سَیکل

زبیر نے تَھڑے پر ڈھیر ہوتے ہوئے ہمیں ان تمام الفاظ سے یاد کیا جن کی اکثریت کو دھرانا ممکن نہیں۔ ان میں سے چند "موٹا، پھِینا، سری لنکا، آلو" وغیرہ ہیں۔ شاید مارچ کا مہینہ تھا اور یقینا جمعرات کا دن ، بلکہ رات۔ عشاء کے بعد میں اسے کھینچ کر گلبرگ پارک لے گیا تھا جو عین "کچیاں کہنداں والا سکول" (کچی دیواروں والا سکول) کے سامنے واقع تھا۔ زبیر کو فضول توانائی ضائع کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں پارک میں کوئی کام نہیں ہے تو اتنی دور چل کے جانے کا مقصد کیا ہے؟  تِس پر ہم نے اس کے دنیا میں آنے کے مقاصد پر روشنی ڈال کے اس کے کان لال کیے اور وہ بکتا جھکتا ہمارے ساتھ ہو لیا۔
واپس آکے وہ تھڑے پر ڈھیرہوا اور چھوٹے بھائی کو آواز لگائی، "او ننّے اوئے۔۔۔ پانی لیاء ٹھنڈا"۔ پانی کا جگ، گلاس سمیت آیا اور اس کے ساتھ ایک خاکی لفافہ بھی تھا جس پر چکنائی کے نشان تھے۔ لفافے میں برفی، چم چم اور دیگر مقویات قلیل سی مقدار میں موجود تھیں۔ پتہ چلا کہ ننھے بھائی جان، مسجد میں گیارہویں شریف کی جمعراتی محفل میں شریک ہوئے تھے اور تبرّک کھانے کے ثواب کے پیش نظر دو لفافے کڑیچ کر لائے تھے۔  ثواب بہت مفید چیز ہوتی ہے۔ جہاں سے ملے، لے لینا چاہیے۔
دس پندرہ منٹ تک تھڑے پر رونق لگنی شروع ہوگئی۔ ان زمانوں میں چونکہ سوشل میڈیا نہیں تھا تو لوگ ایک دوسرے سے مل کے سوشل ہوجایا کرتے تھے۔ جوں جوں گھڑی نو کی طرف بڑھنے لگی رش چھٹنے لگا۔ شانی کو اس کی امی آوازیں دینے لگیں۔ بِلّے نے پی ٹی وی پر آنے والی فلم دیکھنی تھی۔ میں اور زبیر البتہ بیٹھے رہے کہ گدّی خالی نہیں چھوڑی جا سکتی ۔ زبیر نے اچانک سرگوشی کی۔۔۔ اوئے، مُلاّں آریا ای ۔۔۔ چل شغل لائیے۔۔۔
مُلاّں، ہماری گلی میں رہتا تھا۔ نام تو یحییٰ تھا لیکن اس کی خشخشی سی داڑھی، اس کے والد کے امام مسجد ہونے اور اس کے حافظ ہونے کی وجہ سے اس کا نِک نیم ، مُلاّں پڑ گیا تھا۔ مُلاّں، ہیپی گو لکّی قسم کا انتہائی معصوم بندہ تھا۔ اس کو ان سارے کاموں کا بہت شوق تھا جو ہم کرتے تھے۔ فلمیں دیکھنا، کرکٹ کھیلنا، مار کٹائی کرنا۔۔۔ لیکن ابّا کے خوف  کی وجہ سے وہ ان سب سے دور رہتا تھا۔ اس کا ہمارے بارے خیال یہ تھا کہ ہم انتہائی چالو اور بدمعاش قسم کے افراد ہیں اور دنیا میں جتنے بھی غلط اور مزے دار کام ہیں، ہم ان سب میں ملوث ہیں۔ یہ بہرحال مُلاّں کا حُسنِ ظن تھا لیکن ہم اس پرسپشن کو بخوشی تسلیم کرتے تھے  کہ۔۔۔ یاراں دا ای کَم اے۔۔۔
مُلاّں کو آواز دے کے ہم نے تھڑے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ زبیر نے ادھر ادھر دیکھ کے آہستگی سے کہا، "پینی اوں؟" مُلاّں نے حیرانگی سے پوچھا، "کیا؟" زبیر نے جگ کی طرف دیکھا اور انگوٹھے سے پینے کا اشارہ کیا۔ مُلاّں کی آنکھیں پینے سے پہلے ہی نشیلی ہوگئیں۔ وفورِ شوق سے پوچھا، "قسمے؟" یہاں ہم نے دخل اندازی کی۔ "پینی اوں تے گل کر، ایویں یبلیاں نہ مار"۔ زبیر نے چوتھائی گلاس بھر کے مُلاّں کو دیا اور ہدایات دیتے ہوئے بولا۔ "اکّو دم ناں پیویں۔ ہولی ہولی چسکیاں لے کے پیویں"۔ مُلاّں نے پہلی چسکی لی تو اس کے چہرے پر شک کی پرچھائیاں لرزنے لگیں۔ "یار، اے تے پانی ورگی اے بالکل"۔  زبیر نے گھُرکا، " ماما، مہنگی شے وے، نہ ایدی بوَ تے ناں ای کوڑی"۔ مُلاّں نے پہلا "پیگ" ختم کیا تو ہم نے اسے لفافے سے برفی نکال کے پیش کی اور کہا کہ اس کے ساتھ میٹھا کھائیں تو صحیح چڑھتی ہے۔ ویسے تو لائلپوریوں کو صرف مٹھائی بھی کھلا دیں تو ان کو نشہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے مُلاّں کو تین پیگ اور پلائے اور مُلاّں فُل ٹُن ہوگیا۔ اس کی آواز بھاری اور آنکھوں میں نشیلے ڈورے تیرنے لگے۔ ہم نے مزید احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے کہا کہ گھر جاکے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔ کوئی چیز نہیں کھانی اور جاتے ہی سوجانا ہے۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ مُلاّں نے شانِ بے نیازی سے اثبات میں سر ہلایا۔
ہم نے مُلاّں سے انتہائی رازداری سے پوچھا کہ یہ شانی بارے بہت سی افواہیں سننے میں آتی ہیں۔ کیا یہ باتیں سچ ہیں۔ مُلاّں نے جھومتے ہوئے  قطعیت سے کہا، " سیکل اے"۔  ہم نے بات آگے بڑھائی۔
"اور بِلاّ؟"
"سیکل اے"
"موٹا طاہر؟"
"سیکل اے"
"غلام فرید؟"
"سیکل اے"
"زبیر؟"
"سیکل اے"
"مینجر؟"
"سیکل اے"
"جعفر؟"
"سیکل اے"
"جانی؟"
"سیکل اے"
"ریاض؟"
"سیکل اے"
"تے مُلاّں؟ "
"سیکل اے"۔ 
Comments
4 Comments

4 تبصرے:

Abrar Qureshi نے فرمایا ہے۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہا۔ اس طرح کا ایک سچا واقعہ آنکھوں دیکھا ہے۔ مری مال روڈ پہ ایسا شغل لگایا اور ہمارا متعلقہ دوست ہنگامی بنیادوں پر اسلام آباد واپس آیا، دو تین دن باقاعدہ غنودگی میں رہا اور اصلیت پتہ چلنے پرعرصہ دراز نالاں رہا!

آم اچار نے فرمایا ہے۔۔۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا بھی اسی جگ کی مانند ہے اور ہم اس کے پیگ چڑھا چڑھا کر سب کو "سیکل اے" قرار دیے چلے جاتے ہیں

Unknown نے فرمایا ہے۔۔۔

کیا نقطہ نکالا ہے سر ہم اپنے ہی نشے میں سب کو سیکل اے قرار دے دیتے ہیں آخری منزل کے طور پر خود اقرار کر گزریں گے کہ میں وی.

عدنان جبار نے فرمایا ہے۔۔۔

یو آر گریٹ

تبصرہ کیجیے