شامِ خبیثاں

 

الم و رنج کی ایسی داستان ہے جس کا مثل یونانی المیہ میں بھی محال ۔۔۔ سنگدل بھی سنے تو خون رو دے، آسمان برس پڑے، دھرتی شق ہو۔ اور جو طالبعلم سا رکیک دل ہو تو لائف فق (انگلش والا بھی بعینہ درست) ہو جائے۔

افق کی پہنائیوں سے خلاء کی وسعت تک کون ہے جس کے کارنامے ملکی وے کو منّور کیے رکھتے ہیں؟کھیل میں قدم رکھا تو ربِّ لم یزل کی قسم کسی کافر کی ہمشیر چھوڑی نہ دختر۔کون جانتا تھا کہ ایسا مردِ میدان اٹھے گا کہ یک صد برس کی غلامی انہی کے پلنگ پر توڑ کے رکھ دے گا۔ ربع صدی ہوتی ہے۔ اوائل گرما میں ہدوانا  پارٹی کا آغاز تھا۔ درویش نے ہدوانے پر کالانمک ڈالا اور شڑوووپ کرکے پہلی دندی لی۔ ہدوانے کا لال رَس لُعابِ درویش سے مل کر ٹھوڑی تک پہنچ رہا تھا۔ طالبعلم نے دستی رومال سے ٹھوڑی صاف کی۔ وہ متبرک سوتی پارچہ  اُمِّ مامون نے محفوظ کر لیا۔ روایت کرتی ہیں کہ جہاں چھپکلیاں زیادہ ہوں، وہاں رکھ دیا جائے تو قریب دو سال اس جگہ ایسی غلیظ رینگتی چیز نہیں آتی۔  جملہءمعترضہ حضورِ والا جملہءمعترضہ۔۔۔

ہدوانا ختم ہوا ۔ درویش نے بآوازِ بلند ڈکار مارا۔  فدوی کے دامن سے منہ صاف کیا۔ سفید کرتا سرخ انقلاب کا پرچم سا ہوگیا۔کے ٹُو فلٹر کا سگریٹ سلگا کر طویل کَش لیا۔ ناک سے دھواں  خارج کرتے ہوئے، انگُشتِ شہادت بلند کی اور فرمایا، "اُمّت کو وہ جوڑ دے گا۔ پرچمِ انقلاب وہ لہرائے گا۔ پھر ایسا ظلم اس پر کیا جاوے گا کہ انسانی تاریخ میں مثال نہ ہوگی۔ "

مردِ قلندر کی آنکھ وہ دیکھ سکتی ہے جو عامی کی نظر سے اوجھل ہو۔ درویش نے گریہ کیا۔ مسلسل کیا۔ تیسرے پیگ پر کچھ ہوش پکڑا تو  فقیر نے ترنت بوتل صوفے کے نیچے کھسکا دی۔ وہسکی اب ارزاں ہوئی، وہ وقت خشک سالی کا تھا۔ اچھا مشروب اور بھری عورت دیکھنے کو نہ ملتی تھی۔ فدوی کو ایسے آلام نے ہی گنجا کیا۔

اب وہ وقت ہے کہ  جیسے رنج، مصائب کا فلڈ گیٹ کھل گیا ہو۔ مردِ آزاد قید ہے۔ بی بی پاک کو دارالحکومت کی گلیوں میں رسوا کرکے گھمایا جاتا ہے۔ اکل و شرب میں سمِّ قاتل ملا کے دیا جاتا ہے۔ ایک زندانی روایت کرتا ہے،  کھانے سے پہلے کپتان منہ میں کچھ بدبدا کر پھونک مارتا ہے۔ کھانے سے دھواں سا  اٹھتا ہے ۔ زہر خارج ہو جاتا ہے۔ آج وہ چاہے تو سلاخیں پگھل سکتی ہیں۔ قفس کی دیواریں ریت  ہو سکتی ہیں۔ وہ مگر قانون کا پابند ہے۔  سب کچھ اس کا بند کیا جا چکا۔   سوکھ کر کانٹا وہ ہو چکا۔ ظالم مگر  ظلم پر تلے ہیں۔ اس کی کوٹھڑی کے سامنے  گوشت بھونا جاتا ہے۔ آہو چشم لونڈے، جلد جن کی ملائم اور ادا قاتل۔ سامنے والی کوٹھڑی میں قید کیے جاتے ہیں۔ آدمی چیخ اٹھتا ہے۔۔۔

ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

الزام اس پر لگائے جاتے ہیں۔ کردار کشی کی جاتی ہے۔ وہ تبسّم فرماتا ہے۔ کہتا ہے، کرنے دو انہیں۔ جو چیز ہمارے پاس ہے ہی نہیں اس کو ظالم کیسے ختم کر سکتے ہیں۔ کیا چند بت توڑنے کی سزا میں یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں؟ میں بت شکن کہلا کے مرنا پسند کروں گا۔ حضرت محمود غزنوی نے بھی سومنات میں بت توڑے۔ خدا نے انہیں اس کے اجر میں ہیرے جواہرات، سونے  اور ایازسے نوازا۔  میں بھی ایک دن اپنے ایاز سے ملوں گا۔ اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں۔۔۔ یہاں تک پہنچتے آواز بھرّا گئی۔ چشمِ تنگ میں مقدّس پانی کے قطرے تیرنے لگے۔  ریڈیو پر رفیع صاحب کی آواز بلند ہوئی۔۔۔

مرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے۔۔۔ مجھے غم دینے والے تو ہنسی کو ترسے

الم و رنج کی ایسی داستان ہے جس کا مثل یونانی المیہ میں بھی محال ۔۔۔ سنگدل بھی سنے تو خون رو دے، آسمان برس پڑے، دھرتی شق ہو۔ اور جو طالبعلم سا رکیک دل ہو تو لائف فق (انگلش والا بھی بعینہ درست) ہو جائے۔

 

Comments
2 Comments

2 تبصرے:

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

آہ خلیفہ۔۔۔واہ خلیفہ

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

ہوئے جدائی سے تیری بے خود تجھے ہمارا خیال کیا ہے
نا معلوم
ہوئے جدائی سے تیری بے خود تجھے ہمارا خیال کیا ہے

اسی تمنا میں مٹ گئے ہم کبھی نہ پوچھا کہ حال کیا ہے

مجھے جو آزردہ دیکھا اک دن تو یہ تبسم سے بولا کمسن

کریں گے پورا جو ہوگا ممکن بتا دے تیرا سوال کیا ہے

کہا جو میں نے کہ ہائے ظالم مرا میں فرقت میں تیرے اس دم

تو بولا مرتا ہے ایک عالم تمہیں مرے تو کمال کیا ہے

قرار دیکھا نہ بحر و بر کو زوال ہے شمس اور قمر کو

یہ فکر ہے ہر ملک بشر کو فلک ستمگر کی چال کیا ہے

نہ عقل ایسی نہ ہوش ایسا نہ کام اپنا سخنوری کا

وہ دستِ قدرت سے لکھ رہا ہے اثرؔ تمہاری مجال کیا ہے

تبصرہ کیجیے