دوسرا پیگ

 

آپ مانگا منڈی چلے جائیں۔ آپ ٹنڈو جام چلے جائیں۔ آپ سبّی، لکّی مروت، چونیاں، لورا لائی، تخت بھائی، ٹھٹّھہ، مٹیاری الغرض کہیں بھی چلے جائیں۔ آپ کو لوگ شرابیں پیتے ملیں گے۔ یہ دیسی بھی پیتے ہیں۔ یہ کھانسی کے شربت بھی پی جاتے ہیں۔ یہ ولائیتی بھی چڑھا جاتے ہیں۔ یہ پونڈے بھی پی جاتے ہیں۔ یہ زہریلی شرابیں بھی پی جاتے ہیں۔ پھر مر بھی جاتے ہیں۔ مگر یہ شرابیں چھوڑتے نہیں۔ یہ جب پینا شروع کرتے ہیں تو بوتل کا کھنگار تک پی جاتے ہیں۔ یہ خالی بوتل بھی بیس بیس منٹ تک سونگھتے رہتے ہیں۔رینڈ کارپوریشن کی حالیہ سٹڈی کے مطابق دنیا میں دس لاکھ سال سے شراب پی جا رہی ہے۔ آج تک ایک بھی واقعہ ایسا ریکارڈ میں نہیں کہ کسی نے صرف ایک پیگ پی کے بس کر دی ہو۔ لوگ شروع کرتے ہیں پھر بوتل ختم ہوتی ہے یا ہوش۔ اس سے پہلے کوئی بس نہیں کرتا۔

آپ شیدے کو دیکھ لیں۔ یہ ورزش بھی کرتا ہے۔ یہ اچھی خوراک بھی کھاتا ہے۔ یہ منہ متھے بھی لگتا ہے۔ یہ پنڈ کی مٹیاروں میں تبّت سنو سے زیادہ مقبول ہے۔ یہ اکثر رات کو کمادوں میں سے نکلتا پایا جاتا ہے۔ اس کے موڈھے پر ہر وقت بڑا صافہ پڑا رہتا ہے۔ یہ منہ صاف کرنے کے کام بھی آتا ہے۔ یہ بوقت ضرورت زمین پر بچھایا بھی جا سکتا ہے۔ شیدا اس سے سارے کام لیتا ہے۔ شام کو تلنگوں کی منڈلی جو کچّے کھوہ کے پاس لگتی ہے اس میں شیدے کی شرکت لازمی ہوتی ہے۔ یہ بڑے مزے دار واقعات سناتا ہے۔ یہ تلنگوں کو موٹیویٹ کرتا ہے۔ انکو مذہبی تاریخ سے واقعات سناتا ہے کہ کیسے حضرت محمود غزنوی نے سونے کے بت توڑے اور سونا غزنی لے گئے اور عیش کی۔ اس کی موٹیویشن پر کئی تلنگے آج کل جیل میں ہیں۔

جیرے کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ منڈلی میں دیسی لائے۔ جیرا بہترین دیسی کشید کرتا ہے۔ شیری مان نے جیسے کہا تھا

"ہتھ دی کڈّی، سواد اولّے"۔۔۔ بالکل وہی سنیریو بن جاتا ہے۔ پھر سب اس وقت تک پیتے ہیں جب تک ایک دوسرے کی ماں بہن ایک نہ کرنے لگ جائیں۔ شیدا مگر ایک پیگ کے بعد بس کر دیتا ہے۔ پہلے سب اصرار کرتے تھے۔ ہور پی شژادے۔۔۔ ڈر دا کیوں ایں؟ مگر شیدا ہنس کر ٹال جاتا تھا۔ اب یہ معمول بن گیا ہے۔ سب پی کر انٹا غفیل ہو جاتے ہیں اور شیدا بیٹھا مسکراتا رہتا ہے۔

شراب ختم ہوتی ہے تو ساری منڈلی اوندھی پڑی ہوتی ہے۔ اس وقت شیدا اپنا صافہ جھاڑ کر موڈھے پر دھرتا ہے اور کمادوں کی طرف نکل جاتا ہے۔

شیدے کا ایک پیگ سارے پنڈ میں مشہور ہے۔ لوگ اس سے پوچھتے ہیں۔ وائے ون پیگ؟ وہ ہنس کر آنکھ مارتا ہے اور بات ٹال جاتا ہے۔ پینو کی بات مگر شیدا نہ ٹال سکا۔ جون کے تپتے دن کے بعد رات ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی تو شیدا اپنا صافہ لے کر پینو سے ملنے کمادوں کی طرف نکلا۔ پینو نے شیدے سے گھُٹّ کے جپھّی پائی (جپھّی اک واری گھُٹ کے توں پا گجرا)۔ شیدے نے صافہ موڈھے سے اتارا۔ بچھانے لگا تو پینو نے انگلی کے اشارے سے منع کیا۔ "پہلے اج اک پیگ دی کہانی سنا۔۔۔ نئیں تے میں ہتھ نئیں لان دینا۔۔۔" پینو کے چہرے پر کمٹڈ لُک تھی۔

شیدے نے گہری سانس لی۔ صافے سے ماتھا پونچھا۔ بائیں ہاتھ سے جانگھوں میں خارش کی۔ دھوتی کو گھٹنوں تک اٹھایا۔ پینو کو ہارنی آمیز نظروں سے دیکھا اور ایک پیگ کی داستان شروع کی۔

شیدے نے پینو سے کہا کہ اسے اس صافے کی قسم ہے اگر اس نے یہ بات کسی اور سے کی۔ شیدے کا علم لا انتہا تھا۔ وہ کسی سکول میں نہیں گیا۔ اس نے کبھی کتاب کی شکل نہیں دیکھی لیکن پھر بھی اسے ہر چیز کا علم ہوتا تھا۔ وہ موٹر سیکلیں ٹھیک کرلیتا تھا۔ وہ سائیکل کے فیل کتّے پاس کر دیتا تھا۔ وہ پیٹر انجن ٹھیک کر لیتا تھا۔ اسے نورانی قاعدہ زبانی یاد تھا۔ شیدے نے کہا کہ اسے پتہ ہے کہ زیادہ شراب پینے سے انسان ریلیکس فِیل کرتا ہے۔ اس کنڈیشن میں وہ دل کی باتیں کر جاتا ہے جو عام حالت میں نہیں کر سکتا۔

شیدے نے پینو کا ہاتھ تھاما۔ دوسرا ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپیٹا۔ پینو تھوڑا کسمسائی۔ پھر شیدے نے گہری آواز میں کہا، "اب جو میں بتانے لگا ہوں اس کو سن کر ڈر مت جانا۔ دیکھ میری مکھن ملائی۔۔۔۔ اگر کسی دن دوسرا پیگ لگا لیا اور بگ بینگ والا منظر بیان کردیا تو تجھے علم نہیں کہ کیا گھٹنا گھٹ سکتی ہے۔"

پینو تھوڑا حیران ہوئی تھوڑا ڈر بھی گئی۔شیدے سے لپٹ کر بولی، "اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا تم نے بگ بینگ دیکھا تھا؟"
شیدا گہری آواز میں ہولے سے ہنسا،
"دیکھنا کیا۔۔۔ میں نے ہی بگ بینگ والے دھماکے کو لائٹر دکھایا تھا۔"

پینو بے ہوش کر شیدے کی بانہوں میں جھول چکی تھی۔

شامِ خبیثاں

 

الم و رنج کی ایسی داستان ہے جس کا مثل یونانی المیہ میں بھی محال ۔۔۔ سنگدل بھی سنے تو خون رو دے، آسمان برس پڑے، دھرتی شق ہو۔ اور جو طالبعلم سا رکیک دل ہو تو لائف فق (انگلش والا بھی بعینہ درست) ہو جائے۔

افق کی پہنائیوں سے خلاء کی وسعت تک کون ہے جس کے کارنامے ملکی وے کو منّور کیے رکھتے ہیں؟کھیل میں قدم رکھا تو ربِّ لم یزل کی قسم کسی کافر کی ہمشیر چھوڑی نہ دختر۔کون جانتا تھا کہ ایسا مردِ میدان اٹھے گا کہ یک صد برس کی غلامی انہی کے پلنگ پر توڑ کے رکھ دے گا۔ ربع صدی ہوتی ہے۔ اوائل گرما میں ہدوانا  پارٹی کا آغاز تھا۔ درویش نے ہدوانے پر کالانمک ڈالا اور شڑوووپ کرکے پہلی دندی لی۔ ہدوانے کا لال رَس لُعابِ درویش سے مل کر ٹھوڑی تک پہنچ رہا تھا۔ طالبعلم نے دستی رومال سے ٹھوڑی صاف کی۔ وہ متبرک سوتی پارچہ  اُمِّ مامون نے محفوظ کر لیا۔ روایت کرتی ہیں کہ جہاں چھپکلیاں زیادہ ہوں، وہاں رکھ دیا جائے تو قریب دو سال اس جگہ ایسی غلیظ رینگتی چیز نہیں آتی۔  جملہءمعترضہ حضورِ والا جملہءمعترضہ۔۔۔

ہدوانا ختم ہوا ۔ درویش نے بآوازِ بلند ڈکار مارا۔  فدوی کے دامن سے منہ صاف کیا۔ سفید کرتا سرخ انقلاب کا پرچم سا ہوگیا۔کے ٹُو فلٹر کا سگریٹ سلگا کر طویل کَش لیا۔ ناک سے دھواں  خارج کرتے ہوئے، انگُشتِ شہادت بلند کی اور فرمایا، "اُمّت کو وہ جوڑ دے گا۔ پرچمِ انقلاب وہ لہرائے گا۔ پھر ایسا ظلم اس پر کیا جاوے گا کہ انسانی تاریخ میں مثال نہ ہوگی۔ "

مردِ قلندر کی آنکھ وہ دیکھ سکتی ہے جو عامی کی نظر سے اوجھل ہو۔ درویش نے گریہ کیا۔ مسلسل کیا۔ تیسرے پیگ پر کچھ ہوش پکڑا تو  فقیر نے ترنت بوتل صوفے کے نیچے کھسکا دی۔ وہسکی اب ارزاں ہوئی، وہ وقت خشک سالی کا تھا۔ اچھا مشروب اور بھری عورت دیکھنے کو نہ ملتی تھی۔ فدوی کو ایسے آلام نے ہی گنجا کیا۔

اب وہ وقت ہے کہ  جیسے رنج، مصائب کا فلڈ گیٹ کھل گیا ہو۔ مردِ آزاد قید ہے۔ بی بی پاک کو دارالحکومت کی گلیوں میں رسوا کرکے گھمایا جاتا ہے۔ اکل و شرب میں سمِّ قاتل ملا کے دیا جاتا ہے۔ ایک زندانی روایت کرتا ہے،  کھانے سے پہلے کپتان منہ میں کچھ بدبدا کر پھونک مارتا ہے۔ کھانے سے دھواں سا  اٹھتا ہے ۔ زہر خارج ہو جاتا ہے۔ آج وہ چاہے تو سلاخیں پگھل سکتی ہیں۔ قفس کی دیواریں ریت  ہو سکتی ہیں۔ وہ مگر قانون کا پابند ہے۔  سب کچھ اس کا بند کیا جا چکا۔   سوکھ کر کانٹا وہ ہو چکا۔ ظالم مگر  ظلم پر تلے ہیں۔ اس کی کوٹھڑی کے سامنے  گوشت بھونا جاتا ہے۔ آہو چشم لونڈے، جلد جن کی ملائم اور ادا قاتل۔ سامنے والی کوٹھڑی میں قید کیے جاتے ہیں۔ آدمی چیخ اٹھتا ہے۔۔۔

ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

الزام اس پر لگائے جاتے ہیں۔ کردار کشی کی جاتی ہے۔ وہ تبسّم فرماتا ہے۔ کہتا ہے، کرنے دو انہیں۔ جو چیز ہمارے پاس ہے ہی نہیں اس کو ظالم کیسے ختم کر سکتے ہیں۔ کیا چند بت توڑنے کی سزا میں یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں؟ میں بت شکن کہلا کے مرنا پسند کروں گا۔ حضرت محمود غزنوی نے بھی سومنات میں بت توڑے۔ خدا نے انہیں اس کے اجر میں ہیرے جواہرات، سونے  اور ایازسے نوازا۔  میں بھی ایک دن اپنے ایاز سے ملوں گا۔ اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں۔۔۔ یہاں تک پہنچتے آواز بھرّا گئی۔ چشمِ تنگ میں مقدّس پانی کے قطرے تیرنے لگے۔  ریڈیو پر رفیع صاحب کی آواز بلند ہوئی۔۔۔

مرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے۔۔۔ مجھے غم دینے والے تو ہنسی کو ترسے

الم و رنج کی ایسی داستان ہے جس کا مثل یونانی المیہ میں بھی محال ۔۔۔ سنگدل بھی سنے تو خون رو دے، آسمان برس پڑے، دھرتی شق ہو۔ اور جو طالبعلم سا رکیک دل ہو تو لائف فق (انگلش والا بھی بعینہ درست) ہو جائے۔