غیرت کا ڈھکوسلہ

صاحب نے اپنے گاؤن کی ڈوری ذرا ڈھیلی کی؛ آرام کرسی کی پشت سے سر اٹھایا اور میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں حقارت، ترس، غصہ، افسوس، دکھ  سب شامل تھے؛  پھر چنیوٹ کی بنی ہوئی منقش سائڈ ٹیبل پر دھری چاندی کی ٹرے سے کیوبن سگار اٹھایااوراسے منہ میں ڈال کر ایسے چبانا شروع کردیا، جیسے میری گردن ہو! چند ثانیے گزرنے پر سگار کو طلائی لائٹر سے سلگایا جس پر سٹڈی  قیمتی تمباکو کی بو سے بھرگئی۔ اس تمام کاروائی کے دوران ان کی نگاہیں لگاتار مجھ پر جمی رہیں۔ مجھے خدشہ محسوس ہونے لگا کہ شاید آج میں اس قیمتی افریقی کافی کے مگ سے بھی محروم رہ جاؤں؛ جس سے صاحب ہر دفعہ میری تواضع کیا کرتے ہیں۔

صاحب کی ناراضگی کی وجہ وہ سوال تھا جو میں نے آتے ہی ان سے پوچھ لیا تھا کہ غیرت مند کا متضاد کیا ہوتا ہے؟ صاحب نے سگار کے پانچ چھ گہرے کش لے کر اپنے فشار خون کو نارمل سطح پر پہنچایا اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے۔ "کیاتم جانتے ہوکہ تمہارے جیسے مڈل کلاسیوں کا پرابلم کیا ہے؟ عزت، غیرت، اخلاقی اقدار، ایمانداری۔۔۔۔۔ مائی فٹ!!! تم لوگ اگر کسی وجہ سے اپنی کلاس سے نکل بھی آؤ تو یہ ربش مڈل کلاس مینٹیلٹی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اکنامکس، مائی ڈئیر اکنامکس۔ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اکنامکس ہے۔ یہ عزت، غیرت، قومی وقار، خودی سب مڈل کلاسیوں کے ڈھکوسلے ہیں۔ ان سے باہر نکلو۔ اپنے ذہن کو آزاد کرو۔ لبرل سوچ اپناؤ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم ترقی کرسکتےہیں"۔

یہاں تک پہنچتے پہنچتے صاحب کا سانس پھول چکا تھا؛ جذبات کی شدت سے گلے کی رگیں پھول گئی تھیں اور ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوچکے تھے۔ صاحب سانس لینے کو رکے تو میں نے ہاتھ اٹھا کر قطع کلامی کی معافی چاہی اور یہ کہہ کر اجازت مانگے بغیر باہر نکل آیا۔ "اگر آپ اس سوال کا ایک لفظی جواب نہیں دے سکتے تو دومیں سے ایک کام ضرور کریں؛ لفظ "غیرت" پر پابندی لگادیں یا حروف تہجی میں سے "ب" کا حرف خارج کردیں"۔