں ان کی مخالفت موجود تھی۔ ان کے ہوتے ہوئے کھیل میں ہیرا پھیری ممکن نہیں تھی۔  چیمپئینز ٹرافی کے فائنل سے قبل میٹنگ میں جب مودی جی کا پیغام پڑھ کے سنایا گیا تو کمبلے نے اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا انہوں نے ساری زندگی فئیر گیم کھیلی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی فکسنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو سخت وارننگ دی کہ اگر انہوں نے جان بوجھ کر خراب کھیل پیش کیا تو وہ اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ صورتحال بگڑتی دیکھ کر دھونی نے مودی جی سے رابطہ کیا اور انہیں کمبلے کے موقف سے آگاہ کیا۔ مودی جی نے اسی وقت ٹیم میٹنگ میں کال کی ۔ فون کا سپیکر آن تھا۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں ٹیم کو حکم دیا کہ کل ہر صورت فائنل ہارنا ہے۔ اگر کسی کو یہ منظور نہیں تو وہ ٹیم چھوڑ کر جا سکتا ہے۔ کمبلے نے اسی وقت اپنا استعفی لکھا اور ٹیم مینجمنٹ کے حوالے کرکے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
فائنل کا آغاز بھی سنسنی خیز تھا۔ بمراکی گیند پر فخر زمان آؤٹ ہوئے تو تھرڈ امپائر نے نوبال قرار دے دی۔ سکرین پر چلتے پھرتے ڈائنو سارز دکھائے جاسکتے ہیں تو ایک سفید لائن کو دو تین انچ آگے پیچھے کرنے میں کیا مشکل ہوسکتی ہے۔ پاکستانی اوپنرز کو یقین دلایا گیا کہ پہلے 20 اوورز میں انہیں کسی بھی طرح آؤٹ قرار نہیں دیا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اظہر علی بھی کھل کر کھیلے۔ سب سے دلچسپ چیز حفیظ کے چھکے چوکے تھے۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ حفیظ نے سارے کیرئیر میں کبھی ایسے بیٹنگ نہیں کی۔ ہندوستانی بالرز کو باقاعدہ ہدایات دی گئی تھیں کہ ہر پاکستان بلے باز کے سٹرانگ پوائنٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بالنگ کریں تاکہ وہ اپنے فیورٹ شاٹس آزادی سے کھیل سکیں۔ ہندوستانی بیٹنگ کا پاور ہاؤس بھی پاکستانی ایوریج بالنگ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ یووراج سنگھ نے ہاتھ کھولنے کی کوشش کی تو انہیں ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا گیا۔ پانڈیا کو جدیجہ نے رن آؤٹ کرا  یا۔ بالآخر پاکستان نے چیمپئینز ٹرافی جیت لی۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ 92 کا ورلڈ کپ  ملک و قوم کی یکجہتی کی واحد وجہ ہے۔ جس نسل کے والدین کی 92 میں شادی بھی نہیں ہوئی تھی وہ بھی اس ورلڈ کپ فتح کے دیوانے ہیں۔ ملک و قوم کو متحد رکھنے والی اس علامت پر ضرب لگانے کے لئے چیمپئینز ٹرافی جیتنے کی سازش کی گئی۔ 92  کی طرح شروع میں بری طرح میچ ہارا گیا۔ پھر اس کے بعد فائٹ بیک کا ڈرامہ سٹیج کیا گیا  اور بالآخر فائنل جیت کے اپنے تئیں ورلڈ چیمپئینز  بن گئے۔ نجم سیٹھی اور کرکٹ بورڈ کی تعریفیں ہونے لگیں۔ یہ سب تیاریاں متوقع پانامہ فیصلے کے بعد ہونے والے انتخابات کی ہیں۔ تاکہ کہا جاسکے کہ ورلڈ کپ تو سرفراز نے بھی جیتا اور ہمارے دور میں جیتا ۔ اس سازش  سے ایک دفعہ پھر عمران خان کا رستہ کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے  لیکن سازشی ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر ناکام و نامراد ہوں گے۔

ورلڈ کپ کا اصلی فاتح صرف ایک کپتان ہے۔ ہمارا کپتان۔۔ عمران خان

متوازی تاریخ

انیس سو چھہتر  کے آخری دنوں میں جب وزیر اعظم بھٹو نے انتخابات کا اعلان کیا تو یہ اپوزیشن کے لئے سرپرائز تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ۔ متحدہ اپوزیشن نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ ایک پُرتشدد تحریک چلی۔ بالآخر حکومت اور اپوزیشن نے مذاکرات کے ذریعے معاملہ طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2 جولائی 1977 کو سمجھوتہ ہوگیا اور  وزیر اعظم بھٹو نے اکتوبر 1977میں دوبارہ انتخابات کا اعلان کردیا۔ ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ، عبدالولی خان، پروفیسر غفور، غوث بخش بزنجو، شاہ احمد نورانی اور اصغر خان بھی موجود تھے۔ انتخابات کے لئے نگران حکومتوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ اپوزیشن اور حکومت کو ان میں برابر نمائندگی دی گئی تھی۔
انتخابات پرامن اور شفاف طریق سے ہوئے۔ مرکز میں پی پی پی نے سادہ اکثریت حاصل کی جبکہ بلوچستان اور سرحد میں متحدہ اپوزیشن نے اکثریت حاصل کرکے حکومتیں تشکیل دیں۔ سندھ اور پنجاب میں بھی پی پی پی کامیاب ہوئی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ پی پی پی کے امیدواروں کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔  یہ بھٹو کا دوبارہ سے پارٹی کے بنیادی منشور کی طرف رجوع تھا۔ اس سے ان کی سیٹیں تو کم ہوئیں لیکن عام آدمی کا بھٹو پر دوبارہ سے اعتماد بحال ہوا۔  معراج محمد خان سندھ  اور حنیف رامے پنجاب کے وزیر اعلی بنے۔
نومبر 1978 میں بھٹو نے زرعی اصلاحات  کا اعلان کیا۔ اس میں انہیں نیپ، جے یو آئی، تحریک استقلال کی حمایت حاصل تھی۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (قیوم) اور مسلم لیگ (دولتانہ) نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن ختم کرکے سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ صوبائی خودمختاری کے لئے آئینی ترمیم کی گئی ۔ خارجہ، دفاع، مواصلات اور خزانہ کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کردئیے گئے۔ فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو صوبہ سرحد میں ضم کردیا گیا ۔ ستمبر 78 میں بلدیاتی انتخابات بھی ہوئے جن کا نتیجہ کم و بیش عام انتخابات جیسا ہی تھا۔
دسمبر 79میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے اس جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سوویت فوجیں افغانستان سے نکل جائیں اور افغانی عوام کی خواہشات کے مطابق ان کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر اصغر خان نے حکومتی موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے پیشکش کی کہ بحران کے خاتمے کے لئے وہ اور ولی خان ماسکو اور کابل کا دورہ کرنے کو تیار ہیں۔ وزیر اعظم بھٹو نے اس بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔صدر ریگن نے انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم بھٹو کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ پاکستان کو پیشکش کی گئی کہ اگر وہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں تو انہیں بھرپورفوجی اور معاشی امداد دی جائے گی۔وزیر اعظم نے اس قضیے میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا البتہ انہوں نے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں ہر قسم کی مدد کی یقین دھانی کرائی۔
افغان پناہ گزینوں کے لئے سرحدی علاقوں میں کیمپس بنائے گئے۔ ان کی رجسٹریشن کی گئی اور آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی۔ مفتی محمود اور ولی خان افغانستان کے متعلقہ فریقوں کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اگست 1982 میں کابل حکومت اور افغان مزاحمت کاروں کے مابین پہلے باضابطہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔  اکتوبر 82 میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اس دفعہ پی پی پی کے مقابل متحدہ  اپوزیشن نہیں تھی۔ نیپ اور جے یو آئی نے اتحاد کرکے الیکشن لڑا۔ جبکہ اصغر خان کی تحریک استقلال نے سولو فلائٹ کی۔ جماعت اسلامی نے  مولانا مودودی کی وفات کے بعد سیاست اور انتخابات  میں حصہ لینے کی پالیسی سے رجوع کیا اور دعوتی کام کی طرف واپس چلی گئی۔
پنجاب کی حد تک پی پی پی اور تحریک استقلال میں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ اصغر خان کا کرشمہ شہری علاقوں میں نظر آیا جبکہ دیہی علاقوں میں بھٹو کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ پی پی پی بڑی مشکل سے سادہ اکثریت حاصل کرسکی۔ سندھ میں پی پی پی، جبکہ سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔نئی اسمبلی نے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کی متفقہ قراردار منظور کی اور اس میں ذمہ دار ٹھہرائے گئے لوگوں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی سفارش کی۔ 16دسمبر 1983 کو سقوطِ ڈھاکہ کے مرکزی کرداروں کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا۔ اس سے ایک ماہ قبل افغانستان کے متحارب فریقین امن معاہدہ کرچکے تھے۔ جس کے تحت ایک نگران حکومت قائم کی گئی جس میں افغانستان کے تمام نسلی و لسانی گروپس کو نمائندگی دی گئی۔ اس حکومت کے تحت ڈیڑھ سال بعد عام انتخابات ہونے طے پائے۔ افغان پناہ گزینوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل بھی شروع ہوا۔ اگلے چھ ماہ میں تمام افغان پناہ گزین واپس جاچکے تھے۔
زرعی اصلاحات پر عملدرآمد میں بہت سی رکاوٹیں آئیں مگر  وزیر اعظم بھٹو نے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جدیدکاشتکاری کے لئے زمین کے نئے مالکان کو تربیت دی گئی۔ بلاسود زرعی قرضے اور سستی بجلی فراہم کی گئی۔ مارچ 1984 میں چاروں صوبائی حکومتوں کی منظوری سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔اس کا سنگِ بنیاد عبدالولی خان نے رکھا۔
16 دسمبر 1985 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا۔ وزیر اعظم بھٹو نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے  کہا کہ پاکستان کبھی کشمیر سے دستبردار نہیں ہوگا اور نہ ہی کشمیریوں کو بھولے گا۔ یہ تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہےجسے آج یا کل مکمل ہونا ہے۔ خطّے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے یو این اور عالمی طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ مذاکرات  کے پہلے دور کا آغاز 4 اپریل 1986 کو مری میں ہوا۔ ڈیڑھ سال کی بات چیت کے بعد پاکستان اور ہندوستان ابتدائی سمجھوتے پر رضامند ہوگئے جس کے تحت کشمیر کی سرحد کھول دی گئی اور دونوں اطراف کے کشمیریوں کو آنے جانے کی آزادی دے دی گئی۔ عام شہریوں کے لئے بھی ویزے کی پابندیاں نرم کرکے تقریبا ختم کردی گئیں۔ دو طرفہ تجارت کے فروغ کا بھی فیصلہ ہوا۔
اس تاریخ کو یہیں چھوڑتے ہیں اور 5 جولائی 1977 کو یاد کرتے ہیں!

مکافات کا دریا

کافی پرانی بات ہے۔ کہو تو اب اپنا قصہ نہیں لگتا، کسی اور کی کہانی لگتی ہے۔ یہ وقت کا جادو ہے۔ میں چھوٹا سا تھا۔ اتنا چھوٹا کہ پہلی دفعہ کسی بچے کو گود میں لینے کی اجازت ملی تھی۔یہ میری چھوٹی بہن تھی۔ سردیوں کے دن تھے اور خوب دھند۔ میں نظر بچا کر باہر گلی میں نکل آیا اوراس دھند میں چھُٹکی کو اٹھائے گلی میں گھومتا رہا اور خود کو بڑا  اور معتبر سمجھتا رہا۔
ابوجی کا بچوں کے ساتھ برتاؤ بہت سپیشل ہوتا تھا، اب بھی ہے۔  انہیں کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا۔ کبھی کسی بچے کو "تُو"یا "اوئے"  سے مخاطب کرتے نہیں سنا۔ ہمیشہ "تسی" یا نام لے کر پکارتے تھے۔ چھوٹی کے ساتھ لیکن ان کا لگاؤ کچھ الگ ہی تھا۔اس کو خصوصی پروٹوکول دیتے تھے۔ رویّوں پر تو شاید اختیار ہوتا ہے محبت پر نہیں ہوتا۔
چھوٹی شاید ایک ڈیڑھ سال کی تھی کہ  بیمار ہوئی۔ ایک ٹانگ پر پولیو کا شدید اثر ہوا۔ سارے شہر کے اسپتال اور ڈاکٹر چھان مارے۔ لیکن سب کا یہی کہنا تھا کہ ٹانگ ناکارہ ہوگئی ہے۔ چلنا مشکل ہوگا۔ مناسب وسائل رکھنے والا خاندان جتنی دوڑ بھاگ کرسکتا ہے اس سے زیادہ کوشش کی۔ کوئی امید نظر نہیں آئی۔
نڑوالا چوک سے جناح کالونی کی طرف آئیں تو دائیں ہاتھ پر لاؤڈ سپیکرز، ایمپلی فائر وغیرہ کی مارکیٹ ہوا کرتی تھی ۔جہاں سے اکثر "ہیلو ہیلو۔۔ مائیکرو فون ٹیسٹنگ۔۔ہیلو ہیلو" کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔  انہی کے درمیان حکیم طفیل کا مطب تھا، اب بھی ہے۔ حکیم صاحب تو انتقال کرچکے ، اب ان کے صاحبزادے مطب سنبھالتے ہیں۔ ابوجی کی حکیم طفیل سے پرانی یاد اللہ تھی۔ نزلہ زکام ، ہلکے پھلکے بخار کے لیے دوا انہی سے لی جاتی تھی۔ مختلف اقسام کے شربت، مربےّ، مزے دار میٹھے خمیرے۔ بچوں کو اسی لیے حکیم کی دوائی پسند تھی۔ نہ انجکشن کا ڈر نہ کڑوے شربت۔ چورن جیسا سفوف اور بزوری یا بنفشے کا مزے دار شربت اور میٹھے خمیرے۔۔ ہاں کبھی کبھار کڑوے جوشاندے بھی پینے پڑتے تھے لیکن اتنی سی قربانی  دی جاسکتی ہے تو   ہنسی خوشی دوا کھا لیتے تھے۔ قصہ مختصر۔۔۔۔ ابو نے حکیم صاحب سے ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک تیل بنانا پڑے گا لیکن اس میں بہت محنت ہے اور اس کے اجزاءبہت مشکل ہے کہ مل سکیں۔ ابو کے اصرار پر انہوں نے اجزاء اور اس کی تیاری کا طریقہ لکھ دیا۔
ابو بتاتے ہیں کہ ساری چیزیں اکھٹی کرنے میں انہیں تقریبا تین مہینے لگے۔ تیل بنانے کا عمل چھٹی والے دن انجام پایا۔ ایسی ناگوار اور تیز بُو تھی کہ ساتھ والی گلی تک اس کا اثر جاتا تھا۔ شفا منجانب اللہ ہوتی ہے۔ خاک سے بھی مل جاتی ہے۔ تقریبا ایک سال تک اس تیل کی مالش کی گئی۔ متاثرہ ٹانگ جو حرکت نہیں کرتی تھی اب اس پر وزن ڈالنا ممکن ہوگیا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی نے ٹانگ گھسیٹ کے لنگڑا کے چلنا بھی شروع کردیا۔ ڈاکٹر اورنگ زیب جو ہمارے ہمسائے تھے، وہ بھی اس بحالی   پر حیران تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ چھوٹی چل تو سکتی تھی لیکن دوسرے بچوں کی طرح دوڑنا بھاگنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ شاید اسی لئے اس کی طبیعت میں تلخی، گرم مزاجی اور چڑچڑا پن آتا گیا۔
انہی دنوں گلی میں کچھ نئے لوگ آئے۔ نکڑ والے مکان کے اوپر ی پورشن میں آنے والے کرائے دار کا نام شیخ طاہر تھا۔ لحیم شحیم، گورے چٹّے۔ سوتر منڈی میں بروکری کا کام کرتے تھے۔ طبیعت میں گرم مزاجی اور بڑبولا پن تھا جسے پنجابی میں پونکا بھی کہتے ہیں۔ ان کی بیگم البتہ بالکل الٹ تھیں۔بہت نرم لہجے اور سبھاؤ والی مہذب اور پڑھی لکھی خاتون۔ کچھ ہی عرصے میں شیخ صاحب کا نام طاہر سے موٹا طاہر میں تبدیل ہوگیا۔ ہر خاص و عام ان کو اسی نام سے یاد کرنے لگا۔  قریبا ایک ہی سال میں انہوں نے اسی گلی میں بابے حاجی کے ساتھ والا مکان خرید لیا۔ ویسپے کو سوزوکی کیری ڈبے سے بدل لیا۔ ہماری گلی میں پہلا اے سی بھی انہی کے گھر لگا تھا۔ 
شیخ صاحب کی تلخ مزاجی اور بد گوئی کا شکار افراد کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ کئی دفعہ بات تلخ کلامی سے ہاتھا پائی تک بھی پہنچی۔ ان کی بدمزاجی کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے جو پلٹ کر جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ مولوی صادق اور استاد خالد سے مار کھانے کے بعد وہ اس ضمن میں کافی احتیاط برتا کرتے تھے۔
متوسط طبقے کے محلّوں میں بچوں کے کھیلنے کی جگہ گلی ہی ہوتی ہے۔ بچّے کھیلتے ہیں۔ لڑتے ہیں۔ پھر سب کچھ بھلا کے کھیلنے لگتے ہیں۔ دل میں مَیل نہیں رکھتے۔شیخ صاحب کی بیٹی بھی چھوٹی کی ہم عمر تھی۔ ایک دن کھیلتے ہوئے شاید لڑائی ہوگئی۔ وہ روتی ہوئی گھر چلی گئی۔  اس کے بعد شیخ صاحب جب بھی چھوٹی کو گلی میں دیکھتے تو اسے "لنگڑی" کے نام سے پکارتے۔ وہ گھر آکے خوب چلاّ چلاّ کے روتی کہ وہ مجھے لنگڑی کہتے ہیں۔ امی جی کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر اسے چپ کرادیتیں۔ یہ معمول طول پکڑ گیا تو امی نے محفل میلاد میں آئی شیخ صاحب کی بیگم سے اس کا ذکر کیا۔ وہ بہت شرمندہ ہوئیں اور یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن شیخ صاحب اپنی طرز کے واحد انسان تھے۔ چھوٹی کو لنگڑی کہنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ وہ بھی رو پیٹ کے چپ ہوجاتی تھی۔
وقت گزرتا گیا۔ چھوٹی سکول جانے لگی۔ میں بھی سکول کے آخری درجات میں پہنچ گیا۔ خون گرم تھا۔ ایک دو دفعہ شیخ صاحب سے گلی میں کرکٹ کھیلنے پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ایک کی تین سنیں تو شیخ صاحب مجھ سے کترانے لگے۔ میں کچھ ہتھ چھُٹ بھی مشہور تھا تو شاید یہ وجہ بھی تھی۔ بہرحال انہی دنوں شیخ صاحب ایک اور بیٹے کے باپ بنے۔ بہت خوبصورت، گول مٹول ، گورا چٹّا بچّہ۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ پیارا بچہ بالکل حرکت نہیں کرسکتا۔ شاید سر کو تھوڑی بہت حرکت دے سکتا تھا۔ سن اور بول بھی نہیں سکتا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ شیخ صاحب کی بیگم ہمارے گھر آئیں اور ہاتھ جوڑ کے کہہ رہی تھیں کہ ہمیں معاف کردیں۔ یہ بیان کرتے ہوئے امی جی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
پس ڈوبنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی
بہتا ہے بہت سُست مکافات کا دریا

فیصلہ

"قتل ہونا چاہنا واں۔ ایہہ جُڑیا پِنڈا وکھو وکھ ویکھنا چاہنا واں"۔ (مولا جٹ)
عظیم مصنّف ناصر ادیب نے کلاسک فلم "مولاجٹ" کے کردار نوری نت سے جب یہ جملہ کہلوایا تو وہ انسانی نفسیات کی دس ہزار سالہ تاریخ کا نچوڑ  تھا۔   تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر جرم کے پیچھے ایک نوری نت  ہوتا ہے جس کا مقصد پیسہ، مال منال اور موج میلہ نہیں بلکہ صرف تھرل اور ایڈونچر ہے۔ یہاں نوری نت، مولاجٹ کے سوال "توں چاہنا کِی ایں؟" کا جواب اس آفاقی سچائی سے دیتا ہے کہ میں اپنے اس ثابت جسم کے ٹکڑے ٹکڑے دیکھنا چاہتاہوں کہ اس کے بعد کیسا محسوس ہوتا ہے۔
جب سے انسان نے معاشرتی زندگی شروع کی اور مختلف ادارے اور نظام وضع کیے۔ تب سے عدالتی نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جو دو فریقین کے مابین ثالثی/انصاف/عدل کا داعی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج تک ناصر ادیب کے اس خیال کو سب نے نظر انداز کیا ؟ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ نظام عدل نے انسانی نفسیات کے اس پہلو کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا اور ہزاروں سال سے بے گناہوں کو سزا اور گنہگاروں کو باعزت بَری کرتا رہا ہے۔
"شعلے" میں گبّر سنگھ جب سانبھا سے پوچھتا ہے، "کتنے آدمی تھے؟" ۔ تو وہ استفسار نہیں کررہا ہوتا بلکہ فرد جرم عائد کرتا ہے۔ یہ فوری انصاف کی عمدہ مثال ہے۔ صد حیف کہ ہمارا قانون اور نظام اس کو انڈروس نہیں کرتا۔ سرخ فیتے، وکیل، شہادتیں، ثبوت، گواہ۔۔ اس طولانی عمل میں انصاف کا خون ہوجاتا ہے۔ جب کسی معزّز اور معتبر اور ایمان دار شخص نے کہہ دیا کہ فلاں آدمی قاتل/چور/ڈاکو ہے تو اس کی پُچھ پرتیت، تفتیش کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا یہ لوگ ناصر ادیب، سلیم خان اور جاوید اختر جیسےادیبوں کی اجتماعی دانش کا انکار کررہے ہیں؟
 انصاف کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ قوانین ہمیشہ مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کا حیلہ ہوتے ہیں۔  عدل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے تو وہ عین فرض ہوگا۔ جدید مہذب مغربی دنیا کے ادب میں اس کی مثالیں جا بجا موجود ہیں۔ بیٹ مین،سپرمین، آئرن مین،سپائڈر مین، ڈئیر ڈیول،جیسیکا جونز، لیوک کیج، تھور، آئرن فسٹ الغرض بے شمار مثالیں ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ انصاف کے لیے قانون کی کتابوں میں جھانکنے کی بجائے کامکس، کیبل، انٹرنیٹ اور ٹورنٹس  سے رابطہ استوار کیا جائے۔
بوٹسواناکے عظیم شاعر یولامولو فاکاشونامونا کی ایک نظم  کے ساتھ اختتام کرتا ہوں:-
دھیرے دھیرے پیار
کو بڑھا نا ہے
حد سے گزر جانا ہے
راز جو حد سے باہر میں تھا
اس کو میں پکڑنہیں سکتا
تم میرے ٹائے چڑھ گئے
تو
تم کو میں رغڑ نہیں سکتا
دنیا کیسی دنیا ہے
دل توڑ کے ہنستی ہے
ہنسنے والے ایک دن
تجھے جب رونا پڑے گا
پیار کیا تو نبھانا پڑے گا
بن کے دلہن
ڈولی میں جانا پڑے گا
موت سے کس کو
رستگاری ہے
آج تم کل اس کی باری ہے
وہ جب آنکھ اٹھا کے
کہتا ہے کہ
پپو کانٹ ڈانس سالا
تو کلیجے میں
اک تیر  ترازو ہوتا ہے
ہرسچے جج کا
اک عسکری بازو ہوتا ہے

سَیکل

زبیر نے تَھڑے پر ڈھیر ہوتے ہوئے ہمیں ان تمام الفاظ سے یاد کیا جن کی اکثریت کو دھرانا ممکن نہیں۔ ان میں سے چند "موٹا، پھِینا، سری لنکا، آلو" وغیرہ ہیں۔ شاید مارچ کا مہینہ تھا اور یقینا جمعرات کا دن ، بلکہ رات۔ عشاء کے بعد میں اسے کھینچ کر گلبرگ پارک لے گیا تھا جو عین "کچیاں کہنداں والا سکول" (کچی دیواروں والا سکول) کے سامنے واقع تھا۔ زبیر کو فضول توانائی ضائع کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں پارک میں کوئی کام نہیں ہے تو اتنی دور چل کے جانے کا مقصد کیا ہے؟  تِس پر ہم نے اس کے دنیا میں آنے کے مقاصد پر روشنی ڈال کے اس کے کان لال کیے اور وہ بکتا جھکتا ہمارے ساتھ ہو لیا۔
واپس آکے وہ تھڑے پر ڈھیرہوا اور چھوٹے بھائی کو آواز لگائی، "او ننّے اوئے۔۔۔ پانی لیاء ٹھنڈا"۔ پانی کا جگ، گلاس سمیت آیا اور اس کے ساتھ ایک خاکی لفافہ بھی تھا جس پر چکنائی کے نشان تھے۔ لفافے میں برفی، چم چم اور دیگر مقویات قلیل سی مقدار میں موجود تھیں۔ پتہ چلا کہ ننھے بھائی جان، مسجد میں گیارہویں شریف کی جمعراتی محفل میں شریک ہوئے تھے اور تبرّک کھانے کے ثواب کے پیش نظر دو لفافے کڑیچ کر لائے تھے۔  ثواب بہت مفید چیز ہوتی ہے۔ جہاں سے ملے، لے لینا چاہیے۔
دس پندرہ منٹ تک تھڑے پر رونق لگنی شروع ہوگئی۔ ان زمانوں میں چونکہ سوشل میڈیا نہیں تھا تو لوگ ایک دوسرے سے مل کے سوشل ہوجایا کرتے تھے۔ جوں جوں گھڑی نو کی طرف بڑھنے لگی رش چھٹنے لگا۔ شانی کو اس کی امی آوازیں دینے لگیں۔ بِلّے نے پی ٹی وی پر آنے والی فلم دیکھنی تھی۔ میں اور زبیر البتہ بیٹھے رہے کہ گدّی خالی نہیں چھوڑی جا سکتی ۔ زبیر نے اچانک سرگوشی کی۔۔۔ اوئے، مُلاّں آریا ای ۔۔۔ چل شغل لائیے۔۔۔
مُلاّں، ہماری گلی میں رہتا تھا۔ نام تو یحییٰ تھا لیکن اس کی خشخشی سی داڑھی، اس کے والد کے امام مسجد ہونے اور اس کے حافظ ہونے کی وجہ سے اس کا نِک نیم ، مُلاّں پڑ گیا تھا۔ مُلاّں، ہیپی گو لکّی قسم کا انتہائی معصوم بندہ تھا۔ اس کو ان سارے کاموں کا بہت شوق تھا جو ہم کرتے تھے۔ فلمیں دیکھنا، کرکٹ کھیلنا، مار کٹائی کرنا۔۔۔ لیکن ابّا کے خوف  کی وجہ سے وہ ان سب سے دور رہتا تھا۔ اس کا ہمارے بارے خیال یہ تھا کہ ہم انتہائی چالو اور بدمعاش قسم کے افراد ہیں اور دنیا میں جتنے بھی غلط اور مزے دار کام ہیں، ہم ان سب میں ملوث ہیں۔ یہ بہرحال مُلاّں کا حُسنِ ظن تھا لیکن ہم اس پرسپشن کو بخوشی تسلیم کرتے تھے  کہ۔۔۔ یاراں دا ای کَم اے۔۔۔
مُلاّں کو آواز دے کے ہم نے تھڑے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ زبیر نے ادھر ادھر دیکھ کے آہستگی سے کہا، "پینی اوں؟" مُلاّں نے حیرانگی سے پوچھا، "کیا؟" زبیر نے جگ کی طرف دیکھا اور انگوٹھے سے پینے کا اشارہ کیا۔ مُلاّں کی آنکھیں پینے سے پہلے ہی نشیلی ہوگئیں۔ وفورِ شوق سے پوچھا، "قسمے؟" یہاں ہم نے دخل اندازی کی۔ "پینی اوں تے گل کر، ایویں یبلیاں نہ مار"۔ زبیر نے چوتھائی گلاس بھر کے مُلاّں کو دیا اور ہدایات دیتے ہوئے بولا۔ "اکّو دم ناں پیویں۔ ہولی ہولی چسکیاں لے کے پیویں"۔ مُلاّں نے پہلی چسکی لی تو اس کے چہرے پر شک کی پرچھائیاں لرزنے لگیں۔ "یار، اے تے پانی ورگی اے بالکل"۔  زبیر نے گھُرکا، " ماما، مہنگی شے وے، نہ ایدی بوَ تے ناں ای کوڑی"۔ مُلاّں نے پہلا "پیگ" ختم کیا تو ہم نے اسے لفافے سے برفی نکال کے پیش کی اور کہا کہ اس کے ساتھ میٹھا کھائیں تو صحیح چڑھتی ہے۔ ویسے تو لائلپوریوں کو صرف مٹھائی بھی کھلا دیں تو ان کو نشہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے مُلاّں کو تین پیگ اور پلائے اور مُلاّں فُل ٹُن ہوگیا۔ اس کی آواز بھاری اور آنکھوں میں نشیلے ڈورے تیرنے لگے۔ ہم نے مزید احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے کہا کہ گھر جاکے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔ کوئی چیز نہیں کھانی اور جاتے ہی سوجانا ہے۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ مُلاّں نے شانِ بے نیازی سے اثبات میں سر ہلایا۔
ہم نے مُلاّں سے انتہائی رازداری سے پوچھا کہ یہ شانی بارے بہت سی افواہیں سننے میں آتی ہیں۔ کیا یہ باتیں سچ ہیں۔ مُلاّں نے جھومتے ہوئے  قطعیت سے کہا، " سیکل اے"۔  ہم نے بات آگے بڑھائی۔
"اور بِلاّ؟"
"سیکل اے"
"موٹا طاہر؟"
"سیکل اے"
"غلام فرید؟"
"سیکل اے"
"زبیر؟"
"سیکل اے"
"مینجر؟"
"سیکل اے"
"جعفر؟"
"سیکل اے"
"جانی؟"
"سیکل اے"
"ریاض؟"
"سیکل اے"
"تے مُلاّں؟ "
"سیکل اے"۔