بہت بےآبرو ہو کر ترے ”دفتر“ سے ہم نکلے۔۔۔

یہ اس وقت کا قصہ ہے جب آتش جوان تھا بلکہ درست تو یوں ہے کہ بچپن اور جوانی کی سرحد پر حیران تھا۔ تازہ تازہ سکول کی قید سے رہائی ملی تھی اور کالج کی آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع! ایسا محسوس ہوتا تھا جیسا نیلسن منڈیلا کو 30 سال سے زیادہ کی قید کے بعد رہائی ملنے پر محسوس ہوا ہوگا۔ میرے بہت سے مینوفیکچرنگ فالٹس میں سے ایک لیڈری بھی تھا(اورہے) اور لیڈری بھی ایسی جس کے بارے میں خالد مسعود نے کہا تھا؛

اس کو پلس سے روز ہی چھتر پڑتے تھے
کرتا تھا ایسی تقریر کمینہ سا

تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے کیمسٹری کے لیکچرار ایک عجوبہ روزگار شخصیت واقعہ ہوئے تھے۔ ایسے سمارٹ کہ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائیں اور مونچھیں ایسی کہ دور سے لگتا تھا کہ مونچھیں چلی آرہی ہیں، قریب آنے پر پتہ چلتا تھا کہ مونچھوں کے ساتھ بندہ بھی لگا ہوا ہے۔ پڑھاتے ایسے تھے کہ قسم اٹھوالیں جو ان کا ایک بھی لفظ سمجھ میں‌ آتا ہو۔ ہم ٹھہرے اردو میڈیم کے پڑھے ہوئے اور ان کا ”ایکسنٹ“ برٹش اور آسٹریلین ایکسنٹ کا کراس بریڈ تھا (یہ اب پتہ چلا ہے کہ ایسا تھا)۔ پھر ان کی کلاس میں‌ یونیفارم کی پابندی۔ اتنی شرمندگی ہوتی تھی یونیفارم پہن کر کہ پورے کالج میں ہماری کلاس کے شیر جوان ہی پہنتے تھے اور سب کی طنزیہ نظروں‌ اور فقروں کا نشانہ بھی بنتے تھے۔ ایک غیر حاضری پر وہ 3 دن کی غیر حاضری لگاتے تھے۔ نام کی بجائے سب کو رول نمبر سے بلاتے تھے۔ کسی کو متوجہ کرنے کے لئے چاک کا ٹکڑا کھینچ مارتے تھے اور نشانہ بھی اس غضب کا تھا کہ سیدھا شکار کے سر پر لگتا تھا۔ بچپن میں‌ضرور ”بنٹوں“ کے بین المحلہ چیمپئین رہے ہوں گے ۔!!! اور ان کا ایک مشہور زمانہ ڈائلاگ بھی تھا، چلیں چھوڑیں اسے، پہلے ہی بیبیاں اس بلاگ پر آنے سے گریز کرنے لگی ہیں!!!

الغرض ”ہزاروں ہی شکوے ہیں کیاکیا بتاؤں“

توفرنگی محاورے کے مطابق” ایک خوشگوار صبح“ ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اس سمسیا کا کوئی حل نکالنا چاہئے۔ حل یہ نکلا کہ ایک درخواست بنام پرنسپل لکھی جائے جس میں کیمسٹری کے لیکچرار کو تبدیل کرنے کی مانگ کی جائے اور پوری کلاس اس پر دستخط کرے۔ اب سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ درخواست پرنسپل کے حضور پیش کون‌ کرے گا؟ سب کی نظریں بیک وقت مجھ پر آکر ٹھہر گئیں کہ چل بچو! بڑا لیڈر بنتا ہے! اب پتہ چلے گا تیرا۔! میں نے بھی نعرہ مستانہ (حماقت بھی پڑھا جاسکتا ہے) بلند کیا اور کہا لکھو درخواست! میں‌لے کر جاؤں گا پرنسپل کے پاس۔! درخواست لکھی گئی، دستخط ثبت کئے گئے اور میرے ہاتھ میں تھما دی گئی۔

اب منظر ملاحظہ ہو۔ میں سب سے آگے اور میرے پیچھے چالیس، پینتالیس شیر جوان مارچ پاسٹ کرتے ہوئے پرنسپل آفس کی طرف گامزن۔ میں نے مورل سپورٹ کے لئے دو جوان ساتھ لئے اور گھس گیا سیدھا آفس میں۔ درخواست جا میز پر رکھی۔ پرنسپل صاحب نے عینک کے شیشوں میں‌سے گھورتے ہوئے فرمایا۔ ”کیا ہے یہ؟“ پھر جواب کا انتظار کئے بغیر اٹھا کر اسے پڑھنا شروع کردیا۔ ان کے چہرے کے بدلتے رنگوں سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ ” ٹھاکر تو گیو“ ۔ پڑھنے کے بعد انہوں نے وہ درخواست میرے منہ پر دے ماری۔ اور وہ بے عزتی کی کہ بس کچھ مت پوچھیں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ جن کے دستخط ہیں وہ کہاں‌ ہیں؟ میں نے کہا، سر! سب آفس کے باہر کھڑے ہیں۔ انہوں نے فرمایا، چلو میرے ساتھ دیکھتا ہوں ان کو بھی! یہ منظر دیکھ کر میرے ساتھ اندر آنے والے تو پہلے ہی کھسک گئے تھے۔ باہر جاکر انہوں نے باقی پلاٹون کو بیستی پروگرام کے بارے میں بریف کردیا تھا۔ تو صاحب! جب ہم پرنسپل صاحب کے ساتھ آفس سے باہر آئے تو وہاں نہ بندہ تھا نہ بندے کی ذات!

تو صاحبو! اصل بیستی پروگرام تو اگلے دن کیمسٹری کے پیریڈ میں شروع ہوا جو اگلے دو سال تک لگاتار ”سوپ سیریل“ کی طرح چلتا رہا۔ اس کی تفصیل پھر کبھی۔ اس ساری ”گھٹنا“ میں‌ صرف دو جوانوں نے میرا ساتھ دیا۔ باقی سب پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے ۔
میرا ان دلیر جوانوں سے پکا وعدہ تھا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد ان دونوں کو نشان حیدر عطا کروں گا!!!
اگر وہ دونوں پڑھ رہے ہوں تو سند رہے کہ میں اپنا وعدہ بھولا نہیں!
Comments
28 Comments

28 تبصرے:

میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔

اس سے تو لگتا ہے ہر دور میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ہماری یادیں بھی آپ سے ملتی جلتی ہیں۔

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر ہماری قوم میں وقت پر بھاگنے کی عادت نہ ہوتی تو نہ پرویز مشرف حکمران بنتا نہ زرداری اور نہ امریکہ کو ڈرون حملوں کی جراءت ہوتی

شعیب صفدر نے فرمایا ہے۔۔۔

کر لو گل!!!
یہ بتائیں علم کیمیا میں نمبر کتنے آئے تھے؟؟؟

تانیہ رحمان نے فرمایا ہے۔۔۔

مجھے یہ بتاو اس استاد کو کس کی شفارش پر رکھا گیا تھا اور کیوں

شکاری نے فرمایا ہے۔۔۔

اگر تو کمیسٹری کا امتحان کالج میں ہوا تھا تو پکے پاس ہوئے ہوں گے۔ :razz:

کامی نے فرمایا ہے۔۔۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ شوق بچپنن سے ہے آپ کو :grin:

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

یاداشتیں آپ نے نہایت خوب "کی بورڈ بند" کی ہیں‌ کہ پڑھ کر پورا منظر نگاہوں میں گھوم گیا لیکن اس بات کا حساب دیجیے کہ آپ نے ہندی کے اتنے سارے الفاظ کس کھاتے میں استعمال کیے ہیں؟ :smile: اگر آپ جیسے اردو دانوں کی فکر بھی چنتا میں بدل جائے گی تو پھر اردو کے لیے تو اس سے بڑی گھٹنا کوئی نہیں۔ :smile:

سعدیہ سحر نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ کی داستان الم پڑھی ۔۔ اب ھمدردی کا زمانہ نہیں اس لیے ھمدردی بھی نہیں کر سکتی ۔۔۔
ویسے ایک بات پہ غور کرنا آپ کی بیستی پہ لوگوں کی بتیسی نکل رھی ھے

محمد وارث نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ سے یہ کسی نے نہیں کہا "ہور چُوپو" ;)

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

اونہم۔ اونہہ۔ نشان‌ِحیدر۔/؟
ویسے یہ واقعہ نواز شریف کے قدم بڑھانے سے پہلے کا ہے ۔ یا بعد کا۔
ان دو بہادر ساتھیوں میں سے ایک نوز شریف تو نہیں۔ کہ جسے میڈل تو کوئی نہیں ملا مگر۔ اس نے قدم بڑھا دئیے تھے۔

اگر آپ کا واقعہ اس سے قبل کا ہے تو پھر ۔ آپ نے نواز شریف کو قدم نہ بڑھانے کی اطلاع کیوں نہ کی۔
اگر بعد کا ہے تو پھر آپ کو تو علم ہونا ہی چاھئیے تھا۔ ہم قدم بڑھانے کا اس لئیے بھی کہتے ہیں کہ لیڈر جائے اور ہمارا موقع بنے ۔ یا چلو لیڈر کے پیچے (حوصلے) کا پتہ چلے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::میراپاکستان:: اور ایسا ہی ہوتا رہے گا !!!
::افتخار اجمل بھوپال:: درست فرمایا۔۔۔!!!
::شعیب:: چھڈو جی۔۔۔ رات گئی بات گئی۔۔۔ :grin:
::تانیہ:: خوش آمدید۔۔ اتنے دن کے بعد آپ یہاں۔۔۔ :shock: یقین نہیں آرہا۔۔۔
اب یہ مجھے پتہ نہیں کہ انہیں کس کی ”شفارش“ پر رکھا گیا ہوگا کہ میری پیدائش سے پہلے کا واقعہ تھا۔۔۔یہ واقعہ نہیں۔۔۔ بلکہ ان کو ملازمت پر رکھنے کا واقعہ۔۔۔۔۔۔ :mrgreen:
::شکاری:: شکر ہے اللہ کا کالج میں نہیں ہوا تھا، ایف ایس سی کا امتحان تو اس وقت بورڈ ہی لیتا تھا۔۔۔ اب کا پتہ نہیں۔۔۔ :razz:
::کامی:: کون سا شوق۔۔سرکار۔۔۔۔ اچھا وہ والا۔۔۔ :wink: ہاں جی ہاں۔۔۔
::راشد:: شکریہ۔۔۔
بس شرارت کے طور پر استعمال کئے تھے ہندی لفظ۔۔۔ اور مجھے امید تھی کہ آپ ہی نوٹس لیں گے اس کا۔۔۔ :grin:
::سعدیہ:: شکریہ ۔۔۔ آپ کا ۔۔۔ ہمدردی نہ کرنے پر۔۔۔ :grin:
بس جی ۔۔۔ زمانہ خراب ہے۔۔۔ :cry:
::وارث:: اس واقعہ کے بعد میں نے خود سے کہا تھا ۔۔۔ ہور چوپو۔۔۔ :grin:
::جاوید گوندل:: پہلے کا واقعہ ہے جی۔۔۔میں نے اطلاع کی تھی۔۔۔ اس نے سنجیدگی سے نہیں‌ لی۔۔۔ :grin:

فائزہ نے فرمایا ہے۔۔۔

ہمارے کیمسٹری ٹیچر کی کہانی لگ رہی ہے یہ۔
لیکن وہ پرائوٹ ٹیوشنز بھی دیا کرتے تھے بھاری بھرکم فیس لے کر۔ جسکو ذرا ڈھنگ سے پڑھنا ہوتا وہ وہاں جوائن کر سکتا تھا :smile:

عمر احمد بنگش نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ اب اتفاق کہو یا "نیچر" ہر دور میں‌ اور ہر خطے میں‌کسی نہ کسی صورت کیمسٹری کے استادوں‌کے خلاف ہی علم بغاوت بلند ہوتا رہا یا پھر عربی اسلامیات کے، کیونکہ انھیں‌معصوم بچوں‌جیسے میں‌اور تم کو پیٹ‌کر روحانی تسکین ہوتی تھی، :mrgreen:
"وہ بے عزتی کی کہ۔۔۔۔۔" کے ساتھ مجھے کامل یقین ہے کہ لتر پریڈ‌ضرور ہوئی ہو گی جسے آپ صاحب مروتاً‌گول کر گئے :twisted:

uncletom نے فرمایا ہے۔۔۔

:lol: جعفر بھای مجھے کبھی لیڈر بننے کا شوق نہیں ہوا اسی لیے یہ کہانی وہ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں آپ ان دو سالوں‌کے بارے میں ضرور لکھیے گا

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::فائزہ::‌ ٹیوشن کا ہی رولا تھا بی بی۔۔۔ پھر کبھی یہ قصہ بھی بیان کروں گا۔۔۔
::عمر:: :mrgreen: لیکن ہمارا علم بغاوت تو پھاڑ پھوڑ کر پھینک دیا تھا پرنسپل نے ۔۔۔ کٹ مجھے کبھی پڑھائی پر نہیں‌پڑی۔۔۔ ہمیشہ ایسی ہی حرکتوں پر پڑی ۔۔۔ :grin: وہ کیا کہتےہیں کہ تلوار کا زخم اور زبان کا زخم وغیرہ وغیرہ۔۔ ۔تو اگر پھینٹی لگادیتے تو اتنی زبانی بیستی سے اچھی تھی۔۔۔ :lol:
::انکل:: ہاں جی بالکل آپ تو بالکل شریف سے انکل ہیں۔۔۔ یہ بدمعاشیاں تو ہم جیسے ہی کرتے ہیں۔۔۔
اور بھائی میں کیوں لکھوں اپنے دو ”سالوں“ کے بارے میں۔۔۔ اگر پڑھ لیا انہوں نے تو کیا سوچیں گے؟؟؟
:mrgreen:

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

ھاھاھاھا۔
بہت خوب کہانی ہے اور اندازِ بیاں بھی۔
اسکول کے زمانے میں فزکس کے استاد کی ہم سے بڑی "یاری" تھی۔ جب تک دو تین طلباء کو "جھپی" نہ لگائیں انہیں مزا نہیں آتا تھا۔ غضب یہ کہ ریاضي بھی وہی پڑھاتے تھے تو جو فزکس کے پیریڈ میں بچ جاتے ان کی ریاضی کے پیریڈ میں باری آتی۔

خورشیدآزاد نے فرمایا ہے۔۔۔

ہا ہا ہا ہا ہا بہت اچھے بھئ بہت اچھے، مزا آگیا۔ ویسے ہمارے ملک میں لیڈر بننے کے شوقین حضرات کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔

لیکن جعفر ان دو سالوں پر مشتمل وہ سوپ سیریل ہمیں پڑنا ہے۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

:؛ابوشامل:: شکریہ محترم۔۔۔۔ اذیت پسندی ہے جی ہماری قوم میں ۔۔۔ قرآن بھی مار مار کر پڑھاتے ہیں ہم تو۔۔۔۔
::خورشید::‌ جو بندہ ٹھیک لیڈر بننا چاہے تو اس کے ساتھ ہی ہوتا ہے ایسا۔۔۔ ورنہ اگر میں جا کر لیکچرار کو ساری رام کہانی سنا دیتا تو ۔۔۔۔۔ :mrgreen:
پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔۔

غفران نے فرمایا ہے۔۔۔

ہےہےہےہےہےہےہےہےہےہےہےہےہے۔۔۔

بہت خوب لکھا ہے، یعنی تحریر ایسی عمدہ تھی کہ میں تو دوسرے پیرے تک یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ آتش کی آپبیتئ ہئ۔ :mrgreen:

ہ بچپن اور جوانی کی سرحد پر حیرانی والی بات جو آپ نے لکھی ہے، کیا کہنے۔ مزہ آ گیا پڑھ کر۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::غفران:: شکریہ۔۔۔ آتش ہی تھے ہم اس دور میں۔۔۔
پسند کرنے کا بہت شکریہ۔۔۔

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر ایمان سے مزہ آگیا نہیں نہیں آپ کی بیستی پر نہیں رُودادِ پیشی برائے پرِنسپل صاحِب
آتے ہیں زِندگی میں اکثر مُقام ایسے
اور واقعی جب کبھی ایسا ہو تو بس پِھر کُچھ نا پُچھ والی بات ہوتی ہے ،ہاں ایسے سُقراط بننے پر نمبر کاٹے تھے ہماری اِسلامیات کی ٹیچر نے بھی دسویں کلاس میں لیکِن شُکر ہے اُس کے بعد بورڈکا اِمتحان تھا ورنہ :roll:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::شاہدہ اکرم:: پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔ اس پوسٹ سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ ہر کوئی اپنے ایک آدھ استاد سے ضرور نالاں‌تھا۔۔۔ :smile:

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

"اور وہ بے عزتی کی کہ بس " ہم تو ضرور پوچھیں گے
میں نے تو بس یونیورسٹیز گالا میں سٹیٹس کے ٹیچر کی پیروڈی کی تھی
نشان حیدر سمیسٹر کے خاتمے پر ہی مل گیا تھا
سارے تعلیمی کیرئیر کا واحد ایف :mrgreen:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ڈفر:: بالکل پوچھو ۔۔۔ بیستی صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ہورہی ہو ۔۔۔ جب پرانی یاد بن جائے تو اس میں‌بھی بندے کو مزا آنے لگتا ہے ۔۔۔ :smile:
سب کے سامنے کس نے کہا تھا نقل اتارنے کو۔۔۔ ہور چوپو۔۔۔۔ :mrgreen:

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

چوپا ہی تو :D
دوسرے سمیسٹر کا وہ کورس آخری کے ساتھ پڑھا تو ٹوٹل 9 کورسز پڑھنے پڑھے
مطلب 27 کریڈٹس
اور پریزیڈنٹ بھی ہمیں یہ خاص اجازت دینے کا معاوضہ شائد یہی چاہتا تھا
”ہور چوپو“ :shock:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

:mrgreen: :mrgreen: :mrgreen:

حالِ دل » Blog Archive » چوہدری نسرین باجوہ اور ہمنوا نے فرمایا ہے۔۔۔

[...] پہلے اپنی ان گنت بیستیوں میں سے ایک بیستی بیان کی تھی یہاں! سب احباب نے اسے پڑھ کر پاکستانیوں کی طبیعت کے عین [...]

jamshaid نے فرمایا ہے۔۔۔

ایک بار ہم بھی اپنی فزکس کی ٹیچر کو تبدیل کروانے پرنسپل کے دفتر جا پہنچے. اور وہاں ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیش آئی.

تبصرہ کیجیے