فیرہُن؟

ہمارے یہاں، پچاس کے بعد، جب اولاد جوان ہوجاتی ہے، بیوی، ماں کا روپ دھار لیتی ہے، بہن بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوجاتے ہیں، والدین یا تو گزر چکے ہوتے ہیں یا اس کی تیاریوں میں ہوتے ہیں تو بڑا مشکل وقت شروع ہوجاتا ہے جی عمر کے اس حصے میں۔ بچّے، جو اب بڑے ہوچکے ہوتے ہیں، اپنی ساری کمیوں اور ناآسودگیوں کا ذمہ دار باپ کو ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے آج تک ہمارے لئے کِیا ہی کَیا ہے ؟؟؟۔۔۔ اور وہ جو پوری زندگی، دن رات محنت کرکےاور اپنا آپ مار کے ان کی خواہشیں ہر ممکن حد تک پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا، اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔۔۔۔!

بیوی کو بھی وہ سارے ظلم اور زیادتیاں یاد آنی شروع ہوجاتی ہیں جو بقول اس کے، شوہر نے ساری زندگی اس پر روا رکھیں۔ 'مُنّے کے ابّا' پکارنے والی محترمہ اب اپنا ہر جملہ یہاں سے شروع کرتی ہیں کہ 'اجی کبھی زندگی میں کوئی کام ڈھنگ سے بھی کر لیا کرو'۔۔ اور یہ بات وہ اپنی اولاد کے جھرمٹ میں ملکہ کی طرح بیٹھ کر ارشاد کرتی ہیں اور وہ یہ بھی کہہ نہیںسکتا کہ جن کے بل پر آپ یوں اکڑ رہی ہیں، یہ ڈھنگ کے کام بھی اسی نے کیے تھے!

مرے پر سو دُرّے۔۔۔۔۔کسی بھی مسئلے ،معاملے، جھگڑے، خوشی، غمی میں باپ ہمیشہ ایک طرف اور ماں اور اولاد دوسری طرف ہوتی ہے۔ باپ ہمیشہ غلط ہوتا ہے، ماں چاہے جتنی بھی غلط بات کررہی ہو، اولاد کی نظر میں وہ ٹھیک ہوتی ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ کہانی تقریبا ہر گھر کی کہانی ہے۔

میرے نزدیک تو جی اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ بندہ عین جوانی میں ہی مرجائے، یہی کوئی پینتیس چالیس کے آس پاس، اس وقت بچے چھوٹے ہوتے ہیں اور چھوٹے بچوں کے لئے ان کے باپ سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہوتی اس دنیامیں۔ بچوں کے لئے باپ، دنیا کا سب سے بہادر، امیر اور اچھا انسان ہوتا ہے۔ وہ تو جب بچّے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان پر باپ کی خامیاں اجاگر ہوتی ہیں کہ ان کا باپ کیسا غیر ذمہ دار، ظالم، عیّاش، ان کی ماں کی زندگی برباد کرنے والا اور لفنگا انسان تھا۔۔۔ جوانی میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ذہن میں تاعمر باپ کا وہی تاثر رہتاہے جو ان کی بچپن کی یادداشت میں محفوظ تھا۔ اور بیوی کو متوفی خاوند میں وہ خوبیاں بھی نظر آنی شروع ہوجاتی ہیں جو کبھی موجود ہی نہ تھیں۔ مرنے کے بعد سب محفلوں میں اس کا ذکر ایسے ہوتاہے جیسے اس جیسا نیک، پارسا، ذمہ دار، بات کا پکا، بیوی بچوں کا خیال رکھنے والا انسان شاید ہی کوئی اور ہو۔۔۔۔ اور یہ فقرہ بھی کہ بس جی اللہ اپنے اچھے بندوں کو جلدی اپنے پاس بلالیتا ہے۔۔۔۔۔اوروہ رشتے دار جو زندہ ہوتے ہوئے منہ لگانا بھی پسند نہ کرتے ہوں، وہ بھی ایسے تعریفوں کے پل باندھتےہیں کہ ۔۔۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔۔۔۔

تو جی بات یہ ہے کہ ہمارے خطّے کے لوگوں کی اوسط عمر ساٹھ سے کم ہی ہے، تو پندرہ بیس بدذائقہ سالوں کے لئے پوری زندگی کی 'کیتی کرائی کھوہ' میں ڈالنے کا کیا فائدہ؟ میرا تو مفت مشورہ ہے کہ یہی وقت ہے مرنے کا، اس عمر تک پہنچتے پہنچتے دعا کریں کہ اوپر پہنچ جائیں، ورنہ آگے بڑی بدمزگی ہے!!
Comments
38 Comments

38 تبصرے:

عثمان نے فرمایا ہے۔۔۔

پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ عمر کے کس حصے میں‌ ہیں؟
دوسرا یہ کہ گھر میں‌ سب خیریت ہے؟

رائے دینے سے قاصر ہوں کہ "ہنوز دلی دور است" :mrgreen:

شازل نے فرمایا ہے۔۔۔

آجکل کے حالات میں بندہ کسی بھی عمر میں روانہ ہوسکتا ہے

جاویداقبال نے فرمایا ہے۔۔۔

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
اتنی واضح حقیقت ہےکہ جس سےانکاربھی ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :lol: ++


والسلام
جاویداقبال

خاور نے فرمایا ہے۔۔۔

میری کوشش ہے که کچھ پیسے ہاتھ ميں کرلوں
که هر مہینے معقول سی رقم ملتی رہے
پھر سارے پتر ، پاپا پاپا کرتے پھریں گے
ورنہ پاک مائیں باپ کو ولن کے طور پر پیش کرکے بچوں کی پرورش کر رهیں هیں
میں بھی ایک ولن هوں

جاہل اور سنکی، جہالستان نے فرمایا ہے۔۔۔

ہمارے نوزائدہ بلاگ پر آپکے وزٹ کا بہت بہت شکریہ ۔ تبصرہ ادھار رہا ۔

یاسر عمران مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔

بچے باپ کو کیا رتبہ دیتے ہیں یہ سب ماں کی تربیت پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ باپ کا کردار بھی کچھ حد تک اہمیت کا حامل ہے۔ باپ کے لیے جب اولاد جوان ہو جائے تو کچھ حد تک ان کے جذبات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اگر باپ اپنی ہر بات سختی سے منوانے کا عادی ہے تو آہستہ آہستہ بچے اندر سے باغی ہو جاتے ہیں۔ تو باپ کے لیے بچوں کا دوست بن کے رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

Md نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب - جب بہوویں آتی ھیں تو ملکہ بیگم کوغلام بننا پڑتاھے ورنہ گھر سے باھر نکال دی جاتی ھیں - شُکریہ

عین لام میم نے فرمایا ہے۔۔۔

ڈرانے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔ :smile:

ضیاء الحسن نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ ایک ایسی حقیقت یے جس سے انکار نہیں ۔۔۔۔۔۔ اسکو ہم مکافات عمل بھی کہ سکتے ہیں۔۔۔۔ جیسا کروگے ویسا بھرو گے ۔۔۔۔ نہ مانو تو کر کے دیکھ لو

یاسر خوامخواہ جاپانی نے فرمایا ہے۔۔۔

آجکل جاپان میں بھی ایسی ھی ہوا چل رہی ھے۔
ویسے جعفر بتائیں جس کے بچے نہ ہوں اسے تو مرنے کی ضرورت نہیں ھے نا؟ :lol:

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ بتائیں کہ جلدی مرنے کے نتیجے میں اسے خود کشی کہیں یا نا گہانی موت یا قتل یا کیا؟؟؟؟
اس سے بہتر یہ نہیں کہ بچے پیدا ہی نہ کیے جائیں؟

میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔

ہم بلو کی رائے سے متفق ہیں۔ ہم تو اس سے بھی دو قدم آگے بڑھیں گے اور ایسے ڈرپوک لوگوں کو مشورہ دیں گے کہ وہ شادی ہی مت کریں۔

جہانزیب اشرف نے فرمایا ہے۔۔۔

میرے خیال میں‌یہ دور ہر ٹین ایجر کے پختہ عمر میں‌داخلے کے وقت آتا ہے جب اپنے والد میں‌عموما لڑکوں‌ کو بہت خامیاں‌ نظر آنے لگتی ہیں، نا صرف مشرق بلکہ مغربی ممالک میں‌بھی ایسا ہوتا ہے اور ویب پر بھی اس بارے میں‌ بہت مواد مل جاتا ہے، لیکن اس دور کے بعد نیا دور شروع ہوتا‌جو عموما 30 سے 35 سال کی عمر سے کایا پلٹنے لگتی ہے اور پھر وہی لڑکے اپنی ہر بات کو اپنے والد سے موازانہ کرنے لگتے ہیں‌، کہ ایسی صورتحال میں‌ میرے والد کتنی آسانی سے نکل گئے تھے اور بچوں‌ کو اپنی مشکلات کی ہوا بھی نہیں‌لگنے دی، اور بالکل ویسی ہی صورتحال میں‌مجھے کچھ سمجھ نہیں‌آ‌رہی ۔ اور اپنے والد عظیم لگنا شروع ہوتے ہیں‌ ۔
میں‌بذات خود اس صورتحال سے نپٹ‌ چکا ہوں‌اور اس بارے میں‌ مختلف مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا، جن میں‌نفسیاتی معالجین بالک نارمل گردانتے ہیں‌۔

فیصل نے فرمایا ہے۔۔۔

میں وہی تبصرہ کرنے لگا تھا جو جہانزیب نے کر دیا ہے۔
تھوڑا سا دل کر کے یہ کچھ سال گزار لیں، جب بچوں‌کے بچے ہو جاتے ہیں تو داد دادی کی عزت بحال ہو جاتی ہے۔
:smile:

محمداسد نے فرمایا ہے۔۔۔

میرے ایک 'نادر' دوست کا کہنا تھا کہ ہماری یہاں کی اوستاَ عمر (ساٹھ سال) کو تعلقات کے حساب سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پیدائش سے لے کر بیس سال تک سب کو آپ کی فکر ہوتی ہے لیکن آپ کو کسی کی فکر نہیں ہوتی۔ دوسرا حصہ اکیس سال سے بیس سال تک میں آپ کو سب کی اور سب کو آپ کی فکر ہوتی ہے۔ پھر اکتالیس سے ساٹھ تک آپ کو سب کی فکر ہوتی ہے مگر کسی کو آپ کی فکر نہیں ہوتی۔

مجھے نہیں معلوم یہ بات کہاں تک درست ہے۔ لیکن آپ کے فلسفہ پر تو یہ بات صادق آتی ہے۔

haroonazam نے فرمایا ہے۔۔۔

کم و بیش یہی صورتحال ہے، جو میں نے اکثر گھرانوں میں دیکھی ہے۔ آپ شائد اپنا تجربہ شئیر کررہے ہیں۔ ;-)

ڈفر - DuFFeR نے فرمایا ہے۔۔۔

جہانزیب نے بڑا ہی متوازن اور عمدہ تبصرہ کیا ہے
بندے میں میچورٹی اآنے کے بعد ہی اسے صحیح معنوں میں بزرگوں کی اہمیت اور عزت کا دراک ہوتا ہے۔ ورنہ پچپن سے لے کر لڑکپن اور کسی حد تک جوانی میں بھی والدین سے زیادہ ظالم، جابر اور کرخت کوئی نہیں ہوتا۔
اماں کا جوان بچوں کے بیچ بیٹھ کر طعنے بازی کرنا تو یار شغل ہوتا ہے یہ بھی نہ ہو تو تُو بتا بڑھاپے میں کیا اینٹرٹینمنٹ ہو گی تیرے پاس؟ :mrgreen:

منیر عباسی نے فرمایا ہے۔۔۔

آج کل خیر سے کس کی آپ بیتی پڑھ رہے ہیں؟

عادل بھیا نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھیا بلکل بجا فرمایا۔۔۔۔ اللہ بس عزت کی زندگی دے۔ ہم تو ابھی (بقول اسد بھیا کے( زندگی کے پہلے دور میں ہین مگر جب اِس معاملے میں سوچتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا قیامت کا سوچ رہے ہیں :cry:
ڈفر:: بھیا آپ تو لگتا ہے کہ اپنی زندگی کی اِس انٹرٹینمنٹ کو کافی انجوائے کر رہے ہیں ;-)

امتیاز نے فرمایا ہے۔۔۔

میرا تبصرہ شاید لوگوں کو ناگوار گزرے اس لیے پہلے ہی معزرت چاہتا ہوں۔۔
عورت تحفظ چاہتی ہے ، نفسیاتی طور پر عورت کو عدم تحفظ سے خوف رہتا ہے ، شادی کے بعد جب بچے بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو عورت گحر میں مضبوط ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس کو جب اولاد سے تحفط کا احساس ملنا شروع ہوتا ہے تو وہ شوہر کو نظرانداز کر دیتی ہے۔ اکثر ورکنگ ویمن شادی کی ابتدا ہی سے ایسی ہوتی ہیں کیونکہ انکی تنخواہ ان کو تحفظ کا اھساس دیتی ہے اور اکثڑ بڑے گھر کی لڑکیاں ، کہ ان کے باپ کی دولت اور ھیثیت ۔۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رشتہ کی بنیاد ہی عام طور پر غلط ہوتی ہے۔۔
ہمارے معاشرے اور گھرون میں لڑکیوں کو پہلے دن ہی سے یہ بتایا جاتا ہے کہ پیلے وہ اپنے باپ کے گھر میں رہیں گی ، پھر شوہر کے اور بھر بچوں کے۔۔
ان کو بتایا ہی یہ جاتا ہے کہ وہ شوہر کے گھر اس لیے جا رہی ہیں کہ وہاں اسکو تحفظ حاصل ہو گا ، یہ عدم تحفظ کا احساس اس کے زہن میں ڈالا جاتا ہے۔۔
جو بات اپکو ہر گھر میں نظر آئے سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا معاشرتی طرزعمل اس کو پروان چڑھا رہا ہے

بدتمیز نے فرمایا ہے۔۔۔

تمام لوگوں‌ کا انتہائی سنجیدگی سے تبصرہ کرنے کا شکریہ۔ جعفر آج کل گھر یاد کر رہا ہے کے کئ دنوں سے نہ تو بیلنے سے مار پڑی ہے نہ کسی بچے نے کہا ہے اوئے ابا، اماں سے مار کھا کے ہٹے گا؟ لہذا آپ تمام حضرات کا اس قدر سنجیدہ ہونا لازمی نہیں۔ :twisted:

یار معاف کریں‌ میں صبح سے بارہ سنگھا بارہ سنگھا سا محسوس کر رہا تھا اس لٕے ایویں چول مار گیا۔ :twisted:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

آہممم۔۔۔ اس تحریر کا مقصد دوستوں‌کو اشکل دینا ہی تھا کہ اس موضوع پر مختلف آراء سے آگاہی مل سکے جو بخوبی حاصل ہوگیا ہے :grin:
مرنے والا مشورہ طنزیہ طور پر دیا گیا ہے، سنجیدگی سے عمل کرنے کی کوشش کرنے والا خود ہی ذمہ دار ہوگا۔ میرا ذمہ توش پوش ہے۔
سب سجنوں کا شکریہ، خاص طور پر بلو کا کہ اس کے تبصرے سے لگتا ہے کہ وہ بھی اب بڑا ہوگیا ہے۔ :grin:
ہارون اعظم کو بلاگ پر خوش آمدید
جہانزیب اور امتیاز کے تبصرے بہت عمدہ اور ڈاکٹر صاحب اور ڈفر کے نہایت مزے دار۔۔۔
بدتمیز اور بارہ سنگھے کو آج سے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ ڈکلئیر کیا جاتا ہے۔۔۔ خالی جگہوں پر لگنے والے الفاظ سے جانکاری حاصل کرنے کے لئے مجھے ایمیل کریں۔ ;-)

پھپھے کٹنی نے فرمایا ہے۔۔۔

پھر کب ؟ چاول

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::اسماء:: ;-)

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

اوہوووو۔۔۔۔۔۔ ایم ڈی کو ویلکم کہنا بھول گیا۔۔
ویلکم جی ویلکم ۔۔۔ جی آیاں‌نوں۔۔۔
:smile:

جاوید گوندل۔ بآرسیلونا، اسپین نے فرمایا ہے۔۔۔

۔۔۔۔۔ وہ یہ بھی کہہ نہیں سکتا کہ جن کے بل پر آپ یوں اکڑ رہی ہیں، یہ ڈھنگ کے کام بھی اسی نے کیے تھے!۔۔۔۔۔؟

ہم تو سمجھتے تھے ۔اچھی اولاد "خداداد" ہوتی ہے مگر آپ ایک نئی توجیہہ لے آئے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ شاید اسی لئیے اولاد بھی باپ کو بھول جاتی ہے۔؟

بہر حال اس عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔ یعنی ابھی جہان اور بھی ہیں۔ ضروری نہیں کہ اس المناک انجام سے پہلے ہی مر مرا لیا جائے۔ نیٹ پہ نیٹ گردی کرنے والی تمام بییبیوں سے معذرت کے ساتھ یہاں ایک قدیم یوروپی ضرب المثل بیان کرنے لگا ہوں جسے آج بھی پاکستان کے بہت سے مرد حضرات اکسیر سمجھتے ہیں۔بیان کچھ یوں ہیں۔ کہ
ایک دہقانی جو چرچ میں پادری سے اپنی رام کہانی سُنا رہا تھا کہ کس طرح اس کی عورت ایک پوہڑ بیوی ہے اور نیز وہ اس سے تنگ آچکا ہے ۔۔۔پادری جو اسکی لمبی رام کہانی سے بور ہو چکا تھا۔ اُس نے دہقانی کو مشورہ دیا کہ کہ تُم اپنی جورو کو صبح شام دو دو ہاتھ رسید کر دیا کرو۔ دہقانی پاری کا مشورہ سُن کر متعجب ہوا اور گویا ہوا ُ ُ فادر جب اسکا قصور ہوتا ہے تب تو میں اُسے دو ہاتھ آپ کے مشورے سے پہلے بھی لگا دیا کرتا ہوں ۔۔۔۔ مگر یہ صبح شام دو دو ہاتھ جڑنے ۔۔۔۔۔؟ پادری نے کہا جب تمھیں اسکے کسی قصور کا پتہ ہوتا ہے تو تُم اسے دو ہاتھ رسید کر دیتے ہو۔ اور اُن دنوں کا جب تمھارے علم میں یہ نہیں ہوگا کہ تُم نے اُسے کس وجہ سے ٹھکائی کی تو۔۔۔ تُم گھبراؤ مت اُسے ضرور علم ہوگا ۔۔۔۔کہ اس کی ٹھکائی کیوں ہوئی ۔۔۔ ہیں جی۔۔۔

ویسے سند رہے کہ بندہ یعنی جاوید گوندل پادری کے طریقہ علاج سے اتفاق نہیں کرتا۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::جاوید گوندل:: خداداد والی بات سے تو میں‌ بھی متفق ہوں ۔۔۔ پر خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔۔۔ :mrgreen:

نعمان نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت اچھی تحریر ہے۔ اپنی مصیبتوں‌کا ذمے دار کسی اور کو ٹہرانا ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ اماں‌ بچوں کی صحیح‌ تربیت نہیں‌ کرپائی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بچوں‌ کو شدید احساس کمتری اور کم مائیگی کے بھوت ستاتے رہتے ہیں۔ ان چیزوں کا الزام وہ اس شخص پر ڈال دیتی ہیں‌ جو اسوقت حاکم وقت تھا۔ جلنا کڑھنا کسی اور کو اپنے برے حال اور بدتر مستقبل کا ذمے دار ٹہرانا یہ سب غربت اورغیرمعیاری تعلیم کے تحفے ہیں جنہیں‌ مڈل کلاس کی ٹاٹ میں‌ چھپانے سے بھی چھپایا نہیں جاسکتا۔

کشمیر: شمال سے جنوب تک لہو لہان۔۔۔ نے فرمایا ہے۔۔۔

کشمیر: شمال سے جنوب تک لہو لہان۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر: شمال سے جنوب تک لہو لہان۔۔۔ نے فرمایا ہے۔۔۔

یہ لنک میں نے اس لئیے دیا ہے کہ ہمیں اپنے خول سے نکل کر کشمیر میں مسلمانوں کی حالت زار سے آگاہی رہے اور ہمیں بھارت کے مکروہ اور اصلی چہرے کی شناخت رہے۔ سب اہل دل سے گذارش ہے ایک نظر اس بلاگ یا کشمیر سے متعلق تازہ حالات کی سائٹس پہ بھی ایک نظر ڈال لیا کریں۔ اور اگر کسی صاحب دل کو خدا نے اسطاعت دے رکھی ہو تو وہ ایک آدھ پوسٹ کشمیری مسلمانوں کی حالت زار پہ لکھ دے۔

میں اکثر سوچتا ہوں جب مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پہ آزادی پہ پہرے سمیت ہر قسم کی پابندیاں ہیں تو ایسے میں آزاد میڈیا کی عدم موجودگی میں نہ جانے کتنے کشمیری مسلمان پاکستانی اردو بلاگرز کو پڑھتے ہونگے اور ان کی ہمدردی میں دو الفاظ ہی سہی نہ پا کر وہ ہمارے عام پاکستانی بلاگرز سے کسقدر مایوس ہوتے ہونگے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

احمد عرفان شفقت نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر، آپ نے کمال روانی سے اتنی اہم اور حقیقی صورتحال کی منظر کشی کی ہے۔ زبردست۔ بہت عمدہ۔

اور جاوید گوندل صاحب، افتخار اجمل صاحب کے بلاگ پر کشمیریوں کی حالت زار کے بارے میں اکثر لکھا جا رہا ہے۔ آپ کی بات درست ہے۔۔۔ان لوگوں کے بارے میں لکھا جانا چاھیے۔

Sana نے فرمایا ہے۔۔۔

دل کو تڑوڑ مڑو ڑ کر رکھ دیا ہے آپ نے۔ :sad: :|

ابوشامل نے فرمایا ہے۔۔۔

اپنی حالت کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیرانا تو جو ہمارا ملی شعار ہے۔ عورت خود سگھڑ نہ ہو، بچے آپے سے باہر ہوں تو وہ تمام تر صورتحال کا ذمہ دار اس مرد کو ٹھیراتی ہے جو ان سب کے لیے در در کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔ گو کہ صورتحال ہر جگہ ایک سی نہیں ہوتی، کہیں مرد کا قصور زیادہ ہوتا ہے اور وہ کمزور پا کر عورت کو مغلوب کرتا ہے، جب عورت اپنی اولاد کے بل بوتے پر طاقتور ہونے لگتی ہے تو وہ اس طرح کے اقدامات کر کے اس پر غلبہ پانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ سب گھریلو سیاست کا حصہ ہوتا ہے لیکن عام طور پر شہری زندگی میں تو یہی دیکھا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ گھر پر عورت راج مستحکم ہوتا رہتا ہے، اور تمام تر محنت اور خلوص کے باوجود مرد کو آخری عمر میں اس کا صلہ نہیں دیا جاتا۔
آپ نے یوٹیوب پر ویلے بابا کی وڈیو دیکھی ہے؟ :)

راشد کامران نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب اچھا لکھا ہے۔۔ میں کچھ اختلافی نوٹ لکھنا چاہتا تھا۔۔ لیکن فی الوقت یہ کہ تحریر بڑی رواں‌ہے۔۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

نعمان، جاوید گوندل، ثناء، احمد عرفان شفقت، ابو شامل، راشد کامران صاحبان و صاحبہ
شکریہ۔۔
فہد بھائی یہ ویڈیو تو ڈاون لوڈی ہوئی ہے میں نے، جب بھی اپنے مستقبل میں‌ جھانکنے کا دل کرتا ہے، دیکھ لیتا ہوں
راشد بھائی آپ کے اختلافی نوٹ کا شدت سے انتظار ہے۔۔۔
ثناء، آپ کے دل کو استری کرنے کا بندوبست بھی جلد ہی کردیا جائے گا۔۔۔ :grin:

جاہل اور سنکی، جہالستان نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ ہمارے نوزائیدہ بلاگ پر تشریف لائے، بہت خوشی ہوئی ۔ آپ اور پھپھے کٹنی صاحبہ تو ہمارے استاد اور استانی جی ہیں ۔
جس ناراضگي کو آپنے بڑی خوبصورتی سے لفظوں میں پرویا ہے اسکو روکنے کیلئے تو جو ٹرمز اینڈ کنڈیشنز چاہیں وہ تو کائینات کو پیک کرنے کے قابل شاپر بیگ پر بھی نہ لکھی جاسکیں ۔
امید ہے آنا جانا لگا رہیگا ۔ ایک دفعہ پھر آپکی آمد کا شکریہ ۔

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

سنکی میاں، ہم تو 'گڑھتی' دینے آئے تھے لیکن وہ کوئی ہم سے پہلے ہی دے گیا تھا، شکر کریں آپ کا بلاگ ہماری گڑھتی کے مضر اثرات سے بچ گیا :grin:
اور آپ کا یہ انداز بہت بہت اچھا لگا کہ آپ نے ہماری حاضری کی رسید اس عمدہ انداز سے دی، آپ کا بھی بہت شکریہ۔۔۔ :smile:

طالوت نے فرمایا ہے۔۔۔

گاڑی کے دونوں پہیوں‌میں سے ایک کی بھی الائنمنٹ خراب ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ماں کی تربیت اچھی نہ ہو ، باپ خواہشات پوری کرنے میں اچھے برے حلال حرام کی تمیز نہ رکھے تو ایسا دیکھنے کو ملتا ہے ورنہ نہیں ۔ اور اس سے زیادہ ضروری تو یہ کہ تھوڑی حیا تھوڑی شرم باقی ہو تو باپ کی جھکتی کمر ہی اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ اس نے ان جانوں کے لئے اس جان پر کتنے عذاب جھیلے ۔
وسلام

تبصرہ کیجیے