ٹوٹے

ویگن میں مسافر نکو نک ٹھنسے ہوئے ہیں۔ کنڈیکٹر نے ایک اور مسافر کی جگہ بنانے کے لئے آواز لگائی۔
”ذرا نال نال ہوجاؤ جی“۔ (ذرا سمٹ جائیں)۔
”میں ربڑ دا بنیا واں، جیہڑا ہور نال نوں ہوجاواں“۔ (میں ربڑ کا بنا ہوا ہوں جو اور سمٹ جاؤں)۔
ایک بزرگ نے کنڈیکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا۔
==============================================
مغرب کی اذان میں دس منٹ باقی تھے۔ آج وہ ذرا جلدی مسجد میں آگیا تھا۔ مسجد تقریبا خالی تھی۔ دو تین بندے تھے شاید۔ وہ بیٹھا ہی تھا کہ اسے کسی نے مخاطب کیا اور بزبان عربی اسے صلواتیں سنانے لگا کہ مسجد میں آکر سب کو سلام کرتے ہیں، ایسے ہی منہ اٹھا کر نہیں‌ آجاتے۔ مخاطب کرنے والے کے لہجے میں ایک عجیب طرح کی حقارت اور ناپسندیدگی تھی۔ اس نے مسکرا کر سر کو اثبات میں ہلادیا۔
چند ثانیوں بعد اسے پھر وہی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہی صاحب سیل فون پر گفتگو میں مصروف تھے!!!
==============================================
میرا دوست ”خ“ اتنا مایوس ہے کہ مایوسی اسے دیکھ کر بذات خود مایوس ہوجاتی ہے!
==============================================
چست ٹی شرٹس اور جینز میں ملبوس خواتین کو دیکھ کر اتنی ٹھنڈی آہیں بھرنی پڑتی ہیں کہ مینجر آ کر درخواست کرنے لگتا ہے کہ یا تو ٹھنڈی آہیں بند کرو یا پھر میں‌ اے سی بند کرواتاہوں۔ جولائی کے مہینے میں نمونیا ہوجائے گا تو دنیا کیا کہے گی۔۔۔
==============================================
ڈفر اور دارا؟؟ اگر ڈفر ہی ڈفر ہے تو دارا کون ہے؟ اچھا، چلو فرض کرو، ڈفرستان کا باسی ہونے کی وجہ سے دارا بھی ڈفر ہے تو پھر ڈفر بھی ڈفر ہے اور دارا بھی ڈفر ہے تو جیسے ڈفر، دارا ہے تو ڈفر کون ہے؟؟
بس بس بس۔۔۔ خدا کے لئے بس کرو۔۔۔ میرا بھیجہ فرائی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔
==============================================
اوئے ۔۔ ادھر آ۔۔۔
جی جناب۔۔
اپنی مرغیوں کی فیڈ چیک کرا اوئے ۔۔۔
لیکن جناب میں تو مرغیوں کو خوراک ڈالتا ہی نہیں۔۔۔
اوئے یہ کیا بکواس کررہاہے؟؟ خوراک نہیں ڈالتا تو اتنی بڑی کیسی ہوگئی ہیں؟
سر جی ۔۔۔ میں‌ ان کو دس روپے روز دیتا ہوں۔۔۔ یہ اپنی مرضی سے جو کھانا ہو کھالیتی ہیں!!
Comments
33 Comments

33 تبصرے:

بلوُ نے فرمایا ہے۔۔۔

باقی تو سب ٹھیک ہے پر یہ آخری ٹوٹا ایک تھکے ہوئے لطیفے کا آخری حصہ ہے

یاسر عمران مرزا نے فرمایا ہے۔۔۔

ھا ھا ھا ھا
جناب آخری ٹوٹا تے کمال دا اے، پہلا وی زبردست اے، بہت بہت شکریہ :lol:

افتخار اجمل بھوپال نے فرمایا ہے۔۔۔

میں نے تو دیکھا تھا ۔ ایک نوجوان اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر اترتے ہوئے کہتا ہے "اے لے ۔ اک دی بجائے دو بٹھا لے" ۔ یعنی یہ لو ایک کی بجائے دو بٹھا لو

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::بلو:: تھکا ہوا تھا۔۔ اسلئے ذرا اس کو بٹھا کر پانی شانی پلا کر تازہ دم کردیا ہے۔۔۔ :mrgreen:
::یاسر عمران::‌ تہاڈا وی بوت بوت شکریہ۔۔۔ پسند کرن دا۔۔۔ :smile:
::افتخار اجمل بھوپال:: یہ فرق ہے فیصل آباد اور اسلام آباد کا۔۔۔ :mrgreen:

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

اب ميرا کچھ لکھنے کو دل کر رہا ہے مگر جو کچھ لکھنے کو دل کر رہا ہے اس پر پھر جنگ و جندل شروع ہو جائے گی

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::اسماء:: یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔ :neutral:
لکھیں نا جی۔۔۔ پاکستانی ہوکے جنگ و جدل ڈر گئیں۔۔۔
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
:mrgreen:

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

ڈر اس بات سے رہی ہوں کہ جو ميں نے لکھنا ہے اس پر آپ سب مردوں نے ايک ساتھ ہو جانا ہے اور عورتيں تو ہيں ہی کم جو ہيں وہ بھی ميرا ساتھ نہيں ديں گی کيونکہ وہ خاصی ريزرو خواتين ہيں ہر الٹے سيدھے معاملے ميں ميری طرح ٹانگ اڑانے نہيں بيٹھ جاتيں

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::اسماء:: اتنا سسپنس نہ پھیلائیں۔۔۔
یہ مرد ذات تو ہوتی ہی بڑی بدذات ہے
اس کی چنتا نہ کریں۔۔۔
بس لکھ دیں۔۔۔ :mrgreen:

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

سنيں پھر
مرد حضرات بھی تو چست جينز ميں ہوتے ہيں کھبی عورتوں نے تو ٹھنڈی آئيں نہيں بھری اور دوسری بات يہ کہ يہ ٹھنڈی آئيں صرف ہمارے پاکستانی بھائی ہی کيوں بھرتے نظر آتے ہيں ہر جگہ؛ ادھر عورتيں تقريبا تقريبا برہنہ پھر رہی ہوتی ہيں اس موسم ميں کوئی آنکھ اٹھا کر نہيں ديکھتا سوائے ہمارے بھائيوں کے جوايسی حسرت بھری نظروں سے ديکھتے ہيں جيسے شہر کی سير کو بتياں ديکھنے پہلی بار نکلے ہيں آنکھيں ہيں کہ بھرتی ہی نہيں صرف پاکستانی بھائيوں کی آخر کيوں؟

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::اسماء:: یہ بات۔۔
میرا اشارہ بھی اسی طرف تھا۔۔۔
اس کی وجہ ہے کہ پاکستانی بھائیوں کی اکثریت ”تھڑے“ ہووں پر مشتمل ہے۔۔۔
کچھ اور بھی وجوہات ہیں اس کی ۔۔۔
لیکن قابل اشاعت نہیں۔۔۔
متذکرہ ٹوٹا ایک تاثر ہے۔۔۔ مجھ پر منطبق کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے۔۔۔
:mrgreen:

DuFFeR - ڈفر نے فرمایا ہے۔۔۔

اسماء جی پاکستانی بھائیوں کی جس ماحول میں تربیت ہوتی ہے اس پہ بھی تو ہمدردانہ غور کریں نا جی۔ یہ تو پاکستانیوں کا مظبوط جگر ہے کہ ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں ورنہ ہمارا حق تو سرد آہیں بھرنے کا ہے
اور جس عمر میں دیکھ دیکھ کر طبیعت سیر ہوتی ہے وہ تو گزار کے ہی جاتے ہیں نا باہر، اور بعد کی عمر میں تو ”دل مانگے مور“ والا حساب ہوتا ہے
مزید یہ کہ مردوں کی ٹائٹ جینز پر عورتیں بھی آہیں بھرتیں تو مرد مرد کیوں ہوتا؟

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

اب جعفر اور ڈفر ذرا يہ بتائيں کہ انڈيا سري لنکا نہ سہي بنگلہ ديش کا ماحول تو ہمارے جيسا ہي ہے پھر انکے مردوں کي آہيں کيونکر کم ہوئيں اور يہ کہ کم از کم چار کپڑوں ميں ملبوس ہوتی ہے عام پاکستانی عورت پاکستان کے اندر؛ گھورنے والے اس اہنماک سے گھورتے ہيں کہ ميں گھر جا کر شيشے کے سامنے صحيع طرح مشاہدہ کرتي تھی مگر مجھے کچھ نظر نہيں آتا پاکستاني مردوں کی اس unique خصوصيت کی وضاحت کريں کہ اسے چار کپڑوں کے اندر کيسے دکھائی ديتا ہے

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::ڈفر:: دارا اور ڈفر والے ٹوٹے کا جواب چاہئے مجھے ۔۔۔۔ :evil:
::اسماء:: بنگالی بھی ہمارے جیسے ہی ہیں۔۔۔ :mrgreen: مجھے تجربہ ہے بنگالیوں کا۔۔۔ بلکہ ہم سے بھی دو رتیاں‌زیادہ ہی ہیں۔۔۔ :mrgreen:
یہ ذہنیت ہے جی عورت کو انسان سمجھنے کی بجائے ”استعمال“ کی چیز سمجھنے کی۔۔۔ اس کے ساتھ گندی نیت اور ذہنیت کا تڑکا بھی لگالیں۔۔۔ تب یہ بے ہودگی کا مکسچر تیار ہوتاہے ۔۔۔

میرا پاکستان نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر صاحب والی بات درست ہے گھورنے کی وجہ بیان کرنے سے معاملہ بگڑ جائے گا۔ ویسے اسما جی نے بھی شادی کر لی ہے وہ بہت سارے سوالوں کے جوابات اپنے میاں‌سے پوچھ سکتی ہیں۔ ہمارا جواب اس پوسٹ میں ہے جو موضوع کی وجہ سے بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس پر ویسے دوسرے بلاگرز نے بھی اظہار خیال کیا تھا۔
http://www.mypakistan.com/?p=872
http://www.mypakistan.com/?p=873

خاور نے فرمایا ہے۔۔۔

وھ جی کتے کو کوڑا (غصه ور) بنانے کے لیے بلونگے کے وقت سے هی اس کو مار مار کر کوڑا کرتے هیں اس کو باندھ کر هوجیں(ٹہوکے) دینتے هیں ناں جی ؟
اسی طرح هم پاکستانیوں کو ترسا ترسا کر ترسا هوا بنادیتے هیں ـ
که هر عورت ایک اسرار لگتی هے ـ
اور پاک ملک میں تو گھورنے تک هی کیا جاسکتا ہے
باھر نکل کر تھوڑا چاکا(جھجک) کھول لیں تو بجائے گھورنے کے پاس جاکر پوچھ هی لیں که جی آپ بڑی ایٹریکٹو لگ رهی هیں ، اور آپ کو یه بات معلوم بھی هے
تو جی بس پھر اسرار خود هی کھلنے لگتے هیں ـ
ایورج ڈیڑھ گھنٹا لگتا ہے جی اسرار کے کھلنے میں اسرار چاھے چار هوں یا ، چار هی هوتے هیں عموماً ـ
اب پاکستان میں حدود آڈیننس ، اور اس سے زیادھ گیڈر کٹ سے ڈر لگتا ہے جی اس لیے گھر جا کر '' خود اذییتی '' کے لیے خام مال لے جاتے هیں جی !ـ لوگ بھالے
باقی جی ساری باتیں لکھنے والی بھی نهیں هوتی که اب میرے بھی بچے بڑے هو رهے هیں کل کو کہیں پڑھ هی لیں تو ؟
وه ایک دن فہد نے میرے کمپیوٹر پر بالغوں کے لطیفے نام کے فولڈر پر انگلی رکھ کر پوچھاتھا که
پاپا اے کی اے ؟؟
اس دن سے میں نے بالغوں کے لطیفے والی سائٹ اپ ڈیٹ کرنا تو دور کی بات ہے بند هی کردی ـ
باقی اسماء بہن جی اب آپ شادی شدھ هیں اس لیے یه بھی لکھ دیا ، هم آپ کو زمانوں سے پڑھ رهے هیں
اس لیے آپ کی طبیت کو کسی حد تک سمجھتے هیں ـ
برا نهیں محسوس کرنا که سیکس بھی اس دنیا کی ایک بہت بڑی حقیقت هے
وھاں کوریا کے سیول میں ایک کورین ایک کینڈین کو سیکس کے برے هونے کی بحث کیے جارها تھا تو اس کینڈین نے کہا تھا
ڈونٹ فارگیٹ ڈیٹ یو آر السو اے رزلٹ آف سیکس
میرے لفظوں میں
وی آر دا رزلٹ آف سیکس ـ

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::میرا پاکستان:: میں‌ نے دونوں تحاریر پڑھیں ہیں، اس مسئلے کی وجوہات اور حل پر آپ نے بہت عمدہ طریقے سے لکھا ہے۔
::خاور:: میرے پاس وہ سمائلی ہے نہیں‌ جس میں بندہ bow کرتا ہے۔۔۔

Aniqa Naz نے فرمایا ہے۔۔۔

بھیجہ فرائ کرنے کی ایک اور ترکیب بتانے کا شکریہ۔

نوائے ادب نے فرمایا ہے۔۔۔

مغرب کی اذان میں دس منٹ باقی تھے۔ آج وہ ذرا جلدی مسجد میں آگیا تھا۔ مسجد تقریبا خالی تھی۔ دو تین بندے تھے شاید۔ وہ بیٹھا ہی تھا کہ اسے کسی نے مخاطب کیا اور بزبان عربی اسے صلواتیں سنانے لگا کہ مسجد میں آکر سب کو سلام کرتے ہیں، ایسے ہی منہ اٹھا کر نہیں‌ آجاتے۔ مخاطب کرنے والے کے لہجے میں ایک عجیب طرح کی حقارت اور ناپسندیدگی تھی۔ اس نے مسکرا کر سر کو اثبات میں ہلادیا۔
چند ثانیوں بعد اسے پھر وہی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہی صاحب سیل فون پر گفتگو میں مصروف تھے!!!
==============================================

اس طرح کی بہت سے باتیں میں نے سنی بھی ہیں اور خود دیکھی بھی ہیں کچھ لوگ نماز پڑھتے نہیں ہیں بلکہ ہم پر اور اللہ پر احسان کرتے ہیں ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہے وہ مسجد میں جاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں

ایک دفعہ ایک لڑکا مسجد میں نماز پڑھنے آئا اس نے ہاف سلیب پہنی ہوئی تھی ایک نمازی نے اس کو ہاتھ سے پکڑا اور کہا ہاف سلیب میں نماز نہیں ہوتی پہلے جاؤ ٹھیک کپڑے پہن کر آو پھر نماز پڑھنا
اس کے بعد میں نے اس لڑکے کو مسجد کے قریب بھی نہیں دیکھا

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

ُ ميرا پاکستان` مياں سے پوچھوں کيا کہ انکی باتوں سے ہی اندازہ لگا ليتی ہوں مثلا فرانس آنے کے بعد ايک ہدايت ُ ادھر کوئی بھی مرد ہاتھ ملانے کے ليے آگے کرے تو اپنا ہاتھ پيچھے نہيں کرنا ماسوائے پاکستانی مرد کے جن کے زبانی سلام کا جواب بھی نہيں دينا` اور آپ يقين کريں تجربے نے ان باتوں کی خود وضاحت کر دي،دوسرا جعفر کی طرح وہ بھی کہتے ہيں کہ اس ميدان ميں ہم اکيلے نہيں بنگالی اور سری لنکن ہمارے ساتھ ہيں جبکہ ميرے خيال ميں ايسا نہيں ہے اور آپکے دونوں بلاگ پڑھے جہاں آپکی تقريبا سب باتوں سے متفق ہوں وہاں جاويد گوندل محترم کے تبصرے کو بھی نظر انداز نہيں کيا جا سکتا ان دونوں کو ملا ليا جائے تو يوں کہہ ليں کہ ميرا پاکستان کی بتائی ہوئی وجوہات کو ختم اور ہدايات پر عمل کر بھی ليا جائے تو کچھ حد تک بہتری آ سکتی ہے مگر مکمل طور پر نہيں يا بقول ہمارے صدر سرکوزئی صاحب کے جنہوں نے ہمارے بھائيوں کے ليے کہا تھا ُاصل مسئلہ ان کے جينيٹکس ميں ہے` اور آپکو پتہ ہے جينياتی بيماريوں کا علاج مشکل ہوتا ہے کيوں خاور بھائی ميں نے غلط کہا کچھ، خاور صاحب بھی ميری طرح ہر وہ بات لکھ ديتے ہيں جو دوسرے اپنے اندر رکھے رہتے ہيں آپ کے اسرار والے تجربات دور فرانس کے ہيں کيا اب مجھے تشويش ہو چلی ہے اکثر ميرے مياں کچھ دير کا کہہ کر باہر جاتے ہيں اور تقريبا ڈيڑھ کھنٹہ لگا ديتے ہيں کہيں چار اسرار ہی نہ کھولنے جاتے ہوں اتنی دير ميں؟

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

اسماءمیری پیاری بہن آپ کی ساری باتیں اپنی جگہ درُست ہیں لیکِن ایک بات کہُوں بہُت سی باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اگر اَن کہی بھی رہ جائیں تو ہی اُن کا حُسن قائم رہتا ہے اُمّید ہے میری بات سمجھ بھی گئ ہوں گی اور بُرا بھی نہیں مانا ہوگا

قدیر احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

گڈ :)

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

http://shahi.urdutech.net/2008/07/10/kaisay-hain-hum-log/

اور ہاں جعفر اور اسماء یہ دیکھیں کہ ایک قِسم یہ بھی ہے مردوں کی میں ِکِسی کو اِلزام نہیں دے رہی بس ایک بات کہہ رہی ہُوں ورنہ کہنے کو بہُت کُچھ ہے

اسماء نے فرمایا ہے۔۔۔

شاہدہ جی آپ کی بات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی گرميوں کی چھٹياں ہيں(گرمی نہيں ہے ادھر پھر بھي) اسليے دل بہلانے کو الٹا سيدھا لکھتی رہتی ہوں اور عادت بھی ہے خاموش نہيں رہ سکتی کسی کو غلط بات پر ٹوکے بغير نہيں رہ سکتی پاکستان ميں ابو بہت تنگ تھے ميری اس عادت سے کہ ہر روز ميری کسی سے لڑائی ہو جاتی تھی گھورنے چھيڑنے پر ،تو ابو کہتے تھے تم بھی دوسری لڑکيوں کی طرح دھيان نہ ديا کرو اور خاموش رہا کرو ہر روز کيوں لڑتی ہو حد يہ کہ جب ابو نے سب کو پستول چلانا سکھايا تو مجھے نہيں سکھايا يہ کہہ کر کے ابھی ہر روز مجھے اسکی ڈانٹ کی خبريں سنے کو ملتی ہيں پھر بات قتل و غارت تک پہنچ جائے گی اسليے گاڑی بھی نہيں ليکر دی کہ جس پر غصہ آئے گا اس پر چڑھا دے گی مياں نے بھي نہيں ليکر دي حالانکہ انکے گھر آتے ہي سارا غصہ جھاگ ميں بدل گيا تھا اب آپ نے بات کی تو مجھے ياد آيا گزشتہ کئی سالوں سے ابو کتنی بے فکری کی زندگی گزار رہے ہيں ميں جو ادھر ہوں ،اب آئندہ احتياط کروں گی اور ميری اتنی اچھی بہن نے کوئی بات مجھے سمجھانے کو لکھی ہے تو بھلا برا کيوں مانوں گی

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

اسماء سب سے پہلے توشُکريہ بات ماننے کا دُوسری بات بہُت ہنسی آئ کہ ابُو نے نا گاڑی لے کر دی اور نا ہی پستول چلانا سِکھايا اور ايک بات بتاؤں تنگ بہُت تھے ميرے ابُو بھی ميری حق گوئ سے کہ آؤ ديکھا نا تاؤ بِھڑ جاتی تھی کبھی بھی کہيں بھی کسی سے بھی ليکِن ايک وقت آتا ہے جب بندہ يا بندی ميچيور ہو جاتے ہيں ايسے ميں کوئ ضرُوری نہيں کہ ہر موضُوع پر سُقراط بن جايا جاۓ کرنے دو اور کہنے دو جو يہ حضرات کہتے ہيں کہ ہمارا معاشرہ اور کلچر ہمارے ذِہنوں سے جلدی نِکلتا نہيں ہاتھ مِلانے والی بات پر ايک بات يادآئ ،يہاں ايک دفعہ مال ميں شا پنگ کے دوران ايک برِٹش کوليگ اکرم صاحب سے مِل کر ميری طرف مُڑے اب اُن کا ہاتھ سامنے ہاتھ مِلانے کو اور ميں نے اپنا ہاتھ کس کے پکڑا ہُوا صاحب بہادُر کو ديکھا تو وُہ بھی گومگُو کی حالت ميں عِزّت بچانے يا پتہ نہيں بنانے کو ہاتھ مِلا تو ليا ليکِن باقی کا سارا وقت بکواس کرتے گُزرا اور ہاتھ کو اچُھوتوں کی طرح ايک طرف کيا ہُوا گھر آکر ہاتھ دھو دھو کر پاگل ہوتی رہی يعنی يہ ہماری تہزيب کا وُہ حِصّہ ہے جو ہم بچپن سے ديکھتے اور برتتے آرہے ہيں مردوں کی بھی ايسی ہی مجبُوری ہوگی سو

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::عنیقہ ناز:: ابھی تین ہزار سڑسٹھ، تراکیب باقی ہیں‌میرے پاس بھیجہ فرائی کی۔۔۔ :mrgreen:
::نوائے ادب:: بجا فرمایا۔۔۔
::اسماء:: میری بھی ایک کزن تھی (ابھی بھی ہے :lol: ) چنگیز خان۔۔۔ محلے کے لڑکے اس سے ایسے ڈرتے تھے جیسے پولیس والے خودکش بمبار سے۔۔۔لیکن جیسا آپ نے لکھا کہ آپ کا غصہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے، وہ نمانی بھی شادی کے بعد بالکل بے ضرر ہوگئی ہے۔۔۔ :grin:
::آپی::‌ ایسے بندے کا نوٹس ہی نہیں لینا چاہئے۔۔۔ البتہ اگر کبھی مجھے مل گیا تو انشاءاللہ اس کا ”تینبڑ سیک“ دوں گا۔۔۔ :evil:
میرے ساتھ تو اگر کوئی ہاتھ ملائے تو یقین کریں میں‌فورا ہی ہاتھ چھوڑ دیتاہوں۔۔۔ :lol:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::قدیر احمد:: خوش آمدید۔۔۔ حال دل پر ۔۔۔ پسندیدگی کا شکریہ ۔۔۔ :smile:

قدیر احمد نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر: شکریہ۔ کیا آپ اپنی بلاگ رول میں میرے بلاگ کا پتہ دینا پسند کریں گے؟

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::قدیراحمد:: بسروچشم۔۔۔۔ :smile:

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

جعفر یہ
”تینبڑ سیک“ والی بات کِس کے لِئے کہی بلاگ پر بد تمیزی کرنے والے کے لِئے یا

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::آپی:: اسی بدتمیزی کرنے والے کے لئے کہی ہے ۔۔۔
کسی اور کے لئے کہنے کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
:cry:

شاہدہ اکرم نے فرمایا ہے۔۔۔

مزہ آیا پڑھ کر اور بہُت خُوشی بھی ہُوئ اچھا لگا بھائیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیئے

محمد سعد نے فرمایا ہے۔۔۔

گھورنے والے مسئلے کی بات پھر سے چل پڑی ہے تو کچھ ایسی باتوں کی جانب بھی توجہ دلوا دوں جن کا ذکر میں نے ہوتے نہیں دیکھا۔
نوٹ: میں آج تک باوجود کوشش کے کسی ایسے معاملے کا مشاہدہ نہیں کر پایا کہ جہاں مرد عورت کو گھور رہا ہو۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میرے آس پاس "روشن خیالوں" کی نسبت "دقیانوسی" لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ میں محض عقل (بغیر تجربہ) کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں۔

جب کہا جاتا ہے کہ خواتین اس مسئلے سے بچنے کے لیے مکمل اور پروقار لباس پہن کر باہر نکلا کریں تو کہا جاتا ہے کہ لباس جیسا بھی ہو، مرد کون ہوتا ہے گھورنے والا۔ یعنی مرد سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ مزید سخت جان بن جائے لال بیگ کی طرح۔
مردوں کو اتنا زیادہ سخت جان بنانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ چھوٹی عمر ہی سے ان کی اعلیٰ درجے کی تربیت کی جائے۔ اور چونکہ باپ رزق کمانے کی ذمہ داری کے باعث بچوں پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتا، اس لیے یہ ذمہ داری ماں کی بنتی ہے کہ وہ اولاد کی اچھی طرح تربیت کرے [خاص طور پر دینی تربیت تو لازمی ہے اس مسئلے کے حل کے لیے]۔ یعنی خواتین کے مسئلے کا حل خواتین ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری ہی پوری نہیں کرتیں تو مردوں پر الزام لگانے کی کیا تُک بنتی ہے؟

ایک اور بات یہ کہی جاتی ہے کہ مرد پھر ان خواتین کو کیوں گھورتے ہیں جنہوں نے پردہ کر رکھا ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب برائی کی ہر طرف بھرمار ہو جائے تو بہت کم لوگ اس لہر سے بچ پاتے ہیں۔ چنانچہ ہر طرف "پاکیزہ" لباسوں میں ملبوس "روشن خیال" عورتوں کی بھرمار سے جو فحاشی کی لہر پیدا ہوئی ہے، اس سے عوام کی ایک بڑی تعداد کی ذہنیت پر منفی اثر پڑا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ برائی کے طلبگار ہو گئے ہیں۔ صرف چند ایک سخت جان قسم کے لوگ ہی اس کے اثر سے بچ پائے ہیں، خصوصاً وہ جو دین سے قریب ہیں۔ تو جو لوگ اس لہر کے باعث برائی کے طلبگار بن گئے ہیں، وہ پھر بڑا موقع نہ ملنے پر چھوٹے موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہی ہیں۔

چنانچہ مختصراً اس کا حل یہ ہے کہ اول تو دین سے دوری کم کی جائے جو کہ ہم سب کی بلا تفریق مرد و عورت ذمہ داری بنتی ہے۔ دوم ایسی خواتین کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے جو معاشرے میں یہ گند پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں تاکہ انہیں ٹھیک ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔ اور حتی الامکان کوشش کی جائے کہ تمام معاشرہ دینِ اسلام پر چلنے والا بن جائے کہ اسی میں ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے بھی مسلسل اس کوشش میں مدد کی دعا مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کامیابی کا حصول ناممکن ہے۔

کام مشکل اور محنت طلب ہے لیکن محض بیٹھ کر جی جلاتے رہنے سے تو بہتر ہی ہے۔

اوئے کوئی پلگ ان تو لگاؤ کہ اپنے تبصرے کے جوابات کا مجھے بذریعہ ڈاک پتا لگ جایا کرے۔ :sad:

جعفر نے فرمایا ہے۔۔۔

::سعد:: آراء کی آر ایس ایس فیڈ حاصل کریں اور گھر بیٹھے نئے تبصروں سے لطف اندوز ہوں۔۔۔ یہ آفر (لا) محدود مدت کے لئے ہے۔۔۔

تبصرہ کیجیے