ایسے بنتے ہیں طالبان۔۔۔



دونوں تصاویر لاہور کی ہیں۔
معیار زندگی میں اتنا بھیانک فرق اور تضاد بالآخر طالبان کو ہی جنم دیتا ہے!!!
Comments
34 Comments

34 تبصرے:

دوست نے فرمایا ہے۔۔۔

:cry:

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اب بات کچھ کچھ آپکی سمجھ میں بھی آنے لگی ہے! :sad:

محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔

اس فرق کو اگر جلد از جلد کم نہ کیا گیا تو یہ مزید بڑھتا جائے گا، طالبان تو ایسے بنے ہوں یا نہ لیکن پاکستان کا مڈل کلاس اور 'غریب' طبقہ جس دن اٹھ کھڑا ہوا اس دن بہت بھیانک صورتحال ہو جائے گی، 'سرمایہ داری' نظام کے بزرجمہروں کو اس طرف سوچنا چاہیئے لیکن افسوس کون سوچتا ہے۔

شعیب صفدر نے فرمایا ہے۔۔۔

:!:
معاشی فرق طالبان کے وجود کی وجہ ہے یا سوچ کا؟ یا درحقیقت کچھ اور؟

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

تقریباً سچ کہا
طالبان وجود میں آتے ہیں نا انصافی کے بطن سے
اور باپ ہوتا ہے ان کا ظلم
لوگ انصاف مانگتے ہیں
انصاف نہیں ملتا تو طالبان کی پیدائش کے لئے منتیں مانگتے ہیں
کیونکہ طالبان انصاف کے دعویدار ہوتے ہیں
اب یہ الگ بات ہے کہ کس کو کتنا اور کیسا انصاف ملتا ہے
لیکن ایک بات تو ہے
جس نظام پر چیک اینڈ بیلنس نا ہو وہ شاہی نظام بن جاتا ہے
اور شاہوں کے ہاں اکثر انصاف کم، اقتدار اور عیاشی زیادہ ہوتی ہے
اب چاہے وہ نظام طالبانی ہو، جمہوری ہو یا انگریزی

سعدیہ سحر نے فرمایا ہے۔۔۔

سلام جعفر

تضاد تو بہت ھے ۔کچھ لوگ ائرکنڈیشن ھوٹل اور گھروں میں کھانا کھا رھے ھوتے ھیں اور کچھ لوگ سڑک کنارے بیٹھے پیاز سے روٹی کھا رھے ھوتے ھیں
پاکستان میں کچھ لوگ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ھیں اور کچھ لوگوں نے ابھی تک ٹرین دیکھی تک نہیں وہ ابھی بھی بیل گاڑی استعمال کرتے ھیں ۔۔ رہن سہن میں اتنا فرق کسی اور ملک میں نہیں جتنا پاکستان میں ھے

خاور نے فرمایا ہے۔۔۔

جاپان دنیا کا واحد ملک هے جس میں طبقاتی فرق نظر نهیں آتا
ناں تو رھن سہن میں اور ناں هی لوگوں کے رویے میں
ایک اربوں پتی اور لاکھوں پتی (اس سے کم یهاں هوتا هی نهیں هے )کے فرق کا اپ کو معلوم هی اس وقت هو گا جب کہين آپ اس دونوں کے اکونٹ کا بینس دیکھ لیں گے ـ
اور جاپانی لوگ اس کو زمینوں کو اصطلاحات کا ثمر کهتے هیں جو که انہوں نے انیسویں صدی میں کی تھیں ـ
لیکن میرے خیال میں
اس کی دو وجوحات ہے ایک تو یہی که جاگیرداروں سے زمین لے کر بانٹ دی گئی
لیکن اس سو زیادھ اهم ١٧٥٧ میں تعلیم کو ضروری قرار دو کر اس قانون پر عمل بھی کرکے دے دیا هے
جاپان میں موروژی زمین اور جائیداد بھی چوتھی نسل میں جاتے جاتے واپس حکومت کے پاس چلی جاتی ہے
اپنے هی باپ کا چھوڑا هوا ورثه لینے کے لیے تیس فیصد ٹیکس دینا پڑے گا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے وک دم نہیں هوا کرتے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::دوست:: :???:
::عبداللہ:: خوش آمدید۔۔۔ میری دعا ہے کہ اب بات آپ کی سمجھ میں بھی آ جائے۔۔۔
::وارث:: اصلی تے وڈے طالبان تو سی آئی اے اور ہمارے ”حساس ادارے“ کی لیبارٹری میں‌ تیار ہوئے تھے، لیکن حالیہ دور میں طالبان کی ایک دم مقبولیت اور بھرتی کی وجہ یہی ہے۔ کیونکہ پچھلے دس سال میں معاشی تفاوت جس خوفناک رفتار سے بڑھا ہے اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔۔۔
::شعیب صفدر:: آپ کا سوال بھی قابل غور ہے۔۔۔
::ڈفر:: agreed :neutral:
::سعدیہ سحر::‌ اور یہ فرق اگر جلد ہی کم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر فرق کم کرنے والا طبقہ کم ہوجائے گا۔۔۔ اس معاشرے سے۔۔۔
::خاور:: جی آیاں نوں۔۔۔ یہی چیز تکلیف دیتی ہے کہ جس قرآن کو ہم جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور پھر چوم کر اونچی جگہ رکھ دیتے ہیں اس پر عمل ان اقوام نے کیا اور اس کے ثمرات بھی حاصل کررہے ہیں۔ اور جناب جاگیرداری کیسے ختم ہوسکتی ہے ہمارے پاکستان میں، کہ یہ ملک تو بنایا ہی جاگیرداری کے تحفظ کے لئے تھا، اور عام آدمی کو بےوقوف بنانے کے لئے ہمیشہ کی طرح اسلام کا نعرہ لگادیا گیا تھا۔ خود اپنے پیروں پر کیسے کلہاڑی مارے گایہ طبقہ۔۔۔ یہ کلہاڑی اب عام آدمی ہی مارے گا!!!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

پاکستان کے پُر آشوب دور کا ایک تاریخی کردار حبیب جالب ہوا ہے ۔ عجب مرد آزار تھا۔پاکستان کے غریبوں کے لئیے جدوجہد کی۔ ساری عمر بمعہ اہل و عیال انتہائی غریبی اور عسرت میں کاٹی۔ بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کے نعرے پہ ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔ جبر کے قہر کو برداشت کیا۔ تشدد، مار پیٹ، جیل۔ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بھٹو کو بچے کچھے پاکستان میں حکومت ملی۔ حبیب جالب کے گھر میں فاقوں کے ھاتھوں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ سخت جاڑے کے موسم میں۔گھر کے افراد بعض اوقات ایک ہی لحاف کے نیچے بھوکے سونے پہ مجبور ہوتے۔

ذوالفقار علی بھٹو نےاپنی وڈیرہ فطرت سے مجبور عوامی جمہوریت کا چولہ اتار پھینکاتھا ۔ اندر سے ایک آمر اور فسطائی بھٹو بڑامد ہوا۔ عین اس وقت جب بھٹو کی حکومت میں تانگہ بان بھی وزیر شزیر بنائے جارہے تھے۔ ممکن تھا کہ حبیب جالب بھی کوئی وزارت یا ادارت حاصل کرنے میں کامیاب رہتے۔مگر حبیب جالب کو یہ منظور نہ ہوا بھٹو کی مخالفت کی اور سخت مخالفت کی۔ بھٹو نے ہر قسم کی مروت بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مخالفوں پہ داروگیر کے در وا کر دیے۔ جن میں حبیب جالب بھی شامل تھا ۔ غریب اور غیرتمند شاعر نے اپنے اہل خانہ کی عسرت کی پرواہ نہ کی اور جیل کی کال کھوٹڑیوں کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ بھٹو کا ظالمانہ تفاخر ایک غریب اور مجبور شاعر کو جھکا نہ سکا۔

پاکستان میں چھوٹی سی امیر اقلیت کے ھاتھوں پاکستان کا بہت بڑا اکثریتی طبقہ انتہائی غریب بلکہ بھوک و ننگ کا شکار طبقہ پرانے راجوں کی راجدھانیوں کی پرجا(رعایا) کی مانند سمجھ لیا گیا ہے۔ جس کا کام ہی علی الصبح اپنی بیگار کا آغاز شروع کرنے سے پہلے راجہ اور راجکمار کو ڈنڈوت کرنا۔پُن کے نام پہ انھیں پوجا پاٹ دان کر نا۔راجھدھانی کے مہاشوں کے ظلم کو اپنا فرض سمجھ کر سہنا۔ راجدھانی کے بنئیوں کے گُر ،گنتی کی مار کھا کر اپنی شب و روز کی محنت سے مٹھی بھر آٹا جس سے جسم کا سانس اور آس کا رشتہ بمشکل جڑا رہے۔مگر ۔ ۔ ۔ کب تک؟

حبیب جالب کی شاعری میں سے کچھ شعر بہت مشہور ہوئے۔ جن میں سے دو ذیل میں درج ہیں۔


کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جن کی روشنی کچے گھروں کو جگمگائے گی
نہ وہ سورج نکلتا ہے ، نہ دن اپنے بدلتے ہیں

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر ہماری سمجھ میں تو بات ایوب خان کے سو کالڈ الیکشن کے وقت ہی آگئی تھی اب آ پ اور کون سی بات سمجھانا چاہ رہے ہیں؟
جاوید گوندل صاحب سارے الزامات بھٹو کے سر ڈالدینے سے آپ کی جان نہیں چھوٹے گی :smile:
حبیب جالب واقعی ایک عجب مرد آزاد تھا آزار نہیں تھا وہ تو کچھ اور ہی لوگ تھے :smile:

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

کلہاڑے پر کسی عقلمند کا ایک قول یاد آیا جس نے کہا تھا کہ اکیلی کلہاڑی کسی درخت کو نہیں کاٹ سکتی جب تک لکڑی دستہ کی صورت اس کا ساتھ نہ دے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عبداللہ:: میرے پیارے بھائی، جن لوگوں کی محبت میں آپ ہر ایک سے بحث کررہے ہیں وہ بھی ہمارے طبقہ اشرافیہ کا حصہ ہیں۔۔۔ میرے اور آپ جیسے لوگ ان کی سیاست کا ایندھن ہیں۔۔ لہذا اپنی توانائیاں ضائع مت کیجئے۔۔۔ توانائی بچائیے ۔۔ اپنے لئے ۔۔۔ قوم کے لئے۔۔۔
:mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل::‌ آپ نے اس موضوع کا نچوڑ جالب کے دو شعر درج کرکے نکال دیا ہے۔ :smile:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ عبداللہ صاحب کی نذر ہے!
ایک چھوٹے اور تنگ سے گہرے کنوئیں میں ایک مینڈک رہتا تھا۔ جو وہیں پیدا ہواتھا۔ اتفاق سے سمندر کا ایک مینڈک کنوئیں کے قریب سے گزرتے ہوئے کنوئیں کی منڈیر سے ٹھوکر کھا کر کنوئیں میں جا گرا۔

کنوئیں کے مینڈک نے پوچھا ۔۔تم کہاں سے‌آئے ہو۔؟
سمندر سے۔۔ سمندر میں پیدا ہونے والے میں مینڈک نے جواب دیا۔
سمندر کیسا ہوتا ہے ۔؟ کنوئیں کے مینڈک نے پوچھا۔
بہت بڑا!۔
کتنا بڑا۔؟ کنوئیں کے مینڈک نے چھلانگ لگاتے ہوئے پوچھا اتنا بڑا۔؟
اس سے بھی بڑا۔ سمندر کے مینڈک جواب دیا۔

کنوئیں کے مینڈک نے ایک چھلانگ اور لگائی اور کنوئیں کے دوسرے کنارے تک پہنچ گیا۔ اور پھر سے پوچھا۔
اس کنوئیں سے بھی بڑا۔؟
اس سے ھی بہت بڑا۔ بے شمار بڑا۔ سمندر کے مینڈک نے جواب دیا۔
تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم کذاب ہو۔ اس کنوئیں سے بڑا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کنواں ہی سب سے بڑی شئے ہے ۔

اللہ کی شان ہے۔ کنوئیں کے مینڈک ٹرا ٹرا کر اہل سمندر سے کہتے ہیں۔ ہمارے کنوئیں سے آگے سب جھوٹ ہے۔

ٹہرے نا آخر کنوئیں کے مینڈک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیز۔:
مینڈک والے واقعہ کو ایسے لوگوں کے پس منظر میں پڑھا جائے۔ جنہیں شدید تعصب کے ہاتھوں بھتہ خوروں سے آگے کچھ نظر نہیں‌آتا۔ اور دوسروں کو اخلاقیات اور علم سیاست سکھانے کے درپے ہیں۔ جبکہ انکہ اپنی سیاست ہر قسم کی غنڈہ گردی، بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کی ہے۔
نوٹ۔: مندرجہ بالا تبصرہ ۔ میں نے ۔۔ افضل صاحب۔۔ میرا پاکستان۔۔ پہ کسی اور تناظر میں لکھا ہے۔ یہاں نقل کرتے ہوئے فیص کو عام کر رہا ہوں۔ امید کافی ہے۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ عبداللہ صاحب کو بھی افاقہ ہوگا۔

امید کی جانی چاھئیے کہ وہ اسے کافی سمجھیں گے۔اور یار لوگوں کی ٹانگ ہر معاملے میں گھسیٹنے سے باز رہیں گے۔ ورنہ نسخے ہمارے پاس بے شمار موجود ہیں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

یار لوگوں سے مراد ہر وہ شریف آدمی جو قومی سیاست کی بات کرتا ہے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل:: :grin: :grin: سر جی گسہ ای کر گئے او۔۔۔ چھڈو پرے ۔۔۔ انہاں دے گرو منے نیں اج تک ۔۔۔ جیہڑا چیلے من جان گے۔۔۔۔
:mrgreen:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی!
غصہ ایک شیطانی عمل ہے۔ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔اسلام میں غصے اور اشتعال سے پرہیز کی تاکید کی گئی ہے۔

ہمارے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ غصہ اور بد اخلاقی حرام سمجھی جاتی تھی۔

نیز بچپن سے مارشل آرت کی تربیت لی ہے۔ مارشل آرٹ کی تربیت میں دماغ کو ٹھنڈا اور مزاج کو دھیما رکھنے پہ بہت زور دیا جاتا ہے۔ یہ غصے پہ قابو مارشل آرٹ کی اخلاقیات کا حصہ ہے۔

میں نے جو باتیں کراچی کی بھونڈی مافیا کے بارے میں لکھی ہیں۔ بہ ہوش حواس لکھی ہیں۔ اسمیں ایک پاکستانی کی حثیت سے وضاحت کردوں۔ کہ ہمارے نزدیک تمام مہاجر یا اہل اردو یا مہاجرین پاکستان کے سب شہریوں کی طرح قابلِ احترام شہری ہیں۔ اختلاف صرف اس مافیا سے جس نے مہاجریں کے نام پہ اپنی ہی طبقے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہ اردو اسپیکنگ کی خدمت نہیں بلکہ انکی دشمنی کر رہے ہیں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی!
اللہ سبحان و تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔آمین

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل:: کلی طور پر متفق ہوں ۔۔۔ :smile:

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

گوندل اور جعفراس مینڈکوں والے واقعہ کواگر ہم نواز اور نون لیگ پر رکھ کر پڑھیں تو یہ اور بھی زیادہ مزہ دیتا ہے آزمائش شرط ہے :lol:
جب لوگ دلائل سے کسی کو قائل نہیں کر پاتے تو ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں :lol:
ہم تو مشاء اللہ صحت مند اور تندرست ہیں اپنے تعصب سے افاقہ کی دعا فرمائیے میں آمین کہتا ہوں برسوں پرانی بیماری ہے شفاء یاب ہونے میں کچھ وقت تو لگے گاہی :smile:
جی گوندل صاحب آپکے شریفوں کی قومی سیاست بس پنجاب کے چند شہروں کے انڈھے کوئیں تک ہی محدود رہ گئی ہے کچھ اس کا بھی علاج ڈونڈھیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ ڈھونڈتے ہی رہ جائیں نام کے شریفوں کو :lol:

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

گوندل صاحب ایک اور تاریخی حقیقت آپ کے گوش گزار کردوں کہ اٹھاسی کے آپریشن کے بعدآپکے گنجے شریف اور ان کو پالنے والی ایجینسیوں نے اس بات پر صبر کر لیا تھا کہ الطاف صرف مہاجروں کی بات کرتا ہے تو کرنے دو،اصل تکلیف تو جب شروع ہوئی جب اس نے پورے پاکستان کے مظلوموں کی بات شروع کی اور اس پر ظلم یہ کیا کہ مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والے جلسے میں بھرے مجمع میں پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں پنجاب کی عوام کو مخاطب کرکے یہ کہا کہ تمھیں اپنی مصیبتوں سے نجات حاصل کرنا ہے تو پہلے ان جاگیرداروں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور یہ اس کا وہ ناقابل معافی جرم تھا کہ جس کی پاداش میں 92 کا آپریشن کیا گیا،اور ایم کیو ایم کو پہلے غدار اور پھر دہشت گرد تنظیم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور آپکے صدیق الفاروق نے خود میڈیا پر اس بات کا اعتراف کیا کہ الطاف کو آصف نواز جنجوعہ نے اس شرط پر زندہ برطانیہ جانے کی اجازت دی تھی کہ وہ آئندہ کے لیئے سیاست چھوڑ دے گا یہ ہے آپکی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا کردار،
کراچی والوں یا ایم کیو ایم سے اصل پرخاش ہی یہی ہے کہ نہ تو یہ خود غلامی قبول کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو غلامی کرنے دیتے ہیں :???:
اور آپکی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ نوے فیصد اردو بولنے والے ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں،جو اردو اسپیکنگ کبھی جماعت کو ووٹ دیتے تھے جماعت کے دوغلے کردار کے بعد اب وہ اور ان کی اولادیں بھی ایم کیو ایم کو ہی ووٹ دیتی ہیں :smile:
اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اب پنجاب کے پڑھے لکھے لوگ(پڑھے لکھے جاہل نہیں)اب اس زہریلے پروپگینڈے کے اثر سے باہر نکل رہے ہیں،
کسی کے آنکھیں بند کرلینے سے سورج چمکنا نہیں چھوڑ دیتا :smile:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

عبداللہ صاحب!

آپ سے کس احمق نے یہ کہہ دیا ہے امریکہ میں ماضی کی اطالوی مافیا کی طرز پہ کراچی میں آپ کی بھونڈی مافیا سے۔ ہمیں محض اس لئیے چڑ ہے کہ ہم پنجاب کے شریف برادران سے ہمدردی رکھتے ہیں۔؟

پیر لنڈن نے ہر اس گروپ، سیاسی پارٹی اور پاکستان میں مشرف جیسے بدترین آمر تک کا ساتھ کیوں دیا ہے جو اقتدار میں ہوا ہے۔؟

کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا ساتھ دینا پیر لنڈن کی مجبوری ہے۔ کیونکہ پاکستان میں صرف وہی مجبور ہوتا ہے جسے امریکہ مجبور رکھتا ہے۔ پاکستان میں اقتدار میں صرف وہی لوگ ٹہرتے ہیں جنہیں امریکہ چاہتا آیا ہے کہ وہ اقتدار میں رہ کر اسکے مفادات کی نگہداشت کریں۔

اور آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ پیر لنڈن کس کے بل بوتے پہ اکڑ دکھاتے پھرتے ہیں۔؟

جی ہاں! آپ صحیح نتیجے پہ پہنچے۔ آپ کے پیر لنڈن امریکہ کے پرانے بالکے ہیں۔ ورنہ ان کی کیا حیثیت تھی کہ اپنی ڈیڑھ اٹی مافیا کے زور پہ کراچی کو سب جیل بنائے رکھتے۔ اہل اردو کو یرغمال بنائے رکھتے۔ اور ایک ریاست کے اندر ریاست بنا کر بوری بند لاشوں کا کاروبار کرتے۔

مگر صاحب اللہ سبحان و تعالٰی جب کسی کی رسی دراز کرتا ہے تو وہ اسے ایک ہی جھٹکے میں واپس کینچھ لیتا ہے اور رسی والے کو دوسراسانس لینے کا موقع بھی نہیں ملتا۔

ایک مرد قلندر نے پیشین گوئی کی ہے۔ کہ وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے۔

جس دن پیر لنڈن کی پشت سے امریکہ کا ھاتھ اٹھ جائے گا اسی دن انہیں پاکستان کے اقتدار میں شرکت سے محروم کر دیا جائے گا۔ موصوف ربع صدی سے۔ کراچی کے شریف عوام سے ۔ اہل اردو ۔ مہاجر اور مہاجروں کی اولاد سے۔ محض اس لئیے بلیدان لیتے آئیں ہیں۔ جن کا نام لے کر وہ سیاست کرنے کا دعواہ کرتے ہیں انھیں ہی رغمال بنا رکھا ہے ، اور مکافات عمل کو ٹالتے ہیں۔ یہ دور ختم ہونے کو ہے۔ اور انہیں پتہ ہے کہ وہ کس کے ھاتھوں کیفر کردار کو پہنچے گے۔ سبب شاید شریف بردران ہی بنیں۔ جس کی ہم آگے وضاحت کریں گے۔ مگر اپنے کیفر کردار کو انھی کے ھاتھوں پہنچے گے جن پہ ربع صدی سے ظلم توڑتے آئے ہیں۔ جن کے پیروں کی لاشیں بوری میں بند ان کے بجھواتے آئے ہیں۔ وہی اپنے پیاروں کے خون کا حاسب برابر کریں گے۔

پچھلی ربع صدی میں پیر لنڈن نے۔ محض اپنی ذات کی خاطر۔اپنی جان بخشی کی خاطر۔ ہر اس پارٹی کا ساتھ دیا۔ جس کا اشارہ امریکہ سے ہوا تاکہ وہ اقتدار میں رہ کر تقدیر کا لکھا ٹال سکیں۔ کبھی ق لیگ۔ کبھی مشرف جیسا پاکستان کی تاریخ کا۔ ننگ ملت۔ بدترین آمر ۔ کبھی پی پی پی اور زارداری کے ساتھ۔ امریکہ کی گودی میں بیٹھ کر پاکستان میں اقتدار اقتدار کھیلنے کے حصے دار رہے ہیں۔

اب شنیدن یہ ہے کہ شریف برادران کی بھی اندرون خانہ امریکہ سے مک مکا ہوچکی ہے۔ اور برادران گود میں حصہ بقدر جثہ نہیں( جو کہ اس حساب سے بھی پیرِ لنڈن کے لئیے سردردی ہی سر دردی ہے) بلکہ شریف برادران اس امریکہ کی یہ بھاگ بھری گودی پوری کی پوری صرف آپنے لئیے سے کسی بھی طور کم پہ راضی نہیں ہوئے اور پیر لنڈن کی بد نصیبی کہ امریکہ اس پہ اتفاق کر چکا ہے۔ بدلے میں یہ برادران امریکہ کو کیا مہیا کریں گے۔ یہ پیر لنڈن کا نہیں پاکستانی عوام کی سردردی ہے۔ مگر پیر لنڈن ایک ربع صدی کے بعد پہلی دفعہ پاکستان کے اقتدار کی شرکت اور امریکہ کی آنکھ کے تارہ بنے رہنے کے منصب سے یک بہ یک محروم ہونے والے ہیں۔

عبداللہ صاحب!
آپ بھی ماشاءاللہ صاحب بصریت معلوم پڑتے ہیں۔ زرا تصور تو کریں کہ جن کے پیارے ان کی بھینٹ چڑھا دیے گئے تو وہ لاکھ اردو اسپیکنگ ہوں مگر سینے میں اپنے پیاروں کی بے بسی کی ناحق موتوں کا دھیمے دھیمے سلگنے والا الاؤ جلائے رکھتے ہیں۔ آپ اپنی بصیت کی آنکھ سے دیکیں جب امریکہ اور اقتدار کا ربع صدی کا سورج غروب ہوگا تو پھر کیا کیا ہوگا۔

آج جو سوات میں گھنا گھن گرج رہے ہیں اور کئیوں کے سر کی قیمت مقرر کر چکے ہے وہ کب کے پتہ نہیں اس مافیا کے کتنے قانون شکنوں کے سروں کی قیمت مقرر کر چکے ہوتے۔ کہ ان میں بھی ہیں دلِ بے تاب بہت۔

اور مرد قلندر کی پشین گوئی یہ ہے۔کہ کراچی کے مظلوم عوام پچھلی ربع صدی کے طلسم کو ایک پھونک میں اڑا دیں گے۔ اس دن فون کال کے ذریعئے لہک لہک کر مرثیے سنانا کام نہیں آئے گا۔

عبداللہ نے فرمایا ہے۔۔۔

:lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol:

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

اب میرے بولنے کو کیا رہ گیا ہے؟
:neutral:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل:: آپ سے تقریبا مقفق ہوں۔۔۔۔
::منیر عباسی:: ڈاکٹر صاحب۔۔۔ بہت دن کے بعد آنا ہوا۔۔۔ خیریت سے تو ہیں نا۔۔۔
جی ہاں۔۔۔ اس پوسٹ پر سوال گندم جواب چنا چل رہا ہے۔۔۔ :mrgreen:

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

یہی چیز تکلیف دیتی ہے کہ جس قرآن کو ہم جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور پھر چوم کر اونچی جگہ رکھ دیتے ہیں اس پر عمل ان اقوام نے کیا اور اس کے ثمرات بھی حاصل کررہے ہیں۔

جعفر آپ کی اِس بات میں ہی آپ کی بات کا جواب ہے ہم لوگ اِسی قول و فِعل کے تضاد کے شِکار ہیں کیا کریں اب اور کہا کہیں کہ کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں لیکِن اثر ناٹ

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::شاہدہ اکرم:: آپ کی جنریشن کا پتہ نہیں۔۔۔ لیکن ہماری جنریشن کے حصے میں تو رونے ہی آئے ہیں۔۔۔ اسلام کا رونا، جمہوریت کا رونا، انسانی حقوق کا رونا، مہنگائی کا رونا۔۔۔ ناانصافی کا رونا۔۔۔ یہ رونے، رو رو کر ہم تو رونا لیلی بن چکے ہیں
:lol:

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

رونا تو شاید اِنسان کی فِطرت ہے ہم لوگوں کے رونے اور طرح کے ہیں لیکِن رونا تو رونا ہی ہوتا ہے

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

مجھے کچھ نہیں‌کہنا :?:
تم لوگوں‌نے گھما کر رکھ دیا ہے۔
بلاگ، ٹی وی، اخبار، کالم، تبصرے اور تھڑوں‌کی بحث۔ او کتھے نساں‌میں‌مینوں‌دسو :mad:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عمر:: صبر کر ۔۔۔صبر کر۔۔۔

uncletom نے فرمایا ہے۔۔۔

اب مجھے آپکی پوسٹس سمجھ آنے لگی ہیں‌ :mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::انکل ٹام:: لیکن یار ۔۔۔ مجھے خود اپنی پوسٹس سمجھ نہیں‌ آتیں۔۔۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟؟؟
:mrgreen:

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

مگر مجھے تصویر نظر نہیں آ رہی

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

گھر تبدیل کرتے ہوئے کچھ سامان تو ادھر ادھر ہو ہی جاتا ہے ناں جی

تبصرہ کیجیے