عزیزی!
بمشکل پہلے اندوہناک سانحہ سے جاں بر ہوا ہی تھا کہ آپ کی تصویر دیکھ لی!
واللہ اگر آپ میری دسترس میں ہوتے تو آپ کا وہ ”حالاں“ کرتا کہ آپ کی ”چیکاں“ نکل جاتیں! اس طرح کی صحت پر آپ نے جتنی بڑی چوٹی سر کرنے کی ٹھانی ہے اس پر آپ کو کالے پانی کی سزا دی جانی چاہئے! اور آپ کے والدین کی سمجھداری کی بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ جانتے بوجھتے (شاید) اکلوتے بیٹے کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔
آپ کی صحت سے لگتا ہے کہ آپ آج تک اپنی بیکری سے صرف بند ہی کھاتے رہے ہیں۔ بندے کو کبھی کھلا بھی کھا لینا چاہئے!
آپ کے نام پر بھی یہاں لوگوں کو بہت اعتراض ہیں اور وہ آپ کا نام لے کر معنی خیز انداز میں ہنستے رہتے ہیں۔ ہنسنے کی وجہ دریافت کرنے پر سہراب سائیکل فیکٹری شاہدرہ لاہور کا حوالہ دے کر دوبارہ واہیات انداز میں قہقہے لگانے لگتے ہیں! مجھے سمجھ تو نہیں آئی لیکن یقینا کوئی بےہودہ بات ہوگی!
سب سے اہم بات یہ ہے کہ شادی کے بعد (اگر ہوئی تو) آپ کی زوجہ کیک، پیسٹریاں اور کریم رول وغیرہ کھا کھا کر وزن اور حجم میں ہیبت ناک اضافہ کرسکتی ہیں، جس سے آپ کا دل تو کھٹا ہوگا ہی، میرے جیسے عشّاق کا دل بھی کرچی کرچی ہوجائے گا!
آخر میں آپ سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اپنی نہ ہونے کے برابر جوانی پر ترس کھائیں اور اس کام میں ہاتھ نہ ڈالیں جس میں شرمندگی کے علاوہ جان جانے کا بھی خدشہ ہو!
فدوی
آپ کی ہونے والی زوجہ کا عاشق زار
(چاہیں تو اس فقرے پر بھی غیرت کھا سکتے ہیں آپ!)
اصلی والی ترکیب - (ہفتہء بلاگستان - 4)
میں تمام احباب سے ان کی مایوسی پر پیشگی معافی چاہتا ہوں!
یہ ایک واقعی کھانے کی ترکیب ہے جس کی ایجاد کا سہرا ضرورت اور مجبوری کے سر جاتاہے۔ خاور صاحب نے بھی ایک ”چھڑا سٹائل“ فٹافٹ کھانے کی ترکیب لکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی ہے لہذا آج شام وہ ڈش بنے ہی بنے!
بہرحال کھانے کی جو ترکیب میں آپ کو بتانے جارہاہوں یہ بالکل میرے بھیجے کی پیداوار ہے۔ لہذا پکانے سے پہلے یقین کرلیں کہ آپ واقعی یہ کام کرنا چاہتے ہیں!
اس کے اجزاء میں ایک پیاز، ایک ٹماٹر، چند سبز مرچیں، تھوڑی سی بند گوبھی، دو درمیانے سائز کے آلو، تھوڑے سے مٹر، دو گاجریں، ایک شملہ مرچ، چھ انڈے، نمک، کالی مرچ، کوکنگ آئل اور سویا ساس شامل ہیں۔
ساری سبزیاں باریک باریک کاٹ لیں۔ آلو ایسے کاٹیںجیسے چپس بنانے کے لئے کاٹے جاتے ہیں۔ سبزیاں ایک پتیلی میں ڈال کر ساتھ ہی کوکنگ آئل ملادیں اور پتیلی پر ڈھکن دے کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں۔ سبزیاں گلنے پر نمک، کالی مرچ اور سویا ساس حسب ذائقہ ملادیں۔ ساتھ ہی انڈے بھی ملادیں۔ انڈے ملانے کے بعد زیادہ چمچ نہ چلائیں۔ جب سفیدی اور زردی دونوں پک جائیں تو آپ کی ڈش تیار ہے۔
اس ڈش کو آپ چاول، روٹی یا میکرونی کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔
اگر مزیدار ہو تو یہ میرا کمال ہے اور نہ ہو تو آپ کا قصور!
دوستوں نے مختلف بلاگز پر میری تراکیب کے بارے میں جو حسن ظن ظاہر کیا، میں اس پر ان کا مشکور ہوں۔ بلکہ چند دوستوں نے تو اسی انداز میں چند تراکیب لکھ بھی ڈالیں ہیں، اس پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا!!!
یہ ایک واقعی کھانے کی ترکیب ہے جس کی ایجاد کا سہرا ضرورت اور مجبوری کے سر جاتاہے۔ خاور صاحب نے بھی ایک ”چھڑا سٹائل“ فٹافٹ کھانے کی ترکیب لکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی ہے لہذا آج شام وہ ڈش بنے ہی بنے!
بہرحال کھانے کی جو ترکیب میں آپ کو بتانے جارہاہوں یہ بالکل میرے بھیجے کی پیداوار ہے۔ لہذا پکانے سے پہلے یقین کرلیں کہ آپ واقعی یہ کام کرنا چاہتے ہیں!
اس کے اجزاء میں ایک پیاز، ایک ٹماٹر، چند سبز مرچیں، تھوڑی سی بند گوبھی، دو درمیانے سائز کے آلو، تھوڑے سے مٹر، دو گاجریں، ایک شملہ مرچ، چھ انڈے، نمک، کالی مرچ، کوکنگ آئل اور سویا ساس شامل ہیں۔
ساری سبزیاں باریک باریک کاٹ لیں۔ آلو ایسے کاٹیںجیسے چپس بنانے کے لئے کاٹے جاتے ہیں۔ سبزیاں ایک پتیلی میں ڈال کر ساتھ ہی کوکنگ آئل ملادیں اور پتیلی پر ڈھکن دے کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں۔ سبزیاں گلنے پر نمک، کالی مرچ اور سویا ساس حسب ذائقہ ملادیں۔ ساتھ ہی انڈے بھی ملادیں۔ انڈے ملانے کے بعد زیادہ چمچ نہ چلائیں۔ جب سفیدی اور زردی دونوں پک جائیں تو آپ کی ڈش تیار ہے۔
اس ڈش کو آپ چاول، روٹی یا میکرونی کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔
اگر مزیدار ہو تو یہ میرا کمال ہے اور نہ ہو تو آپ کا قصور!
دوستوں نے مختلف بلاگز پر میری تراکیب کے بارے میں جو حسن ظن ظاہر کیا، میں اس پر ان کا مشکور ہوں۔ بلکہ چند دوستوں نے تو اسی انداز میں چند تراکیب لکھ بھی ڈالیں ہیں، اس پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا!!!
بلاگ شلاگ - (ہفتہء بلاگستان - 3)
اردو بلاگنگ سے میرا تعارف ایک اتفاق تھا۔ یہ اتفاق حسین و رنگین تھا یا غمگین و سنگین، اس کا اندازہ آپ خود لگائیں!
گوگل پر کچھ تلاشتے ہوئے نظر ڈفرستان کے نام پر پڑی تو میں چونکا کہ ہیںںںں۔۔۔ یہ کیا؟ وہاں پہنچا تو پہلے تو سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ تحریر مزیدار لگی۔ عنوان پر کلک کیا تو تبصروں پر نظر پڑی، ان کو پڑھتے ہوئے آخر تک پہنچا تو ایک دھچکا نما خوشی ہوئی کہ میں بھی اس تحریر پر اپنا لچ تل سکتا ہوں۔ اپنا کچھ لکھا ہوا، شائع ہوا دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے، پہلی دفعہ علم ہوا!
باقی بلاگروں کا علم بھی وہیں سے ہوا۔ بس پھر چل سو چل۔ ڈفر نے ہی شاید کسی تبصرے کے جواب میں مجھے بلاگ بنانے کی ”اشکل“ دی تھی۔ یہاں پر آکر پاک نیٹ والے عبدالقدوس اس کہانی میں داخل ہوتے ہیں۔ ورڈپریس ڈاٹ پی کے، کے بلاگ پر ”اپنا بلاگ حاصل کریں“ لکھا دیکھا اور بس پھر اللہ دے اور بندہ لے۔
شروع میں میرا خیال تھا کہ شاید یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکے کہ میںنے زندہ رہنے کے سوا مستقل مزاجی سےکوئی کام نہیںکیا۔ بقول منیر نیازی ”جس شہر میں بھی رہنا، اکتائے ہوئے رہنا“ لیکن اس شہر میں دل ابھی تک لگا ہوا ہے! اس کی وجہ شہر کے رنگ برنگے مکین ہیں، جو آپ کو تپا تو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے اکتا نہیں سکتے!
میری بچپن سے منڈلی جمانے کی عادت تھی۔ ملک چھوڑا تو منڈلیاں بھی وہیں رہ گئیں۔ ملک سے باہر، غم روزگار سے ہی فرصت نہیں ملتی، کہ بندہ، غم جاناں کا کچھ بندوبست کرسکے۔ میری یہ کمی بلاگستان نے پوری کردی۔ یہاں آپ جیسی منڈلی چاہیں، جما سکتے ہیں۔ آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کی منڈلی سے استاد مام دین گجراتی کے مشاعرے تک جہاں آپ کا دل چاہے ٹھہر جائیں اور جب آپ کا دل چاہے نو دو گیارہ ہوجائیں۔
میرا بلاگنگ میں آنا کسی عظیم مقصد، نصب العین اور ایسے ہی دوسرے بھاری بھرکم الفاظ جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہے، کی وجہ سے نہیں ہوا۔ اس کی وجہ صرف اپنے ”ساڑ“ نکالنا تھا، جو اگر بندے کے اندر رہیں تو اسے اندر سے ”ساڑ“ دیتے ہیں، اور اندر سے سڑا ہوا بندہ، نہایت خطرناک ہوتاہے! تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے معاشرے کو ایک خطرناک بندے سے پاک کردیا ہے اور یہ بھی کوئی ایسا برا مقصد نہیں!
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ کسی اور بلاگر کو مشہور کرے نہ کرے
مجھے ضرور کردے
مجھے مشہور ہونے کا بہت شوق ہے!
گوگل پر کچھ تلاشتے ہوئے نظر ڈفرستان کے نام پر پڑی تو میں چونکا کہ ہیںںںں۔۔۔ یہ کیا؟ وہاں پہنچا تو پہلے تو سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ تحریر مزیدار لگی۔ عنوان پر کلک کیا تو تبصروں پر نظر پڑی، ان کو پڑھتے ہوئے آخر تک پہنچا تو ایک دھچکا نما خوشی ہوئی کہ میں بھی اس تحریر پر اپنا لچ تل سکتا ہوں۔ اپنا کچھ لکھا ہوا، شائع ہوا دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے، پہلی دفعہ علم ہوا!
باقی بلاگروں کا علم بھی وہیں سے ہوا۔ بس پھر چل سو چل۔ ڈفر نے ہی شاید کسی تبصرے کے جواب میں مجھے بلاگ بنانے کی ”اشکل“ دی تھی۔ یہاں پر آکر پاک نیٹ والے عبدالقدوس اس کہانی میں داخل ہوتے ہیں۔ ورڈپریس ڈاٹ پی کے، کے بلاگ پر ”اپنا بلاگ حاصل کریں“ لکھا دیکھا اور بس پھر اللہ دے اور بندہ لے۔
شروع میں میرا خیال تھا کہ شاید یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکے کہ میںنے زندہ رہنے کے سوا مستقل مزاجی سےکوئی کام نہیںکیا۔ بقول منیر نیازی ”جس شہر میں بھی رہنا، اکتائے ہوئے رہنا“ لیکن اس شہر میں دل ابھی تک لگا ہوا ہے! اس کی وجہ شہر کے رنگ برنگے مکین ہیں، جو آپ کو تپا تو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے اکتا نہیں سکتے!
میری بچپن سے منڈلی جمانے کی عادت تھی۔ ملک چھوڑا تو منڈلیاں بھی وہیں رہ گئیں۔ ملک سے باہر، غم روزگار سے ہی فرصت نہیں ملتی، کہ بندہ، غم جاناں کا کچھ بندوبست کرسکے۔ میری یہ کمی بلاگستان نے پوری کردی۔ یہاں آپ جیسی منڈلی چاہیں، جما سکتے ہیں۔ آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کی منڈلی سے استاد مام دین گجراتی کے مشاعرے تک جہاں آپ کا دل چاہے ٹھہر جائیں اور جب آپ کا دل چاہے نو دو گیارہ ہوجائیں۔
میرا بلاگنگ میں آنا کسی عظیم مقصد، نصب العین اور ایسے ہی دوسرے بھاری بھرکم الفاظ جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہے، کی وجہ سے نہیں ہوا۔ اس کی وجہ صرف اپنے ”ساڑ“ نکالنا تھا، جو اگر بندے کے اندر رہیں تو اسے اندر سے ”ساڑ“ دیتے ہیں، اور اندر سے سڑا ہوا بندہ، نہایت خطرناک ہوتاہے! تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے معاشرے کو ایک خطرناک بندے سے پاک کردیا ہے اور یہ بھی کوئی ایسا برا مقصد نہیں!
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ کسی اور بلاگر کو مشہور کرے نہ کرے
مجھے ضرور کردے
مجھے مشہور ہونے کا بہت شوق ہے!
نظام تعلیم - دے دھنا دھن (ہفتہء بلاگستان -2)
تعلیمی نظام کی بات ہوتے ہی، دانشوروں کے منہ سے جھاگ بہنے لگتے ہیں، جذبات کی شدت سے ان کے قلم اور زبان سے شعلے نکلنے لگتے ہیں اور وہ اپنی دانشوری کی پٹاری سے قسم قسم کے سانپ برآمد کرکے تماشا شروع کردیتے ہیں۔ جونہی بحث ختم ہوتی ہے اور لذت کام و دہن المعروف کھابوں کا آغاز ہوتا ہے، یہ دانشور سب کچھ بھول بھال کر سموسوں اور شامی کبابوں کا تیاپانچہ کرنے لگتے ہیں! خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ قسم کی بات تھی جو دانشوروں سے میرے قدیمی حسد کا نتیجہ ہے۔ آمدم برسر مطلب۔۔۔
پاکستان کے نظام تعلیم میں چند بنیادی خرابیاں ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان خرابیوں اور ان کے حل پر بات کی جائے گی۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں عام آدمی کو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں تعلیم، چاہے ناقص ہی کیوں نہ ہو، میسر ہے۔ پچھلے باسٹھ سالوں سے یہ اتیاچار اس ملک کی اشرافیہ پر کیاجارہا ہے۔ یہ کمی کمین لوگ چار جماعتیں پڑھ کر اپنے انہی ان داتاؤں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتےہیں۔ جو کہ نہایت شرم اور رنج کا مقام ہے۔
سرکاری سکولوں میں ابھی تک اساتذہ کے نام پر ایسے دھبے موجود ہیں جو تعلیم کو مشن سمجھ کر پھیلا رہے ہیں۔ حالانکہ تعلیم ایک کاروبار ہے اور اسے اسی طرح چلایا جانا چاہئے۔
اسی نیچ طبقے کے لوگ کچھ الٹا سیدھا پڑھ کر قانون کی حکمرانی، آئین اور دستور کی بالادستی، عوام کا حق حکمرانی (؟) قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں بھی کرتے ہیں جو ہمارے جاگیردار، صنعتکار، خاکی و سادی افسر شاہی جیسی آسمانی اور دھلی دھلائی مخلوق کی طبع نازک پر بہت گراں گزرتی ہیں اور ان کے بلند فشار خون کا سبب بھی بنتی ہیں!
ان مسائل کے حل کے کے لئے سب سے پہلے تو بلا کسی ہچکچاہٹ کے تعلیم حاصل کرنےکا حق صرف اشرافیہ کی اولاد کے لئے مخصوص کرنا چاہئے۔ عوام کے تعلیم حاصل کرنے کو سنگین غداری کے زمرے میں لانا چاہئے اور اس پر سخت ترین سزا ہونی چاہئے!
ایچی سن، لارنس، کیڈٹ کالجز اور ایسے ہی دوسرے تعلیمی اداروں کو پورے سال کاتعلیمی بجٹ دینا چاہئے۔ تاکہ ہماری اگلی حکمران نسل پوری تسلی اور اطمینان سے تعلیم حاصل کرسکے۔ یہ گندے مندے سرکاری سکول بند کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے مندرجہ بالا اداروں کے تمام طالبعلموں کو نئے ماڈل کی گاڑیاں، ڈیزائنرز آؤٹ فٹس، رے بان کے چشمے، فرانس کے پرفیومز وغیرہ وغیرہ سرکاری خرچے پر فراہم کرنے چاہئیں۔ تمام سرکاری کالجز اور جامعات کو بھی بند کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے اسی آسمانی مخلوق کو سال کے چھ مہینے یورپ، ”تھائی لینڈ“، امریکہ وغیرہ تعطیلات پر بھیجنا چاہئے۔ تاکہ ان کا ”وژن“ وسیع ہوسکے۔
نچلے متوسط طبقے کے منتخب بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ کلرکی شلرکی کا کام بھی چلتا رہے۔ ماتحتوں کے بغیر بھلا افسری کا کیا خاک مزا آئے گا! اس کے لئے پورے ملک میں دس بارہ تعلیمی ادارے کافی ہیں۔
جو عوام اس تعلیمی انقلاب کے نتیجے میں سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہو، اس کو نازی کیمپس کی طرز پر کیمپوں میں رکھا جائے اور ان سے بیگار کیمپ کی طرز پر سڑکیں، پل اور ڈیفنس ہاوزنگ اتھارٹیز کی آبادیاں بنانے کا کام لیا جائے۔ ان کو کھانے کو اتنی ہی خوراک دی جائے کہ تیس پینتیس سال سے زیادہ نہ جی سکیں۔ اس سے ایک تو آبادی کا بوجھ کم ہوگا اور دوسرا ملک میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا!
امید ہے کہ ان اصلاحات سے وہ مقاصد ایک ہی جست میں حاصل ہوسکیں گے جو ہماری اشرافیہ سلو پوائزننگ کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش پچھلے باسٹھ سالوں سے کررہی ہے!
پاکستان کے نظام تعلیم میں چند بنیادی خرابیاں ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان خرابیوں اور ان کے حل پر بات کی جائے گی۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں عام آدمی کو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں تعلیم، چاہے ناقص ہی کیوں نہ ہو، میسر ہے۔ پچھلے باسٹھ سالوں سے یہ اتیاچار اس ملک کی اشرافیہ پر کیاجارہا ہے۔ یہ کمی کمین لوگ چار جماعتیں پڑھ کر اپنے انہی ان داتاؤں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگتےہیں۔ جو کہ نہایت شرم اور رنج کا مقام ہے۔
سرکاری سکولوں میں ابھی تک اساتذہ کے نام پر ایسے دھبے موجود ہیں جو تعلیم کو مشن سمجھ کر پھیلا رہے ہیں۔ حالانکہ تعلیم ایک کاروبار ہے اور اسے اسی طرح چلایا جانا چاہئے۔
اسی نیچ طبقے کے لوگ کچھ الٹا سیدھا پڑھ کر قانون کی حکمرانی، آئین اور دستور کی بالادستی، عوام کا حق حکمرانی (؟) قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں بھی کرتے ہیں جو ہمارے جاگیردار، صنعتکار، خاکی و سادی افسر شاہی جیسی آسمانی اور دھلی دھلائی مخلوق کی طبع نازک پر بہت گراں گزرتی ہیں اور ان کے بلند فشار خون کا سبب بھی بنتی ہیں!
ان مسائل کے حل کے کے لئے سب سے پہلے تو بلا کسی ہچکچاہٹ کے تعلیم حاصل کرنےکا حق صرف اشرافیہ کی اولاد کے لئے مخصوص کرنا چاہئے۔ عوام کے تعلیم حاصل کرنے کو سنگین غداری کے زمرے میں لانا چاہئے اور اس پر سخت ترین سزا ہونی چاہئے!
ایچی سن، لارنس، کیڈٹ کالجز اور ایسے ہی دوسرے تعلیمی اداروں کو پورے سال کاتعلیمی بجٹ دینا چاہئے۔ تاکہ ہماری اگلی حکمران نسل پوری تسلی اور اطمینان سے تعلیم حاصل کرسکے۔ یہ گندے مندے سرکاری سکول بند کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے مندرجہ بالا اداروں کے تمام طالبعلموں کو نئے ماڈل کی گاڑیاں، ڈیزائنرز آؤٹ فٹس، رے بان کے چشمے، فرانس کے پرفیومز وغیرہ وغیرہ سرکاری خرچے پر فراہم کرنے چاہئیں۔ تمام سرکاری کالجز اور جامعات کو بھی بند کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے اسی آسمانی مخلوق کو سال کے چھ مہینے یورپ، ”تھائی لینڈ“، امریکہ وغیرہ تعطیلات پر بھیجنا چاہئے۔ تاکہ ان کا ”وژن“ وسیع ہوسکے۔
نچلے متوسط طبقے کے منتخب بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ کلرکی شلرکی کا کام بھی چلتا رہے۔ ماتحتوں کے بغیر بھلا افسری کا کیا خاک مزا آئے گا! اس کے لئے پورے ملک میں دس بارہ تعلیمی ادارے کافی ہیں۔
جو عوام اس تعلیمی انقلاب کے نتیجے میں سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہو، اس کو نازی کیمپس کی طرز پر کیمپوں میں رکھا جائے اور ان سے بیگار کیمپ کی طرز پر سڑکیں، پل اور ڈیفنس ہاوزنگ اتھارٹیز کی آبادیاں بنانے کا کام لیا جائے۔ ان کو کھانے کو اتنی ہی خوراک دی جائے کہ تیس پینتیس سال سے زیادہ نہ جی سکیں۔ اس سے ایک تو آبادی کا بوجھ کم ہوگا اور دوسرا ملک میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا!
امید ہے کہ ان اصلاحات سے وہ مقاصد ایک ہی جست میں حاصل ہوسکیں گے جو ہماری اشرافیہ سلو پوائزننگ کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش پچھلے باسٹھ سالوں سے کررہی ہے!
ایک دلدوز واقعہ - ہفتہء بلاگستان
یہ قصہ ہے چھٹی جماعت کا۔ جب ہم بزعم خود پرائمری کے بچپن سے نکل کر مڈل کی جوانی میں تازہ تازہ وارد ہوئے تھے۔ چھٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں اول آنے کے جرم میں ہمیں اپنی جماعت کا مانیٹر بھی بنادیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ ”بندر کے ہاتھ استرے“ والی بات تھی۔ اگر آپ میں سے کوئی سکول میں مانیٹر رہا ہو تو اسے علم ہوگا کہ اقتدار کتنی نشہ آور چیز ہے!
یہ مئی کے اواخر کا واقعہ ہے۔ تیسرا اور چوتھا پیریڈ عباس صاحب کا ہوتا تھا جو ہمیں سائنس اور معاشرتی علوم سکھانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس دن وہ چھٹی پر تھے، ان کی جگہ جو استاد پیریڈ لینے کے لئے آئے تھے وہ پانچ منٹ کے بعد ہی کلاس کو مانیٹر کے حوالے کرکے ”ضروری“ کام سے چلے گئے۔ اب میں تھا اور میری رعایا۔ اسی اثناء میں ساتویں کلاس کا ایک لڑکا ہماری جماعت میں داخل ہوا اور مجھ سے پوچھا، ”عباس صاحب کہاںہیں؟“ ۔ زبان پھسلنے کی بیماری مجھے بچپن سے ہی ہے۔ میرا جواب تھا ”عباس صاحب آج ”پھُٹ“ گئے ہیں“۔ بس جی اس کمینے نے اگلے دن یہی ”بےضرر“ سی بات ان کو نمک مرچ اور نمبو لگا کے بتادی۔ اگلے دن تیسرے پیریڈ کے شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنی مخصوص روبوٹ جیسی آواز میں کہا۔ ”موونییٹرررر کہاںںں ہےےے؟“۔ میں ان کی کرسی کے دائیں جانب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس میں بھی ایک مصلحت تھی۔ وہ یہ کہ انکے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کسی نامعلوم وجہ سے بہت موٹی تھیں۔ لہذا جب وہ سیدھے ہاتھ سے کان مروڑتے تھے تو اتنا درد نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جناب، انہوں نے اس دن کان نہیںمروڑے بلکہ مجھے پورا ڈیڑھ گھنٹہ تقریبا پچاس ڈگری سینٹی گریڈ میں اصیل ککڑ بنائے رکھا۔ چوتھا پیریڈ ختم ہونے پر جب میں ککڑ سے انسان کی جون میںواپس آیا تو کھڑا ہونے کی کوشش میں گرگیا اور اگلے دو پیریڈ بے ہوشی کے مزے لوٹے۔
اگلے تین سال وہی شکایتی ٹٹو مجھے ”عباس صاحب ”پھُٹ“ گئے “ کہہ کر چھیڑتا رہا۔ وہ تو جب میں نویں میں پہنچا اور ہتھ چھٹ ہوا اور ایک فرزبی کے میچ میں اس کی پھینٹی لگائی تو پھر اس نے میری ”عزت“ کرنی شروع کی!
یہ مئی کے اواخر کا واقعہ ہے۔ تیسرا اور چوتھا پیریڈ عباس صاحب کا ہوتا تھا جو ہمیں سائنس اور معاشرتی علوم سکھانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس دن وہ چھٹی پر تھے، ان کی جگہ جو استاد پیریڈ لینے کے لئے آئے تھے وہ پانچ منٹ کے بعد ہی کلاس کو مانیٹر کے حوالے کرکے ”ضروری“ کام سے چلے گئے۔ اب میں تھا اور میری رعایا۔ اسی اثناء میں ساتویں کلاس کا ایک لڑکا ہماری جماعت میں داخل ہوا اور مجھ سے پوچھا، ”عباس صاحب کہاںہیں؟“ ۔ زبان پھسلنے کی بیماری مجھے بچپن سے ہی ہے۔ میرا جواب تھا ”عباس صاحب آج ”پھُٹ“ گئے ہیں“۔ بس جی اس کمینے نے اگلے دن یہی ”بےضرر“ سی بات ان کو نمک مرچ اور نمبو لگا کے بتادی۔ اگلے دن تیسرے پیریڈ کے شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنی مخصوص روبوٹ جیسی آواز میں کہا۔ ”موونییٹرررر کہاںںں ہےےے؟“۔ میں ان کی کرسی کے دائیں جانب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس میں بھی ایک مصلحت تھی۔ وہ یہ کہ انکے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کسی نامعلوم وجہ سے بہت موٹی تھیں۔ لہذا جب وہ سیدھے ہاتھ سے کان مروڑتے تھے تو اتنا درد نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جناب، انہوں نے اس دن کان نہیںمروڑے بلکہ مجھے پورا ڈیڑھ گھنٹہ تقریبا پچاس ڈگری سینٹی گریڈ میں اصیل ککڑ بنائے رکھا۔ چوتھا پیریڈ ختم ہونے پر جب میں ککڑ سے انسان کی جون میںواپس آیا تو کھڑا ہونے کی کوشش میں گرگیا اور اگلے دو پیریڈ بے ہوشی کے مزے لوٹے۔
اگلے تین سال وہی شکایتی ٹٹو مجھے ”عباس صاحب ”پھُٹ“ گئے “ کہہ کر چھیڑتا رہا۔ وہ تو جب میں نویں میں پہنچا اور ہتھ چھٹ ہوا اور ایک فرزبی کے میچ میں اس کی پھینٹی لگائی تو پھر اس نے میری ”عزت“ کرنی شروع کی!
عشق مجازی / عشق حقیقی
(اسد علی کی نذر)
ارشاد:کہاں سے سنی ہے محبت کی تعریف؟
سراج : ہر ایک جگہ سے سنی ہے سرکار۔ مسجد سے، مندر سے، ریڈیو ٹی وی سے، سٹیج سے، جلسے جلوس سے لیکن دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔ پکڑائی نہیں دیتی۔۔۔ ہوتی نہیںحضور۔
ارشاد:محبت وہ شخص کرسکتاہے سراج صاحب جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پُرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میںلگالیا۔۔۔ سونے کاتمغہ نہیں کہ سینے پر سجا لیا ۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو آپ کی روح ہے۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔ آپ کی جان کی جان ۔۔۔
سراج :بس اسی جان کی جان کو دیکھنے کی آرزو رہ گئی ہے حضور! آخری آرزو!!
ارشاد : لیکن محبت کا دروازہ تو صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے سراج صاحب جو اپنی انا اور اپنی ایگو سے اور اپنے نفس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہم لوگ تو محض افراد ہیں، اپنی اپنی انا کے کھونٹے سے بندھے ہوئے۔ ہمارا کوئی گھر بار نہیں ۔۔۔ کوئی آگا پیچھا نہیں ۔۔۔ کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔ کوئی تعلق نہیں۔ ہم بے تعلق اور نارشتہ دار سے لوگ ہیں۔
سراج :بے تعلق لوگ ہیں حضور ؟
ارشاد:اس وقت اس دنیا کا سب سے بڑا مرض اور سب سے بڑی Recession محبت کی کمی ہے ۔۔۔۔ اور آج دنیا کا ہر شخص اپنی اپنی پرائیویٹ دوزخ میں جل رہا ہے اور چیخیں ماررہا ہے ۔۔۔۔ اور ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دنیا کی حکومتیں اس روحانی کساد بازاری کو اقتصادی مندے سے وابستہ کررہی ہیں۔
سراج :(اصل موضوع نہ سمجھ کر ۔۔۔ ذرا رک، ڈر کر، شرما کر) ویسے سر، محبت گو مشکل سہی لیکن اپنا یہ ۔۔۔ عشق مجازی تو آسان ہے۔
ارشاد :عشق مجازی بھی اسی بڑے پیڑ کی ایک شاخ ہے سراج صاحب! یہ بھی کچھ ایسا آسان نہیں۔
سراج:آسان نہیںجی؟
ارشاد :دیکھئے! اپنی انا اور اپنے نفس کو کسی ایک شخص کے سامنے پامال کردینے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور اپنے نفس کو سب کے آگے پامال کردینے کا نام عشق حقیقی ہے۔ معاملہ انا کی پامالی کا ہے ہر حال میں!
بابا جی اشفاق احمد کی تحریر ”منچلے کا سودا“ سے ایک اقتباس
ایسے ہوتی ہے گائیکی!
حیراں ہو دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
استاد جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کمانڈو خاں صاب
یہاں دیکھئے اور سر دھنیئے
استاد جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کمانڈو خاں صاب
یہاں دیکھئے اور سر دھنیئے
مُنّا سلانے کے آسان طریقے
ہمارے ایک دوست نے لوڈ شیڈنگ کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے کہ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ”اوپر پنکھا چلتا ہے ۔۔۔ نیچے مُنّا سوتا ہے“۔
ان کی اس فکرمندی پر یار لوگوں نے کتاب چہرہ پر اپنے اپنے لچ تلے ہیں۔ آخر میں بات مُنّے کو سلانے کے طریقوں تک آپہنچی ہے۔ تو حاضر ہیں مُنّا سلانے کے آسان طریقے۔
مُنّے کو سارا دن جگائے رکھیں۔ سونا بھی چاہے تو زبردستی اٹھادیں۔ بجلی موجود بھی ہو تو مین سوئچ آف کردیں تاکہ مُنّا کسی بھی طرح سو نہ سکے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلے گاکہ مُنّا شام ڈھلتے ہی سونے کے بہانے ڈھونڈتا پھرے گا۔ نو بجے تک کسی بھی طرح اسے جگائے رکھیں۔ اس کے لئے آئس کریم، کارٹون، ٹافیاں وغیرہ آپ کے بہترین معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ دس بجے تک یقیناً مُنّے کے حالات نہایت نازک ہوچکے ہوں گے۔ بس یہی وقت ہے اسے سلانے کا۔ اب جب مُنّا سوئے گا تو صبح کی خبر ہی لائے گا۔ چاہے پنکھا چلے یا نہ چلے، مُنّا نہیں اٹھے گا۔ اب آپ اپنے تمام ”ضروری کام“ سہولت اور آسانی سے نمٹا سکتے ہیں!
دوسراطریقہ کچھ ظالمانہ ہے! مُنّے کے سونے کا وقت تو پتہ ہی ہوگا آپ کو۔ تو اس کے سونے سے 15 منٹ پہلے مُنّے کی بلاوجہ ایک پھینٹی لگائیں اور مُنّے کو اس کی اماں کے حوالے کردیں۔ رونے کے بعد بندہ ہو یا مُنّا اس کو نیند بہت گہری آتی ہے! اس کا ثبوت؟؟؟ اس کا ثبوت یہ شعر ہے۔
کل اچانک یاد وہ آیا، تو میں رویا بہت
روتے روتے سوگیا میں، اور پھر سویا بہت
مُنّے کے سونے کے بعد تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ کیا کرنا ہے! اور اس شعر میں آپ، یاد، کی جگہ اپنی مرضی کا کوئی بھی ”موزوں“ لفظ استعمال کرسکتے ہیں۔
یہ والا طریقہ ”اشد ضرورت“ کے تحت ہی استعمال کریں۔ اس کا باقاعدہ استعمال آپ کے مُنّے کو بڑا ہو کر پائلٹ کی بجائے جہاز کے درجے پر بھی فائز کرسکتا ہے۔ تھوڑی سی افیم مُنّے کے فیڈر میں ملادیں۔ بس پھر اس کے بعد آپ آزاد ہیں!
”اشد ضرورت“ والا انتباہ یاد رکھیں!
یہ طریقے آزمانے کے بعد بھی اگر افاقہ نہ ہو تو جوابی ڈاک سے مطلع کریں۔
کچھ اور نسخے بھی ہیں لیکن ان کے لئے آپ کو اپنی جیب ڈھیلی کرنی پڑے گی۔
ان کی اس فکرمندی پر یار لوگوں نے کتاب چہرہ پر اپنے اپنے لچ تلے ہیں۔ آخر میں بات مُنّے کو سلانے کے طریقوں تک آپہنچی ہے۔ تو حاضر ہیں مُنّا سلانے کے آسان طریقے۔
مُنّے کو سارا دن جگائے رکھیں۔ سونا بھی چاہے تو زبردستی اٹھادیں۔ بجلی موجود بھی ہو تو مین سوئچ آف کردیں تاکہ مُنّا کسی بھی طرح سو نہ سکے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلے گاکہ مُنّا شام ڈھلتے ہی سونے کے بہانے ڈھونڈتا پھرے گا۔ نو بجے تک کسی بھی طرح اسے جگائے رکھیں۔ اس کے لئے آئس کریم، کارٹون، ٹافیاں وغیرہ آپ کے بہترین معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ دس بجے تک یقیناً مُنّے کے حالات نہایت نازک ہوچکے ہوں گے۔ بس یہی وقت ہے اسے سلانے کا۔ اب جب مُنّا سوئے گا تو صبح کی خبر ہی لائے گا۔ چاہے پنکھا چلے یا نہ چلے، مُنّا نہیں اٹھے گا۔ اب آپ اپنے تمام ”ضروری کام“ سہولت اور آسانی سے نمٹا سکتے ہیں!
دوسراطریقہ کچھ ظالمانہ ہے! مُنّے کے سونے کا وقت تو پتہ ہی ہوگا آپ کو۔ تو اس کے سونے سے 15 منٹ پہلے مُنّے کی بلاوجہ ایک پھینٹی لگائیں اور مُنّے کو اس کی اماں کے حوالے کردیں۔ رونے کے بعد بندہ ہو یا مُنّا اس کو نیند بہت گہری آتی ہے! اس کا ثبوت؟؟؟ اس کا ثبوت یہ شعر ہے۔
کل اچانک یاد وہ آیا، تو میں رویا بہت
روتے روتے سوگیا میں، اور پھر سویا بہت
مُنّے کے سونے کے بعد تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ کیا کرنا ہے! اور اس شعر میں آپ، یاد، کی جگہ اپنی مرضی کا کوئی بھی ”موزوں“ لفظ استعمال کرسکتے ہیں۔
یہ والا طریقہ ”اشد ضرورت“ کے تحت ہی استعمال کریں۔ اس کا باقاعدہ استعمال آپ کے مُنّے کو بڑا ہو کر پائلٹ کی بجائے جہاز کے درجے پر بھی فائز کرسکتا ہے۔ تھوڑی سی افیم مُنّے کے فیڈر میں ملادیں۔ بس پھر اس کے بعد آپ آزاد ہیں!
”اشد ضرورت“ والا انتباہ یاد رکھیں!
یہ طریقے آزمانے کے بعد بھی اگر افاقہ نہ ہو تو جوابی ڈاک سے مطلع کریں۔
کچھ اور نسخے بھی ہیں لیکن ان کے لئے آپ کو اپنی جیب ڈھیلی کرنی پڑے گی۔
درج بالا تحریر کو خاندانی منصوبہ بندی والوں اور مُنّوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔
طبیعت زیادہ ”خراب“ ہو تو تیسرا نسخہ استعمال کریں۔
آٹو گراف
کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لئے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مڑے بھنور ہجوم کے
کھڑی ہیںیہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک نازِ بے نیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
نبض رک گئی!
کتابچے لئے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مڑے بھنور ہجوم کے
کھڑی ہیںیہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک نازِ بے نیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
نبض رک گئی!
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کی جمگھٹوں میں گھر
گیا
وہ صفحہء بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں
پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
گیا
وہ صفحہء بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہریں
پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پابہ گل!
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل ۔۔۔ یہ لوحِ دل!
نہ اس پر کوئی نقش ہے نہ اس پر کوئی نام ہے
میں پابہ گل!
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل ۔۔۔ یہ لوحِ دل!
نہ اس پر کوئی نقش ہے نہ اس پر کوئی نام ہے
مجید امجد
پان گوشت
نئی ترکیب کے ساتھ پھر حاضر خدمت ہوں!
بے پناہ شہرت اور پسندیدگی کے باوجود میں نے کبھی غرور نہیں کیا، کیونکہ چھٹی جماعت میں ہی میں نے پڑھ لیا تھا کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے، اگرچہ میں نے ہمیشہ لمبے قد والے کا سر ہی نیچا دیکھا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ لمبے بندے کی عقل گٹوں میں ہوتی ہے اور وہ اپنی عقل سے مشورہ کرنے کے لئے نیچے دیکھتا ہو!
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آج کی ترکیب کی طرف آتے ہیں۔ یہ ترکیب بین الثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس دعوی کا ثبوت اس کے اجزاء ہیں، جو درج ذیل ہیں:
پان کے پتے سوا سات عدد
کتھّا حسب ذائقہ
چونا حسب ہمت
سپاری آدھ کلو
راجہ جانی 1 ڈبیا
پیلی پتی 1 ڈبیا
ملٹھی 2 چمچ
الائچی 10 عدد
گوشت ایک پاؤ
لسّی ایک جگ
ہرڑ کا مربہ آدھ چھٹانک
نسوار ایک پُڑا
اور
جو آپ کا دل چاہے!
لسّی کو ہلکی آنچ پر پکنے دیں جب آدھی رہ جائے تو اس میں گوشت اور ہرڑ کا مربہ شامل کردیں۔ پانچ سے سات منٹ درمیانی آنچ پر پکنے دیں۔ گوشت کے گلنے پر اس میں نسوار، راجہ جانی اور پیلی پتی ملادیں۔ ملٹھی، سپاری اور الائچی کے ساتھ ہی آدھا گلاس پیپسی بھی ملادیں اور دس منٹ پکنے دیں۔ پان کے پتے حسب خواہش کاٹ لیں۔ چونا اور کتھا لگا کر ترتیب سے گوشت کے اوپر رکھ دیں اور ہلکی آنچ پر دم لگا دیں۔ دم کا دورانیہ اتنا ہو جس میں آپ دو دفعہ ”نگوڑی کیسی جوانی ہے“ سن سکیں۔ دوسری دفعہ گانا ختم ہوتے ہی چولہا بند کردیں۔ ڈھکن اٹھاتے ہی ایک ایسی خوشبو آپ کا استقبال کرے گی، جس کا تجربہ آپ کو زندگی میں پہلے کبھی نہ ہوا ہوگا!
یہ ڈش، ملٹی پرپز اور ملٹی ڈائمنشنل ہے۔ ایک تو یہ آپ کی پروٹین کی ضروریات پورا کرے گی، دوسرا آپ کی گائیکی کی صلاحیتوں کو چار چاند لگائے گی۔ جبکہ نسوار، راجہ جانی اور پیلی پتی آپ کی نکوٹین کی ضروریات بحسن و خوبی پورا کریں گی۔
باقاعدگی سے استعمال کرنے پر آپ اس فانی اور رنج و الم سے بھری دنیا سے نجات پا کر ابدی زندگی کی راحت بھی حاصل کرسکتے ہیں!
کمینہ
ٹرین پنڈی سے روانہ ہوئی تو سہ پہر نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہی تھا۔ اس بوگی میں معمول سے رش کم ، لیکن شور زیادہ تھا۔ اس شور کا منبع تین نوجوان تھے، جو ریل کے وسل دیتے ہی اپنی نشستوں پر جم گئے تھے اور تاش نکال کر کھیلنے کے نام پر جھگڑنے لگے تھے۔ اس جھگڑے کا حاصل وہ فلک شگاف قہقہے تھے جو وقتا فوقتا ان کے دہانوں سے توپ کے گولوں کی طرح برآمد ہورہے تھے۔ رش کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے آمنے سامنے دو بڑی سیٹوں پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ان کے ساتھ والے حصے میں ایک خاندان سفر کررہا تھا۔ جوتقریبا 14، 15 افراد پر مشتمل تھا۔ بزرگ خواتین اس شور شرابے پر زیادہ خوش نہیں تھیں۔ لیکن نوجوان پود ان تینوںکے ہاؤ ہو میںپوری دلچسپی لے رہی تھی۔ ان نوجوانوں کا دھیان بھی تاش سے زیادہ ہمسایوں کی دلچسپی میں تھا۔
گاڑی جیسے ہی شہر سے نکلی اور کھلے علاقے میں آئی، وہ تینوں سب چھوڑ چھاڑ کر دروازے میں جا کھڑے ہوئے۔ ان میںایک جو دبلا پتلا اور معنک تھا، اس نے سگریٹ سلگالیا۔ اس سارے ہنگامے میں ان کا سرپنچ، اس حرکت پر معنک کو خونریز نظروں سے گھورتا ہوا دوسرے دروازے میں جاکر کھڑا ہوگیا اور پہاڑی علاقے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ سوہاوہ پار کرنے کے بعد یا شاید پہلے پہاڑی علاقے کے ایک چھوٹے سے سٹیشن پر گاڑی رکی، شاید کسی دوسری گاڑی کا کراس تھا۔ گاڑی کے رکتے ہی تینوں چھلانگیں مار کر نیچے اتر آئے، پانچ دس منٹ پلیٹ فارم نما چبوترے پر گھومنے کے باوجود بھی جب گاڑی کی روانگی کے آثار نظر نہ آئے تو وہ اپنے سامان سے بیٹ اور ٹینس بال نکال لائے اور پلیٹ فارم پر کرکٹ کھیلنے لگے۔ دیکھا دیکھی ان کے ساتھ پانچ چھ مسافر اور مل گئے۔ تقریبا آدھ گھنٹے کے بعد گاڑی نے وسل دی اور روانہ ہوئی۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ وہ تینوںبھی شاید مسلسل بولنے اور رنگبازیاں کرنے کی وجہ سے تھک چکے تھے اور اب کھڑکیوںسے لگے پیچھے کو دوڑتے مناظر میںگم تھے۔ اپنی حرکتوں اور باتوں سے ان کا غیر اعلانیہ لیڈر لگنے والا سائیڈ والی سنگل سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ اس کے ہاتھ میںاب ایک ڈائجسٹ تھا اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اس میںگم تھا۔ ان کے ساتھ سفر کرنے والی فیملی کو بھوک نے ستایا اور انہوں نے اپنے ٹفن وغیرہ کھولے تو پوری بوگی مرغن کھانوں کی خوشبو سے مہک اٹھی۔ ایک خاتون نے مروتاً اس سے کھانے کو پوچھا تو اس نے بہت معصومیت سے جواب دیاکہ ”جی شکریہ! مجھے ڈاکٹر نے چکنائی والے کھانوں سے منع کیا ہے۔“ خاتون نے اپنی لہجے میںبے یقینی سموتے ہوئے کہا، ”کیوں؟“ اس پر وہ بولا، ”بس جی کیا کریں گی پوچھ کر؟ چھوڑیں“۔ نوجوان کے لہجے کی اداسی اور چہرے پر چھائی افسردگی آمیز مسکراہٹ نے خاتون کے شوق تجسس کو بڑھاوا دیا اور انہوں نے اصرار سے پوچھا ”بیٹا! بتاؤ تو سہی کیا بات ہے؟“
”میرے دل میں سوراخ ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر احتیاط کی تو ایک سال تک اور جی سکتے ہو۔ آپ یقینا ہمارے شور شرابے سے تنگ آگئے ہوں گے۔ لیکن میری جتنی بھی زندگی باقی ہے اسے مرنے کے خوف میں ضائع نہیں کرنا چاہتا، اسی لئے میںاپنے کزنز کے ساتھ مری آیا تھا، اگلے سال تک پتہ نہیں میں رہوں گا یا نہیں! میں آپ سے اس شور شرابے کی معافی چاہتاہوں“۔ یہ کہہ کر نوجوان افسردہ سے انداز میں مسکرایا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔
خاتون کا تو وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ نوجوان کے پاس آئیںاس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اصرار کرکے اسے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ ان تینوں کو کھانا، چائے ، ڈرائی فروٹ ہر چیز مہیا کی جارہی تھی۔ باقی کے دونوں اس معنک سمیت حیران تھے کہ آخر کیا قیامت آگئی ہے کہ جو خواتین ہمیں تھوڑی دیر پہلے کچا چبانے والی نگاہوں سے گھور رہی تھیں اب وہی اتنے پیار سے تواضع کررہی ہیں۔ وہ بار بار سوالیہ نظروں سے اپنے لیڈر کو گھورتے تھے لیکن اس کے چہرے پر لگے ”بکواس بند کرو اور آرام سے کھاؤ“ کا بینر پڑھ کر پھر چپ چاپ پیٹ پوجا میں مصروف ہوجاتے تھے۔
باقی سفر میں بھی ان کا ہنگامہ جاری رہا، لیکن اب ان خواتین کی نگاہوں سے غصے کی بجائے ہمدردی جھلک رہی تھی۔ آدھی رات کے بعد جب گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو رخصت ہوتے ہوئے بزرگ خواتین ، اس نوجوان کو گلے لگا کر ایسے دعائیں دے رہی تھیں کہ جیسے وہ محاذ جنگ پر جارہا ہو!
سٹیشن سے باہر آتے ہی دونوں نےمل کر لیڈر نما کو دبوچ لیا اور اس رام کہانی کی وجہ دریافت کی۔ پورا ماجرا سننے پر دونوں نے بیک وقت فلک شگاف نعرہ لگایا!!
کمینہ!!
گاڑی جیسے ہی شہر سے نکلی اور کھلے علاقے میں آئی، وہ تینوں سب چھوڑ چھاڑ کر دروازے میں جا کھڑے ہوئے۔ ان میںایک جو دبلا پتلا اور معنک تھا، اس نے سگریٹ سلگالیا۔ اس سارے ہنگامے میں ان کا سرپنچ، اس حرکت پر معنک کو خونریز نظروں سے گھورتا ہوا دوسرے دروازے میں جاکر کھڑا ہوگیا اور پہاڑی علاقے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ سوہاوہ پار کرنے کے بعد یا شاید پہلے پہاڑی علاقے کے ایک چھوٹے سے سٹیشن پر گاڑی رکی، شاید کسی دوسری گاڑی کا کراس تھا۔ گاڑی کے رکتے ہی تینوں چھلانگیں مار کر نیچے اتر آئے، پانچ دس منٹ پلیٹ فارم نما چبوترے پر گھومنے کے باوجود بھی جب گاڑی کی روانگی کے آثار نظر نہ آئے تو وہ اپنے سامان سے بیٹ اور ٹینس بال نکال لائے اور پلیٹ فارم پر کرکٹ کھیلنے لگے۔ دیکھا دیکھی ان کے ساتھ پانچ چھ مسافر اور مل گئے۔ تقریبا آدھ گھنٹے کے بعد گاڑی نے وسل دی اور روانہ ہوئی۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ وہ تینوںبھی شاید مسلسل بولنے اور رنگبازیاں کرنے کی وجہ سے تھک چکے تھے اور اب کھڑکیوںسے لگے پیچھے کو دوڑتے مناظر میںگم تھے۔ اپنی حرکتوں اور باتوں سے ان کا غیر اعلانیہ لیڈر لگنے والا سائیڈ والی سنگل سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ اس کے ہاتھ میںاب ایک ڈائجسٹ تھا اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اس میںگم تھا۔ ان کے ساتھ سفر کرنے والی فیملی کو بھوک نے ستایا اور انہوں نے اپنے ٹفن وغیرہ کھولے تو پوری بوگی مرغن کھانوں کی خوشبو سے مہک اٹھی۔ ایک خاتون نے مروتاً اس سے کھانے کو پوچھا تو اس نے بہت معصومیت سے جواب دیاکہ ”جی شکریہ! مجھے ڈاکٹر نے چکنائی والے کھانوں سے منع کیا ہے۔“ خاتون نے اپنی لہجے میںبے یقینی سموتے ہوئے کہا، ”کیوں؟“ اس پر وہ بولا، ”بس جی کیا کریں گی پوچھ کر؟ چھوڑیں“۔ نوجوان کے لہجے کی اداسی اور چہرے پر چھائی افسردگی آمیز مسکراہٹ نے خاتون کے شوق تجسس کو بڑھاوا دیا اور انہوں نے اصرار سے پوچھا ”بیٹا! بتاؤ تو سہی کیا بات ہے؟“
”میرے دل میں سوراخ ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر احتیاط کی تو ایک سال تک اور جی سکتے ہو۔ آپ یقینا ہمارے شور شرابے سے تنگ آگئے ہوں گے۔ لیکن میری جتنی بھی زندگی باقی ہے اسے مرنے کے خوف میں ضائع نہیں کرنا چاہتا، اسی لئے میںاپنے کزنز کے ساتھ مری آیا تھا، اگلے سال تک پتہ نہیں میں رہوں گا یا نہیں! میں آپ سے اس شور شرابے کی معافی چاہتاہوں“۔ یہ کہہ کر نوجوان افسردہ سے انداز میں مسکرایا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔
خاتون کا تو وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ نوجوان کے پاس آئیںاس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اصرار کرکے اسے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ ان تینوں کو کھانا، چائے ، ڈرائی فروٹ ہر چیز مہیا کی جارہی تھی۔ باقی کے دونوں اس معنک سمیت حیران تھے کہ آخر کیا قیامت آگئی ہے کہ جو خواتین ہمیں تھوڑی دیر پہلے کچا چبانے والی نگاہوں سے گھور رہی تھیں اب وہی اتنے پیار سے تواضع کررہی ہیں۔ وہ بار بار سوالیہ نظروں سے اپنے لیڈر کو گھورتے تھے لیکن اس کے چہرے پر لگے ”بکواس بند کرو اور آرام سے کھاؤ“ کا بینر پڑھ کر پھر چپ چاپ پیٹ پوجا میں مصروف ہوجاتے تھے۔
باقی سفر میں بھی ان کا ہنگامہ جاری رہا، لیکن اب ان خواتین کی نگاہوں سے غصے کی بجائے ہمدردی جھلک رہی تھی۔ آدھی رات کے بعد جب گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو رخصت ہوتے ہوئے بزرگ خواتین ، اس نوجوان کو گلے لگا کر ایسے دعائیں دے رہی تھیں کہ جیسے وہ محاذ جنگ پر جارہا ہو!
سٹیشن سے باہر آتے ہی دونوں نےمل کر لیڈر نما کو دبوچ لیا اور اس رام کہانی کی وجہ دریافت کی۔ پورا ماجرا سننے پر دونوں نے بیک وقت فلک شگاف نعرہ لگایا!!
کمینہ!!
دو اقتباس
۔۔۔۔ میں تمہیں الف لیلہ کی کہانی نہیں سنا رہی، یہ ہمارے ملک کا دستور ہے۔ یہاں فرد تباہ ہوجاتا ہے اور سوسائٹی مضبوط تر ہوتی جاتی ہے۔ سال کے آخر پر اعدادوشمار شائع ہوتے ہیں، اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آج ہم دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں رہ رہے ہیں، اور دنیا میں فی کس سب سے زیادہ کما رہے ہیں، اور اپنے جسموں کو دنیا کی عمدہ ترین غذا پر پال رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور بھاگ رہے ہیں، اور پتہ نہیں کہ کدھر جارہے ہیں۔ ہماری روحوں کو دن بھر میں کتنی کیلوریز کی ضرورت ہے، اس کے اعداد و شمار ابھی تک شائع نہیں ہوئے۔
عبداللہ حسین کی کہانی ”ندی“ سے
================================================
۔۔۔۔ میری چپ حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے، جسے چور پچھلی رات دروازے کے کنڈے سے اتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے، لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کرسکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کردیتا ہے۔
بانو قدسیہ کی کہانی ”انتر ہوت اداسی“ سے
عبداللہ حسین کی کہانی ”ندی“ سے
================================================
۔۔۔۔ میری چپ حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے، جسے چور پچھلی رات دروازے کے کنڈے سے اتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے، لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کرسکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کردیتا ہے۔
بانو قدسیہ کی کہانی ”انتر ہوت اداسی“ سے