پانامہ کا ہنگامہ - آخری کَڑی

پانامہ کے معاملے میں بری طرح پھنس جانے کے بعد نواز شریف کے سامنے بچاؤ کا کوئی رستہ باقی نہیں رہا تھا۔  آخری حل یہی تھا کہ استعفٰی دینے کے بعد اقتدار شہباز شریف یا چوہدری نثار میں سے کسی کے سپرد کردیں  اور نواز شریف اس پر راضی تھے  ان کی شرط صرف یہ تھی کہ ان کی دولت کو نہیں چھیڑا جائے گا لیکن یہ راستہ عالمی اسٹبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔  اس خطے میں اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے پاکستان میں نواز شریف سے بہتر مہرہ انہیں کوئی اور نظر نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے اس سارے معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے نواز شریف کے ذاتی دوست مودی کے ذریعے کبھی بم دھماکے کرائے، کبھی سرحدوں پر گولہ باری حتی کہ سرجیکل سٹرائیک جیسا بودا ناٹک بھی کیا گیا۔ لیکن ان سب اقدامات کے باوجود محب وطن حلقے پانامہ کیس پر مٹی ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھے۔  
پیرالل یونیورس یا متوازی کائنات کا تصوّر ہمیشہ سے انسان کے لیے پُراسرار رہا ہے اور اس کے عدم اور وجود پر مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایک مادی دنیا ہے  اور ایک اس سے ماورا میٹا فزیکل یا روحانی دنیا ہے۔ اس دنیا کے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ عام انسان کے لیے اس دنیا کے اسرار کو جاننا ناممکن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں حق اور باطل کی کشمکش جاری رہتی ہے۔ نوری اور ناری علوم کے دو مکاتب فکر ہیں جو ہر پل ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی جدوجہد میں رہتے ہیں۔
اب جو کہانی آپ کے سامنے آنے والی ہے یہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ٹھوس حقائق پر مشتمل ہے۔ بابا رام دیو کے نام سے ہندوستان میں ایک یوگی ہیں جن کا میڈیا پر بھی کافی شہرہ ہے۔ یہ نریندرا مودی کے قریبی ساتھی ہیں۔ بابا رام دیو  انسانی حواس سے ماورا روحانی دنیا میں ناری علم والے گروہ کے ترجمان ہیں۔ بالآخر مودی نے بابا رام دیو سے پانامہ والے معاملے میں مدد مانگی کہ اس معاملے کو سلجھانے میں ہماری مدد کریں۔ روحانی دنیا کا ایک غیرتحریری اصول یا آئین ہے جس پر دونوں فریق عمل کرتے ہیں ۔ اس اصول کے مطابق ماضی اور مستقبل میں سفر کیا جا سکتا ہے لیکن جو واقعات ہوچکے ہیں ان کو بدلنے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے مادّی دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس اصول پر سینکڑوں سال سے دونوں متحارب فریق عمل کرتے آئے ہیں اور تاریخ کے بہت سے نازک ادوار میں بھی جب ایک فریق کی بقاء داؤ پر لگی ہوئی تھی اس اصول سے رُوگردانی نہیں کی گئی۔  لیکن پانامہ والے معاملے میں عالمی اسٹبلشمنٹ کا اتنا کچھ داؤ پر لگاہوا تھا کہ انہوں نے اس  غیرتحریری اصول کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔  بابا رام دیو کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ اسّی کی دہائی میں جا کے کچھ واقعات میں تبدیلی کرنے کی کوشش کریں۔
یہ 1980 کا سال تھا۔ مئی کا مہینہ انگلستان میں کافی سرد ہوتا ہے۔ کاؤنٹی سیزن کا آغاز تھا۔ عمران خان بطور پروفیشنل کرکٹر کاؤنٹی کرکٹ کا جزو لاینفک تھے۔ یہ ویک اینڈ کی بات ہے۔ لندن کے علاقےساؤتھ ہال کی جامع مسجد میں عشاء کی نماز ہوچکی تھی۔ مسجد میں گنے چنے نمازی موجود تھے۔ ان میں ایک وجیہہ و شکیل نوجوان بھی تھا جو نماز سے فارغ ہونے کے بعد تلاوت میں مصروف تھا۔ یہ نوجوان عمران خان تھا۔  ان کو جب بھی کرکٹ کی مصروفیت میں سے وقت ملتا وہ زیادہ تر اسے مسجد میں گزارتے تھے۔ اس  رات وہ دیر تک مسجد میں موجود رہے۔ تلاوت کے بعد وہ وظائف میں مشغول تھے کہ اچانک ایک دودھیا روشنی نمودار ہوئی اور اس میں ایک نورانی صورت والے بزرگ کی شبیہ نظر آنے لگی۔ فطری طور پر وہ پریشان ہوئے اور ذرا خوفزدہ بھی۔ لیکن پھر انہوں نے خود پر قابو پایا اور بزرگ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہ سب کیا ہے۔
بزرگ نے ہلکا سا تبسم کیا اور فرمایا ، "عمران! اس عالم شباب اور اس ترغیب بھری دنیا میں تمہارا  تقوٰی اور پرہیزگاری ایسی ہے کہ اکابرین کے زُہد کو شرماتی ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہارے سپرد ایک اہم کام کیا جارہا ہے۔ میں جیسا کہتا رہوں ویسے کرتے جاؤ۔ کچھ کام ایسے ہوں گے کہ تمہیں وہ غلط لگیں گے لیکن ان کی مصلحت تم نہیں سمجھ سکو گے اس لیے ان پر شک مت کرنا اور پورے یقین کے ساتھ اس پر عمل کرنا۔ تمہارے سب اعمال اس اُمّت کے لیے خیر کا باعث ہوں گے"۔
یہ بزرگ کوئی اور نہیں بلکہ بابا رام دیو تھے اور انہوں نے نورانی صورت والے بزرگ کا بھیس بدل کر نوجوان عمران خان کو دھوکہ دیا۔ اس کے بعد ان سے ایسے کام کروائے جو ماضی کے اہم واقعات کو تبدیل کرنے والے تھے۔ اس واقعے سے پہلے عمران خان کی نہ کوئی آف شور کمپنی تھی اور نہ ہی ان کی زندگی ایسے لہو و لعب میں گزری تھی۔ انہوں نے نو اگست دو ہزار سولہ تک اسی تقوٰی اور پرہیزگاری کے ساتھ زندگی گزاری  جیسے اپنی جوانی میں تھے۔ بانوے کے علاوہ ستّاسی کا ورلڈ کپ بھی پاکستان ان کی کپتانی میں جیتا تھا۔ لیکن ماضی تبدیل ہونے کی وجہ سے دس اگست دو ہزار سولہ کے بعد تاریخ بدل چکی ہے۔ اب  ہم تاریخ  بارے وہی جانتے ہیں جو بابا رام دیو اور ان کے شیطانی ٹولے نے اسّی کی دہائی میں جا کے تبدیل کی تھی۔ 1987 کا ورلڈ کپ بھی اس نئی ٹمپرڈ ہسٹری کے مطابق پاکستان ہار چکا ہے۔ ڈکی برڈ اور ڈیوڈ شیفرڈ  سے غلط فیصلے کروا کے پاکستان کو سیمی فائنل ہروا دیا گیا۔ اگرچہ بانوے کے ورلڈ کپ میں  بھی بابا رام دیو نے اس نورانی صورت والے بزرگ کے بھیس میں عمران کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی تم ان فٹ ہو، نہیں کھیل سکتے۔ لیکن عمران نے ان فٹ ہونے کے باوجود انجکشن لگوائے اورشدید تکلیف کے عالم میں کھیل کر پاکستان کو اس فتح سے محروم ہونے سے بچا لیا۔
یہ ایک ایسی خوفناک اور بھیانک حقیقت ہے جو ہم میں سے اکثریت کے لیے قابل قبول نہیں۔  لیکن جیسا انگریزی میں کہتے ہیں کہ رئیلٹی از سٹرینجر دین فکشن۔۔۔ اس معاملے میں یہ کہاوت سو فیصد درست بیٹھتی ہے۔ یہ رئیلٹی دنیا کے کسی بھی فکشن کے مقابلے میں عجیب تر اور ناقابل یقین ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شیطانی ٹولے کی اس بھیانک کارروائی کا روحانی دنیا میں نوٹس نہیں لیا گیا۔ سب سے پہلے یہ واردات گوجر خان کے نواح میں آباد درویش کے علم میں آئی۔ یہ جولائی 2016 کے وسط کی بات ہے۔ انہوں نے فوراً پیرس میں بابا صاحب کے ادارے سے رابطہ کیا ۔ باباصاحب کے ادارے سے محی الدین نواب کے اکثر قارئین واقف ہوں گے۔ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ کہانی "دیوتا" میں اس کے حوالہ جات افسانوی رنگ میں استعمال کیے ہیں۔ اگرچہ اس ادارے کی ساخت اور طریقۂ کار اس سے کافی مختلف ہے جیسے 'دیوتا' میں بیان ہوا ہے۔ بہرکیف ہنگامی بنیادوں پر اس سازش کا توڑ کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ روحانی دنیا یا پیرالل یونیورس کا واحد غیرتحریری اصول ٹوٹنے پر ایک انارکی کی سی کیفیت برپا ہوچکی ہے۔ رحمانی گروہ والے اس  مذموم کارروائی پر شدید برانگیختہ ہیں اور ان کی جانب سے منہ توڑ جواب دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ہم تاریخ میں بہت بڑی تبدیلیاں دیکھیں لیکن ظاہر ہے کہ ہم ان کو نوٹس کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ اس وقت وہی اس وقت کی حقیقت ہوگی۔
عمران خان کو روکنے کے لیے شیطانی ٹولے نے جس پنڈورا باکس کو کھولاہے اس سے نکلنے والی بلائیں اب مشکل سے ہی واپس جائیں گی۔ یہ ساری کتھا اس چیز کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے کہ پانامہ کا ہنگامہ یوں ہی برپا نہیں ہوا۔ یہ کائنات کی حقیقت کو بدلنے کی سازش ہے۔ انتظار اب صرف اس بات کا ہے کہ فتح کس گروہ کی ہوتی ہے اور ہم کس گروہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
رہے نام اللہ کا!
Comments
9 Comments

9 تبصرے:

Sufyan Ahmad Sufi نے فرمایا ہے۔۔۔

Hahahahahahahaha

Anonymous نے فرمایا ہے۔۔۔

ہاہاہا بہت عمدہ۔۔۔ روحانی علوم کا اس سے بہتر استعمال آج تک نہ دیکھا۔۔۔۔

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

Nice..thumbs up

moxx نے فرمایا ہے۔۔۔

Like there is overacting in Cinema its a "little more" than required, same way your satire is.

عدنان جبار نے فرمایا ہے۔۔۔

ایہہ کالے جادو والا سیاپا وی تسیں ای شروع کرایا اج کل 😂

بابا سائیں نے فرمایا ہے۔۔۔

سر اس تحریر کو ناجی صاحب کی پہنچ سے دور رکھیں، انہوں نے پڑھ لی اور دوبارہ کاپی پیسٹ کرلیا تو عمران کے جان نثاروں نے پورے ملک کو آگ لگا دینی ہے - شکریہ

sehrish نے فرمایا ہے۔۔۔

کمال دھمال بے مثال 😂😉

Javed نے فرمایا ہے۔۔۔

کمال کیتا اے تساں.

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

آپ یہ لکھنا بھول گئے ہیں کہ پنکی پیرنی کی آمد کی وجہ بھی یہی ہے کہ ماضی میں کی گئی اس گڑ بڑ کا سدباب کیا جائے

تبصرہ کیجیے