سوال گندم ۔۔۔ جواب چنا

سوال: آپ کسی کچے انڈے کو کنکریٹ کے فرش پر اسے توڑے بغیر کیسے گرا سکتے ہیں؟
جواب:‌کنکریٹ کا فرش بے حد مضبوط ہوتا ہے، اس کا ٹوٹنا مشکل ہے۔
سوال: اگر آٹھ آدمی دس گھنٹے میں ایک دیوار بناتے ہیں تو چار آدمی اسے بنانے میں کتنا وقت لگائیں گے؟
جواب: کوئی وقت نہیں لگائیں گے، وہ پہلے ہی بنی ہوئی ہے۔
سوال:‌ اگر آپ کے دائیں ہاتھ میں‌تین سیب اور چار نارنگیاں اور بائیں ہاتھ میں چار سیب اور تین نارنگیاں ہوں تو آپ کے پاس کیا ہوگا؟
جواب: بے حد بڑے ہاتھ۔
سوال: کوئی شخص آٹھ دن تک بغیر سوئے کیسے رہ سکتا ہے؟
جواب:‌ وہ رات میں سو سکتا ہے۔
سوال:‌ اگر کسی نیلے سمندر میں سرخ پتھر پھینکا جائے تو کیا ہوگا؟
جواب: پتھر یا تو صرف گیلا ہوگا، یا ڈوب جائے گا۔
سوال:‌ کس چیز کی شکل نصف سیب جیسی ہوتی ہے؟
جواب:‌ سیب کے دوسرے نصف حصے کی۔
سوال: آپ ظہرانے میں کیا چیز نہیں کھا سکتے؟
جواب: عشائیہ۔
(سب رنگ ڈائجسٹ سے انتخاب)

رس(؟) ملائی

اگرچہ آج تک ہم رس ملائی شوق سے کھاتے رہے ہیں لیکن اس کے نام سے ہم کبھی متفق نہ ہوسکے۔ہمارے خیال میں‌ تو اس کا نام ”میٹھے شوربے والی گلاب جامن“ ہونا چاہئے۔ویسے بھی ہمیں تو کبھی اس میں رس (بیکری والا) نظرنہیں آیا۔اور اگر اس رس سے مراد جوس ہے تو ملائی کا جوس کیسے نکل سکتا ہے؟ رس تو ہمیشہ ٹھوس چیز کا نکلتا ہے جیسے گنے کا رس، سیب کا رس، آم کا رس، حکومت پاکستان کے ہاتھوں عوام کا رس۔
اس مسئلے پر ہم نے بہت غوروخوض کرنے کے بعد ایک ترکیب ایجاد کی ہے جو واقعی رس ملائی کہلائے جانے کے قابل ہے۔ اس کے اجزاء زیادہ نہیں لیکن ان کو حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لہذا جو خواتین و حضرات سہل پسند اور عیش کوش ہوں، ان سے درخواست ہے کہ اس ترکیب پر طبع آزمائی نہ کرنا ہی ان کی صحت وسلامتی کے لئے بہتر ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں خالص ملائی کی ضرورت ہوگی۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ملائی آپ اس دودھ نما چیز سے کشید کرسکتے ہیں جو گوالہ فراہم کرتا ہے تو یقیناً آپ احمقوں کی جنت کے آس پاس کہیں رہائش پذیر ہیں۔ اس دودھ نما سے آپ جگر کو جلانے والی چائے اور خراب معدے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ خالص ملائی حاصل کرنے کے لئے آپ کو کچھ اور آپشنز پر غور کرنا ہوگا۔ مثلاً کسی گاؤں وغیرہ کا سفر۔ لیکن جب سے ہم نے جعلی کرنسی چھاپنے والے کا ایک عبرت ناک واقعہ سنا ہے جو غلطی سے پندرہ روپے کا نوٹ چھاپ بیٹھا تھا اور گاؤں‌کے لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھانے کے لئے اس نے یہ نوٹ گاؤں میں‌چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گھر کی بیٹھک میں کھلی ایک کریانے کی دکان سے جہاں ایک بڑی بی تشریف فرما تھیں وہاں اس مرد شریف نے پندرہ روپے کے نوٹ کا کھلا کروایا تو بڑی بی نے اسے ساڑھے سات کے دو نوٹ لوٹادئیےتھے، تب سے ہم اس آپشن سے بھی کچھ ناامید سے ہوگئے ہیں۔
دیکھا، ہم نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ اس ڈش کے اجزاء ملنے بہت مشکل ہیں!
ایک آخری آپشن بچا ہے کہ آپ ایک بھینس خریدیں، اور اس کے دودھ سے خالص ملائی حاصل کرلیں۔ اب دوسرے جز کی باری ہے۔ کسی اچھی سی بیکری سے تازہ رس لائیں۔ برسات کا موسم ہے لہذا اچھی طرح چیک کرلیں کہ رس ”سیلابے“ نہ ہوں۔ لیجئے، اب ترکیب اپنے اختتامی مرحلے تک پہنچا چاہتی ہے۔ ایک رس لے کر اس پر ملائی کا اچھی طرح لیپ کریں اور اس کے اوپر دوسرا رس رکھ دیں۔
مزیدار رس ملائی تیار ہے!

دیر

”آپ کی والدہ حیات ہیں؟“ لا ابالی نظر آنے والے اس شخص نے ڈرائیور سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟“ ڈرائیور کے لہجے میں حیرت آمیز برہمی تھی۔
ٹھہریئے!
میرے خیال میں‌ ، ابتداء سے یہ قصہ شروع کرتے ہیں۔
وہ شخص شہر کے مرکزی علاقے سے ویگن میں‌ سوار ہوا تھا۔ اس کو آخری سٹاپ تک جانا تھا۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے، اسے فرنٹ سیٹ مل گئی۔ جینز ، ٹی شرٹ میں ملبوس وہ شخص اپنے ارد گرد سے لا تعلق نظر آتا تھا۔ حرکات و سکنات اور بدن بولی سے وہ اپنے اندر کی دنیا میں گم رہنے والا لگتا تھا جسے دوڑتی بھاگتی، چیختی چلاتی، پرشور، انسانوں سے لبالب بھری دنیا سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔
ویگن کے چلتے ہی ڈرائیور کا سگریٹ بھی سلگ اٹھا۔ نصیبو لعل کی آواز بھی مقناطیسی فیتے میں‌ سے انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔ اوسطا ہر تیس سیکنڈ کے بعد پریشر ہارن بھی کانوں میں‌ رس گھولتا رہا۔ ڈرائیور نے بھی شاید سوچ رکھا تھا کہ اپنی مہارت کے سارے گر وہ آج ہی آزمائے گا۔ بسوں، ٹرکوں، رکشوں، گدھا گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا، کسی کو گالی دیتا اور کسی سے گالی سنتا ہوا وہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہا۔ کنڈیکٹر کی ”روک کے استاد جی“ کی آواز پر وہ سڑک کے عین درمیان بریک لگاکر مسافر اتارتا، چڑھاتا رہا تھا۔
اس سارے ہنگامے کے باوصف، وہ شخص بالکل پرسکون بیٹھا تھا۔ جیسے وہ کوئی تماشائی ہو اور تھیٹر میں‌بیٹھا، اداکاروں کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہورہا ہو۔ بالآخر منزل آگئی۔ ویگن مسافروں سے خالی ہوگئی۔ لیکن وہ شخص بدستور گاڑی میں بیٹھا رہا۔ ڈرائیور نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس پر اس شخص نے مندرجہ بالا سوال ڈرائیور سے کیا!
ڈرائیور کی برہمی آمیز ”کیوں“ کے جواب میں وہ یوں گویا ہوا۔
”بھائی صاحب، جب آپ صبح کام پر جانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کی والدہ گھر میں سارا دن آپ کی خیریت اور سلامتی کی دعائیں کرتی ہوں گی کہ میرا بیٹا شام کو خیر خیریت سے گھر کو لوٹ کر آئے۔ اسے اللہ پاک اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ سوچیں، اگر خدانخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے، آپ زخمی ہوجاتے ہیں یا اس سے بھی بدتر صورتحال سے دوچار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں تو آپ کی والدہ کا کیا حال ہوگا؟ اب آپ اس عورت کے دکھ کا اندازہ کریں جو اپنے بیٹے، بھائی، شوہر کے انتظار میں بیٹھی ہے اور اسے پتہ چلے کہ اس کا انتظار ساری زندگی جاری رہے گا اور اس کا پیارا نہیں‌ آئے گا۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔ ڈرائیور کے چہرے کے بدلتے رنگوں سےاندازہ ہورہا تھا کہ بات اس کی سمجھ میں آرہی ہے۔
”تو میرے بھائی!“ وہ پھر گویا ہوا، ”اگر آپ کو کسی مسافر کا یا اس کے گھروالوں کا خیال نہیں، تو کم از کم اپنی والدہ کا ہی احساس کریں۔ جو ہر شام آپ کی راہ تکتی ہیں۔ سوچیں کہ صرف پانچ، دس منٹ جلدی منزل پر پہنچنے کے لئے کہیں آپ کو ہمیشہ کے لئے دیر نہ ہوجائے“۔
یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور ویگن سے اتر گیا!

ٹوٹے

ویگن میں مسافر نکو نک ٹھنسے ہوئے ہیں۔ کنڈیکٹر نے ایک اور مسافر کی جگہ بنانے کے لئے آواز لگائی۔
”ذرا نال نال ہوجاؤ جی“۔ (ذرا سمٹ جائیں)۔
”میں ربڑ دا بنیا واں، جیہڑا ہور نال نوں ہوجاواں“۔ (میں ربڑ کا بنا ہوا ہوں جو اور سمٹ جاؤں)۔
ایک بزرگ نے کنڈیکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا۔
==============================================
مغرب کی اذان میں دس منٹ باقی تھے۔ آج وہ ذرا جلدی مسجد میں آگیا تھا۔ مسجد تقریبا خالی تھی۔ دو تین بندے تھے شاید۔ وہ بیٹھا ہی تھا کہ اسے کسی نے مخاطب کیا اور بزبان عربی اسے صلواتیں سنانے لگا کہ مسجد میں آکر سب کو سلام کرتے ہیں، ایسے ہی منہ اٹھا کر نہیں‌ آجاتے۔ مخاطب کرنے والے کے لہجے میں ایک عجیب طرح کی حقارت اور ناپسندیدگی تھی۔ اس نے مسکرا کر سر کو اثبات میں ہلادیا۔
چند ثانیوں بعد اسے پھر وہی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہی صاحب سیل فون پر گفتگو میں مصروف تھے!!!
==============================================
میرا دوست ”خ“ اتنا مایوس ہے کہ مایوسی اسے دیکھ کر بذات خود مایوس ہوجاتی ہے!
==============================================
چست ٹی شرٹس اور جینز میں ملبوس خواتین کو دیکھ کر اتنی ٹھنڈی آہیں بھرنی پڑتی ہیں کہ مینجر آ کر درخواست کرنے لگتا ہے کہ یا تو ٹھنڈی آہیں بند کرو یا پھر میں‌ اے سی بند کرواتاہوں۔ جولائی کے مہینے میں نمونیا ہوجائے گا تو دنیا کیا کہے گی۔۔۔
==============================================
ڈفر اور دارا؟؟ اگر ڈفر ہی ڈفر ہے تو دارا کون ہے؟ اچھا، چلو فرض کرو، ڈفرستان کا باسی ہونے کی وجہ سے دارا بھی ڈفر ہے تو پھر ڈفر بھی ڈفر ہے اور دارا بھی ڈفر ہے تو جیسے ڈفر، دارا ہے تو ڈفر کون ہے؟؟
بس بس بس۔۔۔ خدا کے لئے بس کرو۔۔۔ میرا بھیجہ فرائی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔
==============================================
اوئے ۔۔ ادھر آ۔۔۔
جی جناب۔۔
اپنی مرغیوں کی فیڈ چیک کرا اوئے ۔۔۔
لیکن جناب میں تو مرغیوں کو خوراک ڈالتا ہی نہیں۔۔۔
اوئے یہ کیا بکواس کررہاہے؟؟ خوراک نہیں ڈالتا تو اتنی بڑی کیسی ہوگئی ہیں؟
سر جی ۔۔۔ میں‌ ان کو دس روپے روز دیتا ہوں۔۔۔ یہ اپنی مرضی سے جو کھانا ہو کھالیتی ہیں!!

کریلا بینگن شیک

کچھ نامعلوم اور پراسرار وجوہات کی بناء پر آج کل میرا ”اَینٹ“ ترکیبوں پر خوب ”بخا“ ہوا ہے۔ گرمی زوروں پر ہے اور برسات کی آمد ہے لہذا پھوڑے، پھنسیاں اور ”پِت“ (اردو میں جس کو گرمی دانے کہتے ہیں، لیکن یہ لفظ پِت کی ذلالت کو ظاہر نہیں کرسکتا، ویسے بھی گرمی دانےپڑھ کر خیال آتا ہے کہ کیا سردی دانے بھی ہوتے ہیں!) بھی ٹکا کر نکلیں گے۔
تو ہمارا آج کا مشروب نہ صرف ایک ”مفرح“ اور ”خوش ذائقہ“ بلکہ خون کو بھی ”آخری حد تک صاف“ کرنے والا نسخہ ہے۔ اجزاء نوٹ کرلیں۔
1- کریلے (دو عدد)
2- بینگن (پنجابی میں جس کو بتاؤں اور سیالکوٹی میں پٹھے کہتے ہیں)
3- نیم کے پتے (مناسب مقدار میں)
4- گوند کتیرہ (حسب ذائقہ)
5- ہلدی (آدھا پینے کا چمچ)
6- دیسی شکر (دو دانے)
7- پانی (کافی سارا)
نیم کے پتے پانی میں ڈال کر پانی ابال لیں۔ پانی ابل جائے تو اس میں سے پتے چھان کر علیحدہ کرلیں۔ اگر محلے میں‌کوئی فوتیدگی ہوئی ہے تو پانی وہاں پہنچادیں، میت کو نہلانے کے کام آجائے گا اور آپ کی سماجی خدمت کی بھی دھوم مچ جائے گی جو مستقبل میں کونسلر کا الیکشن لڑنے میں کام آ سکتی ہے۔ نیم کے پتے، کریلے اور بینگن بلینڈر میں بلینڈ کرلیں اور اس میں گرم پانی ڈال کر اچھی طرح ملا لیں۔ پھر اس میں ہلدی، شکر اور گوند کتیرہ ڈالیں اور اچھی طرح ”شیک“ کرلیں۔ برف اگر میسر بھی ہو تو مت ڈالیں ورنہ ”ذائقہ“ خراب ہوجائے گا۔
لیجئے ۔۔۔ ”مزیدار“ کریلا بینگن شیک تیار ہے۔
خاص طور پر ان مہمانوں کو پیش کریں
جو اکثر بلا اطلاع آ دھمکتے ہیں اور پھر جانے کا نام نہیں لیتے۔
انشاءاللہ اسے پینے کے بعد، بلانے پر بھی نہیں آئیں گے!

گانے شانے۔۔۔

میرے کچھ پسندیدہ گانوں، غزلوں‌ اور قوالیوں‌ ‌کا انتخاب ۔۔۔
ایک ہی نشست میں سننے سے گریز کریں۔۔۔
گرم سرد ہونے کا اندیشہ ہے۔۔۔

یہ جو چلمن ہے ۔۔۔ دشمن ہے ہماری - محمد رفیع
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارہ بنا ڈالا - غلام علی
کچھ اس طرح - عاطف اسلم
تیرے بن - عاطف اسلم
شعلہ تھا جل بجھا ہوں - مہدی حسن
تملّی معاک - عمرو دیاب
Don Omer - Dale Don Dale
نیناں ٹھگ لیں گے - راحت فتح علیخان
Enrique Iglesius - Bailamos
جب دل ہی ٹوٹ گیا - کے ایل سہگل
چنگا بنایا ای سانوں کھڈونا - نورجہاں
کہو اک دن - احمد جہانزیب
اے اجنبی - ادت نرائن (دل سے)
Sade - And I miss you
پھونک دے - کویتا (نو سموکنگ)
Lionel Richie - Hello
چپکے سے - سادھنا سرگم (ساتھیا)
اک پھل موتیے دا مار کے - منصور ملنگی
تنہائی - سونو نگم (دل چاہتا ہے)
کبھی کبھی آدیتی - راشد علی (جانے تو یا جانے نہ)
Enrique Iglesius & Whitney Housten - Kiss forever
آنکھوں میں رہو - سومیا (کمپنی)
توسے نیناں لاگے - شلپا راؤ (انور)
جائیں تو جائیں کہاں - طلعت محمود (ٹیکسی ڈرائیور)
نیندر نئیں آؤندی - سجاد علی
The Sopranos soundtrack - Leonard Cohen - woke up this morning
میں روواں تینوں یاد کرکے - نصرت فتح علی خان
کتھے عشق دا روگ نہ لا بیٹھیں - نصرت فتح علی خان
تم اک گورکھ دھندہ ہو - نصرت فتح علی خان
میرے دل دے شیشے وچ سجناں - نور جہاں
مینڈا عشق وی توں - پٹھانے خان
سن چرخے دی مٹھی مٹھی گھوک - نصرت فتح علی خان
اللہ ہو اللہ - سائیں ظہور (خدا کے لئے)
آجا صنم - مناڈے / لتا منگیشکر (چوری چوری)
یارا سیلی سیلی - لتا منگیشکر (لیکن)
ساگر جیسی آنکھوں والی - کشور کمار (ساگر)
تیری یاد - جَل
دیوانہ - علی عظمت
مائے نی میں کنوں آکھاں - حامد علی بیلا
پانی پانی رے - لتا منگیشکر (ماچس)
لائی وی نہ گئی - سکھویندر سنگھ (چلتے چلتے)
سوگیا یہ جہاں - نتن مکیش (تیزاب)
پپو کانٹ ڈانس - بینی دیال (جانے تو یا جانے نہ)
سپنوں سے بھرے نیناں - شنکر مہا دیون (لک بائی چانس)
عاشقاں‌ توں سوہنا مکھڑا لکان لئی - عنایت حسین بھٹی
انشاء جی اٹھو - امانت علی خان
یہ جو محبت ہے - کشور کمار
کلّی کلّی جان دکھ لکھ تے کروڑ وے - نور جہاں
بھیگی بھیگی جادو بھری - سجاتا تریویدی (تکشک)
یہ فہرست، درجہ بندی کے لحاظ سے نہیں ۔۔۔ یادداشت کے حساب سے ہے۔۔۔۔
ہومیوپیتھک قسم کی تحریر ہے! اس کااگر کوئی نقصان نہیں تو فائدہ بھی نہیں۔۔۔
اس لئے اس میں مقصد تلاش کرنا بھوسے میں سے سوئی تلاشنا ہے۔۔۔

یاروں کی پسند
تیری صورت - عزیز میاں

اس فہرست میں‌سے اپنی پسند کے پانچ گانے منتخب کیجئے۔۔۔
مصنف کی درجہ بندی کے مطابق ہونے پر آپ کی لاٹری بھی لگ سکتی ہے ۔۔۔


جناب بدتمیز کی فرمائش پر لنکس بھی پیش خدمت ہیں۔۔۔ عذاب جاریہ کے لئے

بمباسٹک زردہ

نہیں ۔۔ نہیں۔۔۔ کوئی بم شم کاچکر نہیں، زردے کی ترکیب ہے۔ ایسے فلمی اشتہاروں سے متاثر ہوکر بمباسٹک لکھ دیا ہے، جو اکثر مصروف شاہراہوں پر ہورڈنگز کی شکل میں‌ لگے رہتے ہیں اور ہر آنے جانے والے کی برداشت اور ہمت کا امتحان لیتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ”بمباسٹک حسینہ عرف کنگفو کی واپسی“ ہمراہ گرما گرم سائیڈ پروگرام۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اوہو یہ میں کدھر نکل گیا۔۔
چلیں چھوڑیں اسے اور شروع کریں آج کی ترکیب۔۔۔۔۔
ایک بڑا پتیلہ پانی سے بھر کر تیز آنچ پر رکھ دیں۔ ایک آدھ گھنٹہ پڑا رہنے دیں۔ پانی خشک ہونے پر دوبارہ بھردیں اور یہ عمل تین دفعہ دھرائیں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو آپ کا پتیلہ اچھی طرح صاف ہوجائے گا، دوسرا، اس مہینے گیس کا بل دیتے ہوئے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں‌ہوگی کہ گیس کم استعمال کرنے پر بھی بل تو پورا ہی آتا ہے لہذا استعمال کرکے بل دینے پر قلبی اطمینان اور روحانی سکون حاصل ہوگا۔
اب ایسا کریں کہ زردے کی ترکیب تو مجھے معلوم نہیں تو اگر آپ کو علم ہے تو اسی طریقے سے پکا لیں اور اگر آپ بھی میری ہی طرح ”یملے“ ہیں تو پھر چاول، چینی، الائچیاں، گھی، پانی ، زرد رنگ سب پتیلے میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔ جب پانی خشک ہوجائے تو امید ہے کہ زردہ پک گیا ہوگا۔
اب یہاں سے سادہ زردہ، بمباسٹک زردہ بنے گا!!
دم دینے سے پہلے اس میں بیر، فالسہ، گنڈیریاں، ملوک، شہتوت، آلو بخارا (تازہ) ملادیں اور دم دے دیں (زردے کو!)۔
ہر تیس سیکنڈ کے بعد ڈھکنا کھول کر دیکھیں کہ دم آگیا ہے یا نہیں۔ جب زردہ تیار ہوجائے تو اس پر ٹماٹو کیچپ کی دو بڑی بوتلیں انڈیلیں اور چاٹ مصالحہ بھی حسب ذائقہ چھڑک لیں۔
لیجئے۔۔۔ مزیدار بمباسٹک زردہ تیار ہے!
شادیوں پر پکانے سے گریز کریں۔
شادی کے بعد البتہ اپنی ساس اور جملہ سسرالیوں کو کھلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

عمر دا اصل حصہ

ملدا کیہہ اے ایس دنیا وچ
رُت ایک نویں جوانی دی
ہوکے بھرن دی پیار کرن دی
اکھّاں دی نادانی دی
باقی عمر تے بس فیر ایویں
نسدیاں بھجدیاں لنگھدی اے
دور دراز دیاں سوچاں اندر
روندیاں ہسدیاں لنگھدی اے
بھُلدے جاندے خواباں دے
عکساں نوں لبھدیاں لنگھدی اے
منیر نیازی

ایک اور شعیب اختر ۔۔۔



ایک شعیب اختر سے جان چھوٹی ہے تو دوسرا اس کی جگہ سنبھالنے آگیا ہے۔۔۔
اور اس کی پسند کی بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔۔۔
چھتر لاء لئے بندہ۔۔۔۔

تو ہے کوئی ۔۔۔۔

میرا بھی بہت جی چاہتا ہے کہ معاشرتی، معاشی، سیاسی، اقتصادی، سائنسی، ادبی وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات پر ”سنجیدہ“ اور ”بامقصد“ لکھوں، جس میں بھاری بھرکم الفاظ اور اصطلاحات کا تڑکا بھی ہو۔ لوگ مجھے اعلی پائے (اور سری) کا دانشور سمجھیں۔ میرے نام کے ساتھ بھی علامہ، پروفیسر جیسا کوئی لفظ جڑا ہو۔ میری تحریر کی کسی کو سمجھ آئے نہ آئے، سب واہ واہ ضرور کریں۔ ایسے سیمینارز اور کانفرنسز میں‌ مدعو کیا جاؤں، جن کے موضوعات اکثر ، بگلے اور انسانی ذہانت کا مستقبل یا تیل کی قیمیتیں اور اردو غزل کا زوال، ہوتے ہیں اور وہاں تین تین گھنٹے کے مقالے پڑھوں تاکہ سامعین میں ‌موجود، بے خوابی کے مریض خواتین و حضرات کو افاقہ ہو!!
میرا یہ بھی دل کرتا ہے کہ نجی چینلز پر ٹاک شوز کے نام پر جو سرکس ہوتا ہے مجھے بھی اس میں مدعو کیا جائے تاکہ میں‌ بھی اپنی دانش کے کرتب دکھا سکوں۔ میں ایک ایسا آل راؤنڈر قسم کا دانشور بن جاؤں‌ جو سیاسی ٹاک شوز کی بھی ضرورت ہو اور ”بالم آن لائن“ جیسے پروگرامز کی بھی۔ جو مرغیوں کی بیماریوں‌ پر بھی سیر حاصل گفتگو کرسکے اور برصغیر میں اردو کے زوال پر بھی۔ مریخ پر پانی کی موجودگی بھی اس کا موضوع ہو اور جسے اس بات کا بھی علم ہو کہ کترینہ کیف اتنی ظالمانہ حد تک خوبصورت کیوں ہے!!!
لیکن جب بھی میں لکھنے کے لئے اپنی انگلیاں کی بورڈ پر رکھتا ہوں، نجانے کیا ہوتا ہے کہ یہی کچھ لکھ پاتا ہوں جو آپ پڑھ رہے ہیں!!!
تو ہے کوئی پروفیسر، کوئی علامہ، کوئی بحر العلوم، کوئی دانشور جو میری مدد کرے۔ جو مجھے بتائے کہ میں‌ کیسے ان جیسا بن جاؤں‌کہ ہر جانب میری بلے بلے ہوجائے۔ میری تحاریر بھی ایٹی وان کا کام کرنے لگیں۔ مائیں بچوں کو سلانے کے لئے لوریوں‌ کی بجائے میری پوسٹیں سنائیں۔ عدالتیں قید بامشقت کی سزا کے زمرے میں‌، میرے بلاگ کا تین گھنٹے روزانہ مطالعہ، کی سزائیں سنانے لگیں۔ تھانوں میں پانجے لگانے کی بجائے سنتری بادشاہ میری پوسٹیں سنا سنا کر ملزمان سے تفتیش کریں۔۔۔
تو ہے کوئی ۔۔۔۔

چوہدری نسرین باجوہ اور ہمنوا

کچھ عرصہ پہلے اپنی ان گنت بیستیوں میں سے ایک بیستی بیان کی تھی یہاں!
سب احباب نے اسے پڑھ کر پاکستانیوں کی طبیعت کے عین مطابق خوشی اور مسرت کا بے پایاں اظہار بھی کیا تھا۔ اسی جگہ ، میں نے لکھا تھا کہ اصل پروگرام تو بعد میں چلا تھا۔ تو اب کچھ اس ”اصل پروگرام“ کا ذکر ہو جائے۔
اس سارے رنڈی رونے میں جن حضرات نے اصل ۔۔۔۔ کا پارٹ ادا کیا تھا، یہ کچھ ان کا ذکر ہے اور کچھ اپنی مزید بیستی کا!
چار کا ٹولہ تھا جی وہ۔
ایک پنجاب کا ”باغیرت“ گھبرو جوان، گاؤں سے تعلق تھا اس کا۔۔۔
ایک نہایت مسکین صورت میسنا اور
دو برگر ممی ڈیڈی!
سننے میں یہ گروپ جتنا عجیب وغریب لگتا ہے، دیکھنے میں‌ اس سے بھی زیادہ واہیات تھا۔ انہی کی ہلا شیری پرسب اس ”لیکچرر ہٹاؤ“ ایڈونچر کےلئے تیار ہوئے تھے۔ اور جب کیمسٹری کی کلاس میں ہمارے استاد محترم نے مجھے کھڑا کرکے پوچھا کہ ”بتاؤ اور کون کون تھا تمہارے ساتھ؟“ تو یہ سب ایسے میرے منہ کی طرف دیکھنے لگے تھے جیسے میں‌ مسجد سے جوتے چوری کرتا پکڑا گیا ہوں!
میرے دو یار جو صرف اس درخواست پر دستخط کرنے کے گناہگار تھے، وہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ سر! ہم بھی ساتھ تھے اسکے۔ لہذا سزا بھی ہم تینوں کو ملنی چاہئے۔ تو صاحب اگلے دوسال بارش ہو یا آندھی، گرمی ہو یا سردی ، کرفیو ہو یا ہڑتال ۔۔۔ ہم تینوں کیمسٹری کی کلاس سے کبھی غیر حاضر نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ؟ ایک غیر حاضری پر پندرہ دن کی غیر حاضری کی سزا!
داخلہ بھیجنے کے لئے حاضریاں پوری کرنے کی بھی شرط ہوتی تھی اس وقت (شاید اب بھی ہو!) پیریڈ بھی آخری ہوتا تھا۔ ساتواں۔ ایک دفعہ تو ایک سو تین بخار کی حالت میں بھی کالج گیا تھا۔ لیکن آپ داد دیجئے ہمارے استاد کو! ان کے دل میں‌ کبھی رحم نہیں‌ آیا۔ شمر کے سگے کزن تھے شاید۔۔۔
ہر سوال ہم سے ہی پوچھا جاتا تھا۔ ہر طنز کا نشانہ بھی ہماری ذات شریف ہی بنتی تھی۔ وہ تو میں‌فطرتاچکنا گھڑا واقع ہوا ہوں، اس لئے اس پیہم بیستی کو روح افزا سمجھ کر غٹاغٹ پی جاتا تھا۔
وہ سوال، جن کے جواب خود ان کو بھی نہیں آتے تھے، وہ بھی ہم سے ہی پوچھے جاتے تھے۔ پھر درست جواب نہ دینے پر ارشاد ہوتا تھا، ایک درخواست اور لکھ لو! بہت شوق ہے نا درخواستیں لکھنے کا۔ ہر پریکٹیکل میں بھی تان ہمارے اوپر ہی آکر ٹوٹتی تھی۔ بلاؤ اس کو! وہ جو بڑا لیڈر بنا پھرتا ہے۔
کم میں نے بھی ان چاروں کے ساتھ نہیں کی۔ ان کے نام بدل دئیے تھے۔ نئے نام سنئیے اور سر دھنئے!
چوہدری نسرین باجوہ
حنیفاں بشیر
رابعہ شفیق
پنکی حمید
ہماری کلاس کے جرگے کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ان کی حرکت مردانگی کی ہر تعریف کے خلاف ہے لہذا آج سے ان کو زنانہ ناموں سے لکھا اور پکارا جائے ۔ تو دوستو! بڑے گھمسان کے ”گھڑمس“ برپا ہوئے، چار کے ٹولے نے مجھے یرکانے کی بڑی کوششیں کیں لیکن یہ نام نہ بدلنے تھے نہ بدلے، آخر میں‌ تو وہ بے چارے ان ناموں کے اتنے عادی ہوگئے تھے کہ اگر کوئی پکارتا تھا کہ ”اوئے چوہدری نسرین“ تو وہ ایسے چونک کر دیکھتا تھا کہ جیسے واقعی اس کا نام نسرین ہی ہو!
حنیفاں ایک نہایت میسنا بچہ تھا۔ شکل سے چندہ مانگنے والا لگتاتھا۔ اور کرتوتوں سے اس چندے کو ہڑپ کرنے والا! یہی ”بطل جلیل“ استاد محترم سے خفیہ ٹیوشن بھی پڑھا کرتا تھا اور اس کا انکشاف ایف ایس سی کرنے کے بعد ہوا۔ اسی سے آپ اس کے میسنے ہونے کا اندازہ لگاسکتے ہیں!! ہم بھی حیران ہوا کرتے تھے کہ آخر ہر بات لیکچرر صاحب کے پاس پہنچ کیسے جاتی ہے!!!
رابعہ شفیق اور پنکی حمید پیپلز کالونی کے برگر تھے۔ نازک اندام اور لچکدار۔ ہائے اللہ اور اوئی اللہ ٹائپ۔ اکڑتے تھے چوہدری نسرین کے بل پر تو جب نسرین کے کس بل نکلے تو وہ بھی نہایت نیک اطوار بیبیاں بن گئے تھے۔
آج جب یہ سارا ماجرا ذہن میں‌ آتا ہے تو لگتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھا تھا۔
میرے یہ سب دوست جہاں بھی ہوں۔ خوش رہیں اور مجھ سے دور ہی رہیں کہ مجھے ان پر ابھی تک بڑی ”تپ“ ہے!!!
وما علینا الا البلاغ!!!

میں نے اک بار کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

31 جنوری 1999
متوسط طبقے کے گھر کا ایک کمرہ۔ کونے میں ٹی وی۔ بیڈ پر ایک نوجوان اپنے سامنے اخبار پھیلائے، چائے کاکپ ہاتھ میں لئے ، بار بار ٹی وی اور دیوار پر لگے وال کلاک کی طرف دیکھتا ہوا۔ چہرے سے بے تابی کااظہار۔ آخرکار اس نے اخبار سمیٹ کر سائڈ ٹیبل پر رکھا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلے ٹیسٹ کا آخری روز۔ انڈیا کی آٹھ وکٹیں باقی۔ میچ شروع ہوا۔ جیسے جیسے میچ آگے بڑھتا رہا نوجوان کی بےتابی اور بے چینی بھی بڑھتی رہی۔ انڈیا کی وکٹ گرنے پر وہ اٹھ کر ناچنا شروع کردیتا اور باونڈری لگنے پر وہ باولرز کو ایسے مشورے دینے لگتا جیسے وہ اس کی آواز سن رہے ہوں! چائے کے وقفے تک ہندوستان کی پوزیشن بہت مضبوط۔ نوجوان کے چہرے پر مایوس چھائی ہوئی۔ صبح‌ سے اس نے چائے کے علاوہ کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔ اس کی ماں بار بار اسے آواز دے کر کھانے کے لئے پوچھتی لیکن وہ انکار کردیتا۔ انڈیا کو جیتنے کے لئے سولہ رنز درکار اور اس کی چار وکٹیں باقی۔ اچانک میچ کا پانسہ پلٹا اور جیتا ہوا میچ انڈیا آخری لمحات میں ہار گیا۔ نوجوان جو صبح سے بھوکا پیاسا ٹی وی کے سامنے جما ہوا تھا، اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ پایا۔ شاید اس کا نروس بریک ڈاون ہوگیا تھا۔ وہ چلا چلا کر کہتا رہا ، پاکستان جیت گیا، پاکستان جیت گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے لیکن اس کو کوئی احساس نہیں تھا۔ اس کی ماں‌ اور بہنیں دوڑ کر آئیں ۔اس کی ماں اس کو گلے سے لگا کر تسلی دینے لگی۔
یہ نوجوان میں‌ تھا!!
12جون 2009
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان 20/20 ورلڈ کپ کا میچ جاری ہے۔ شاہد آفریدی کے آؤٹ ہوتے ہی میرے فون کی گھنٹی بجی۔ نمبر دیکھا تو پاکستان سے فون تھا۔ امی بات کررہی تھیں۔ پانچ چھ منٹ بات کرتی رہیں۔ میں‌ سمجھ گیا تھا کہ انہوں نے کس لئے فون کیا ہے ۔ میں نے ہنس کر ان سے کہا ”آپ فکر نہ کیا کریں، میں اب بڑا ہوگیاہوں۔ اب نہیں روتا۔“ جوابا کہنے لگیں، ”نئیں ۔۔۔نئیں۔۔۔ میں تے ویسے ای فون کیتا سی“۔
مجھے پاکستان چھوڑے ہوئے سات سال سے زیادہ ہوگئے۔ لڑکپن کے شوق اور جذبے کچھ مدہم ہوگئے اور کچھ معدوم۔ کرکٹ بھی ان میں ہی شامل ہے ۔ لیکن میری ماں جب بھی کبھی پاکستان کا میچ ہو تو فون کرکے باتوں باتوں میں میری حالت کا اندازہ ضرور کرتی ہیں!!

ایک مدت سے مری ماں‌ نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے