بچّی، حضور والا، بچّی

دو ہزار سال ہوتے ہیں۔۔۔اُس نادرِ روزگار عبقری نے کہ، راسپوٹین جس کا نام تھا، کہا، " حُسنِ بلاخیز ہر جُرم سے ماوراء ہوتاہے۔" لوگ مگر غور نہیں کرتے۔ الحذر الحذر۔۔۔
عارف نے کہا تھا، "بچّی اپنے فگر سے پہچانی جاتی ہے۔" بیس یوم اُدھر، طالب علم پنج ستارہ ہوٹل میں چند ہم نشینوں کے ہمراہ قہوہ پی رھا تھا کہ ایک عزیز اصرار سے اس طرف لے گیا کہ جہاں رنگ برنگی تتلیاں اور کوہ قاف کو شرماتی پریاں، حُسن کو دھار پر لگا رہی تھیں۔ ایسے مناظر کہ زاہدِ خُشک بھی سبحان اللہ پُکار اٹھے۔ لیکن نگاہ کو جس کا ہوکا تھا وہ صورت، نظر میں نہ آسکی۔ شتابی سے سوال کیا۔ "آیان کہاں ہیں؟" جواب سُنا تو روح لرز اٹھی۔۔۔۔ تاریخ کے چوراہے میں سوئی، انجام سے بے خبر قوم اور اس کے رہنما۔۔۔ کوئی ہے جو جائے اور ان کو جگائے؟
روح چیخ اٹھتی ہے۔ مکھّن جیسی بچّی اور ایسا ظُلم۔۔ امراء القیس، وہ شاعر، وہ شہزادہ کہ جس کا نام آج بھی دوشیزاؤں کے سانس اتھل پتھل کردیتا ہے۔۔۔ بلادِ شام سے واپسی کا سفر تھا۔۔ شب آپہنچی تو پڑاؤ کا قصد کیا۔۔۔ کمر بھی سیدھی نہ کرپایا کہ قاصد پیام لایا۔۔ "شہزادے، امتحان آپہنچا۔۔۔ رُقیّہ قید میں ہے۔۔۔"۔ شہزادہ، الفاظ کا ہی نہیں، تلوار کا بھی دھنی تھا۔۔ اُٹھا اور وہ کہا جو آج تک تاریخ میں مثلِ شمس جگمگا رہا ہے۔۔۔" بچّی، امراء القیس کو پکارے اور وہ نرم بستر میں سوتا رہے۔۔۔ تُف ہے ایسی مردانگی اور شہزادگی پر۔۔" اسباب سمیٹا۔۔ گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔۔۔  باقی تاریخ ہے۔
حکمرانوں سے کیا گلہ۔۔ تاریخ کا جن کو شعور نہیں۔ اپنی ذات سے اٹھ کر وہ سوچ نہیں سکتے۔ کوتاہ نظر و ظاہر بیں۔۔۔ شکوہ مگر کپتان سے ہے۔ ایسا جری اور بانکا جواں بھی جب ظُلم و جَور کے سامنے سِپر ڈال دے تو ۔۔ کس کا گلہ کرے کوئی۔۔۔ طالب علم کے لیے ہر شب، قیامت اور ہر دن امتحان کا ہے۔ لُقمہ، حلق سے اترتا نہیں۔۔ دل نے عارف کی دُھائی دی تو سفر کا قصد کیا۔ شام ڈھلے خدمت میں حاضر ہوا۔۔ حالت بیان کی۔۔ عارف نے سر اٹھایا اور بھیگے لہجے میں کہا۔۔۔
ہم رات بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو نیند کہاں کی
المیہ مگر ہمارا یہ ہے کہ تفکّر نہیں کرتے۔ بے سبب کینہ پالتے ہیں۔ جتنی رقم کا الزام، بچّی پر لگا ہے اتنی تو اس کے پیروں کا صدقہ، مجھ جیسا فقیر دے سکتا ہے۔ جھوٹ ہے، صریح جھوٹ۔ اب بھی یہ قوم حشر نہ اٹھا دے تو سمجھیے کہ دل بنجر اور ذہن بے فیض ہوئے۔ کوئی امیّد باقی نہ رہے گی۔ وقت آ لگا ہے جب کھرا اور کھوٹا الگ کردیا جائے گا۔۔۔ اس بے مثال گویّے، جازی بی نے جیسا کہا تھا۔۔۔
حُسناں دی سرکار
دلاں نوں لُٹ دی جاوے
دو ہزار سال ہوتے ہیں۔۔۔اُس نادرِ روزگار عبقری نے، کہ راسپوٹین جس کا نام تھا، کہا، " حُسنِ بلاخیز ہر جُرم سے ماوراء ہوتاہے۔" لوگ مگر غور نہیں کرتے۔ الحذر الحذر۔۔۔


Comments
29 Comments

29 تبصرے:

Imtnan نے فرمایا ہے۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

بیچارہ خلیفہ :ڈ

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ بهٹی کمال ہی کر دیا ...

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

ہاہاہاہا
بوہت خوب اُستادِ مُحترم

عمیر نے فرمایا ہے۔۔۔

کمال کر دیا... صبح صبح بھری سب وے میں موبائل پہ پڑھتے ہوئے میں جس بے ساختگی سے ہنسا ہوں... سب گورے و کالے میری ہی طرف دیکھ رہے تھے. مزہ آ گیا. بہت خوب.

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

کہا جو آج تک تاریخ میں مثلِ شمس جگمگا رہا ہے۔۔۔" بچّی، امراء القیس کو پکارے اور وہ نرم بستر میں سوتا رہے۔۔۔ تُف ہے ایسی مردانگی اور شہزادگی پر۔۔"
ہاہاہا، بہت اعلیٰ

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

کہا جو آج تک تاریخ میں مثلِ شمس جگمگا رہا ہے۔۔۔" بچّی، امراء القیس کو پکارے اور وہ نرم بستر میں سوتا رہے۔۔۔ تُف ہے ایسی مردانگی اور شہزادگی پر۔۔"
ہاہاہا، بہت اعلیٰ

عقیل نے فرمایا ہے۔۔۔

عارف نے کہا تھا، "بچّی اپنے فگر سے پہچانی جاتی ہے"
ایان کہاں ھیں؟
ایڈا ٹھرکی عارف.
میری بھی بیت کروا دے کوئی.. جعفر صاحب خلیفہ جی کو لتاڑتے ھوئے
بہت ہی عمدہ جناب مزہ آ گیا...

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

ہا ہا ہا ہا ہا
کمال ہی کردیتے ہو پانڈے جی :ڈ
بہت بہت اعلٰی

اب کیا کیا اقتباس کریں؟
ہر سطر کمال لکھتے ہو

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اعلیٰ
خلیفہ جی کے کالم کے تقریباً تمام اجزائے ترکیبی مناسب مقدار میں ہیں ماسوائے اس طبقے کے جس کی گیندیں اچھالنے میں خلیفہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں

Abrar Qureshi نے فرمایا ہے۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہا استاد جعفر صاحب لٹھ لے کے کالم نگاروں کے پیچھے پڑتے ہوئے، کلاسرہ، خلیفہ ہووز نیکسٹ؟ :پ
ویسے سچ بتائیں کہیں خلیفہ جی اصلی والا کالم بھی آپ ہی سے تو نہیں لکھواتے، کیوں کہ انداز و الفاظ کی چوک کہیں بھی نہیں ہوئی :)

JonElia نے فرمایا ہے۔۔۔

ھاھاھاھا استاد جی واہ اخیر ہی کردی یوں لگ رہا تھا جیسے خلیفہ ہی یہ بول رہا ہے اور میں سن رہاہوں ......

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

بہترین۔۔۔۔۔ایسا مزاح ہی مزہ دیتا ہے۔ پُر لطف و لطیف۔

قصہ پارینہ نے فرمایا ہے۔۔۔
This comment has been removed by the author.
Sajid Nisar نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب، یہ اگر خلیفہ جی خود پڑھ لیں تو لکھنا چھوڑ کر جنگل کی راہ لے لیں اور 'عارف' بدل کر کسی 'لنگور' کی مریدی اختیار کر لیں۔۔۔ پھر جو ہو وہ 'تاریخ' بن جائے۔ :)

آم اچار نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ تحریر خیلفہ کو کسی صورت پڑھائی جائے۔ وہ خود تسلیم کرے گا کہ آج تک جو لکھا یہ اس سے بڑھ کر ہے

عدنان جبار نے فرمایا ہے۔۔۔

استاداں دی مار بوہت دردناک ہوندی اے

ہور کیہہ نشانیاں لبھنیاں

👏🏻👏🏻👏🏻👏🏻👏🏻

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

کوئی دن جاتا ھے سپہ سالار سے آپکی شکایت اخبارنویس کرےگا - لازم ۔
شکایت شاید اب تک ھوچکی ھوتی مگر پانسو برس ھوتے ھیں عارف نے طالب علم کو صبر کی پرزور تلقین کی تھی ۔ مگر حد کی بھی ایک حد ھوتی ھے آخر ۔ اب ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا ۔ رابندر ناتھ ٹیگور ، کہ دانائی کا بھید اس مردِ بے حجام نے پالیا تھا ، نے زیل کے دو افراد سے بچنے کی وصیت کی:
جعفر از بنگال و جعفر از ٹویٹر

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

اعلی بہت اعلی ۔۔۔۔

Ammar Zia نے فرمایا ہے۔۔۔

عمدہ تحریر اور آخری نامعلوم صاحب کا عمدہ تبصرہ۔
صبح سویرے پڑھ کر ذہن مزید تر و تازہ ہوگیا۔

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

دو ہزار سال ہوتے ہیں۔۔۔اُس نادرِ روزگار عبقری نے، کہ راسپوٹین جس کا نام تھا، کہا، " حُسنِ بلاخیز ہر جُرم سے ماوراء ہوتاہے۔"

sheikho نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اعلیٰ تحریر

بلاامتیاز نے فرمایا ہے۔۔۔

حقیقی مزاح کا آئینہ ہے یہ تحریر

اناالحق Anaulhaq نے فرمایا ہے۔۔۔

استاد آخر استاد ہی ہوتا ہے، ہارون الرشید صاحب کی زمین میں طبع آزمائی میں اچھے اچھوں کو دانتوں میں پسینہ آجاتا ہے اور یہ پختہ اردو میں خاطر خواہ مہارت کے بغیر قطعا ً ممکن نہیں - بہت عمدہ

Mian Asad نے فرمایا ہے۔۔۔

Wallah is sey acha aur behter Kaaam Na mumkin tha

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت خوب جناب

خالد حمید نے فرمایا ہے۔۔۔

واہ کیا خوب لکھا، تحریر پر تبصرہ کرنے پر مجبور کردیا

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

خلیفہ....اُستاد کی ٹکٹکی میں لٹکا خود کو آئینے میں دیکھ رہا ہے...

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

خلیفہ....اُستاد کی ٹکٹکی میں لٹکا خود کو آئینے میں دیکھ رہا ہے...

تبصرہ کیجیے