خدا، بہار اور اَدبار

شجر سوکھتے ہیں۔ پتّے جھڑتے ہیں۔ مایوسی دلوں میں گھر کرجاتی ہے۔لیکن  بارِ دگر بہار آتی ہے۔ شجر ہرے اور شگوفے کھِل جاتے ہیں۔چمن آباد ہوتا ہے۔  خدا پر ہمارا یقین نہیں۔ مایوس ہم ہوجاتے ہیں۔ خزاں کے بعد بہار ہے۔خزاں کے بعد بہار ہے۔۔۔۔
درویش نے کہا تھا کہ اونچی نیچی زمین کے باسی متلوّن مزاج  ہوتے ہیں مگر چند مستثنیات۔۔۔ آٹھ سال ادھرموسم سرما کی دھند آلود خنک رات یاد آتی ہے۔  قہوۂ سیاہ کا پیالہ  تھامے، فرنگی جسے کافی کے نام سے پکارتے ہیں،  طالب علم نے سپہ سالار سے دریافت کیا، " تابکہ؟"۔ سپہ سالار نے سگریٹ کا پیکٹ میز سے اٹھایا۔ سگریٹ  نکالا اور پیکٹ پر فلٹر والا سرا ٹھونکتے ہوئے تفکّر کیا۔ داغِ مفارقت دیتے سگریٹ سے نیا سگریٹ سلگایا۔ اب طالبعلم پر بھید کھلتا ہے کہ یہ استعارہ، چراغ سے چراغ جلانے کا تھا۔ اس مردِ صابر نے ایک ہی کَش میں آدھا سگریٹ پھونکنے کے بعد جاسوسی ڈائجسٹ سے نظر اٹھائی اور کہا، "جلد ہی، صاحب، جلد ہی"۔ یادداشت گاہے ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ قوموں کی بھی۔ تشہیر کا ہَوکاسپہ سالار کو نہیں تھا۔ وگرنہ کارنامے ایسے کہ شاید و باید۔ دہشت گردوں کے مقابل وہ پورے قَد سے کھڑا رہا۔ امریکیوں اور ان کے کاسہ لیس حکمرانوں کے مقابل بھی۔ ایک لحظہ کو قدم ڈگمگائے نہ عزم لڑکھڑایا۔
کیسا بہتا ن ہے جو نہ گھڑا گیا ہو۔زندگی جہدمسلسل ہو تو ایمان زادِ رَہ ہوتا ہے۔ بھائیوں کا نام لے کر زبانِ طعن اس عظیم سپہ سالار پر دراز کی گئی جس کے کارنامے آنے والے زمانے کی درسی کتب میں چھپیں گے۔یہ سب اس دور میں ہوا جب شور و تشہیر کا غلغلہ بلند تھا۔ جیسے دنیا  کندھوں پر اٹھا رکھی ہو۔ فردِ عمل کا گوشوارہ ملاحظہ ہو تو چند نغموں، کچھ تصویروں اور مٹھی بھر ٹویٹوں کے سوا کھاتہ خالی نکلے۔ قریباً دو سال قبل، فقیر نے مشترکہ دوست کے ذریعے رابطہ کیا۔ کورا جواب، حضورِ والا، کورا جواب۔۔۔ درویش سچّا ہے۔ مزاج کی رُکھائی اور خودنمائی یکجا ہو جائیں تو ایسا ہی کرشمہ، منصّہ شہود پر آتا ہے۔ جواب ملا، " نہ میں سگریٹ اور ٭٭٭٭ پیتا ہوں نہ کافی۔۔۔ اور نہ میرے پاس فالتو وقت ہے"۔ دل  لہو ہوا اور چشم خونبار۔۔۔  دل دُکھا ہو تو درویش کا ڈیرہ ،فقیر کی آخری پناہ گاہ ہے۔ بجھے ہوئے سگریٹ جیسی شکل دیکھی تو درویش بے تاب ہو اٹھا۔ اپنے پاس بٹھایا۔ صوفے کے نیچے ہاتھ ڈال کے ڈَن ہل کا پیکٹ نکالا اور الماری کے نچلے خانے سے بلیولیبل۔ ایک کَش لیا، پھر ایک گھونٹ۔ طبیعت بحال ہوئی تو ماجرا عرض کیا۔
ہموار زمین کا سپُوت ہی مزاج  کا نرم اور عمل کا دھنی ہوگا۔ چہرے پر شفیق بزرگ جیسی نرماہٹ اور آنکھوں میں شکار پر جھپٹنے والے شہباز جیسی چمک۔  قریباً ایک عشرہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آنکھ نہ جھپکی۔ایک افسر سے بات ہوئی۔ سراپا تعریف اور مجسم احترام۔ ایسی کہانیاں کہ راوی معتبر نہ ہو تو قرونِ اولیٰ کے صاحبِ کشف کی واردات لگے۔صراطِ مستقیم  کی مثال زندگی۔۔۔۔تشہیر سے نفور اور عمل سے محبّت۔ ۔۔۔۔اقبالؒ وجناح ؒ کے رستے کا مسافر۔۔۔۔ سحر خیز و شب بیدار۔۔۔۔ کتاب سے عشق۔۔۔۔ وطن کی مٹّی سے محبّت خون میں گھلی ہوئی۔۔۔۔ کیا ادبار سے نجات کا وقت آپہنچا؟ درویش نے سر اٹھایا اور تبسّم فرمایا۔ فقیر کو جواب مل گیا۔۔۔ دل شاد ہوا۔۔۔

شجر سوکھتے ہیں۔ پتّے جھڑتے ہیں۔ مایوسی دلوں میں گھر کرجاتی ہے۔لیکن  بارِ دگر بہار آتی ہے۔ شجر ہرے اور شگوفے کھِل جاتے ہیں۔چمن آباد ہوتا ہے۔  خدا پر ہمارا یقین نہیں۔ مایوس ہم ہوجاتے ہیں۔ خزاں کے بعد بہار ہے۔خزاں کے بعد بہار ہے۔۔۔۔
Comments
6 Comments

6 تبصرے:

IB نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر بھائی یہ سب کیسے کر لیتے ہو؟

IB نے فرمایا ہے۔۔۔

یک عددی، مگر اس یک عددی کو بھی آپ نے جواب دینا تک گوارا نہ کیا 😒

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

بہت شکریہ جناب

آم اچار نے فرمایا ہے۔۔۔

یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی بچہ پینٹ بٹر اور جیم کا سینڈوچ بنا کر خود مزے لے کر کھا رہا ہو۔

Umer نے فرمایا ہے۔۔۔

Sir, aap kamaal hein.... :)

Wah. Agar HR Sahib khud parrh lein to aap ki bai'at kar lein... :D

IB نے فرمایا ہے۔۔۔

درویش نے سر اٹھایا اور خلاؤں میں کہیں گھورتے ہوئے بولا: متشکرم

تبصرہ کیجیے